کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی
کیا زمانے تھے جب
سرشام سونے کی تیاریں شروع ہو جاتیں تھیں اور علی الصبح بھر پور نیند کے
ساتھ بیدار ہوا جاتا تھا۔پھر وقت نے کروٹ بدلی۔۔انسانوں کی جگہ مشینیں حکومت کرنے
لگیں۔رشتے ناطے سب وقت کی ضرورت بن گئے۔ احساسات اور جذبات سے بھر پور انسان میں منتقل ہوگیا۔ ۔۔۔۔وہ تھوڑی
پہ ہاتھ جمائے بڑی دلچسپی سے مجھے سن رہی تھی۔آج میری 13 سالہ پوتی نور علی اصبح اٹھ بیٹھی۔جب مجھے
لان میں پودوں سے باتیں کرتے دیکھا تو حیرت اور استعجاب سے پاس آ بیٹھی اور پوچھنے
لگی دادا آپ کو بھی آج میری طرح نیند نہیں آئی؟؟اسے جب بتایاکہ یہ نیند کا نہیں بیداری کا وقت ہے۔تو
وہ سن کر حیران ہوئی اور ہنسنے لگی کی دادا
!دادی ٹھیک کہتی ہیں کہ آپ کی نظر کے ساتھ ساتھ دماغ بھی ویک ہو گیا ہے۔نور
مجھے سوچوں کے سپرد کر کے جا چکی ہے۔اور میں اس سوچ میں گم کہ اس نسل کو کیسے
سمجھایاجائے کہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی۔۔۔اور ان کے ہاتھ میں آیا ہی کیا
ہے موبائل اور کتابوں کا رٹا،تعلیم کے نام
پر کاغذکی ڈگریاں،تحقیق اور ریسرچ
کے نام پر کاپی پیسٹ میٹریل۔۔۔استاد کے نام پر علم بیچنے والی مخلوق۔کالجز اور
یونیوسٹیوں کے نام پر لبرل ازم کی سیاہی جو ذہنوں اور دلوں کو بے دینی کے سیلاب
میں دھکیل رہی ہے۔اچانک فضا میں کوئل کی آواز گونجی جس نے خاموش فضا میں زندگی کی نوید سنائی۔۔۔میں جو بغیر رکے سوچوں کے
سفر پہ نکل چکا تھا۔رکا اور فضا میں نظر دوڑائی سامنے درخت پر پرندے بیدار ہو کر
اللہ کی حمدوثناء میں مشغول ہو چکے تھے۔پھر ایک نظر انیکسی کو دیکھا جہاں کے ذی
نفس جو اشرف المخلوقات ہیں۔غفلت کی نیند سو رہے تھے۔
اٹھ کے اپنی رائٹنگ ٹیبل پر آیا اور سامنے پڑے کاغذ پر
لکھا "صبح کی نیند کیوں ضروری ہے؟آج
ہفتہ تھا اور مجھے ہر ہفتے کی شام ایک معروف اخبار کے لیے" پیغام زندگی "کے
عنوان سے کالم لکھنا ہوتا ہے۔سو لکھنے کے لیے ایک بھر پور ٹاپک مل چکا تھا۔
قاسم علی شاہ لکھتے ہیں کہ نیند جسم کو ٹیون اپ کرتی ہے۔جس
طرح گاڑی کو ٹیوننگ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسانی جسم کوبھی۔نیند وہ واحد حالت
ہے جب ہمارا دماغ سکون کا سانس لیتا ہے۔اگر دماغ کو سکون میسر نہ آئے تو ہمارا
جسمانی نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ڈاکٹر میکسن جو کہ امریکہ کہ مشہور ماہر عصبیات
ہیں ۔وہ ایک سال قبل تک نیند کو ایک بے کار چیز سمجھتے تھے۔اور نیند کومحض وقت کا
ضیاع خیال کرتے تھے۔ایک دن اس نے سوچا کہ آخر ہمارے دماغ کو نیند کی ضرورت کیوں
پڑتی ہے؟
ڈاکٹر میکسن کی تحقیق و تجربات سے ایک حیرت انگیز نتیجہ سامنے
آیا۔انکشاف ہوا کہ جب ذی حس نیند میں ڈوب جائیں، تو دماغ میں پائے جانے والے
مخصوص گلیال (Glial) نامی خلیے ایک بڑے سیوریج پائپ
یا کارخانے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
امریکی ڈاکٹر نے پھران گلیال خلیوں پر بھرپور
تحقیق کی۔ اسے معلوم ہوا کہ جب ہم جاگ رہے ہوں، تو یہ خلیے مختلف کام انجام دینے
