خاتمہ بالخیر کی تمنا اور ہمارے اعمال
واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ آنکھیں کھلتی تب ہیں جب ہمیشہ
کے لیے بند ہوجاتی ہیں۔موت ایک حقیقت ہے اٹل حقیقت۔۔۔موت سے ڈرنا نہیں چاہیئے بلکہ اس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ وہ
آئے گی کس حال میں؟ویسے تو ہم میں سے ہر مسلمان کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ
بالخیر ہو،مرتے وقت کلمہ نصیب ہومگر کیا ایسا ہوتا ہے اگر ہوتا ہے تو کیوں؟اور اگر
نہیں ہوتا تو اس کی وجہ کیا ہے؟وہ کونسے اعمال ہیں جو ہمیں خاتمہ بالخیر کی طرف لے
جاتے ہیں اور وہ کون سے اعمال ہیں جو خاتمہ بالخیر سے دور کرتے ہیں۔چار عملی
مثالوں سے اس حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے۔کیونکہ خاتمہ بالخیر ہی
ہمارے جنتی ہونے کی علامت ہے۔
شمالی علاقہ جات کی سیر پہ جانے والا ایک نوجوان بتاتا ہے
کہ اسے حادثہ پیش آ گیا۔اس کی گاڑی ایک
ڈھلوان سے لڑک کر کھائی میں جا گری۔وہ اپنے اس واقعے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے
لکھتا ہے کہ جب میری گاڑی لڑھکی تو مجھے
ہر بات یاد آئی،عزیز رشتے دار وہ سب جن کو میں کھونا نہیں چاہتا تھا۔مگر عجیب بات
یہ ہوئی کہ مجھے کلمہ یاد نہ رہا۔حالانکہ اس سے پہلے میں کہا کرتا تھا اور میرا
نظریہ بھی یہ تھا کہ کلمہ مرتے وقت یاد نہیں آنا تھا تو کب آنا؟اس واقعے نے میری
آنکھیں کھول دیں ۔
دوسرا واقعہ ایک ڈاکٹر نے بتایا وہ کہتی ہیں کہ ہمارے پاس
آئی سی یو میں ایک ٹرک ڈرائیور شدید زخمی حالت میں لایا گیا۔ہم لوگ اس کو ریسکیو
کر رہے تھے کہ اچانک اس نے کہا کہ کوئی کلمہ پڑھے۔مجھے یاد نہیں آرہا،اس کے پاس
سٹاف کے علاوہ دو لڑکے بھی موجود تھے۔مگر کسی نے اس کی بات پہ دھیان نہیں دیا،اس
نے تقریبادس بار اس خواہش کا اظہار
کیا،آخر میں اس نے نرس کی کلائی پکڑ کر
کہا کہ کیا آپ مسلمان نہیں ہیں؟نرس نے سمجھا وہ اسے تنگ کرنے کے لیے ایسا کر ہا ہے
اس نے کلائی چھڑوا لی۔اس نے دوبارہ کہا مجھے لگتا آپ واقعی مسلمان نہیں ہیں۔اور اس
کی جان نکل گئی۔ڈاکٹر بتاتی ہے کہ اس واقعے نے مجھے ششد کر دیا۔آج تک نہ وہ مریض
بھولتا ہے اور نہ اس کی خواہش۔۔اور نہ ہمارا طرز عمل کہ کسی نے اس کے سامنے کلمہ
نہیں پڑھا،جہالت کی انتہا ہے۔
ایک پوتی نے یہ واقعہ سنایا کہ اس کی دادی کی اچانک طبیعت
خراب ہوگئ اور وہ ہسپتال لے جائینگی۔جس دن
ان کی طبیعت خراب ہوئی اس دن انہوں نے ہماے گھر آنا تھا انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا
تھا۔ہسپتال میں وہ بار بار کہتیں کہ میں نے تو وعدہ کیا تھا اور مجھے جانا ہے۔وہ بڑی اللہ والی
اوروعدے کی بڑی پابند تھیں سو آخری وقت میں بھی ان کو یہی فکر لگی رہی۔ان
پر بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے مگر ان کو
یہ غشی اپنی طہارت اور اللہ کی یاد
سے غافل نہیں کر رہی تھی۔جب موت کا وقت آیا انہوں نے استغفار بھی پڑھی اور
کلمہ بھی۔۔۔۔
ایک اور سٹوڈنٹ نے بتایا کہ اس کے دانت کا اپریشن تھا وہ
آپریشن تھیٹر میں لائی گئیں تو خیال آیا اللہ جانے ہوش میں آنا بھی ہے کہ نہیں سو کلمہ پڑھ لوں۔وہ
لڑکی حیران رہ گئی جب اسے کلمہ یاد نہ رہا۔کہتی ہے کہ میں اس خوف سے سفید پڑ گئی
کہ مجھے کلمہ یاد نہیں آرہا تھا۔کہتی ہیں کہ میری عادت تھی یا حی یا قیوم کثرت سے
پڑھا کرتی تھی۔پھر میں نے وہ پڑھا۔اس کے پڑھتے ہی مجھے کلمہ آ گیا۔یعنی جو چیز
ہمارے روزمرہ اعمال کا حصہ ہوتی ہے وہ شدید خوف کی حالت میں
بھی ہمیں یاد رہتی ہے۔
چار مختلف طرز عمل ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ خاتمہ
بالخیر کا دارومدارہمارے اعمال پر ہے۔جو کام ہمارے معمول کا حصہ ہوتا ہے وہ
ہمیں یاد رہتا ہے اور جو نہیں ہوتا وہ نہیں رہتا۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا خاتمہ
بالخیر ہو تو ہمیں کلمہ طیبہ کو اپنا معمول بنانا ہوگا۔نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ
سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ آخری وقت کا دارومدار ہمارے ساری زندگی میں کیے گئے
اعمال پر ہے۔ایک اور چیز جو قریب المرگ
شخص کے پاس موجود لوگوں کا طرز عمل
بھی واضح کرتی دکھائی دیتی ہے کہ لوگ دین
اور اس کی تعلیمات سے اتنے بے بہرہ ہیں کہ مرتے ہوئے آدمی کی خواہش تک پوری نہیں
کر سکتے۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ قبر میں جب فرشتے پوچھیں گے کہ تم کسی نبی کی امت سے ہو
اور تمہارے نبی کا نام کیا ہے تو جو منافق
ہوں گے وہ بھول جائیں گے ان کو کچھ یاد نہ رہے گا۔حالانکہ وہ کلمہ گو ہوں گے۔منافق
کون ہے؟بقول قرآن کے جو نہ ادھر ہوتے ہیں نہ ادھر ،درمیان میں بھٹک رہے ہوتے
ہیں۔حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے منافق وہ ہے جو بات کرے تو جھوٹ بولے ،جو وعدہ کرے تو
پورا نہ کرے،جس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ خیانت کرے اور جب لڑائی کی جائے
تو گالیاں بکے۔(واضح رہےاس حدیث کی چاروں باتیں ڈائریکٹ ہمارے اعمال سے تعلق
رکھتیں ہیں۔)
اللہ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اس کے نام
لیوا بنیں تاکہ ہمارا خاتمہ بالخیر ہو سکے۔آمین
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں