مذہب کا انسانی زندگی میں کردار

مذہب ہر مسلمان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں انتہائی اہمیت اور وسعت کاحامل ہے۔ جب یہ عقیدہ  بن کر دل و دماغ میں سما جائے تو انسان کی ساری تگ و دو اور خواہش کا محور رب کائنات کی ذات ٹھہرتی ہے۔ اللہ اور  اس  کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت دل میں گھر کر جائے تو انسان کواپنی دنیا اور  آخرت کی  زندگی سنوارنے کی فکر رہتی  ہے انسان  کے پہلے گھر کی ابتدائی تعلیمات سے لے کر اس کے آخری رسومات  مذہب ہی کے مرہون منت ہیں۔مذہب کا انسانی زندگی میں کردار  ہم مختلف پہلووں سے پیش کریں گے۔
1۔ تہذیب اور معاشرت
خاندان۔۔ مذہب کا ابتدائی تحفہ۔ خاندان کے وجود میں آنے سے پہلے بنیادی شعور و آگاہی کی فراہمی بھی تو مذیب ہی کی مرھون منت ہے۔ اور خاندان کے وجود میں آنے کے بعد خاندان سے لے کر اس کے بڑے بڑے ادارے مذہب ہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں۔۱۔رشتوں کا تقدس اور امتیاز ۲۔کام کی تقسیم ۔ذمہ داریوں کا تعین ۳۔رسم و رواج اور تہوار  منانے میں رہنمائی ۴۔ رہن سہن اور میل جول کے طور طریقے  ۵۔ خاندان اور برادریوں کی تقسیم
فطری ہدایات۔۔ انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی وفات تک تمام کی تمام فطری ہدایات مذہب ہی فراہم کرتا ہےْ
۱۔انسان کی پیدائش کے لیے والدین کا ملاپ ۲۔اس کے آداب و معاشرت و شرائط ۳۔انسان کے ابتدائی خلیے کی حفاظت اور نشونما کے اددار  کی معلومات ۴۔والدہ کو مشکلات سھنے کی ہدایت اور والد کو احساس ذمہ داری کا ادراک ۵۔نسل انسانی کو پاکیزہ اور محفوظ رکھنے اور اس کو آگے بڑھانے کی ذمہدرانہ سوچ اور اس کے قوانین۶۔ پیدائش کے بعد اس بچہ کا ہنسنا،رونا اور پہلا مطالبہ ۷۔ اولاد کی پرورش کرنے میں والدین کے بلند درجات کے وعدے  اور ماں کی خدمت میں اولاد کے لیے جنت کی بشارت اور والد کی رضا میں اللہ کی رضا کا وعدہ  ۔ یہ سب فطری ہدایات مذہب یہ تو فراہم کرتا ہے
ہمسائیگی ،برادری اور قبیلہ کی ضرورت ،افادیت اور پہچان بھی مذہب ہی نےفراہم کی ہے حضرت موسیٰ  کے احکام عشرہ انہی ہدایات پر مشتمل ہیں
2۔معاشرتی ادارے
ریاست آئین و دستور کے ارتقا  و ترقی و نشوونما میں مذہب کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔آج تک دنیا  جن افکار اور معاشرتی حقوق   کے لیے سرکرداں ہےاور جن سے فیض یاب ہو رہی ہے ان میں بنیادی کردار نبی آخرالزماں ﷺ کے ’’خطبہ الوداع‘‘ کا ہے جو انسانیت کے لیے منشور اعظم کی حیثیت رکھتا ہےاور اس حقیقت کا برملا اظہار مغرب کے مفکرین اور مصنفین نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ نبی آخرالزماں ﷺ کے ’’خطبہ الوداع‘‘کی اھمیت ۱۔جاہلیت کے آثار،نسلی،گروہی لسانی امتیازات کا خاتمہ ۲۔طبقاتی تقسیم کے خلاف اور مساوات انسانی کے حق مین بہترین جواز ۔۳۔ظلم سے اجتناب ،امن ا آشتی اور صلح جوئی کا پیغام ۴۔سود کی حرمت  کا عام اعلان ۵۔انسانوں کے حقوق کا تحفظ۶۔معاشی و معاشرتی استیصال سے پاک معاشرت کی بنیاد
3۔ریاست اور تمدّن
انسانی معاشرت کی ترقی یافتہ شکل ’’ریاست‘‘  کی تعمیرو تکمیل میں  مذہب نے سب سے اہم کردار  ادا کیا ہے۔ریاست کے آغاز و ارتقا  میں مذہب ہی رہنمائی کرتا ہے اس سلسلے میں  ریاست کا ایک اہم نظریہ تخلیق ربانی موجود ہے جس کے مظابق ریقست کی تخلیق ہدائت ربانی کے تحت ہوئی ہے بقول رابرٹ فلمز  ’’ حضرت آدم  سب سے پہلے حکمران تھے جبکہ موجودہ حکمران ان کے جانشیں ہیں
۴معاشرت و تہذیب کے وہ ادارے جو انسان کی سماجی ضروریات  کو پورا کرنے اور خدمت خلق اور فلاح معاشرہ کے سارے ادارے انسان کی اس ہمدردانہ سوچ کا نتیجہ ہیں جو مذہب نے  پیدا کی ہوئی ہیں ۱۔ انسان کی سماجی تعلیم و تربیت  ۲۔ ایک دوسرے کی معاشی مدد ۳۔ معذوروں کی بحالی ۴۔چھوتوں سے محبت،بڑوں کی عزّت اور بوڑھوں کی مدد ۵۔ایثار و ہمدردی و خلوص کی ساری سر گرمیاں  مذہب یہ سکھاتا ہے
اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیۡرُ مَمْنُوۡنٍ ؕ﴿۶
مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے کہ انہیں بے حد ثواب ہے (ف۶)(التین ۹۵۔ ۶)

