سیکولر ازم علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ

سید مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ عالم اسلام کے دو درخشندہ ستارے ہیں۔جنہوں نے  جہاد بالقلم کا فریضہء بڑی خوبصورتی سے ادا کیا۔ان دو عظیم شخصیتوں نے جس وقت آنکھ کھولی  دنیا ایک نئی تہذیب سے آشنا  ہو رہی تھی۔وہ  تھی تہذیب مغرب۔۔ علامہ اقبال اور سید مودودیؒ  کا خاصا تھا کہ  دونوں اسلام اور تہذیب مغرب  پر مکمل عبور رکھتے تھے۔بقول قائد اعظم علامہ اقبالؒ  سے زیادہ  اسلام کو کسی اور نے نہیں سمجھا۔رہی بات مغرب کی تو انہی کے بہترین اداروں اور استادوں سے پڑھ کر آئے تھے۔ان سے زیادہ ان سے کون واقف ہو سکتا ہے۔
جبکہ سید مودودیؒ اپنے وقت کے تمام جدید علوم پر دسترس رکھتے تھے۔ بیسویں صدی کے  عظیم مبلغ  اور داعی تھے۔علامہ اقبالؒ  ان کی تحریر اور خیالات سے ازحد متاثر تھے۔ان کی معرکتہ آلاراء تصنیف الجہاد فی الاسلام پر  علامہ اقبال ؒ نے دیبا چہ بھی لکھا۔ا
بقول سید سلیمان ندوی
            "یورپ سے الحاد  و دہریت کا جو سیلاب ہندستان آیا  تھا قدرت نے اس کے آگے بند باندھنے  کا نتظام بھی ایسے مقدس اور پاک طینیت ہاتھ سے کرایا جو کہ خود یورپ کے تمام جدید  و قدیم خیلات   سے نہایت   ہی اعلیٰ طور پر واقفیت  رکھتے تھے۔اور تمام امور اور مسالک پر تسلی بخش  گفتگو کر سکتے تھے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں کہ ؎
            بیسویں صدی میں  علامہ اقبالؒ  نے اپنی شاعری کے زریعے مسلمانوں کو ایک ولولہ تازہ عطا کیا اور ان کے اندر اسلامی نشاط  ثانیہ کی جوت لگائی۔مولانا مودودیؒ نے اسی جذبے اور ولوے کو اپنی نثر میں آگے بڑھایا اور علامہ اقبالؒ کی شاعری کے اثرات  سمیٹ کر احیائے دین کی ایک منظم تحریک کی بنیاد رکھی۔:
اصطلاحات علمی سے کنارہ کر کے اگر ہم سیکولرازم کی تعریف کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں:
 
سیکولرازم ایک اسیا نظریہ ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ دین کو زندگی کے تمام پہلوؤں اور تمام شعبوں سے نکال کر اسے زندگی کا ایک الگ اور مستقل شعبہ بنا دیا جائے، وہ بھی اس طرح سے کہ خود اس دینی شعبہ کا زندگی کے باقی شعبوں سے کوئی تعلق نہ ہو اور نہ ہی ان باقی شعبوں کا شعبہ دین سے کوئی تعلق ہو“۔
 
جب کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیکولرازم سے مراد ہے کہ دین کو ریاست سے الگ کر دیا جائے۔ان کے خیال میں ریاست  کے امور میں مذہب کو بالکل دخل اندازی نہیں کرنی چاہیئے۔ریاست ایک خالصتا دنیاوی مسئلہ ہے  جس میں مذہب کا کوئی کام نہیں۔
آخر یہ سیکولر ازم ہے کیا ؟یہ کہاں سے آیا؟اور  او ر اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟
 چونکہ عیسائیت میں ترک دنیا اور رہبانیت کا رجحان تھا۔لوگ دنیاوی  امور پر  مذہبی امور کو ترجیح دیتے تھے۔اس کا ایک ری ایکشن مذہب بیزاری کی صورت میں سامنے آیا۔یورپی عوام  راہبوں   کے غیرفطری رجحانات سے تنگ آ چکے تھے۔اس لیے انھوں نے "تحریک احیائے علوم" کی بنیاد رکھی۔یہ سترھویں  سے انیسویں صدی تک کا دور شمار کیا جاتا ہے۔اس تحریک کے تحت بڑی بڑی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔اپنے خیالات کے پرچار کے لیے ان یونیورسٹیوں کا استعمال کیا جانے لگا۔
سیکولرازم علامہ اقبال ؒ اور سید مودودیؒ تینوں  نے آٹھارویں  صدی عیسویں میں آنکھ کھولی۔
 مولانا مودودیؒ نے واضح کیا ہے کہ آزادی اور حاکمیت کو مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا، اقتدار ریاست کی ملکیت نہیں یہ صرف اللہ کی مِلک ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی متوازن، درست، ابدی، موثر، کارگر اور انسانوں کو آسودگی عطا کرنے والے قوانین بنانے والی ذاتِ بااختیار ہے کسی شخص کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حکم دے اور دوسرے اس کی اطاعت کریں وہ قانون بنائے اور دوسرے اس کی پابندی کریں، یہ اختیار صرف اورصرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے ۔ قرآن کریم سورہ یوسف کی آیت نمبر40 میں ابدی حکم دے دیا گیا ہے ”فرمانروائی کا اختیاراللہ کے سوا کسی کے لئے نہیں۔ اس کا حکم ہے کہ اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو یہی ٹھیک سیدھا طریقہ زندگی ہے۔

علامہ اقبال  ؒ        لکھتے ہیں کہ
سروری فقط زیبا اسی ذات بے ہمتا کو ہے           حکمراں ہے ایک وہی باقی بتان آذری
دین اور سیاست  کو جدا سمجھنے والوں کے لئے فرماتے ہیں کہ
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا                  جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبالؒ  اسلام  کی حقانیت  اور وحی الہی  کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
““The Prophet of Islam seems to stand between the ancient and the modern world. In so far as the source of his revelation is concerned, belongs to the ancient world. In him life discovers other sources of knowledge suitable to its new direction. The birth of Islam is the birth of inductive intellect. The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Qur’an, and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality.” 
 ’’پیغمبر اسلامؐ قدیم اور جدید دنیاؤں کے سنگم پر دکھائی دیتے ہیں ۔ جہاں تک آپؐ کی وحی کے منابع (مآخذ) کا تعلق ہے، اس کا تعلق قدیم دنیا سے ہے۔ آپ میں زندگی علم کے کچھ دوسرے ذرائع دریافت کرتی ہے جو اِس کی نئی سمتوں کے لئے موزوں ہیں۔ اسلام کی آفرینش، عقل استقرائی کی آفرینش ہے ۔اسلام میں پاپائیت اور موروثیت کا خاتمہ، قرآن میں استدلال اور تجربہ (عقل) پر مسلسل اصرار اور اس کا بار بار فطرت اور تاریخ کو انسانی علم کا ذریعہ قرار دینا ، یہ سب اسی تصورِ ختمِ نبوت کے مختلف پہلو ہیں ‘‘-
سید مودودیؒ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ثابت کیا کہ نظام سیاست بھی دین کا ایک لازمی جزو ہے۔ان کے خیال میں کوئی جماعت اس وقت تک اخلاقی پستی سے مکمل طور پر نہیں نکل سکتی جب تک کہ نظام سیاست ایک بلند اخلاقی معیار پر قائم نہ ہو۔انہوں نے خدائے واحد کی پرستش میں حائل دور جدید کے سب سے بڑے بت دین و سیات کی جدائی کے تصور کو پاش پاش کر کے رکھ  دیا۔اپنے ہم عصر علماء میں اسی لیے منفرد ہیں کہ دین کی جزوی خدمت کی بجائے وہ پورا دین ساتھ لے کر چلتے رہے۔کسی مصلحت یا خوف کے پیش نظر دین کے کسی حصے کو ساقط نہیں کیا۔فرماتے ہیں کہ
پچھلی صدی سے مستشرقین کی ایک جماعت مسلمان ممالک کے اندر استعماری طاقتوں کے پاؤں مضبوط کرنے کے برابر یہ کوشش کرتی رہی کہ اسلام کے دو حسے کر دیئے جائیں۔ایک مذۃبی حصۃ اور دوسرا سیاسی حصۃ۔مذۃبی حصہ علماء کے سپرد کر دیا جائے اور سیاسی حصہ قیصر کے تابع رکھا جائے۔تاکہ قیصر جس طرح چاہے مسلمانوں کا ایک کی گردنوں پر کوس بجاتا رہے۔دین اور دنیا میں تفریق کا یہ ذوق  مستشرقین نے اس قدر عام کہا کہ مسلمانوں کا ایک  اچھا خاصا گروہ اس کا قائل ہو گیا۔ایسے میں سید مودودیٰ نے اٹھ کر اعلان کیا کہ  اسلام ایک کل ہے اس کے  حصےبخرے نہیں کیئے جا سکتے۔اسے پورا اختیار کرنا ہوگا یا پورا ترک کرنا ہوگا۔
                                                                                                                                                           
بقول علامہ اقبالؒ
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے       جو پیرہن ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے
یہ تو تھا سیکولرازم کا پس منظر۔۔اب مسئلہ یہ ہے کہ سیکولرازم نے عیسائیت   میں تو جگہ بنا لی۔۔کیا یہ اسلام  اور مسلمانوں میں بھی جگہ بنا پائے گا یہ نہیں؟
تو  اس کا جواب   بڑا سیدھا ہے کہ اسلام دین ہے مذہب نہیں۔یہ کل سے تعبیر کرتا ہے جز سے نہیں۔اس میں عبادات اور معاملات یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔واش روم جانے سے لے کر حکومتی انتظام انصرام تک  کے احکامات ملتے ہیں۔اگر  سیکولر ازم سے مراد یہ لیا جائے کہ  حکومتی معاملات کو دین سے الگ رکھا جائے تو پھر ان اصولوں کی عملی تشریح کیسے ہوگی؟یہ وہ سوال ہے  جو خود ہی جواب ہے کہ سیکولرازم کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔۔رہی بات   ان مسلمانوں کی جو سیکولر رجحانات رکھتے ہیں تو یہ باغی اور لاعلم لوگ ہیں۔جنہیں  علم ہی نہیں کہ اسلام ہے کیا اور سیکولر ازم کیا ہے؟
لوگوں کے سیکولر اور ملحد ہونے کی ایک بڑی وجہ اسلام میں پا جانے والے فرقے ہیں۔علماء کے درمیان پائی جانے والی مذہبی منافرت سے  عام لوگ دین سے دور ہو کر لادین ہو رہے ہیں۔یہ بڑا غور طلب نکتہ ہے۔اسلام کو اللہ نے آسان بنایا ہے۔یہ کون لوگ ہیں جو اسے مشکل اور پچیدہ بنائے کر لوگوں کو دین سے دور کر رہے ہیں۔علمائے حق کے لیے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر