اشاعتیں

2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

لیو ٹالسٹائی۔۔۔۔ایک اسلام دوست انسان

تصویر
اس کا مذہب عیسائی تھا، لیکن اس نے اپنے کتابچے میں لکھا کہ دنیا میں اگر کوئی پیغمبر یا صالح شخص نہ بھی بھیجا جاتا اور صرف مسلمانوں کی کتاب "القرآن" موجود ہوتی تو یہ کتا ب انسانی ہدایت کے لیے کافی تھی وہ مذہبی طور پر کٹر تھا مگر زندگی کے آخری دنوں میں اس نے قرآن مجید کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل کیا 1910ء میں یہ اس قدر ہر دلعیزیز تھا کہ اس کی وفات پر اس کے سینکڑوں پرستار صر ف اس بات سے اپنی جان کھو بیٹھے کہ ٹالسٹائی نہیں رہا۔ اس کی وفات سے 20 بر س پہلے اس کے دروازے پر اس کے مداحوں کا ہجوم لگا رہتا تھا اس کی ایک جھلک دیکھنے کو لوگ مہینوں ڈیرہ ڈالتے رہتے تھے۔اس کے دوست اس کی زبان سے نکلنے والا ہر حرف شارٹ ہینڈ میں قلمبند کر لیتے اس شخص کی زندگی اور نظریات کے بارے میں کم وبیش 23 ہزار کتابچے 3 لاکھ 37 ہزار کتابیں اور 5لاکھ 6 ہزار مضامین لکھے جاچکے تھے۔ اس کی اپنی نگارشات کی 110 جلدیں ہیں ۔ وہ 4209 کمروں کی ایک شاندار حویلی میں پیدا ہوا۔ اس نے قدیم روسیوں کی طرح شاندار انداز میں پرورش پائی لیکن اپنی زندگی کے آخری دور میں قرآن مجید کی تعلیم سے متاثر ہو کروہ اپنی تمام جائ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کیوں؟

تصویر
اسلام کا مطالبہ ہے کہ ہرمؤمن کے نزدیک تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب ترین ذات ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونی چاہے ، حتی کہ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہونی چاہے اگرایسانہیں ہے تواس کاایمان خطرہ میں ہے۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ [ بخاری: کتاب الایمان:باب حب الرسول من الایمان،رقم15]۔ صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ ،اس کے بیٹے اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔ سوال یہ ہے کہ ہر مؤمن کواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت ہونی چاہئے اس کی کیاوجہ ،مرکزی وجہ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پرعمل کرنے پر آمادہ کرے ،لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ صلی اللہ کی ذات میں بھی ایسی خوبیاں موجود ہیں جوآپ صلی اللہ علیہ

کلونجی ایک خزانہ

تصویر
کلونجی کلونجی ایک قسم کی گھاس کا بیج ہے۔ اس کا پودا سونف سے مشابہ، خود رو اور تقریباََ سَوا فٹ بلند ہوتا ہے۔کلونجی کی فصل حاصل کرنے کے لیے اس کی باقاعدہ کاشت کی جاتی ہے۔ اس کے پھول زردی مائل، بیجوں کا رنگ سیاہ اور شکل پیاز کے بیجوں سے ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ انھیں پیاز کا بیج سمجھتے ہیں۔ اصلی کلونجی کی پہچان یہ ہے کہ اگر اسے سفید کاغذ میں لپیٹ کر رکھیں تو اس پر چکنائی کے داغ لگ جاتے ہیں۔ہر شاخ کے اوپر سیاہ دانے داربیج ہوتے ہیں۔ اسی بیج کے حصول کے لیے بھارت، بنگلہ دیش، ترکی، وغیرہ میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ کلونجی کے ان بیجوں کی خصوصی مہک ہوتی ہے۔ اسے ادویات کے علاوہ کھانے اور اچار وغیرہ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔غرض یہ کہ کلونجی کھانے میں ذائقہ بھی پیدا کرتی ہے اورسینکڑوں بیماریوں میں شفا بھی ہے۔ اس کے کچھ فوائد حسب ذیل ہیں۔ * کلونجی کا تیل، جوش دے کر نیم گرم سر پر لگانے سے نزلہ، زکام اور سردرد دور ہوجاتا ہے۔ * کلونجی کھانے سے بدن کی خشکی دُور ہوجاتی ہے۔ * کلونجی کا تیل بدن پر لگانے سے تل ختم ہوجاتے ہیں۔ * پانی میں پسی ہوئی کلونجی کے غرارے کرنے سے دانت کا درد

سستی اور کاہلی ۔۔اسباب و علاج

تصویر
تساہل ایک غیر محسوس بیماری اور خوش بودار نشہ ہے۔ اس سے انسان لذت لیتا ہے۔ یہ انفرادی مرض بھی ہے، معاشرتی بھی اور قومی بھی۔ اس کے اثرات بھی سخت ہیں۔ ذیل میں اس موضوع کے دو ماہرین جین بی برکا اور لینورا ایم یو آن کی کتاب ’’ procrastination ‘‘ سے ان اثرات کی فہرست دی جارہی ہے۔ ممکنہ خارجی اثرات ٭ اعتماد اور عزت میں کمی ٭ دوستوں اور اہل خاندان کے ساتھ تنازعات ٭ ساتھیوں اور ہم عصر افراد سے اختلاف و ناراضی ٭ افسر بالا سے اختلاف و ناراضی ٭ ملازمت کا نقصان یا بے دخلی ٭ سرکاری جرمانے ٭ مالیاتی نقصان ٭ حادثات یا جسمانی تکلیف ممکنہ داخلی اثرات ٭ احساس کمتری ٭ شرمندگی اور پشیمانی ٭ پریشانی ٭ یکسوئی کا نہ ہونا ٭ سرگرمیوں میں شریک نہ ہونا ٭ خود ملامتی ٭ اضطراب ٭ گھٹن ٭ جسمانی تکلیف یا بیماری ٭ تنہائی پسندی جاگتے کو جگانا ہے ہم تساہل کی اس بیماری کے باعث اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے۔ نہ آخرت کی تیاری کرتے ہیں اور نہ د نیا بناتے ہیں۔ زندگی میں ناکامی زنجیرں کی طرح پیروں کو جکڑ لیتی ہے اور حسرت اور ملامتیں مستقبل کا سامان بن جاتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سوتے کو جگانا آسان اور جاگتے کو جگان

سُستی و کا ہلی: ایکشن پلان اور تجاویز

8۔ بہترین اوقات و یکسوئی: اپنے بہترین اوقات کا جائزہ لیجیے۔ جن اوقات میں آپ بہت مستعدی کے ساتھ کام کرسکتے ہیں بس ان اوقات میں انتہائی اہم کام کیجیے۔ یہ اوقات بعض حضرات کے لیے صبح کے ابتدائی چار گھنٹے ہوتے ہیں اور بعض کے دیگر۔ اس کے علاوہ اپنے کاموں کی فہرست میں ترتیب کو بدل بدل کر کرنے کی کوشش کیجیے اور جس ترتیب میں آپ زیادہ مستعدی کے ساتھ کام کرسکیں، اس پر کار بند رہیں۔ ’’یکسوئی‘‘ کے تصور کو سمجھیے اور حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔ صبح کے اوقات کو مت ضائع کیجیے۔ فجر کی نماز باجماعت پڑھیے اور اس کے بعد وقت کو بہتر طور پر استعمال کیجیے۔ 9۔ فرصت تو مرنے کے بعد ہی مل سکتی ہے: اچھے حالات کی توقع میں کام کبھی ملتوی مت کیجیے۔ اپنے فرائض کو بھی کبھی ملتوی مت کیجیے۔ اپنے عزائم بلند رکھیے۔ ناکامی اور اندھیرے سے مت گھبرائیں۔ ستارے اندھیرے ہی میں چمکتے ہیں۔ بقول فرانس بیکن: ’’میں نے دنیا کے عظیم انسانوں کو چھونپڑوں سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ ناکامی سے مایوسی مت ہوں۔ تیمورلنگ چیونٹی کی باربار ناکامی ہی سے کام یابی کے راز سے آشنا ہوا تھا۔ 10 ۔ ہاں میں کوشش کروں گا: مشکل کاموں سے جی مت چُرائیے اور انہیں

”برمودا“کی تہہ میں دو اہرام دریافت،ماہرین حیرت زدہ

تصویر
یہ دنیا عجائبات سے سے بھرپور ہے۔ اس میں ہزاروں بلکہ لاکھوں راز ایسے بھی ہیں جن پر سے  پردہ اُٹھنا ابھی باقی ہے۔بس دیکھتے جائیں،دیکھتے جائیں ،دیکھتے جائیں ۔برمودا ٹرائی اینگل بھی ایسا ہی ایک متنازعہ راز ہے جس پر مباحثے اور غور و فکر تو بہت ہوئی مگر آج تک کوئی واضح اور مدلل جواب نہیں مل سکا۔کوئی اسے مذہب سے جوڑتا ہے تو کوئی سائنس کا شاخصانہ بتلاتا ہے،کوئی جنات کی سرزمین کہتا ہے توکسی کے نزدیک یہ بس اک افسانوی جگہ ہے۔حقیقت خواہ کچھ بھی ہوپر ہے انسانی سوچ سے بالا تر۔گو کہ قانونی طور اسکے نقشے کا کوئی وجود نہیں مگربرمودا ٹرائی اینگل بحراوقیانوس کے کل300 جزیروں پر مشتمل علاقہ ہے جن میں سے اکثر جزیرے غیر آباد ہیں اور صرف 20 جزیروں پر انسانی آبادیاں ہیں ۔اس کا جوعلاقہ خطرناک اور پراسرار سمجھا جاتا ہے اس کا شمالی سرا جزائر برمودا،جنوب مشرقی سرا پورٹوریکو اور جنوب مغربی سرامیامی ( فلوریڈا) میں ہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کہ ماہرین کے مطابق فلوریڈا کے معنی اس شہر کے ہیں جس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔فلوریڈا کے اس معنی سے اس نظریے کو بھی تقویت ملتی ہے کہ برمودا میں ہی کہیں دجال قید

اصل سکندر اعظم

تصویر
سکندر اعظم کون تھا مقدونیہ کا الیگزینڈر یا تاریخ اسلام کے حضرت عمر فاروقؓ ‘ ‘یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینا دنیا بھر  کے مو ¿رخین پرفرض ہے‘ آج ” ایس ایم ایس“ کا دور ہے‘ موبائل کا میسجنگ سسٹم چند سیکنڈ میں خیالات کو دنیا کے دوسرے کونے میں پہنچا دیتا ہے‘ جدید دور کی اس سہولت سے اب قارئین اور ناظرین بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں‘ گزشتہ روز کسی صاحب نے پیغام بھجوایا ” کاش آپ نے آج حضرت عمر فاروق ؓ پر کالم لکھا ہوتا“ یہ پیغام پڑھتے ہی یاد آیا آج تو حضرت عمر فاوقؓ کا یومِ شہادت تھا اور میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں مقدونیہ کا الیگزینڈر سکندر اعظم تھا یا حضرت عمر فاروق ؓ۔ ہم نے بچپن میں پڑھا تھا مقدونیہ کا الیگزینڈر بیس سال کی عمر میں بادشاہ بنا‘ 23 سال کی عمر میں مقدونیہ سے نکلا‘ اس نے سب سے پہلے پورا یونان فتح کیا‘ اس کے بعد وہ ترکی میں داخل ہوا‘ پھر ایران کے دارا کو شکست دی‘ پھر وہ شام پہنچا‘ پھر اس نے یروشلم اور بابل کا رخ کیا‘ پھر وہ مصر پہنچا‘ پھر وہ ہندوستان آیا‘ ہندوستان میں اس نے پورس سے جنگ لڑی‘ اپنے عزیز از جان گھوڑے کی یاد میں پھالیہ شہر آباد کیا‘ مکران سے ہوتا ہوا واپسی کا سفر شروع ک

حضرت عمر فاروق ۔۔۔۔ایک عظیم مدبر

تصویر
عمر وہ جن کو مانگا گیا،طلب کیا گیا بڑی چاہت سے ،بڑی دل لگی سے۔۔۔دربار بھی وہ جہاں سب بھکاری ہیں صرف ایک شہنشاہ۔اور مانگنے والی ہستی اگر کائنات کی سب   سے محبوب ہستی ہو تو پھر دعا مستجاب ہونے میں کیا امر مانع ہو سکتا ہے۔۔۔ دعا مقبول ٹھہری اور عمر بن خطاب عمر فاروق بن گئے۔۔حق کے علمبردار،حق کی خاطر مٹ جانے والے۔۔عظیم الجثۃ،بلند قامت  ۔۔جن کے دونوں ہاتھوں میں یکساں قوت تھی۔دانائی اور تدبر سے مرقع پیشانی  جب غصے میں آتی تو بڑے بڑے دہل جاتے ،بڑے بڑے طوفان ان کی جلالی طبیعت سے سہم کر دم توڑ جاتے،یقین اور اعتماد کی دولت سے مالا مال دوسری طرف اتنے عاجز اور مسکین انسان کہ اینٹ کا تکیہ بنا کر ننگی زمیں پر سو جاتے۔۔۔انصاف اور عدل پر کبھی مداہنت نہ کرنے والے۔۔۔ایک عظیم لیڈر اور ایک عظیم خلیفہ اور ایک عظیم مدبر ۔۔جس دن مشرف بہ اسلام ہوئے  اس دن مکہ کی وادیاں اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھیں۔مسلمانوں نے اعلانیہ  خانہ کعبہ میں نماز ادا کی۔۔جن کے زریعے اسلام کو قوت ملی۔۔سن ہجری کا آغاز کرنے والے محرم الحرام کے اسی مہینے میں اس  دنیا سے اُس دنیا میں تشریف لے گئے جو ہمیشہ رہنے والی ہے۔اس عمر ف