اشاعتیں

نومبر, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

آئن سٹائن اور اس کی کمال ذہانت

دنیا کا ذہین ترین انسان آئن سٹائن بچپن میں دماغ طور پر ایک کمزور انسان تھا، اُس کا سر موٹا اور زبان بولنے کی صلاحیت سے محروم تھی، بڑی مشکل سے کچھ الفاظ اٹک اٹک کر بولتا تھا جو بعض اوقات اُس کی ماں کو بھی سمجھ نہیں آتے تھے، کہا جاتا ہے کہ آئن سٹائن ’’آٹزم‘‘ کی بیماری میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ میں گم رہتا تھا اوراپنے معمولات میں کسی کی دخل اندازی پسند نہیں کرتا تھا،9 سال کی عمر تک وہ بولنے کی صلاحیت سے محروم رہا، تب اچانک ایک دن کھانے کی میز پر جب اُس کے سامنے سوپ رکھا گیا تو اُس نے سوپ کا پہلا چمچ منہ میں ڈالتے ہی کہا’’سوپ بہت گرم ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی اُس کے والدین اچھل پڑے، خوشی سے بے حال ماں نے آئن سٹائن سے پوچھا کہ ایسے الفاظ تم نے کبھی پہلے کیوں نہیں بولے؟؟؟آئن سٹائن کا جواب تھا ’’اِس سے پہلے ہر چیز نارمل تھی اس لیے میں نہیں بولتا تھا‘‘۔اُس نے دوسری شادی مالیوا نامی خاتون سے کی، اِس شادی کی دلچسپ بات وہ معاہدہ ہے جو اُس نے اپنی بیوی کے ساتھ کیا، معاہدے میں طے پایا کہ اُس کی بیوی اُس کے کپڑے اور سامان ہمیشہ صاف اور بہترین حالت میں رکھے گی،تینوں وقت کا کھانا آئن سٹائن کو

کتاب سے دوستی کیوں اور کیسے؟

تصویر
(انسانوں سے زیادہ دنیا پر کتابوں نے حکومت کی ہے) مشہور معقولہ ہے ریڈرز ہی لیڈرز ہوتے ہیں۔یہ جملہ کتابوں کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔انٹرنیٹ کی آمد سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ لوگوں کے پاس اب کتا ب پڑھنے کا وقت نہیں رہا۔حالانکہ انسانی شعور کے ارتقاء میں "کتابوں"نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔دنیا جب لکھنے کا فن سے آشنا ہوئی تو درختوں کے پتوں ،چمڑے اور پتھروں پر الفاظ کشید کر کے کتابیں لکھنے کا کا م شروع کیا۔۔۔یہی وجہ ہے کہ جوں جوں انسانی تہذیب نے ترقی کی توں توں کتاب نے بھی ارتقاء کی منزلیں طے کیں۔درختوں کی چھال سے لیکر پرنٹنگ پریس اور پھر ای بکس تک کا سفر اسی سلسلے کی داستاں ہے۔کتاب کی ابتدائی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا  کہ بعض مورخین کے مطابق دنیا کی پہلی کتاب چین میں لکھی گئی جس کا نام ڈائمنڈ سترا تھا اور بعض کا خیال ہے کہ مصر کی  "الاموات "ہے۔جو برٹش میوزیم لائبریری میں محفوظ ہے۔ کتابوں کے بارے میں بہت سے اقوال مشہور ہیں جیسا کہ لباس بے شک پرانا پہنو مگر نئی کتابیں ضرور پڑھو۔ اچھی کتاب کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ یہ ایک مشکل فن ہے مگر پریک

(اقبال کا فلسفئہ خودی۔۔قوموں کے عروج کا ضامن)

(خودی کیاہے۔۔۔؟اسے کیونکر حاصل جاسکتا ہے؟) علامہ اقبال ؒ واحد شاعر ہیں جنہوں نے "خودی کا فلسفہٗ پیش کیا۔اور انسانوں کو بتایا کہ تم تب تک آسمان کی بلندیوں کو نہیں چھوسکتے جب تک  اپنی"خودی"کو نہ پہچان لو۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خودی ہے کیا؟اقبالؒ نے کس چیز کو خودی کہا ہے؟ خودی"تلاش اور کھوج کا دوسرا نام ہے۔جس کو آج کی دنیا میں انتھروپولوجی   ( ANTHROPOLOGY )کہا جاتا ہے۔جو "انسانیات"کا علم ہے۔انسانی رویوں،اس کی چھان بین اور تلاش کا علم ہے۔جس پر انسان کےماضی ،حال اور مستقبل کا دارومدار ہے۔یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ"انسان"سوچتا کیوں ہے؟انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جس کے دل میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ میں کون ہوں اور مجھے جانا کدھر ہے؟دراصل انسان کی ساری تلاش اسی ایک سوال کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے۔دنیا کے وہ  تمام لوگ جنہوں نے کامیابیاں حاصل کیں،نام  کمایا  اور تاریخ کا حصہ بنے۔یہ وہ سارے لوگ تھے جن کا سفر میں کون ہوں سے شروع ہوا؟علامہ اقبال ؒ بھی ایک ایسے ہی مرد قلندر تھے جنہوں نے یورپ کی رنگین فضاؤں میں رہ کر اپنے آپ کو پہچانا۔۔۔      علامہ ا

میں مجاہد کو سلام بیجھا۔۔۔۔۔

تصویر