میں دماغ کی بطور سیکرٹری معاونت کرتے ہیں۔ وہ دیگر دماغی خلیوں کی طرح الیکٹرک
سگنل اِدھر سے اُدھر بجھوانے میں حصہ نہیں لیتے، مگر خوشبو یا کسی جذبے کی شناخت
میں اپنا کردار ضرور ادا کرتے ہیں۔چونکہ گلیال خلیے الیکٹرک سگنل پکڑنے یا بھجوانے
میں کوئی حصّہ نہیں لیتے، اسی لیے ماہرین عصبیات نے انہیں غیر اہم سمجھ کر
نظرانداز کیے رکھا۔
لیکن ڈاکٹر میکسن کی تحقیق گلیال کی خصوصیت سامنے لے آئی۔ تجربات سے اس نے جانا
کہ جیسے ہی حیوان یا انسان خراٹے لینے لگیں، یہ خلیے بیدار ہوکے اپنا کام کرنے
لگتے ہیں۔تحقیق سے درحقیقت جاگتے اور سوتے دماغ میں زمین آسمان جیسا فرق سامنے
آگیا۔
کیا
دیر تک سونا رزق سے محرومی کا باعث ہے؟
جی
ہاں صبح کے وقت میں اللہ نے بڑی برکات
رکھی ہیں۔صبح کے وقت فرشتے انسان کا رزق اٹھائے ہر در پہ دستک دیتے ہیں۔اور جب
کوئی سو رہا ہو تو پلٹ جاتے ہیں۔پاکستان کے معروف بزنس ٹائیکون میاں منشاء اپنی
کامیابی کا راز صبح کے وقت کام میں بتاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بے شک میں بہت مال
دار ہوں مگر پھر ہم سب گھر والے صبح اٹھتے ہیں اورکام کرتے ہیں کیونکہ ہمارے بڑوں
نے بتایا کہ اگر ایسا نہیں کروگے تو تمہارے رزق سے برکت اٹھ جائے گی۔لہذا ہم پیسے
کے لیے نہیں برکت کے لئے اٹھتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرسکون
نیند کیسے لائی جائے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب انسان اندر سے مطمئن ہو تو وہ پر
سکون نیند سوتا ہے۔ایمانداری،مضبوط سیلف امیج اور اللہ کے احکامات کی بجا آوری ہے
ہی ہمیں پرسکون نیند کا تحفہ دے سکتی ہے۔
کیا دن کی نیند رات کی نیند کے متبادل
ہو سکتی ہے؟
تو اس کا جواب بھر پور نفی میں ہے۔دن کی
نیند فطرت سے بغاوت ہے اور بغاوت کبھی بھی خیر کی علامت نہیں ہوتی اور وہ بھی مالک
کائنات سے۔۔دن کو دیر تک سونے والے ذیابطس کو کھلی دعوت دیتے ہیں۔انسان باغی ہو
سکتا ہے مگر انسانی جسم اور اس کا نظام وہی رہتا جو مال کائنات نے بنایا۔لہذا جب
آپ رات کو نہیں سوئے گے،تو جسم کی روٹین ڈسٹرب ہوگی اور وہ بیماریوں کا شکار ہو
جائے گا۔ صبح کی نیند نہ صرف ہمارےارادوں کو
کمزور کرتی ہے۔بلکہ ہمارے مسلز کو بھی کمزور کرتی ہے۔ ماہرین
کا کہنا ہے کہ دن کے وقت طویل نیند رات کی نیند میں خلل کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ نیند
میں یہ خلل ہارٹ اٹیک، کارڈیوویسکولر بیماری اور ٹائپ 2 ذیابیطس سمیت دیگر
میٹابولِک مسائل کے خطرات کو بڑھا سکتا ہے۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ لوگ اپنی کامیابی کے
پیچھے ایک بڑا گر صبح جلدی اٹھنے اور رات جلدی سونے میں بتاتے ہیں۔موجودہ مغرب اس
راز کو سمجھ چکا ہے۔ہم مسلمان جو دنیا کو جگانے آئے تھے کب جاگے گے؟
آج صبح صبح علامہ اقبالؒ کے شعر کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی کی تشریح سرچ کی تو آپکا یہ مضمون بھی ہاتھ لگا کیا خوب لکھا ماشاء اللہ ۔بارک الله
جواب دیںحذف کریں