۵۔اخلاقی اور روحانی وجود
۔انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ اور زمین پر اللہ کا نمائندہ ہونے کا شرف مذہب ہی نے دیا ہےوگرنہ انسان  تو اپنے بارے یہی تصور قائم کر سکا کہ وہ دوسرے جانوروں کی طرح ایک جانور یا حیوان کی ترقی یافتہ شکل ہے۔مذہب نے نہ صرف معیار انسانیت قائم کیا بلکہ خدمت انسانی،تعمیر انسانی اور فلاح انسانیت کے زریں فکر و عمل  پر اعلٰی تہذیب  کی بنیادیں استوار کیں۔
۶۔روحانی اطمینان
مذہب انسان کو اندرونی اطمینان اور روحانی  سکون فراہم کرتا ہے۔مذہب ہی انسان کا خالق کے ساتھ رشتے کو استوار کرتا ہے اور پھر مذہب ہی اس رشتے کو مضبوط کرتاہے۔
الَّذِیۡۤ اَطْعَمَہُمۡ مِّنۡ جُوۡعٍ ۬ۙ وَّ اٰمَنَہُمۡ مِّنْ خَوْفٍ ٪﴿۴
جس نے انہیں بھوک میں (ف۴) کھانا دیا اور انہیں ایک بڑے خوف سے امان بخشا(ف۵)

۷۔ انسان کے اخلاقیات  اور عبادات کے  اصول  فراہم کر کے اسے ایسا مفید انسان بنا دیتا ہے جو نہ صرف اپنی زندگی خوشحال و خوشگوار بناتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے جینے کو قابل فخر سمجھتا ہے،اور انسان کو انسانیت سے ہمکنار کرتا
۸۔روحانی پناہ گاہ کی فراہمی
کو قابل فخر سمجھتا ہے، مذیب انسان کو ایسی ہستی سے ملاتا ہے جو اس کی روزی رساں بھی ہے اور ہر طرح کی پناہ گاہ بھی ،اس کی حاجت روا بھی اور دعائیں سننے والا بھی
۹؛انسانی عبودیت کا سر چشمہ
مذہب ہی کی وجہ سے انسانی عبودیت کے سارے  رشتے اللہ سے قائم ہوجاتے ہیں  اللہ تعالی حود قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے’’پس بندگی کر اس پروردگار کی جو اس گھر کا رب ہے‘‘
۱۰۔خوف و حزن سے نجات  خوف و حزن سے نجات کابہترین ذریعہ مذہب  ہی فراہم کرتا ہے اگر انسان کو یہ سہارا میسر نہ ہو تو انسان بے چین،مضطرب اور بے آسرا ہوتا اسے زندگی کی موجود اور میسر چیزوں کے چھن جانے کاخوف اور مزید حاصل نہ ھونے کا اندیشہ اندر سے کھائے جاتا۔
۱۱۔ نفسیاتی مایوسی کا علاج
انسان اپنی بے بسی اور مایوسی کے عالم میں جب آسمان کی طرف نظریں اٹھاتا ہے تو  مذہب ہی اس نفسیاتی پریشانی اور کمزوری  کا علاج کرنے کے لیے  یوں کہتا ہے’’ ان اللہ علی کل شیئ قدیر‘‘۔اسی طرح مذہب انسان کو ہر طرح کی مایوسی سےنکال کر خودکشی جیسی موت سے دور رکھتا ہے۔
۱۲۔افکار و خیالات کی دنیا میں وسعت
علامہ اقبال ؒ کا فرمان ہے’’مذہب ہی وہ ذریعہ ہے جس سے افکار و خیالات کی دنیا میں وسعت پیدا ہو جاتی ہےاور جس کے سہارے ہم زندگی،قوت اور طاقت کے دائمی چشمے تک پہنچتے ہیں‘‘

