اشاعتیں

فروری, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

غلامی کی جدید سائنس

تصویر
غلامی کی جدید سائنس تحریر:روبینہ شاہین کہا جاتا ہے کہ تاتاریوں نے جب بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو   ایسی مثالیں دیکھنے کو ملیں کہ عقل دنگ رہ گئی۔۔۔۔کوئی نہتا تاتاری اگر کسی مسلمان کو دیکھ لیتا تو کہتا تم یہی رکو میں زرا تلوار لے آؤں۔۔اور جب تک وہ واپس آتا تو مسلمان وہی کھڑا انتظار کر رہا ہوتا۔۔اس سے بھی آگے ایک قدم ملاحظ کیجئے۔۔  جب امریکہ کو پاکستان نے خود اڈے دیئے اور کہا آیئے جناب !ہمارے ہی سر اور ہمارے ہی جوتے۔۔۔۔ ڈینگہ ضلع گجرات کا ایک شہر ہے جو دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان واقع ہے۔۔لفظ ڈینگہ اصل میں "دین گاہ"تھا۔انگریز جب اس علاقے میں آئے تو دین گاہ بولنا مشکل تھا سو ان کی زبانوں پہ ڈینگہ رواں ہو گیا۔یہ تو تھا اس وقت  کی وجہ جس کی بناء پر دین گاہ کو ڈینگہ بولایا جانے لگا۔مگر قابل توجہ یہ بات ہے کہ انگریز کو پون صدی گزر چکی اس ایریا سے گئے ہوئے۔ہم ابھی بھی اسے ڈینگہ ہی بولتے ہیں۔۔ شاید زہانت کی طرح غلامی میں بھی درجہ بدرجہ ارتقاء ہوتا رہا ۔۔۔۔غلامی کا تعلق ہمارے دل اور دماغ سے ہے۔انسانی نفسیات بتاتی ہے۔جب بھی قوموں کو شکست دی گئی۔۔۔سب س

مسئلہ کشمیر اوراتحاد امت

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین مسئلہ کشمیر ایک گھبیر مسئلہ ہے۔جو پچھلی پون صدی سے امت مسلمہ کے سامنے  نہ  صرف سوالیہ نشان ہے بلکہ ایک طمانچہ ہے۔یہ ایک  طے شدہ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل ہونا جنوبی ایشیاء کے امن کے لئے انتہائی ضروری ہے۔مقبوضہ کشمیر میں آئے روز  نت نئے مظالم کی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ہندوستان  اپنی پوری طاقت سے کشمیریوں کے صبر کو آزما رہا ہے۔مگر عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ مسئلہ کشمیر سیاسی سطح پر پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔البتہ غیر سیاسی جماعتیں اپنے طور پر جہا د کر رہی ہیں مگر اس کے باوجود کوئی حل  نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔پوری دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہیں۔پاکستان،افغانستان اور عراق و شام وغیرہ  کو ایسی ایسی گھمن گھیریوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ ان کو اپنی اپنی پڑی گئی ہے۔ایسے میں مسئلہ کشمیر  کون دیکھے؟ جہادی تنظیمیں اپنے طور پر جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں۔مگر  اس کے نتائج خاطر خواہ نہیں۔۔۔۔کشمیری عوام  پس رہی ہے ظلم و بربریت کے ہاتھوں۔۔۔۔  معتبر علماء کی رائے کے مطابق جہاد وہی معتبر جو ریاست کے زیرنگرانی ہو۔جہاد انفرادی بھی کم بڑی خدم