اشاعتیں

دسمبر, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دکھ پھولوں تک آ پہنچا ہے

تصویر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دکھ گوتم تھا دکھ جنگل تھا، ہریاول تھا  دکھ بارش تھا، دکھ بادل تھا دکھ دریا تھا دکھ برگد تھا دکھ سایہ تھا دکھ شانتی تھا دکھ جسم اور روح کا سنگم تھا جب تک گوتم تھا، دکھ کم تھا اب جو دکھ ہے، بھاری ہے دکھ بھاری ہے بستوں اور کتابوں سے تاریخ کے پنوں سے، تہذیب کے ابوابوں سے دکھ ہم سے بھاری ہے دکھ گوتم سے بھاری ہے دکھ جاری ہے، دکھ طاری ہے دکھ گہرا ہے دکھ گنجان ہُوا ہے دکھ پھولوں تک آ پہنچا ہے دکھ بچوں تک آ پہنچا ہے ! ( نصیر احمد ناصر )

غصہ

ایک بچہ بہت بدتمیز اور غصے کا تیز تھا۔ اسے بات بہ بات فوراً غصہ آجاتا ، والدین نے اس کنٹرول کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے، ایک روز اس کے والد کو ایک ترکیب سوجھی اس نے بچے کو کیلوں کا ایک ڈبہ لا کے دیا اور گھر کے پچھلے حصے کے پاس لے جا کر بیٹے سے کہا، بیٹے جب تمہیں غصہ آئے اس ڈبہ میں سے ایک کیل نکال کر یہاں دیوار میں ٹھونک دینا پہلے دن لڑکے نے دیوار میں 37کیلیں ٹھونکیں۔ ایک دو ہفتے گزر نے کے بعد بچہ سمجھ گیا کہ غصہ کنٹرول کرنا آسان ہے لیکن دیوار میں کیل ٹھونکنا خاصا مشکل  کام ہے۔ اس نے یہ بات اپنے والد کو بنائی، والد نے مشورہ دیا کہ جب تمہیں غصہ آئے اور تم اسے کنٹرول کرلو تو ایک کیل دیوار میں نکال دینا۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور بہت جلد دیوار سے ساری کیلیں جن کی تعداد سوسے بھی زیادہ ہوچکی تھیں ، نکال دیں۔ کام ہے۔ اس نے یہ بات اپنے والد کو بنائی، والد نے مشورہ دیا کہ جب تمہیں غصہ آئے اور تم اسے کنٹرول کرلو تو ایک کیل دیوار میں نکال دینا۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور بہت جلد دیوار سے ساری کیلیں جن کی تعداد سوسے بھی زیادہ ہوچکی تھیں ، نکال دیں۔ باپ نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور اس دیوار کے پ

نیا سال نئے عزائم۔۔

تصویر
نیا سال جہاں   بہت کچھ لے جاتا ہے   وہاں بہت سے سپنے اور عزائم بھی لے کر آتا ہے۔انسان کی زندگی میں پانا اور کھونا لگا رہتا ہے۔بہت سے دوست   عزیز اس سال آپ سے بچھڑے تو بہت سے ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے آپ کی زندگی میں قدم رکھا۔انسان کی زندگی برف کی طرح لمحہ بہ لمحہ پگھل رہی ہے۔امام شافعی ؒ کے بقول کہ میں نے زندگی کا سبق ایک برف بیچنے والے سے سیکھا جو صدا لگا رہا تھا کہ لے جاو میرا سرمایہ گھلا جا رہا ہے۔۔نئے سال کی آمد پر کچھ فیصلے کیجئے اپنی زندگی میں کامیابی کے،اور صرف سوچنا نہیں ان کو لکھنا بھی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق جو فیصلے لکھ لیئے جائیں ان فیصلوں کی نسبت جو نہیں لکھے جاتے ستر گناہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ نئے سال پہ جو چیز بہت اہم ہے وہ یہ کہ آپ کی زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہے۔شعوری قدر کرے اس وقت کی جو آپ کے ہاتھ میں ہے کیونکہ جب تک سانسیں باقی ہیں آپ کا مشن باقی ہے جس کی تکمیل کے لیئے آپ کو دنیا میں بیجھا گیا ہے۔ لمحہ وقت کی قدر کیجئے،اس میں لطف اندوز ہونا سیکھئے۔۔اس میں کوالٹی ڈالیئے۔۔وقت ہی زندگی ہے۔سورت العصر میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اہمیت کا احساس اجاگر کیا گیا ہے

"ذمہ دار کون۔۔؟"

