اشاعتیں

2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

قائداعظم اور میرا آرٹیکل

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین رومیصہ نے ایک نظر کلینڈر پہ ڈالی جو پچیس دسمبر کی نوید سنا رہا تھا۔اف پھر بھول گئی۔۔۔اس نے سر پہ تاسف سے ہاتھ مارا اور احسن کو اٹھانے کے لئے دوڑی جو کہ پچھلے دو گھنٹوں سے ٹیب پہ کارٹون دیکھنے میں مصروف تھا۔۔اف یہ بچے بھی نا ہر چیز بھلا دیتے ہیں۔اچھا بھلا یاد تھا کہ قائداعظم پہ آرٹیکل لکھ کے بھجوانا ہے۔۔۔مگر بھول گیا،اس کا افسوس کم ہونے میں ہی نا آ رہا تھا۔اس نے نو نومبر پہ بھی قبال کمپیٹیشن ون کیا تھا۔جس سے اس کے حوصلے مزید بڑھ گئے،ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے فیس بک پہ منعقد ہونے والے مقابلہ مضمون نویسی میں پہلی پوزیشن حاصل کی،علامہ اقبالؒ جسے وہ مرشد کہتی تھی۔اب قائد اؑظم ڈے پر بھی مقابلہ منعقد ہونے جا رہاتھا۔۔۔جسے وہ بھول گئی۔۔۔۔۔ اماں آج تو آفیشلی چھٹی ہے میں نے نہیں پڑھنا۔احسن کب سے ضد لگائے بیٹھا تھا کہ وہ آج کی تاریخ میں کتاب کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔رومیصہ کو ایک تو آرٹیکل نہ لکھنے کا قلق تھا دوسرا احسن کی ضد،اس کی ٹیویشن والی ٹیچر نے انفارم کیا تھا کہ وہ  لکھائی پہ زیادہ فوکس نہیں کر پا رہا،لہذا اس پہ توجہ دی جائے۔۔۔۔سوچا دسمبر کی چھٹی

الکیمسٹ …دنیائے ادب کا شاہکار

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین لاہور الکیمسٹ  دنیائےادب کا وہ شاہکار ہے۔جس کی مقبولیت میں ہر گزرتے دن کے  ساتھ ساتھ روزافزوں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔اسے برازیل کے ایک ادیب پاولو کوئیلو نے   صرف دو ہفتوں میں مکمل کیا۔اس کے چھپتے ہی اس نے مقبولیت کے ریکارڈ بنانا شروع کر دیے۔اس کا دنیا کی تمام زبانوں میں ترجمہ ہوا  اور اس نے فروخت کے نئے ریکارڈ  قائم کیئے۔اس کی 43 ملین کاپیاں 155 ممالک میں فروخت  ہوئیں  اور اسے پرتگیزی زبان کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ناول تسلیم کرتے ہوئے گنیز بک آف ورلڈ میں شمار کیا گیا۔ پاولو کوئیلو  کی یہ عظیم داستاں ایک اندلسی گدڑیے کے اردگرد گھومتی ہے۔جو اندلس کے میدانوں سے شروع ہو کر افریقی ریگستان   میں چکر کاٹتی اہرام مصر میں   کمال کو پہنچ کر اندلس میں ختم ہو جاتی ہے۔ پاولوکوئیلو  ایک پر امید  اور باہمت انسان ہے۔ اس نے دنیا کو امید بانٹنے   پر اکسایا ۔اور ایک حکایت کی شکل میں کامیابی کے راستے کی رکاوٹوں کو بڑے سہل انداز میں سمجھایا ہے۔اس کا فلسفہ ہے کہ کامیابی کی سب سے بڑی رکاوٹ  قوت یقین میں کمی ہے۔ انسان کو اپنے اندر سے ہر طرح کے خوف ختم کر دینے چاہیے۔خ

مسیحا ئی

تصویر
رات کا تیسرا پہر بیت رہا تھا۔۔۔اسفند کا میڈیکل کا پیپر  تھا۔۔۔سو وہ دلجمعی سے پڑھائی میں مگن تھا۔۔۔میڈیکل کا آخری سال اور آخری ہی پیپر تھا۔۔۔۔من پسند فیلڈ میں ڈگری لینے کا اپنا ہی مزہ ہوتا۔۔۔پیشن اور پروفیشن ایک ہو تو اس سے بڑی کوئی عیاشی نہیں۔۔۔۔اسفند  نے یہی سوچ کر میڈیکل کو چنا تھا۔۔میڈیکل اس کا خواب ہی نہیں جنون بھی تھا۔۔۔۔۔جو مکمل ہو نے جا رہا تھا۔اس کے خواب کو تعبیر ملنے والی تھی۔۔۔سو وہ بہت مطمئن تھا۔ اف یہ لائٹ نے بھی ابھی ہی جانا تھا۔۔اسفند بڑبڑایا۔۔۔اس  نے گرمی اور حبس سے بچنے کے لیئے کھڑکی کھول دی۔۔۔۔اس کا  روم ہوسٹل   کی تیسری منزل پہ تھا۔۔۔سو تازہ ہوا کا جھونکا اس کی طبیعت ور اعصاب کو فریش کر گیا۔۔۔۔کتاب بند کر کے وہ رات کے فسوں میں کھو سا گیا۔۔۔اس قدر خوبصورت منظر۔۔۔۔۔ٹھنڈی ہوا۔۔۔۔پرندوں کی چہچاہٹ۔۔۔۔لگتا تھا جیسے مدھر سروں میں دنیا کی خوبصورت ترین موسیقی بج رہی ہو۔۔۔۔وہ مسحور ہو گیا۔۔۔۔پرندے اپنی اپنی زبان میں اللہ کی حمدو ثناء میں مشغول تھے۔۔۔۔وہ  بڑے شوق اور جذب سے رات کے اس منظر سے لطف انددوز ہو رہا تھا کہ یکایک موذن کی صدا بلند ہوئی &q

کیا انسان ایلین ہے؟

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین جدید ریسرچ پر مبنی ایک خوبصورت کہانی۔۔۔۔ سورج واپسی کے لیئے عازم سفر تھا۔۔۔شام اپنے  پر پھلا ئے آنے کو بے تاب تھی ۔درخت  چرند پرند  سب خاموش تھے۔۔۔۔ڈاکٹر ونسٹن اپنے گھر کے سامنے  واقع پارک میں  بیٹھا   کسی سوچ میں گم تھا۔۔۔وہ ایک کامیاب سائنس دان تھا۔۔۔سب کچھ تھا اس کی زندگی میں۔۔۔پھر بھی کبھی کبھی اس پر اداسی کا دورہ پڑتا جو کئی دنوں تک طاری رہتا۔۔۔۔اس کے دماغ میں عجیب  وغریب سوال سر اٹھانے لگے۔۔جنھیں وہ جھٹک دینا چاہتا تھا۔۔۔وہ جتنا ان سوالوں کو نظر انداز کرتا وہ اتنا ہی شو ر مچاتے۔۔۔۔اسے اپنی نئی  ریسرچ  کے لیئے موضوع  چاہیئے تھا۔۔۔۔کوئی  انوکھا اور اچھوتا موضوع ۔۔۔۔آج بھی ڈاکٹر ونسٹن پر اداسی طاری تھی۔۔۔۔وہ پارک میں آبیٹھا۔۔۔اس کے سامنے سے ایک لڑکی  اپنی پالتو بلی کے ساتھ واک کرتے دکھائی دی۔۔۔ڈاکٹر ونسٹن نے اپنی نظریں ان دونوں کی ٹانگوں پر جما دی۔۔۔۔۔اور پر سوچ انداز میں قدم  گھر کی طرف بڑھا دیئے۔۔۔۔ڈاکٹر ونسٹن کو اپنی نئی تحقیق کے لیئے موضوع مل چکا تھا۔۔۔ ونسٹن جو کہ ایک سائنسدان ،محقق ،مصنف اور امریکہ کا نامور ایکالوجسٹ (Ecologist) تھا۔

اسلام میں ساس اور سسر کے حقوق

تصویر

مہلت نہیں ملتی۔۔۔رمضان سپیشل

تصویر
اس  دفعہ  پورے روزے اور پوری نمازیں۔۔۔مدیحہ  نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔مدیحہ حیات     نے زندگی کے سارے مزے لوٹے۔۔بچے پیدا کیئے،جوان  ہوئے،شادیاں کیں۔۔۔نوکری کی۔۔۔بس ایک کمی تھی جس کی خلش گاہے بگاہے سر اٹھایا کرتی تھی ۔اب  ریٹائر  ہوگئی تو سوچا کیوں نا  اس کمی اور خلش کو بھی دور کر لیا جائے۔۔۔اسی خوشی میں رمضان کی تیاریوں میں مصروف تھی۔۔۔رمضان میں کچھ ہی دن باقی تھے۔۔۔۔سوچا عید کی شاپنگ بھی کر لی جائے پھر تو رمضان  میں جایا نہیں جائے گا۔۔۔۔اسی سلسلے میں آج  اچھرہ  آ گئی۔۔۔۔واپسی پہ ویگن حادثے  میں مدیحہ حیات  کا سفرحیات تمام ہوا۔

