اشاعتیں

جولائی, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کرونا بقرہ عید اور ہم

شمع ارشد الحمدلله کھانے کے بعد کی دعا پڑھتے ہوئے کامران صاحب نے کہا عبداللہ آج ہم بکرہ خریدنے چلیں گئیں. عید میں چند دن ہی باقی ہیں. عبداللہ نے کہا ابو جان منڈی میں بہت ہجوم ہوگا ہر قسم کے لوگ ہوں گے اور اب تو کرونا جانوروں پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے تو ایسے میں ہم بکرہ گھر لانا خطرناک ہو سکتا ہے. برتن سمیٹے ہوئے امی بولیں آپ لوگ احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے ماسک اور گلوز  پہن کر جائیں. ویسے بھی آج کل منڈیوں میں وقتاً فوقتاً  جراثیم کش اسپرے ہو رہےہیں. ںسارہ سوشل میڈیا کی دیوانی اور اپ ٹو ڈیٹ رہنے والی لڑکی موبائل استعمال کرتے ہوئے بولی ابو جان کیوں نہ ہم بھی قربانی کی رقم  کو  صدقہ کردیں٫ ویسے بھی آج کل کرونا کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کے کام بند ہیں ہم ان لوگوں کے گھروں میں راشن بھجوا دیتے ہیں یا کسی ویلفیئر سینٹر میں رقم  بھجوا دیتے ہیں . عبداللہ نے بھی سارہ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا اس طرح ہمیں قربانی کا اجر بھی ملے گا اور دوسروں کی مدد بھی ہو جائے گی. اتنے میں فائزہ بیگم چائے کی ٹرے لیئے لاؤنج میں داخل ہوئیں اور بتانے لگیں کہ شکورن بی کل صفائی کرتے ہوئے بتا رہیں تھیں کہ اس

"لاک ڈاون میں عید"

تصویر
۔۔۔۔۔  مدثرہ جبیں ٹوبہ ٹیک سنگھ ہر قوم کا تہوار ہوتا ہے ہمارا تہوا ر عیدین ہیں۔  عید الفطر اور عید الضحی ۔ان تہواروں سے قبل تمام مسلمان چاہے وہ استطاعت رکھتے ہوں یا نہیں اس خوشی کے موقع پہ اپنی اور اپنے بچوں کی خواہشات کیمطابق بھرپور  اہتمام کرتے ہیں ۔سال 2020میں عیدالفطر سے قبل کرونا جیسی وباء نے پوری دنیا کو آگھیرا ۔ایسے میں پاکستان کے حالات بھی پریشان کن تھے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم ان عارضی تیاریوں اور دنیا کی خواہشات کی تکمیل کو بھول کر  آخرت کی تیاری میں مصروف عمل ہو جاتے 'گناہوں پر ندامت کے آنسو بہا تے'اور رجوع الی اللہ کرتے'لیکن چند نفوس قدسیہ کے سوا باقی لوگوں کو تو جیسے اللہ کی یاد ہی ناں آئی ،ایسے حالات میں بھی ہمارا کردار کیا رہا؟ خریداروں نے ایسے نازک ترین حالات میں بھی اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر خریداری ناں چھوڑی ۔اور دکانداروں نے بھی ہر چیز کی قیمتیں بڑھانے کی انتہاء کر دی۔ناں صرف چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں بلکہ شرمناک واقعات بھی منظر عام پر آئے باہر سے تو دکانوں کے شٹر ڈاون تھے لیکن دکان کے اندر حوا کی بیٹی کی عصمت لوٹی جارہی تھی۔کہیں ہر ق

کشمیری مسلمان اور لاک ڈاون

کرونا وائرس کا عذاب اور پوری دنیا کا لاک ڈاون کہیں کشمیری مسلمانوں کی آہ تو نہیں۔زرا نہیں پورا سوچیے۔   ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر:حافظ سویرا خاں ۔۔۔۔ ہر مذہب کا کوئی نا کوئی  تہور  ہوتا ہے اور مسلمانوں کے  دوخاص  تہوار ہیں عید لفطر اور عید الضحی۔ دنیا بھر میں مسلمان  اپنے تہوار بہت جوش خروش سے مناتے ہیں کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے دیئے گئے انعام ہیں۔عید بڑی جوش و خروش اور ولولے سے منائی جاتی رہی مگر  اس دفعہ عید اس وقت آئی جب ہر مسلمان خوف و ہراس میں مبتلا ہےاس وائرس  نے ہر کسی کو اپنے خوف میں مبتلا کیا ہوا ہے لوگ اپنے گھروں میں بند ہیں ایک دوسرے سے ملنا تو دور کی بات ہاتھ ملانے تک سےڈرتے ہیں۔میں نے بہت سوچا  کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟  ہمیں سزا مل رہی ہے کہ جب ہماری کشمیری بہن بھائیوں پر ظلم ہوتا تھا تو وہ چپ چاپ بیٹھے دیکھتے رہتے تھے اور ہاتھ اٹھانے تک ہماری ہمت نہیں ہوتی تھی ہاتھ تو دور کی بات ہم ان کے حق میں بول بھی  نہیں سکتے تھےکشمیریوں کے وہاں پر بچے کاٹے جا رہے تھے نوجوان مر رہے  تھے اور ہم لوگ یہاں پہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تماشائی بنے بیٹھے تھےان کے دکھ میں کوئی بھی شریک ہونے والا نہیں تھا۔ اسلام ک

جزبہ قربانی۔۔قوموں کی بقا کا ضامن

کائنات اور اسکی وسعتیں اگر کسی شے کے تابع ہیں تو وہ قدرت الہی ہے۔ہر شے اسکی حکم سے رواں دواں ہے۔اگر گہرائی میں جا کر انواع اشیاء پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر چیز دوسرے کے لیے بنائی گئ ہے۔مثلا درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتا وہ خود گرمی میں جل کر دوسروں کو سایہ فراہم کرتا ہے۔جانور اپنا گوشت اور دودھ خود نہیں پیتے۔سورج ،چاند اور ستارے تک دوسروں کے لیے مسخر ہیں۔ ۔۔۔۔۔ اب آتے ہیں انسان کی جانب،اس واحد مخلوق کو اختیار دیا گیا چاہو تو مانو چاہو تو انکار کر دو۔۔۔یہ اختیار بڑی ظالم شے ہے۔بندے کو مار دیتا ہے۔حضرت انسان کو سمجھانے کے لیے ہر دور میں پیغمبر آے۔تب جا کر کہیں انسانوں کی کچھ جماعت کائنات کا مدعا سمجھنے میں کامیاب ہو سکی۔ ۔۔۔۔۔ انسانوں میں سے ایک عظیم انسان حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں۔جو اللہ کے بہت پہنچے ہوۓ پیغمبر ہیں۔اللہ نے ان کو ہر امتحان میں ڈالا جو توڑ دینے کے لیے کافی پر وہ نا ٹوٹے نا ہمت ہاری بس چلتے رہے۔۔۔جو حکم یار کا۔۔ ۔۔۔۔ پھر ایک امتحان بہت کڑا تھا۔اپنے بیٹے کی قربانی۔پر وہ اس میں بھی سرخرو ٹھرے۔نا صرف بیٹا لوٹادیا گیا بلکہ قیامت تک سنت ابراہیمی کا اجراء کر دیا گیا