تصویر
(آپ موسی ٰؑ کی صف میں ہیں کہ فرعون کی صف میں۔۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں) اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک جس چیز کو سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے وہ اسلام ہے۔ہر ایرا غیرا نتھو  خیرا اپنی علمیت جھاڑنے کے لیئے اسلام پہ اعتراضات اٹھاتا ہے۔علمائے حق کسی بھی دین کے علمبردار اور اس کو لے کر چلنے والے ہوتے  ہیں۔ہمارے ہاں کوئی کچھ بھی کر لے۔۔ریمنڈ ڈیوس کو معاف کر دو اسے  بھگا دو مگر ملاں کو نہیں کیونکہ اس کا نام اسلام سے جڑا ہے۔یہ سچ ہے کہ اچھے برے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں مگر صرف ملوی حضرات پر چڑھ دوڑنا اور ان کی مذمت میں مساجد تک کو شہید کرنے کی باتیں کرنا  نر گسیت ہی نہیں اسلام سے اعراض  ہے۔پاکستان کی تاریخ میں آج تک کوئی مولوی ملک کا صدر اور وزیراعظم نہیں بنا مگر الزام ملاں اور مولوی پر،بلکہ کسی بہت بڑے ادارے کا سر براہ بھی نہیں بنا،ملک کے سب فیصلے مونچھوں والوں نے کیئے،ملک کو دو لخت بھی انہی ٹائی کوٹوں والوں نے کیا ،مگر الزام پگڑی والوں پہ کہ ملاں نے کیا۔سانحہ پشاور کی رد عمل میں جن لوگوں کو پھانسی دی گئی وہ کون تھے ۔۔؟ایک سزائےموت پانےوالاڈاکٹرعثمان میڈیکل کورمیں اسسٹنٹ اوردوسرا نائ

سنا ہے کل

جنّت میں سہمے ہوے ١٣٠ پرندوں کا غول کہیں سے اڑ کر آیا اور درختوں کی شاخوں پر خاموشی سے بیٹھ کر بچھڑے ہووں کو یاد کرنے لگے سنا ہے کل یزید، ہٹلر، فرعون اور چنگیز خان دوزخ میں گلے لگ لگ کر روے سنا ہے کل شیطان نے اپنے بچوں کوأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الانسان پڑھنےکا سبق دیا سنا ہے کل شہروں کے قریب رہنے والے درندے رات بھر اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے پہرا دیتے رہے سنا ہے کل باغوں کی سبھی کلیوں نے  کھلنے سےیکسر انکار کر دیا سنا ہے کل طاقوں میں سجے تمام چراغ جلتے بھی رہے جلاتے بھی رہے مگر اندھیرا نہ چھٹا سنا ہے کل سے پہلے زندگی موت سے ڈرتی تھی مگر اب موت زندگی سے ڈرتی ہے سنا ہے کل منبر پر بیٹھ کر شریعت کا پرچار کرنے والے ملا نے الله اکبر کا نعرہ لگایا سنا ہے کل اسرافیل نے صور پھونک دیا مگر دنیا میں رہنے والے اسے سن نہ سکے سنا ہے کل آدم کو سجدہ کرنے والے فرشتے کچھ شرمندہ، کچھ پشیمان سے تھے سنا ہے کل فرشتوں نے خدا سے پھر پوچھا" تو اسکو خلیفہ بنانا چاہتا ہے جو دنیا میں فساد کرے گا اور خون بہاے گا " سنا ہے کل خدا نے پھر کہا " میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے "

لمحہ عمل آن پہنچا۔۔۔

تصویر
(سانحہ پشاور۔۔۔۔ظلم،سفاکیت کی عظیم داستاں) پاکستان کی فضاؤں میں دکھ کے بادل چھائےٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ ہیں ۔خوف اور تاریکی کے سائے گذشتہ سات سال سے اس دھرتی پر سایہ فگن ہیں ۔سانحہ پشاور ایک ایسا الم ناک حادثہ ہے جو تاریخ میں ہمیشہ رستا رہے گا۔بچوں کا قتل کسی بھی معاشرے میں مذموم سمجھا جاتا ہے۔۔دین اسلام جو امن کا داعی   ہے اس میں کافروں کے بچوں کو بھی قتل سے منع کیا گیا ہے۔کیونکہ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری مذہبی تعلیمات میں بھی بچوں کے ساتھ شفقت  کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔حدیث مبارکہ ہے کہ جو بچوں سے محبت نہیں کرتا اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا ،وہ ہم میں سے نہیں ہے۔قرآن مجید فرقان حمید نے عرب قوم کی سفاکی اور جاہلیت کا واقعہ کہ وہ بٹیوں کو زندہ درگو کر دیا کرتے تھے۔کو    بیان کیا ہے ۔آیت مبارکہ ہے بای ذنب قتلت۔۔اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس بیٹی سے ڈائریکٹ سوال کرے گا کہ تو کس جرم میں قتل کی گئی۔قاتل سے نفرت کی انتہا ہے۔اللہ اس سے پوچنا بھی گوارا نہیں کرے گا۔ پاکستان کی تاریخ  حادثوں اور واقعات سے بھری  پڑی ہے۔۔مگر اتنا الم ناک حادثہ کم ہی دیکھنے میں آیا۔۔۔

دستور‘‘

تصویر
دستور‘‘ سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں‌کرتا سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے تو ندی کی روپہلی مچھلیاں‌اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں‌ تو مینا اپنے گھر کو بھول کر کوےکے انڈوں کو پروں‌سے تھام لیتی ہے سناہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گر ے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے ندی میں باڑ آجائے کوئی پُل ٹوٹ جائے تو کسی لکڑی کے تختے پر گلہری ، سانپ ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے خداوندِ جلیل و معتبر ، دانا و بینا منصف و اکبر ہمارے شہر میں اب جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر !! زہرہ نگاہ

محبت کے بارے میں ایک حیران کن دریافت

تصویر
واشنگٹن (ویب ڈیسک) محبت خود ہی ایک بیماری ہونے کے ساتھ ساتھ ہر مرض کی دوا بھی ہے، ایک امریکی یونیورسٹی میں دماغی امراض پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ محبت ہر تکلیف کا اثر زائل کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تکلیف کے دوران کسی پیارے کی تصویر یا خیال درد کا اثر مندمل کر دیتا ہے۔ 15 طلباءپر کی جانے والی اس تحقیق کے بعد سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ کسی  اپنے کے پیار کا احساس اور خیال دماغ کے اس حصے پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے جو درد کو محسوس کرتا ہے۔

نفس

نفس وہ بھوکا کتا ھے جو انسان سے غلط کام کروانے کے لئے اس وقت تک بھونکتا رھتا ھے جب تک وه غلط کام کروا نہ لے،اور جب انسان وه کام کر لیتا ھے تو یہ کتا سو جاتا ھے لیکن سونے سے پہلے ضمیر کو جگا جاتا ھے.امام غزالی رحمتہ الله.

لاء آف اٹریکشن ۔۔ایک دھماکہ خیز دریافت

تصویر
(ایک ایسی تھیوری جو آپ کو ہی نہیں آپ کی زندگی کو بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔جانیئے اور  آزمائیے) لاء آف اٹریکشن کیا ہے؟ ہم اسکی مدد سے اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ  کیسے دے سکتے؟ کیا یہ کوئی نیا قانون ہے ؟ پاکستان کے معروف ٹرینر قاسم علی شاہ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ پہلی اہم بات قانون کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ موجود ہوتا ہے۔اگر ہم اس کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے تو اس کا  یہ مطلب نہیں کہ یہ جود نہیں رکھتا۔۔مثلا کشش ثقل کا قانون ہے تو وہ ہے ہمارے جاننے نا جاننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر ہم سمجھ جاتے ہیں تو استعمال میں لا سکتے ہیں۔بالکل اسی طرح لاء آف اتریکشن موجود قانون ہے اس میں کوئی کمی اور سقم نہیں ہے۔اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لاء آف اٹریکشن بنیادی طور پریہ ہے کہ ایک جیسی چیزیں اٹریکٹ کرتی ہیں۔عملی طور پر ہوتا یہ ہے کہ جب ہم کچھ سوچتے ہیں  تو وہ احساسات پیدا کرتے ہیں جو لہروں کی صورت میں فضاء میں تحلیل ہوکر اس جیسے واقعات،حالات،اور مواقع پیدا کرتے ہیں۔ یہ کام کس طرح کرتا ہے؟ بنیادی طور پر احساسات دو طرح کے ہوتے ہیں۔مثبت اورمنفی اگر آپ کچھ بھی سوچ رہے ہ

صبر کرنا اور ہونا

تصویر
ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻧﮯ" ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺮ ﺁﺟﺎﻧﮯ" ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ      ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ... ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﺟﺒﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺁﺯﻣﺎ ﮐﺮ ﭼُﭗ ﺳﺎﺩﮪ ﻟﯿﻨﺎ ﺍﻭﻝ ﺍﻟﺬﮐﺮ ﺟﺒﮑﮧ ﺭﻭ ﺩﮬﻮ ﮐﺮ، ﺍﭘﻨﺎ ﻏﻢ ﻣﻨﺎ ﮐﺮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﻗﻠﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﻣﻮﺧﺮ ﺍﻟﺬﮐﺮ ﮐﮯ ﺯﻣﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺻﺒﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻮﺋﯽ "ﮐﺮﺗﺎ" ﮨﮯ۔ ﺻﺒﺮ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ "ﺁ" ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