استقبال رمضان

تصویر
شعبان کےآخری دن تھے جب اماں نے کمر کس لی۔۔۔۔سارے گھر کو صاف کیا جا رہا تھا۔۔۔ہر کونہ کھدرا چمک رہا تھا۔۔۔نئی بیڈ شیٹس بکسوں سے نکالیں گئیں۔۔۔۔کشن  بدلے گئے۔۔۔۔جو بھی دیکھتا حیراں رہ جاتا۔۔۔اماں ابھی  سےعید کی تیاری شروع۔۔۔ابھی تو  ایک ماہ پڑا ہے،عبداللہ نے ماں کو  بے تحاشہ کام کرتے دیکھا تو حیرانی  سےسوال کیا۔۔۔۔اماں نے ایک کان سے سنا اور دوسرے سے اڑا دیا۔۔۔اور  پھر سےاپنے کام میں مشغول ہو گئیں۔۔۔۔مجھے لگتا باجی کو کوئی دیکھنے آ رہا۔۔جبھی اماں اتنے دل و جان سے صفائی میں مصرو ف ہیں۔۔۔۔حنا نے  بھی اپنی عقل کے  گھوڑے  دوڑائے۔۔۔۔۔پر  نہ جی۔۔۔لگتا کوئی خاص بات ہے جو اماں بتائے نہیں دے رہیں۔۔

قاسم علی شاہ۔۔میرا مرشد و راہنما

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین قاسم علی شاہ  میرا مرشد بھی ہے محسن  اور راہنما بھی۔۔۔۔کچھ سال پہلے کی بات ہے۔میں ایک سنگین بیماری کا شکار تھی۔کچھ بیماریاں جسمانی نہیں روحانی ہوا کرتی ہیں۔اور روحانی بیماریاں   جسمانی بیماریوں سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔میں بھی روحانی بیماری میں مبتلا تھی جس کا نام "نا شکری"ہے۔اللہ گواہ ہے کہ میں نے صبر بہت  کیا۔پر کیا کروں اس دل کا جو ناشکری پہ تل بیٹھا تھا۔میرے ابو کی ڈیتھ ہوئی ۔۔بہت سمجھایا دل کو کہ یہی قادرمطلق کا فیصلہ ہے پر دل سے آواز آتی ہی نہ تھی۔۔۔۔اسی گومگوں میں زندگی چل رہی تھی کہ میری زندگی میں ایک سر  قاسم علی شاہ  آئے۔۔۔انٹرنیٹ سے شناسائی ہوئی۔لیکچر سننا شروع کیئے۔۔ان کا ایک لیکچر اٹھایا  جو نو قسم کی ذہانتوں پر مشتمل تھا۔۔۔لکھا اور ہماری ویب کو بھیج دیا۔۔انہوں نے  پبلش کیا جسے کافی لوگوں نے سراہا ،میں نے وہ لنک سر کو بھیج دیا۔۔۔انھوں نے میری نہ صرف تعریف کی بلکہ اپنے لیکچر ز کوکتابی صورت میں ڈھالنے کی جاب بھی دے ڈالی۔۔اس دوران اان کو بہت  سننے کا موقع ملا۔،بہت کچھ سیکھا۔۔۔۔۔بہت سی الجھنیں اور گرہیں  کھلیں۔۔زندگی جو بہت مشکل لگتی تھی

مائیں نیں آنگن تیرا۔۔

تصویر
مائیں نیں آنگن تیرا۔۔    بے غیرتوں   اب بس بھی کر دو کب سے ٹیں ٹیں لگا رکھی ہے۔امی کی آواز سے عائشہ اور فریحہ کی آوازوں کو بریک لگا دیئے جو کچن میں    کسی مسئلے   پہ توں توں میں   مصروف   تھیں۔ایک دن   آئے گا تم   لوگ ایک دوسرے کی شکلوں کو ترسو گے۔۔۔۔امی   شروع ہو چکی تھیں۔۔۔اور فریحہ جو گھر بھر میں زبان دراز تھیں جواب دینا ضروری سمجھا۔۔۔۔میں اور ان کی شکلیں دیکھنے کو ترسوں گی۔۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔ادھر فریحہ نے جملہ پورا کیا اور ادھر امی کا جوتا   فریحہ کا نشانہ لے چکا تھا۔۔۔۔۔اس نے چونک کے ادھر ادھر دیکھا۔۔۔نہ عائشہ اور فریحہ کی آوازیں تھیں اور نہ ماں   کا آنگن۔۔۔۔کچھ پل لگے تھے اسے واپس آنے میں۔۔۔۔ عورت کی زندگی بھی کیا عجیب چیز ہے۔۔۔۔ماں باپ کے گھر ہو تو شکایتیں ختم نہیں ہوتیں۔۔۔زرا بڑی ہوتی ہیں تو شادی کی فکر دامن گیر ہو جاتی ہے۔اور زرا شادی لیٹ ہوئی نہیں اور وظیفے شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔۔بہن بھائی   یہاں تک کے والدین تک برے لگنے لگتے ہیں۔وہ سارے پل وہ سارے لمحے جو بہن بھائیوں کی سنگت میں گزارنے   کے لئے ملے ہوتے ہیں۔عجیب ٹینشنوں کی نظر ہو جاتے ہیں۔پھر لیٹ ہی سہی ماں کے آنگن سے د

غلامی کی جدید سائنس

تصویر
غلامی کی جدید سائنس تحریر:روبینہ شاہین کہا جاتا ہے کہ تاتاریوں نے جب بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو   ایسی مثالیں دیکھنے کو ملیں کہ عقل دنگ رہ گئی۔۔۔۔کوئی نہتا تاتاری اگر کسی مسلمان کو دیکھ لیتا تو کہتا تم یہی رکو میں زرا تلوار لے آؤں۔۔اور جب تک وہ واپس آتا تو مسلمان وہی کھڑا انتظار کر رہا ہوتا۔۔اس سے بھی آگے ایک قدم ملاحظ کیجئے۔۔  جب امریکہ کو پاکستان نے خود اڈے دیئے اور کہا آیئے جناب !ہمارے ہی سر اور ہمارے ہی جوتے۔۔۔۔ ڈینگہ ضلع گجرات کا ایک شہر ہے جو دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان واقع ہے۔۔لفظ ڈینگہ اصل میں "دین گاہ"تھا۔انگریز جب اس علاقے میں آئے تو دین گاہ بولنا مشکل تھا سو ان کی زبانوں پہ ڈینگہ رواں ہو گیا۔یہ تو تھا اس وقت  کی وجہ جس کی بناء پر دین گاہ کو ڈینگہ بولایا جانے لگا۔مگر قابل توجہ یہ بات ہے کہ انگریز کو پون صدی گزر چکی اس ایریا سے گئے ہوئے۔ہم ابھی بھی اسے ڈینگہ ہی بولتے ہیں۔۔ شاید زہانت کی طرح غلامی میں بھی درجہ بدرجہ ارتقاء ہوتا رہا ۔۔۔۔غلامی کا تعلق ہمارے دل اور دماغ سے ہے۔انسانی نفسیات بتاتی ہے۔جب بھی قوموں کو شکست دی گئی۔۔۔سب س

مسئلہ کشمیر اوراتحاد امت

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین مسئلہ کشمیر ایک گھبیر مسئلہ ہے۔جو پچھلی پون صدی سے امت مسلمہ کے سامنے  نہ  صرف سوالیہ نشان ہے بلکہ ایک طمانچہ ہے۔یہ ایک  طے شدہ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل ہونا جنوبی ایشیاء کے امن کے لئے انتہائی ضروری ہے۔مقبوضہ کشمیر میں آئے روز  نت نئے مظالم کی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ہندوستان  اپنی پوری طاقت سے کشمیریوں کے صبر کو آزما رہا ہے۔مگر عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ مسئلہ کشمیر سیاسی سطح پر پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔البتہ غیر سیاسی جماعتیں اپنے طور پر جہا د کر رہی ہیں مگر اس کے باوجود کوئی حل  نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔پوری دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہیں۔پاکستان،افغانستان اور عراق و شام وغیرہ  کو ایسی ایسی گھمن گھیریوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ ان کو اپنی اپنی پڑی گئی ہے۔ایسے میں مسئلہ کشمیر  کون دیکھے؟ جہادی تنظیمیں اپنے طور پر جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں۔مگر  اس کے نتائج خاطر خواہ نہیں۔۔۔۔کشمیری عوام  پس رہی ہے ظلم و بربریت کے ہاتھوں۔۔۔۔  معتبر علماء کی رائے کے مطابق جہاد وہی معتبر جو ریاست کے زیرنگرانی ہو۔جہاد انفرادی بھی کم بڑی خدم