کائنات اور انسان
اللہ نے انسان کو اپنی اطاعت اور بندگی کے لیئے پیدا
کیا۔اور پوری کائنات کو انسان کے لیئے مسخر کر دیا۔کائنات
میں امن وایمان کا بول بالا ہو اس مقصد کے لیئے ہر دور میں انبیاء ؑ بھیجے۔ایک
لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اصلاح معاشرہ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ان انبیاء پہ
کتابیں اور صحیفے نازل ہوتے رہے جو اللہ کی جانب سے انسانی منشور اور پیغام ہدایت
ہوتا تھا۔زبور انجیل ،تورات اور قرآن مجید ایسی ہی کتابیں ہیں۔جو معاشرے کی اصلاح
کے لیئے اتاری گئیں۔ان میں سے باقی تین تو منسوخ ہو چکیں جبکہ قرآن مجید اور اس کا
پیغام تا قیامت تک کے انسانو ں کے لیئے رشد ہدایت ہے۔ذیل میں ان چاروں کتب سماویہ نے جو اصلاح معاشرہ کے اصول دیئے ہیں۔ان کو
بیان کیا جائے گا۔اور ان کو عصر حاضر میں دیکھا جائے گا کہ کیا وہ اصول آج بھی
معاشرے کے لیئے اتنے ہی سود مند ہیں جتنا کہ پہلے تھے اور ہم ان اصولوں سے کس طرح
استفادہ کر سکتے ہیں۔
عقیدہ کسی بھی چیز
کی بنیاد ہے۔جس پر پوری عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔جب کسی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو پرکھنا ہو تو یہ
دیکھا جاتا ہے کہ ان کا عقیدہ کیا ہے۔وہ بنیاد کیا ہے جس پر ان کی زندگی کی عمارت
قائم ہے۔انسان کی حثیت کو سمجھنے کے لیئے جس طرح انسان اور خدا کا ادراک ضروری ہے
اسی طرح انسان اور کائنات کے رشتے کو جاننا بھی ضروری ہے۔اس تعلق کو سمجھنے کے
لیئے کائنات کی حقیقت کو جاننا بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے تعلق کی نوعیت
متعین ہوگی۔
"یہ ناممکن ہے کہ ہم انسان کا مطالعہ کیئے بغیر کائنات
کا مطالعہ کر سکیں۔اس کے ساتھ یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم انسان کا مطالعہ کائنات کا
مطالعہ کیئے بغیر کر سکیں۔اس کے ساتھ یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم انسان کا مطالعہ
کائنات کا مطالعہ کیئے بغیر کر سکیں۔انسان
تو کائنات کا عکس ہے۔اس کی تخلیق انیہی قوانین کی رو سے عمل میں آئیات کے مطالعہ ے
کائنات کا مطالعہ کر سکتا ہے۔یعنی ان تمام قوانین و ضوابط کا مطالعہ جن کے ماتحت
اس کا رخانہ عالم کا سلسلہ چل رہا ہے۔اسی کے ساتھ ہی یہ کائنات اور اس کے
قوانین کا مطالعہ کرنے سے ان قوانین کا مطالعہ کرے گا جن کے تابع اس کی
اپنی زندگی بسر ہونی چاہیئے۔۔اس لیئے مطالعہ فطرت اور مطالعہ ذات ،متوازی طریق پر
ساتھ ساتھ ہوتا جائے گا تاکہ ایک دوسرے سے مدد لے سکے۔"[1]
تلاش کا یہ سفر
اسے اس سفر پہ ڈال دیتا ہے جس کا آغاز انبیاء نے کیا۔اور تمام انبیاء کی تلاش اور دعوت
کا مرکزی نقطہ ایک اللہ کی اطاعت اور اس پر ایمان تھا۔یہی ان کی تمام دعوت کا روح رواح
تھا۔کیونکہ انسان اس حقیقت سے کبھی بھی
منحرف نہیں ہو سکا کہ انسان کا اس کائنات سے اور اس کے بنانے والے
سے کیا تعلق ہے۔اور وہ کہاں سے آیا ہے اور
اسے کہاں جانا ہے؟دنیا کے تمام مذاہب،تمام حکماء،تمام فلاسفرز کی تلاش انہی سوالوں
کے گرد گھومتی ہے۔ڈاکٹر خالد علوی لکھتے ہیں کہ
"انسانی فکریات میں یہ تینوں سوال انتہائی اہمیت کے
حامل ہیں اور یہ تینوں فلسفہ اور مذہب کے مشترکہ سوالات ہیں۔"[2]
ہر دور میں ان سوالوں کی کھوج لگانے والے موجود رہے۔مگر یہ
کھوج اور تلاش قرآن میں کھول کر رکھ دی گئی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا
بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ
مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَٰكِنَّ
أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ[3]
ترجمہ"کیا انہوں نے خود اپنے دلوں میں غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور ان کے
درمیان کی چیزوں کو پیدا کیا ہے تو ایک مقررہ وقت کے تحت پیدا کیا ہے۔تو حکمت کے
مطابق پیدا کیا ہے۔اور ان کے لیئے ایک وقت مقرر ہے۔مگر بہت سے لوگ اپنے رب سے
ملاقات کے منکر ہیں۔"
کائنات تکوینی نظام کے تحت چل رہی ہے اور ایک ذرہ بھی ادھر سے
ادھر نہیں ہو سکتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ
النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ
وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ
ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ
كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ
لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ
الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ[4]
"ترجمہ"اور ایک نشانی
ان کے لیئے رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو اس وقت ان پر اندھیرا
چھا جاتا ہے اور سورج اپنے مقرر راستے پرچلتا رہتا ہے اور غالب و دانا کا اندازہ
ہے اور چاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر کر دیں۔یہاں تک کہ کھجور کی پرانی شاخ کی
مانند ہو جاتا ہے۔نہ تو سورج ہی سے ہو سکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی
کہ دن کو جا پکڑے۔سب اپنے اپنے مداز میں گردش کر رہے ہیں۔"
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں