اشاعتیں

جنوری, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

انٹرنیٹ سے کمائی کے جائزا اور مفید زرائع

تصویر
ہ سوال اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی انٹرنیٹ سے پیسے کمانا ممکن ہے؟  یا  پھر یہ ایک فراڈ ہے؟اس سوال کا جواب اس بات منحصر ہے کہ آپ انٹرنیٹ سے پیسے کمانا کیسے چاہتے ہیں۔ اگر تو آپ یہ چاہتے ہیںکہ بغیر محنت کے چند گھنٹوں میں آپ سینکڑوں ڈالر کما لیں گے تو یقینا ایسا ممکن نہیں ہے۔ انٹرنیٹ پر برائوزنگ کرتے ہوئے، فیس بک پر، ٹوئٹر پر، حتیٰ کہ اخبارات میں بھی آپ کو ایسے اشتہارات نظر آتے ہوں گے کہ گھر بیٹھے چند گھنٹے کام کریں اور ہزاروں روپے کمائیں۔ پاکستان کے خراب معاشی حالات میں ایسے اشتہارات انتہائی خوش کن محسوس ہوتے ہیں اور لوگ ان کے جھانسے میں بہت آسانی سے آجاتے ہیں۔ یہ مضمون ہم نے ایسے ہی تمام سوالات جو انٹرنیٹ سے کمائی کے حوالے سے آپ کے ذہن میں ہوسکتے ہیں، کے مدلل جوابات دینے کے لئے تحریر کیا ہے ۔ انٹرنیٹ سے کمائی ایک فراڈ ہے یاگر؟ انٹرنیٹ سے بغیر محنت پیسے کمانا ناممکن ہے۔ کوئی ویب سائٹ یا کوئی شخص آپ کو مفت میں پیسے نہیں دے گی۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کسی لنک پر دن میں فلاں تعداد میں کلک کرنے سے آپ اتنے پیسے کما لیں گے یا فلاں ویب سائٹ کا لنک شی

میجر ضیاء الدین عباسی کی شہادت کا پرتپاک استقبال

تصویر
1965 ﺀ ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻤﺮ ﺭﺳﯿﺪﮦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺭﻭﺿﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ 11 ﺳﺘﻤﺒﺮ 1965 ﺀ ﮐﻮ ﺳﯿﺎﻟﮑﻮﭦ ﭘﮭﻠﻮﺭﺍ ﻣﺤﺎﺫ ﭘﺮ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮﺋﭩﮧ ﺍﻧﻔﻨﭩﺮﯼ ﺳﮑﻮﻝ ﮐﮯ ﺍﻧﺴﭩﺮﮐﭩﺮ ﻣﯿﺠﺮ ﺿﯿﺎﺀ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﺒﺎﺳﯽ ( ﺳﺘﺎﺭﮦ ﺟﺮﺍُﺕ ) ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﺠﺮ ﺿﯿﺎﺀ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﮐﮯ ﭨﯿﻨﮏ ﮐﻮ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﯽ ﺗﻮﭖ ﮐﺎ ﮔﻮﻟﮧ ﻟﮕﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔ ﺟﺐ ﺻﺪﺭ ﺍﯾﻮﺏ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻣﯿﺠﺮ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﮩﯿﺪ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺑﻌﺪ ﺍﺯ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﻣﻠﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﺟﺮﺍﺕ ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﻮﺏ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﻮﭼﮭﯽ، ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﻤﺮﮦ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺴﮯ ﺍﯾﻮﺏ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ” ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔ ﺷﮩﯿﺪ ﻣﯿﺠﺮ ﺿﯿﺎﺀ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﺟﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺟﺐ ﺭﻭﺿﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺧﺎﺩﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﻭﮨﺎﮞ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ؟ ﻣﯿﺠﺮ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﺧﺎﺩﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻔﺴﺎﺭ ﮨﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺧﺪﺍﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎ

دعا کی طاقت

خوبصورت کہانی جو آپ کے ایمان کو پختہ کرے گی زندگی کی نہایت اہم رات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا نام ڈاکٹر احمد تھا اور وہ سعودی عرب کا معروف طبیب تھا۔ لوگ اس سے مشورہ لینے کے لیے کئی کئی دن تک انتظار کرتے۔ اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔دارالحکومت میں ایک انٹر نیشنل میڈیکل کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسے بھی دعوت دی گئی۔ اس کی خدمات کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ وہ اس کانفرنس میں نہ صرف کلیدی مقالہ پڑھے گا بلکہ اس موقع پر اسے اعزازی شیلڈ اور سرٹیفکیٹ بھی دی جائے۔ڈاکٹر احمداپنے گھر سے ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ وہ بڑا خوش اور پُرسکون تھا۔ آج شام اس کی تکریم اور عزت کی جانے والی تھی۔ اس کا سوچ کر وہ اور بھی زیادہ آسودہ ہوگیا۔ ائیر پورٹ پر وہ معمول کی چیکنگ کے بعد فوراً ہی ہوائی جہاز میں سوار ہوگیا۔ اس کی فلائٹ وقت کے مطابق پرواز کر گئی۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کے بعد ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا ہم معذرت خواہ ہیں کہ طیارے میں فنی خرابی کے باعث ہم قریبی ائیر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ فلائٹ بغیر کسی رکاوٹ اور حادثے کے قریبی ائیر پورٹ پر اتر گئی۔ مسافر جہاز سے اتر کر لاؤنج میں چل

غازی علم دین ؛

تصویر
یہ تھا لاہور کا رہائشی 19سالہ غازی علم دین پیشے کے لحاظ سے ایک بڑھئی تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے انڈیا میں ہونے والے ایک  واقعہ نے علم دین کی زندگی میں ہلچل برپا کردی۔ 1923 میں ایک انتہا پسند ہند و نے رسول اکرم ﷺ کی شان میں ایک نہایت گستاخانہ کتاب کے نام سے تحریر کی۔ یہ کتاب ایک فرضی نام سے لکھی گئی جسے لاہور کے ایک ہندو پبلشر راجپال نے شائع کیا۔ کتاب میں انتہائی نازیبا باتیں درج تھیں جنہیں کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ کتاب کی اشاعت سے پورے برصغیر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں نے اس کتاب پر پابندی کا مطالبہ کیا اور اس کے پبلشر کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ سیشن کورٹ نے راجپال کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنادی جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے اس سزا کے خلاف اپیل کی۔ سماعت میں مجرم راجپال کو اس وجہ سے رہا کردیا کہ اس وقت مذہب کے خلاف گستاخی کا کوئی قانون موجود نہ تھا۔ مسلمانوں نے ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف پورے ملک میں تحریک شروع کردی۔ نوجوان علم دین اپنے دوست رشید کے ساتھ لاہور کی تاریخی وزیر خان مسجد کے سامنے اس ہجوم میں موجود تھا جو ہندو رائٹ