حیا سے ہے حیات
عامر خاکوانی کا
کالم "قندیل بلوچ،فکشن اور زندگی کی حقیقتیں"پڑھا۔۔بہت عمدہ اور
فکر انگیز تحریر تھی۔۔دل کو چھو کر گزر گئی۔۔کچھ پہلو تھے جن پر چاہا کچھ لکھا
جائے۔۔یہی سوچ کے قلم اٹھایا ہے۔
بلاشبہ ہماری اسلامی تہذیب میں حیا
ءوہ گوہر نامدار ہے۔جس پر
جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔اسلامی
تاریخ اس درخشندہ گوہر کی عظیم روایت کی
نہ صرف بانی ہے بلکہ اس کو آج تک سینے سے لگائے اس کی حفاظت پر مامور ہے۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم "حیا کی ساٹھ سے زائد شاخیں ہیں
اور حیاء ان میں سے ایک ہے"ایک روایت میں
آتا ہے کہ :جب حیاء نہ رہے تو جو
چاہے کرو"مزید ارشاد ہوا کہ
"بے شک ہر دین کی ایک خصلت ہوتی ہے اور دین اسلام کی خصلت حیاء ہے۔
جانتے ہو’‘حیاء ’‘ کیا
ہے ؟
"حیاء "حیات ہے
حیاء نہیں تو حیات نہیں
۔
عربی کی بے مثال معجم ۔۔معجم مقاييس اللغة میں علامہ ابن فارس لکھتے ہیں۔
عربی کی بے مثال معجم ۔۔معجم مقاييس اللغة میں علامہ ابن فارس لکھتے ہیں۔
"حی "سے ۔حیات ۔بھی نکلتی ہے ،اور "حیاء "بھی
۔۔
یہ
ہے "حیاء" جو عزت اور غیرت کی پہچان ہے۔ہمارے دشمن جانتے ہیں کہ یہ
کتنی انمول ہے۔جبھی اس کے در پے ہیں۔قندیل بلوچ جیسے کردار پرموٹ کرنا
ہی
ان کا اصل مقصد ہے۔ورنہ قندیل بلوچ تو خود مہرہ تھی۔جس کی
مجبوریوں نے
اسے ایسی کھائی میں دھکیل دیا
۔۔جس کے آگے رسوائیاں ہی رسوائیاں تھیں
اور
انجام موت۔یوں حیاء کی موت
نے اسے حقیقتا موت کی وادی میں پہنچا دیا۔اس پر
مستزاد اس کردار پر فلم بنائی جا رہی ہے۔جو نجانے کتنی
قندیل بلوچ پیدا کرے گیں۔
ہم جذباتی اور عقل سے عاری قوم ہیں۔جس
طرف اکثریت چل پڑی اسی طرف
سب نے منہ موڑ لیا بغیر سوچے سمجھے۔دنیاوی
تعلیم کی طرف رجحان ہوا تو دین کو
دیس نکالا مل گیا۔اب بچوں کو سکول کے لیے اٹھایا جاتا ہے نماز کے لئے
نہیں۔
رات کو مائیں بچوں سے کہہ رہی ہوتیں ہیں کہ جلدی سو جاؤ صبح سکول جانا ہے۔یہ
مائنڈ سیٹ واضح کرتا ہے کہ ہم دین پہ دنیا کو ترجیح دے رہے ہیں۔اس مائنڈ سیٹ
کو
بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔
عورت اور میڈیا ہمارے معاشرے کے دو مضبوط ستون ہیں جو
روایات کو بگاڑنے اور سنوارنے میں اہم
کردار ادا کر تے ہیں۔اگر ان کا قبلہ درست
ہو جائے تو یہ معاشرے کے لیے بہت اچھا اقدام ہو سکتا ہے۔مگر ستم یہ ہے کہ آج کے
دجالی میڈیا کا سب سے پہلا ٹارگٹ ہی عورت
ہے۔مارننگ شوز ڈراموں کے زریعے بڑی خوبصورتی سے ان کا مائنڈ سیٹ تبدیل کیا جا
رہا ہے۔ان کے سامنے دنیا کو اتنا سجا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔کہ یہی محسوس ہوتا ہے
کہ زندگی تو بس دنیا کی ہی ہے ۔اور اس دنیا کو سنوارنے اور خوبصورت بنانے کے چکروں
میں نئی نسل کا بیڑہ غرق ہو کر رہ گیا
ہے۔ان کو تعلیم دنیا کی دی جاتی ہے مگر امید یہ رکھی جاتی ہے کہ یہ نیک اور صالح
بنیں۔گندم بو کر چنے کی فصل کی امید رکھنا احمقوں کا کام ہے۔عقل مندوں کا نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے
معاشرے سے الحاد اور لا دینیت کی جو لہر اٹھی ہے اس کے آگے بند باندھا
جائے۔اساتذہ اور علماء اس میں بہت اہم
کردار ادا کر سکتے ہیں۔بچوں کے ذہنوں میں چھوٹی عمر سے بٹھایا جائے کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اللہ نے انھیں کیوں
پیدا کیا ان کا انجام کیا ہوگا؟ یہ وہ
سوال ہیں اگر ان کے جواب بچوں کے دماغوں میں بٹھا دیا جائے تو اس کے اثرات بہت عمدہ ہوں گے۔ایک اور نکتہ جس کو بچوں کے
دماغوں میں بٹھانا ضروری ہے وہ یہ کہ تعلیم کا مقصد واضح ہونا چاہیئے کہ اس کا مقصد
کردار سازی ہونا چاہیئے نہ کہ نوکری اور ڈگری کا حصول۔۔۔قارئین اکرام عمارت کی اگر
بنیاد مضبوط نہ ہو تو بظاہر وہ جتنی بھی
مضبوط نظر آئے ،زمین بوس ہو جایا کرتی ہے۔ہماری نسلیں زمین بوس ہو رہی ہیں بے
حیائی اور فحاشی کا سیلاب انھیں بہائے لے جا رہا ہے۔بڑی حکمت اور دانش مندی سے اس
پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ حیاء زندگی ہے اور بے حیائی موت۔۔موت کردار کی ہو
یا زندگی کی بات ایک ہی ہے۔
سورہ نور کی آیت پکار پکار کر کہہ رہی ہے
"ایمان
والوں میں جو چاہتے ہیں کہ فحاشی پھیلے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے دنیا میں
بھی اور آخرت میں بھی،اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔"(النور 24: 19)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں