اشاعتیں

جون, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

خاتمہ بالخیر کی تمنا اور ہمارے اعمال

واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ آنکھیں کھلتی تب ہیں جب ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتی ہیں۔موت ایک حقیقت ہے اٹل حقیقت۔۔۔موت سے ڈرنا  نہیں چاہیئے بلکہ اس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ وہ آئے گی کس حال میں؟ویسے تو ہم میں سے ہر مسلمان کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ بالخیر ہو،مرتے وقت کلمہ نصیب ہومگر کیا ایسا ہوتا ہے اگر ہوتا ہے تو کیوں؟اور اگر نہیں ہوتا تو اس کی وجہ کیا ہے؟وہ کونسے اعمال ہیں جو ہمیں خاتمہ بالخیر کی طرف لے جاتے ہیں اور وہ کون سے اعمال ہیں جو خاتمہ بالخیر سے دور کرتے ہیں۔چار عملی مثالوں سے اس حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے۔کیونکہ خاتمہ بالخیر ہی ہمارے جنتی  ہونے کی علامت ہے۔ شمالی علاقہ جات کی سیر پہ جانے والا ایک نوجوان بتاتا ہے کہ اسے حادثہ پیش آ گیا۔اس کی گاڑی  ایک ڈھلوان سے لڑک کر کھائی میں جا گری۔وہ اپنے اس واقعے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ  جب میری گاڑی لڑھکی تو مجھے ہر بات یاد آئی،عزیز رشتے دار وہ سب جن کو میں کھونا نہیں چاہتا تھا۔مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ مجھے کلمہ یاد نہ رہا۔حالانکہ اس سے پہلے میں کہا کرتا تھا اور میرا نظریہ بھی یہ تھا کہ کلمہ مرتے وق

سانحہ بہاولپور اور ہمارے رویئے

تصویر
سانحہ بہاولپور   جس میں دو اڑھائی سو لوگ ایک پل میں لقمہء اجل بن گئے ہمارے بہت سے رویوں کی عکاسی  کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کیا یہ سانحہ غفلت کی وجہ سے رونما ہوا؟ ایسی کیا وجہ تھی کہ روکنے کے باوجود لوگ پاگلوں کی طرح انجام سے بے پرواہ   پٹرول لوٹنے میں مصروف ہو  گئے؟ کیا وہ لوگ اتنے غریب تھے کہ کچھ سجھائی نہ دیا ۔۔۔اور ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے جو گاڑیوں پہ پٹرول لوٹنے آئے تھے؟ کیا یہ عذاب الٰہی تھا؟ کہا جاتا ہے کہ ذہنی پسماندگی  جسمانی پسماندگی سے بھی زیادہ بدتر ہوتی ہے۔ذہنی طور پر مفلوج لوگ یا مفلوج قومیں ایسے ہی انجام سے بے پرواہ ہو جایا کرتی ہیں جیسا کہ سانحہ بہاولپور میں ہوا۔ پٹرول بھرنے کے لیے آئے ہوئے لوگوں کو اگر علم ہوتا کہ یہ بھی چوری ہے تو کیا وہ چوری کرتے؟ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ ہم حرام خوری،چوری اور لالچ جیسی قبیح بیماریوں کو در خو اعتنا نہیں جانتے۔چوری لاکھ کی بھی ہوتی ہے اور ککھ کی بھی۔جرم جرم ہوتا ہے۔سڑک پہ گری پڑٰ چیز آپ کو یہ حق نہیں دیتی کہ یہ چیز آپ کی ملکیت ہے۔نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ میں واضح احکامات ملتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ گری

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی

تصویر
کیا زمانے تھے جب   سرشام سونے کی تیاریں شروع ہو جاتیں تھیں اور علی الصبح بھر پور نیند کے ساتھ بیدار ہوا جاتا تھا۔پھر وقت نے کروٹ بدلی۔۔انسانوں کی جگہ مشینیں حکومت کرنے لگیں۔رشتے ناطے سب وقت کی ضرورت بن گئے۔ احساسات اور جذبات سے   بھر پور انسان میں منتقل ہوگیا۔ ۔۔۔۔وہ تھوڑی پہ ہاتھ جمائے بڑی دلچسپی سے مجھے سن رہی تھی۔آج میری   13 سالہ پوتی نور علی اصبح اٹھ بیٹھی۔جب مجھے لان میں پودوں سے باتیں کرتے دیکھا تو حیرت اور استعجاب سے پاس آ بیٹھی اور پوچھنے لگی دادا آپ کو بھی آج میری طرح نیند نہیں آئی؟؟اسے   جب بتایاکہ یہ نیند کا نہیں بیداری کا وقت ہے۔تو وہ سن کر حیران ہوئی اور ہنسنے لگی کی دادا   !دادی ٹھیک کہتی ہیں کہ آپ کی نظر کے ساتھ ساتھ دماغ بھی ویک ہو گیا ہے۔نور مجھے سوچوں کے سپرد کر کے جا چکی ہے۔اور میں اس سوچ میں گم کہ اس نسل کو کیسے سمجھایاجائے کہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی۔۔۔اور ان کے ہاتھ میں آیا ہی کیا ہے موبائل اور کتابوں کا رٹا،تعلیم کے نام     پر کاغذکی ڈگریاں،تحقیق اور ریسرچ کے نام پر کاپی پیسٹ میٹریل۔۔۔استاد کے نام پر علم بیچنے والی مخلوق۔کالجز اور یونیوسٹیوں کے نام پ

سحری کا قرآن

تصویر
قرآن اللہ رب العزت کا قدرمنزلت والا کلام جو سب سے عظیم پیغمبر پر سب سے عظیم مہینے کی سب سے عظیم رات لیلتہ القدر میں نازل کیا گیا۔یوں تو تلاوت قرآن ہمہ وقت کرنا افضل   ترین عبادت ہے۔مگر سحری کے وقت یعنی رات کے پچھلے پہر پڑھنے تلاوت کرنے کی خاص فضیلت ہے۔ارشاد باری تعالی ہے۔ ان قرآن الفجر کان مشہودا  یعنی بے شک فجر کے وقت کا قرآن کی تلات پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ گواہی دیں گے ۔ سحری کاوقت انسان کے اندر خوشی اور مسرت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:   "في صلاةِ الليل سرٌّ في طِيبِ النفس".   ترجمہ:   تہجد دلوں کی خوشی کا راز ہے۔ اور رات کے وقت تلاوت کرنے کا زیادہ اجر ہے۔ اور تھوڑی تلاوت کرنے سے بندے کی غفلت دور ہوجاتی ہے، اور درمیانی تلاوت سے قانتین (فرماں بردار لوگوں ) کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور زیادہ تلاوت کرنے سے ثواب کے خزانوں کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ «من قامَ بعشر آياتٍ لم يُكتَب من الغافِلين، ومن قامَ بمائةِ آيةٍ كُتِبَ من القانِتين، ومن قامَ بألفِ آيةٍ كُتِبَ من المُقنطَرين»؛ (رواه أبو داود. ) ترجمہ:   جو شخص (رات کے قیام میں) دس

اللہ ہماری پہلی ترجیح کیوں نہیں؟

اللہ سے ہمارا تعلق  کیا ہے اور کتنا پرانا ہے ؟جب سوچا تو بڑا دلچسپ اور منفرد جواب آیا۔۔اللہ سے ہمارا تعلق اتنا پرانا ہے کہ اس نے بنانے  کے بعد بھی بڑی دیر تک انسان نامی تخلیق کو اپنے پاس رکھا (عالم ارواح)۔بقول قاسم علی شاہ اس کے ساتھ توہمارے بڑے پرانے حوالے ہیں۔رہی بات تعلق کی تو  یہ واحد تعلق ہے جو پیدا ہونے سے پہلے سے لے کر قیامت کے مرحلوں اور پھر ابدی دنیا میں بھی قائم رہے گا۔غور فرمائیں دنیا کا ہر تعلق  عارضی ہے۔دائمی اور لافانی  محبت صرف اللہ کی ہے۔دنیا کی ساری لذتیں ایک حد پہ آ کے بے لذت ہو جاتیں ہیں۔اچھے سے اچھا کھانا  جب بھوک مر جائے تو اچھا نہیں لگتا،یہی معاملہ باقی لذتوں کا بھی ہے۔ اللہ کو اپنا سمجھیں،اسے محسوس کریں۔اس کے نام کا رٹا نہ لگائیں۔اللہ کوئی سلیبس کی کتاب نہیں ہے۔احکم الحاکمین ہے۔تمہاری رگ رگ کو جاننے والا اور بنانے والا۔اس کے در پہ اس یقین کے ساتھ جاؤ  کہ وہ کبھی تمہیں خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا۔اس کے در پہ اس مان کے ساتھ جاؤ کہ اس کے سوا کوئی اور ہے ہی نہیں،جب کوئی اور ہے ہی نہیں تو پھر یہی ایک در رہ جاتا۔اسی پہ ثابت قدم رہو۔ فی زمانہ ہر چیز مشینی ہو چکی ہے

`پانامہ لیکس اور ہمارا مستقبل

یہ 707ھ ہےحضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور حکومت ہے۔ایک چروہا جنگل میں لکڑیاں چرا رہا ہے۔اس نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پہ پانی پی رہے   ہیں۔کچھ عرصے بعد   اس   چرواہے نے ایک   اور منظر دیکھا   کہ وہی شیر بکری کو کھا رہا ہے۔وہ سرپٹ دوڑا   اور صدا لگائی کہ لگتا ہے عمر بن عبدالعزیز اس   دنیا میں نہیں رہے۔وہ عمر بن   عبدالعزیز جن کو پانچویں خلیفہ کہا جاتا ہے۔خلیفہ بننے سے پہلے بڑے نفیس اور خوش پوشاک تھے۔خلیفہ بنے تو احساس ذمہ داری   اور جواب دہی کے احسا نے انہیں اتنا لاغر کر دیا۔کہ ہڈیوں کا ڈھانچا بن گئے۔انصاف     پروری جن کا شعار تھا۔جب تک    وہ زندہ رہے انصاف   کرتے رہے۔چیزیں اپنے مقام پہ رہیں جب چلے گئے تو انصاف رخصت ہو گیا۔چیزیں اپنا مقام کھونے لگیں۔یہ ہوتا ہے انصاف اس نیلی چھت والے کی طرف سے۔ 20اپریل 2017ء ہے۔پانامہ لیکس کا فیصلہ آ چکا ہے۔اس فیصلے سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ ابھی ہم اپنی منزل سے بہت دور ہیں۔ابھی  خوشی اور خوشحالی اتنی ہی دور ہے جتنی کہ انصاف عدالتوں سے۔۔ابھی    وہ وقت نہیں پہنچا جب  انصاف  ہمارے در کی باندی ہوگا ۔ابھی لوڈشیڈنگ اور بے انصافی کے

تدریس قرآن اور جدید تقاضے

تصویر
قرآن مجید کی تدریس بے شک تمام علوم کی تدریس سے افضل ہے۔اللہ رب العزت نے قرآن پڑھنے اور پڑھانے والوں  کو بہترین قرار دیا ہے۔مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ فی زمانہ ہر علم نے ترقی کی ہے ۔اور کر رہا ہے  مگرقرآن مجید کی تدریس   صدیوں پرانےطریقوں کے مطابق چلی آ رہی  ہے۔اس میں کو ئی جدت اور نیا پن دکھائی نہیں دیتا۔ ۔ ناظرہ قرآن میں مولوی حضرات  آدھے گھنٹے کے لیے آتے اور سبق رٹا کر چلے جاتے۔قرآن کیا کہہ رہا اس سے ان کو کوئی مطلب نہیں ،نہ شاگرد کو اور نہ ہی استاد کو،زیادہ سے زیادہ  تیر مار لیا تو دعائیں اور نماز  یاد کروا  دی جاتی ہے۔۔۔۔بچوں کی گھٹی میں ڈال دیا  گیا کہ قرآن ایسے ہی پڑھنا ہے ۔اب ہوتا  کیا ہے۔یہی طالب علم جب بڑے ہو کر قرآن مجید  سمجھ پڑھ بھی  لیں تو ابتدائی تعلیم کے نقوش اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ ان کو مطالب کی بجائے  وہی رٹا  جو بچپن میں لگایا تھا سب سے پہلے دماغ میں آتا۔۔اس سلسلے  میں پاکستان کے نامور عالم دین سید مودودیؒ ایک واقعہ لکھتے ہیں "کہ میں  جب تیس سال کی عمر کو پہنچا تو میرے اوپر ایک عجیب انکشاف ہوا کہ ابھی تک جب کہ میں مولوی کا امتحان پاس کر چکا ہوں،عربی می

رمضان المبارک اور قرآن

تصویر
           قرآن اللہ رب العزت کا وہ پاکیزہ کلام جس کے زریعے اللہ آخری بار انسانوں سے مخاطب ہوا۔قرآن جو روشنی کا پیامبر ہے۔رفعتوں    تک پہنچانے والی واحد کتاب جو ماہ رمضاں کی مبارک ساعتوں میں عطا کی گئ اس امت کی طرف جسے اللہ نے اپنا نائب منتخب   کیا۔اللہ رب العزت نے قرآن کو رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے نازل فرمایا۔ ماہ رمضان قرآن کے نزول اور دور کا مہینہ ہے۔نبی کریمﷺ رمضان المبارک میں جبرائیل ؑ کے ساتھ مل کر قرآن کا دورہ کیا کرتے تھے۔آپﷺ نے اپنے آخری رمضان میں دو بار جبرائیل ؑ کو قرآن سنایا۔آپ ﷺ کا یہ طرز عمل اس امت کے لیئے پیغام تھا کہ میری کتاب کو مت چھوڑنا،اگر باقی دنوں میں سستی ہو بھی جائے تو رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں اس کمی بیشی کو دور کر لینا۔ راقمہ قرآن کی طالبہ ہیں الحمدللہ۔۔۔بارہا غور کیا کہ قرآن ہمیں اتنا کم کم کیوں میسر ہے؟تو جواب ملا کہ جتنی ویلیو اور اہمیت  ہم قرآن کو دیتے ہیں۔اتنا ہی یہ ہمیں میسرہے۔یہ بڑا غور طلب نکتہ ہے۔ہماری زندگیاں ساری کی ساری ہندوانہ اور جدید تہذیب  سے لبریز ہیں اور ساتھ میں ہم یہ بھی چاہتے کہ قرآن جیسا زاد راہ مل جائے۔۔؟ حد