۱۳۔ مذہب اور ملت اسلامیہ
 مذہب پر ہی ملتِ اسلامیہ کے قیام، بقا اور ارتقاء کا انحصار ہے۔ یہی توحید امتِ مسلمہ کی قوت اور تمکنت کا سرچشمہ اور اسلامی معاشرے کی روح رواں ہے۔ یہ تومذہب ہی ہے جس نے ملتِ اسلامیہ کو ایک لڑی میں پرو کر نا قابلِ تسخیر قوت بنا دیا تھا۔ یہی توحید سلطان  و میرکی  قوت و  شوکت اور مردِ فقیر کی  ہیبت و سطوت تھی۔ اس  دورِ  زوال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ملتِ اسلامیہ جو سوزِ دروں سے خالی ہو چکی ہے اس کے دل میں مذہب اسلام کا صحیح تصور قرآن و سنت کی روشنی میں ازسرِ نو اجاگر کیا جائے۔ تاکہ مردِ مومن پھر لَا اور اِلَّا کی تیغِ دو  دم  سے مسلح ہو کر ہر  باطل استعماری قوت کا مقابلہ کر سکے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
تا دو تیغِ لا و الاّ داشتیم
ما سِوَ اﷲ را نشان نگذاشتیم
’’نفی واثبات کی تلوار جب تک ہمارے ہاتھ میں تھی ہم نے ما سو اللہ یعنی اللہ کےسوا ہر غیر اور باطل کا نام و نشان تک مٹا دیا تھا
۱۴۔آخرت کی ابدی زندگی کی فلاح
مذہب اؤاکرت کی ابدی زندگی کی فلاح کا بہترین حصول ہے  اس کے بغیر انسان حالات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے 
حاصل کلام۔ مذہب اعتقاد کی اس قوت کا نام ہے جو انسان اور انسانی کردار میں انقلاب برپا کر دیتی ہے بشرطیکہ انھیں بصیرت کے ساتھ سمجھا جائے اور خلاص کے ساتھ قبول کیا جائے
Man without religion is the creature of circumstances
                               تصور حقیقت کی تشکیل میں مذہب کا کردار
ایک تصوّر حقیقت      (world view)
تمام مذاہب انسان کو بنیادی طور پر ایک تصور حقیقت فراہم کرتے ہیں جس پر اس کی زندگی کا مکمل طور پر انحصارہوتاہے۔ کیونکہ مذہب ہی وہ ذریعہ ہے جو انسان کو  اس کے مالک  کی تعلیمات بلاواسطہ یا بالواسطہ فراہم کرتا ہے، اسلام کے علاوہ باقی مذاہب بھی علم الوحی پر ہی نازل ہوئے لیکن انسان نے اپنی خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلیاں کر لیں،
ہر فرد کا کوئی نہ کوئی فلسفہ ضرور ہوتا ہے  جو ہر کسی کا مختلف ہوتا ہے،ایک سوچ ہوتی ہے اور اس سوچ کا ایک بنیادی دائرہ کار   ہوتا ہے جس کے اندر رہتے ہوئے انسان یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ کائینات کیوں بنی ؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟  ان سوالوں  کے  جواز تلاش کرنے میں اس کے ذہن میں ایک نظریہ حقیقت  یا تصور حقیقت بنتا ہے
 تصور حقیقت کی تعریف۔
۔۔خیالات کا مجموعہ ،      ۔۔ایک تصور جو انسان شعاری طور پر یا غیر شعاری طور پر اپنے ذہن میں بنا لیتا ہے۔
۔۔ساری دنیا کی عمومی ساخت کیا ہے ؟  ۔۔ دنیا کی حقیقت یا تشریح کا تصور ہے (جو انسان اپنے انداز میں کرتا ہے)
۔۔حقیقت کا ذہنی خاکہ ہے،    ۔۔نظریات کا منظم سلسلہ ہوتا ہے،۔۔اعتقادات کا جامع نظام ہے
تصور حقیقت کے عناصر
تصور حقیقت ایک مینار کی طرح ہے اس کو بنانے میں درج ذیل عناصر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں
۱۔مذہب ،   خالق کائنات ،کائنات اور انسان کے درمیان رشتے کی وضاحت کرتا ہے سورۃ الفاتحہ اس کی بہترین مثال ہے
۲۔تاریخ،ایک مسلمان کی حیثیت سے انسان اپنی تاریخ کی بنیاد پر اپنا تصور حیات یا تصور حقیقت بناتا ہے
۳۔ثقافت، انگریزی لفظ cultivate سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے آبیاری کرنا۔ اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ ایسی روایات یا رسومات جو انسانی ذہن کی آبیاری کرتی ہیں۔جو زندگی کی تربیت فراہم کرتی ہیں۔انسان اپنے بچوں کی  تربیت میں  اپنا  جو ماحول بناتا ہے اصل میں وہ اس کی ثقافت ہے
۴۔تعلیم،تعلیم دو طرح کی ہوتی ہے ۱۔رسمی تعلیم ۲۔غیر رسمی تعلیم ۔جن کی تصور حقیقت میں بنیادی حیثیت ہے
۵۔فلسفہ،انسان فلسفہ کو باقاعدہ طور پر پڑھے یا نہ پڑھے لیکن اس کا کوئی نہ کوئی فلسفہ زندگی ضرور ہوتا ہے اس کے مطابق اپنے اور خالق کے درمیان موجود رشتے کو تلاش کرتا ہے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتا ہے
                 
