رمضان المبارک اور قرآن
قرآن اللہ
رب العزت کا وہ پاکیزہ کلام جس کے زریعے اللہ آخری بار انسانوں سے مخاطب ہوا۔قرآن
جو روشنی کا پیامبر ہے۔رفعتوں تک پہنچانے
والی واحد کتاب جو ماہ رمضاں کی مبارک ساعتوں میں عطا کی گئ اس امت کی طرف جسے
اللہ نے اپنا نائب منتخب کیا۔اللہ رب
العزت نے قرآن کو رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے نازل فرمایا۔
ماہ رمضان قرآن کے نزول اور دور کا مہینہ ہے۔نبی کریمﷺ
رمضان المبارک میں جبرائیل ؑ کے ساتھ مل کر قرآن کا دورہ کیا کرتے تھے۔آپﷺ نے اپنے
آخری رمضان میں دو بار جبرائیل ؑ کو قرآن سنایا۔آپ ﷺ کا یہ طرز عمل اس امت کے لیئے
پیغام تھا کہ میری کتاب کو مت چھوڑنا،اگر باقی دنوں میں سستی ہو بھی جائے تو رمضان
المبارک کی مقدس ساعتوں میں اس کمی بیشی کو دور کر لینا۔
راقمہ قرآن کی طالبہ ہیں الحمدللہ۔۔۔بارہا غور کیا کہ قرآن
ہمیں اتنا کم کم کیوں میسر ہے؟تو جواب ملا کہ جتنی ویلیو اور اہمیت ہم قرآن کو دیتے ہیں۔اتنا ہی یہ ہمیں میسرہے۔یہ
بڑا غور طلب نکتہ ہے۔ہماری زندگیاں ساری کی ساری ہندوانہ اور جدید تہذیب سے لبریز ہیں اور ساتھ میں ہم یہ بھی چاہتے کہ
قرآن جیسا زاد راہ مل جائے۔۔؟
حدیث قدسی ہے۔جس کا مفہوم کچھ یوں ہے"میں غیرت والا
ہوں اور میرا کلام قرآن مجید بھی غیرت والا،جو اس سے منہ موڑتا ہے یہ بھی اس سے
منہ موڑ لیتا ہے۔حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ
’’اللہ
تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور کچھ دوسروں
کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔ ‘
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں
از تلاوت بر تو حق دارد کتاب تو از و کامے کہ می خواہی بیاب
"اے مسلمان تو
اس کلام کی بدولت جو چاہے حاصل کر سکتا ہے اور جو کام چاہے لے سکتا ہے۔اس کے اندر
اتنی تاثیر ہے کہ تمہاری تقدیر یں بنا
سکتا ہے۔یہ قرآن ہی جو زمین کی گہرائیوں سے آسمان کی رفعتوں تک لے جا سکتا
ہے۔"
ایک جگہ اسے آب حیات کہتے ہیں۔فرماتے ہیں
بر خور از قرآن اگر
خواہی ثبات در ضمیرش دیدہ ام آب
حیات
اقبالؒ فرماتے
ہیں کہ انتہائی غوروفکر کے بعد میرے اوپر یہ راز آشکار ہوا ہے کہ اگر انسان اپنی
زندگی میں استحکام اور دوام چاہتا ہے تو قرآن سے استفادہ کرے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم
ہے کہ قرآن ایسی پرتاثیر کتاب ہے کہ اس کے معجزے کبھی ختم نہیں ہوں گے،علماء اس سے
کبھی سیر نہیں ہوں گے اور نہ کبھی اس سے اکتاہٹ ہوگی۔
سید مودودیؒ
نے قرآن کو شاہ کلید کہا ہے۔شاہ کلید وہ چابی ہوتی جس سے ہر قفل کھل جاتا ہے۔
ژول لابوم: یہ ایک فرانسیسی مفکر ہے اپنی کتاب ”تفصیل الآیات“ میں کہتا
ہے:
”دنیا نے علم و دانش مسلمانوں سے لیا ہے اور
مسلمانوں نے یہ علوم قرآن سے لئےہیں جو علم و دانش کا دریا ہے اور اس سے عالم
بشریت کے لئے کئی نہریں جاری ہوتی ہیں۔قرآن کی حکمت پہ بات کرتے ہوئے اقبالؒ
فرماتے ہیں کہ
برگ
و ساز ما کتاب و حکمت است ایں
دو قوت اعتبار ملت است
یعنی مسلمانوں کی تعمیرو ترقی کا راز کتاب قرآن مجید اور حکمت حدیث مبارکہ کے عمل
میں مضمر ہے۔ان دو قوتوں ہی سے ملت کا وقار قائم ہے۔
علامہ اقبالؒ اپنے ایک اقتباس میں لکھتے ہیں کہ
"The main
purpose of the Quran is to awaken in man the higher consciousness of his
manifold relations with God and Universe"
ترجمہ: قرآن مجید کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر گوناگوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے جو اس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں ‘‘
ترجمہ: قرآن مجید کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر گوناگوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے جو اس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں ‘‘
مختصر یہ کہ قرآن گوناگوں
احکامات کا نادر مجموعہ ہے۔اس کو پڑھیں یہ آپ کو سب کچھ پڑھا دے گا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں