شام کی موجودہ صورت حال کے پس پردہ محرکات:
اسرائیلی ریاست کا قیام
اور توسیع پسندانہ عزائم
20 ویں صدی کے وسط میں جب دنیا دوسری عالمگیر جنگ سے بیت المقدس
میں یہ اپنے قبضے کو طول دینے کے ساتھ اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصؤبے اور
مشرقی وسطیٰ کے مسائل پر قبضہ کے لیئے اور تمام مغربی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی
کر رہی ہیں۔[1]
اس نئے استعمار کے ایجنڈے کے چار بڑے میدان ہیں۔
سیاسی اعتبار سے امریکہ کی بالادستی اور اس امر کا اہتمام کہ یہ بالادستی 21 ویں
صدی میں قائم رہے۔
امریکہ کی فوجی برتری کو نا صرف ناقابل تسخیر رکھنا،بلکہ ساری دنیا میں اس کی
موجودگی یا اس کے قائم عناصر کی حفاظت جو اس کے آلہ کار کے طور پر کام کرسکیں۔
دنیا کے معاشی
وسائل پہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا قبضہ
تہذیبی میدان میں مغربی کلچر اور ثقافت کا عالمغیر غلبہ اور
دین و مذۃب خصوصیات سے اسلام کی بنیاد پر
اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کے احکامات
کو معلوم کرنا۔ [2]
عوام کے غیر نمائندہ
سیکولر حکمران اور بعث پارٹی
کمیشن کے بعد امریکہ کا ایک اور مفسدانہ قدم پوری اسلامی
دنیا کو غیر اسلامی بنانا بھی ہے۔اور ان کے اقدار اور مفاد کو نقصان پہنچانے کے
لیئے عظیمتر مشرق وسطیٰ کی طرف پیش قدمی
ہے۔بش انتظامیہ اپنے اس عندیے کو ظاہر کر چکی ہے۔اور اس پروگرام میں مراکش سے لے
کر پاکستان تک ایک بڑا علاقہ شامل ہے۔ جس میں امریکہ گروپ جی ایٹ کے ساتھ مل کروسیع
سماجی اور معاشی اصلاحات کرنا چاہتا ہے۔عظیم
تر ایشیا مشرق وسطیٰ کی پیش قدمی کا بنیادی مقصد ویسا ہی
حیسا ہسینکی کا تھا۔جس نے پورے یورپ کو یکجا کر دیا۔اس حساس علاقے میں
اصطلاحات اور ترقی سے حاصل ہونے والے نتائج
کے پیچھے نیت یہ کارفرما ہے۔
اسلامی انتہا پسندی کو فتح کیا جائے۔[3]
مشرق وسطیٰ کے ممالک امریکہ کی دلچسپی اور سیاسی
مداخلت کے پس پردہ کئی عزائم ہیں۔ان میں سے ایک ڈالر کی قیمت کو
مستحکم بنانا بھی ہے۔
درج بالا حقائق سے اندازا ہوا کہ شام جو انبیاء اور رسولوں کی سرزمین ہے۔شام کا
اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام ہے۔ہزاروں آئمہ،علماء،محدثین فقہاء و ادباء
و مفکرین کا گڑھ رہا اور جس کے جاہ
جلال سے قیصروکسریٰ لرزہ براندام ہو جایا کرتے تھے۔آج اسلام وہاں
اجنبی بنا دیا گیا ہے۔
شام میں حکمران جماعت مغرب نواز اور سیکولر ذہنیت کی حامل
ہے۔جس کا واضح اظہار شام کے صدر بشارالاسد
کی پالیسیوں اور طرز حکومت سے ظاہر
ہوتا ہے۔
حکمران فرقہ نصیریہ
کے غیر اسلامی نظریات
شام پر حکمران فرقہ نصیریہ ملت اسلام کے لیئے ایک چیلنج ہےفرقہ
نصیریہ غالی شیعیوں کی باطنی تحریک ہے۔جس
کا ظہور تیسری صدی ہجری میں ہوا۔اس گمراہ فرقے
کا بانی ابوشعیب محمد بن نصیر ہے۔[4]
فرقہ نصیریہ کے عقائد
نصیری قرامطہ اور
باطینیہ کا بویا ہوا بیج ہیں۔یہ لوگ اپنے عقائد کو چھپانے میں بہت پابند ہیں یہی
وجہ ہے کہ ان کے بہت سے عقائد پر پردہ پڑا ہو اہےتاہم ان کے جو عقائد سامنے آیئں ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
سیدنا علی ہی اللہ تعالیٰ ہیں۔
جب سے علی کی جسم سے رہائی ہوئی ہے وہ بادلوں میں سکونت
پذیر ہیں۔
علی ہی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔محمدﷺ نے
سلیمان فارسی کو پیدا کیا۔اور سلیمان فارسی نے پانچ بچے پیدا کیئے۔
فرقہ نصیریہ کا ایک ایم عقیدہ شراب کے مقدس ہونے کا ہے۔ان
کا گمان ہے کہ اللہ نے گمان میں تجلیٰ فرمائی۔
فرقہ نصیریہ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں مگر طریقہ نماز اور
اوقات مختلف ہیں۔
فرقہ نصیریہ کا
اسلام کے بارے میں وہی نظریہ ہے جو دیگر دشمنان اسلام کا ہے۔[5]
یہ قیامت کے منکر
ہیں اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں۔[6]
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں