اشاعتیں

مئی, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اسلام میں ساس اور سسر کے حقوق

تصویر

مہلت نہیں ملتی۔۔۔رمضان سپیشل

تصویر
اس  دفعہ  پورے روزے اور پوری نمازیں۔۔۔مدیحہ  نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔مدیحہ حیات     نے زندگی کے سارے مزے لوٹے۔۔بچے پیدا کیئے،جوان  ہوئے،شادیاں کیں۔۔۔نوکری کی۔۔۔بس ایک کمی تھی جس کی خلش گاہے بگاہے سر اٹھایا کرتی تھی ۔اب  ریٹائر  ہوگئی تو سوچا کیوں نا  اس کمی اور خلش کو بھی دور کر لیا جائے۔۔۔اسی خوشی میں رمضان کی تیاریوں میں مصروف تھی۔۔۔رمضان میں کچھ ہی دن باقی تھے۔۔۔۔سوچا عید کی شاپنگ بھی کر لی جائے پھر تو رمضان  میں جایا نہیں جائے گا۔۔۔۔اسی سلسلے میں آج  اچھرہ  آ گئی۔۔۔۔واپسی پہ ویگن حادثے  میں مدیحہ حیات  کا سفرحیات تمام ہوا۔

استقبال رمضان

تصویر
شعبان کےآخری دن تھے جب اماں نے کمر کس لی۔۔۔۔سارے گھر کو صاف کیا جا رہا تھا۔۔۔ہر کونہ کھدرا چمک رہا تھا۔۔۔نئی بیڈ شیٹس بکسوں سے نکالیں گئیں۔۔۔۔کشن  بدلے گئے۔۔۔۔جو بھی دیکھتا حیراں رہ جاتا۔۔۔اماں ابھی  سےعید کی تیاری شروع۔۔۔ابھی تو  ایک ماہ پڑا ہے،عبداللہ نے ماں کو  بے تحاشہ کام کرتے دیکھا تو حیرانی  سےسوال کیا۔۔۔۔اماں نے ایک کان سے سنا اور دوسرے سے اڑا دیا۔۔۔اور  پھر سےاپنے کام میں مشغول ہو گئیں۔۔۔۔مجھے لگتا باجی کو کوئی دیکھنے آ رہا۔۔جبھی اماں اتنے دل و جان سے صفائی میں مصرو ف ہیں۔۔۔۔حنا نے  بھی اپنی عقل کے  گھوڑے  دوڑائے۔۔۔۔۔پر  نہ جی۔۔۔لگتا کوئی خاص بات ہے جو اماں بتائے نہیں دے رہیں۔۔

قاسم علی شاہ۔۔میرا مرشد و راہنما

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین قاسم علی شاہ  میرا مرشد بھی ہے محسن  اور راہنما بھی۔۔۔۔کچھ سال پہلے کی بات ہے۔میں ایک سنگین بیماری کا شکار تھی۔کچھ بیماریاں جسمانی نہیں روحانی ہوا کرتی ہیں۔اور روحانی بیماریاں   جسمانی بیماریوں سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔میں بھی روحانی بیماری میں مبتلا تھی جس کا نام "نا شکری"ہے۔اللہ گواہ ہے کہ میں نے صبر بہت  کیا۔پر کیا کروں اس دل کا جو ناشکری پہ تل بیٹھا تھا۔میرے ابو کی ڈیتھ ہوئی ۔۔بہت سمجھایا دل کو کہ یہی قادرمطلق کا فیصلہ ہے پر دل سے آواز آتی ہی نہ تھی۔۔۔۔اسی گومگوں میں زندگی چل رہی تھی کہ میری زندگی میں ایک سر  قاسم علی شاہ  آئے۔۔۔انٹرنیٹ سے شناسائی ہوئی۔لیکچر سننا شروع کیئے۔۔ان کا ایک لیکچر اٹھایا  جو نو قسم کی ذہانتوں پر مشتمل تھا۔۔۔لکھا اور ہماری ویب کو بھیج دیا۔۔انہوں نے  پبلش کیا جسے کافی لوگوں نے سراہا ،میں نے وہ لنک سر کو بھیج دیا۔۔۔انھوں نے میری نہ صرف تعریف کی بلکہ اپنے لیکچر ز کوکتابی صورت میں ڈھالنے کی جاب بھی دے ڈالی۔۔اس دوران اان کو بہت  سننے کا موقع ملا۔،بہت کچھ سیکھا۔۔۔۔۔بہت سی الجھنیں اور گرہیں  کھلیں۔۔زندگی جو بہت مشکل لگتی تھی