                               حقیقت کی تلاش کے بنیادی ذرائع  
حقیقت کی تلاش میں مذہب سب سے بڑا ،بنیادی اور اہم ذریعہ ہےحقیقت کی تلاش کے بنیادی ذرائع ویسے تو چار ہیں ان کے درمیان توازن رکھنے کے لیے بھی مذہب (علم الوحی )کو سامنے رکھنا پڑے گایہ چار بنیادی ذرائع درج ذیل ہیں
۱۔حسی تجربہ(سائنس)          ۲ ۔عقل(فلسفہ)             ۳۔وجدان(تصوف)                  ۴۔علم الوحی(مذہب)
کیا حقیقت کا حصول ممکن ہے؟اس میں مختلف نظریات کا جائزہ لیں گے
۱۔ مغربی تصور۔مغربی تصور یہ تھا کہ حقیقت جانی جا سکتی ہے مگر ’’وحی یا عقل‘‘ دونوں سے۔
۲۔نشاہ ثانیہ سے پہلے۔ ان کا نظریہ تھا کہ کائنات کا مرکز و محور اللہ کی ذات  اور حقیقت معلوم کی جا سکتی ہے لیکن ’’علم الوحی‘‘ کے ذریعے ۔
۳۔نشاۃ ثانیہ کے بعد۔  مغرب کا مقابلہ سائنس اور فلسفہ سے ہوا اور جب فلسفہ اور سائنس نے دلائل پیش کیے تو مغرب یہ جنگ ہار گیا۔عام نظریہ یہ تھا کہ حقیقت معلوم کی  جا سکتی ہے لیکن ’’عقل‘‘ کے ذریعے ان  کا نظریہ یہ تھا  جو  چیز حقیقت پر پوری اترتی تھی صرف اس کو مانتے تھےاس لیے  اللہ تبارک تعالٰی کے بجائے  کائنات کا محور و مرکز ’’انسان‘‘ کو مانتے  تھے
۴۔اسلامی تصور۔اسلامی تصور یہ ہے کہ کائنات کی رہنمائی صرف ’’علم الوحی‘‘سے ہوتی ہے اسلامی نظریہ یہ  ہے کہ حقیقت کو جزوی طور پر جانا جا سکتا ہے  مکمل طور پر نہیں جانا جا سکتا۔ان کا نظریہ یہ ہے کہ کائنات کا محور و مرکز اللہ تعالٰی کی ذات ہے اور انسان اس کا نائب ہے۔
مفکرین کے نظریات
سقراط  ’’میں اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا‘‘ نیوٹن ’’ مجھے لوگ سائنسدان سمجھتے ہیں لیکن میں اس بچے کی مانند ہوں جو حقیقت کے سمندر کے کنارے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے کھیل رہا ہوں‘‘صوفی بلھے شاہ ’’بلھاکی جانا میں کون‘‘ سٹیفن ہاکنگ’’ابھی تک صرف 6 فیصد کائنات کے بارے میں جانا جا سکا ہے ابھی 94 فیصد کو جاننا باقی ہے‘‘الیکسن کیریسل ’’انسان اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتا تو اللہ کے بارے میں کیا جانے‘‘


                        حقیقت تک انسانی عقل کی نا رسائی کی وجوہات
علم کے تین ذرائع ۱۔حسی تجربہ۲۔عقل۳۔وجدان
۱۔ علم کے تین ذرائع محدود ہیں ۲۔ عارضی ہیں ۳۔دھوکہ کھانے والے ہیں ۴۔ایک دوسرے پر اس طرح انحصار کرنے والے ہیں کہ ایک  کی صلاحیت متاثر ہو تو باقی بھی متاثر ہوتی ہیں
حقیقت کی دوہری فطرت۔(مادی  اور غیر مادی)
ہمیں دونوں کا ادراک ضروری ہے  مادی حقیقت ہمیں  حواس اور عقل سے معلوم ہوتی ہے جبکہ غیر مادی حقیقت علم الوحی سے حاصل ہوتی ہے
                        مذہب حصول علم  اور ایمان کا بہترین ذریعہ ہے
مذہب صرف علم ہی نہیں بلکہ یقین اور ایمان بھی فراہم کرتا ہے کیونکہ علم میں شک ہوتا ہے اور ایمان شک سے شروع ہوتا ہے
علم اور ایمان میں فرق۔۔
۱۔علم شک پر ختم ہوتا ہے   ایمان شک سےشروع ہوتا ہے
۲۔علم شناسائی کانام ہے  ایمان اندر کا یقین ہے
۳علم سے انسان کی سوچ تبدیل نہیں ہوتئ ۔ایمان سے انسان کی سوچ تبدیل ہو جاتی ہے
۴۔ہر علم ایمان نہیں ہو سکتا  جبکہ ایمان ہمیشہ علم ہی کی بنیاد پر  پختہ ہوتا ہے
قرآن میں علم کا تصور ۔۔(علم  و العلم )علم سے مراد عمومی علم ہے جو حواس ،عقل اور وجدان سے حاصل ہوتا ہے جبکہ العلم  خصوصی علم ہے جو علم الوحی سے حاصل ہوتا ہےان دونوں کو ملا کر انسان کے لیے ہدائت بنتی ہے
۱۔علم کا اصل ذریعہ اللہ ہے
                    قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنۡدَ اللہِ ۪ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۲۶
تم فرماؤ یہ علم تو اللّٰہ کے پاس ہے اور میں تو یہی صاف ڈر سنانے والا(سورہ الملک:۲۶)
۲۔اللہ نے انسان کو تھوڑا عطا کیا۔
      وَ یَسْـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیۡ وَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الْعِلْمِ
 اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۵
ترجمہ:اور تم سے روح کو پوچھتے ہیں تم فرماؤ روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور تمہیں علم نہ ملا مگر تھوڑا  
(بنی اسرائیل:۸۵)
۳۔انسان کو جاننے کے لیے عطا کیا۔
وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۶۰﴾٪اور جان رکھو کہ اللّٰہ غالب حکمت والا ہے(البقرۃ:۲۶۰)

۴۔انسان کو متاثر کرنے کے لیے اور  اس کی سہولت کے لیے  علم عطا کیا
                         ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوۡنَ ﴿٪۶۱
              ترجمہ:  اللّٰہ یونہی بیان فرماتا ہے تم سے آیتیں کہ تمہیں سمجھ ہو (سورۃ النور:۶۱)

علم الوحی کی برتری ۔۔علم الوحی باقی ذرائعوں سے زیادہ درج ذیل خصوصیات کی بنا پر معتبر ہے
۱۔غیر مادی اور منفردہے
۲۔یہ خالص اور اصلی ہے
۳۔شک و شبہ دے بالا تر ہے
۴۔قدیم اور ابدی ہے
۵۔تضاد سے پاک ہے
۶۔آفاقی اور جامع ہے
۷۔قابل عمل اور آزمایا ہوا ہے
                      








 مصادر و مراجع
۱۔اسلام ایک عالمگیر دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے از   علامہ شمس الرحمان آسی
۲۔مذہب اور انسانی زندگی  (آرٹیکل) از   پروفیسر ڈاکٹر مستفیض علوی صاحب
۳۔کتاب التوحید    از     مولانا  طاہر القادری جلد،۱
۴۔اسلام اور مذاہب عالم   از  اسرار الرحمن بخاری ۔ایورنیو بک پیلس لاہور

۵۔تعارف مذاہب عالم   از    ایس ایم  شاہد  ۔ ایورنیو بک پیلس لاہور

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر