ہندومت
"غالبا دنیا کے تمام مذاہب میں سب سے قدیم ترین اور سب سے پچیدہ مذہب
"ہندومت "ہے۔آج کے بہت سے فعال مذاہب تقریبا چھٹی صدی قبل مسیح میں یا
بعد میں شروع ہوئے،جبکہ ہندومت کے کچھ مذہبی نظریات اور صورتیں تیسرے ہزاریئے قبل
مسیح میں یا بعد میں شروع ہوئے۔ہندومت میں
تقریبا ہر اس مذہب کی کوئی نہ کوئی صورت
یا انداز ملتا ہے۔جو قابل تصور یا فعال رہا ہو۔،یہ عموما "ہندوستان "کے
لوگوں پر لاگو ہوتا ہے۔اگرچہ اپنی پوری تاریخ میں بہت سے لوگ "ہندومت
"میں داخل ہوئے مگر یہ بدھ مت،عیسائیت اور اسلام کی طرح کبھی ایک فعال تبلیغی
مذہب نہ بن سکا۔"
وجہ تسمیہ:
"ہندو ،ھنیدتہ:سو یا سو سے زیادہ
اونٹوں کا ریوڑ , اُہندو آہناد و ہنود،ہندو عورت کا نام۔پھر عورتوں کے
لیئے علم جس کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ہندوستان ملک کو بھی کہتے ہیں۔"[2]
جواہر لعل نہرو
ہند کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
It is hardly possible to define it .or indeed to say definitely
whether it is a religion or not in the
usual sense of the world.in its presence form and even in the past it embraces
many beliefs and practices ,often the opposed to or contradicting each other.[3]
اردو دائرہ
معارف اسلامی میں ہے کہ
"عربی اور فارسی میں جب جغرافیائی حالات بیان کیئے جاتے ہیں تو
اس میں سند اور ہند کے حالات شامل ہوتے تھے۔یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی ہندوستان آمد سے پہلے کوئی نام
ایسا نہ تھا جس کا اطلاق پورے ملک پر
ہو۔ہر صوبے کا اپنا الگ الگ نام تھا ۔اہل
فارس نے جب اس ملک کے ایک صوبے پر قبضہ کر لیا تو اس دریا کے نام پر جسے اب سندھ
کہتے ہیں۔ہندو رکھا۔کیونکہ ایران قدیم کی زبان پہلوی میں اور سنسکرت میں
"س"اور "ہ" کو آپس میں بل لیا کرتے تھے۔چنانچہ فارسی والوں "ہندو"کہہ
کر پکارا۔عربوں نے سندھ کو سندھ ہی
کہا۔لیکن اس کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کو ہند کہا اور آخر میں یہی نام
تمام دنیا میں پھیل گیا۔پھر"ہ" کا صرف الف میں بدل کر یہ نام فرنچ میں
اند(ind) اور انگریز ی میں انڈیا ( india)کی صورت میں مشہور ہو گیا۔"[4]
احمد شلبی مقرتہ
الادیان الہندیہ کے مقدمے میں "ہند و"پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
الھندسیتہ دیانا الجمھرتہ العظمی فی
الھند الآن،قامت علی أنقاض الویدیتہ،وتشربت أفکارھا،وتسلمت عن طریقھا الملامح
الھندیتہ القدیمتہ والآساطیر الروحانیتہ المختلفتہ التی تمت فی شبتہ الجزیرتہ قبل
دخول الآریین۔ومن أجل ھذا عدھا الباحثون امتداد اللویدیتہ و تطورالھا۔"[5]
تاریخی ارتقاء
پر بات کرتے ہوئے مظہرالدین صدیقی لکھتے ہیں کہ
"ہندو مذہب کا آغاز ویدوں کے عہد سے
ہوتا ہے۔جن کا زمانہ 1500 ق م کا تھا۔جب ہندو آریا پہلے پہل ہندوستان میں داخل
ہوئے تو ان کے مذہبی تصورات نہایت سادہ تھے۔انہی تصورات و عقائد کو ویدوں میں مدون
کیا گیا ہے۔لیکن اس کے بعد جو زمانہ آیا اس میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ یعنی برہمنوں
کی مذہبی قیادت قائم ہوگئی۔اور انہوں نے اپنی عبادت کے جواز میں جو مذہبی کتابیں
ترتیب دیں انھیں برہمنا کہا جاتا ہے۔"[6]
ہندو مت کے لیئے
"دھرم"کا لفظ بھی بولا جاتا ہے۔آریا دھرم اور ویدک دھرم کے الفاظ کثرت
سے استعمال ہوتے ہیں۔مہاتما گاندھی لکھتے ہیں کہ
"اگر مجھے ہندو دھرم کی تعریف کو کہا
جائے تو میں صرف اتنا کہوں گا کہ پرامن
طریقوں سے حق کی جستجو کا نام ہندومت ہے۔آدمی خدا کی مانے بغیر بھی اپنے آپ کو
ہندو کہہ سکتا ہے۔ہندومت حق کی ان تھک جستجو کا نام ہے۔ہندومت حق اور صداقت کا
مذہب ہے۔حق ہمارا خدا ہے۔اور ہمارے ہاں خدا سے انکار کی مثالیں موجود ہیں لیکن حق
سے انکار کی کوئی مثال نہیں۔"[7]
ہندومت کی تعریف
جوڈاکٹر ذاکر نائیک نے کی ہے، کافی سادہ اور سمجھ میں آ جانے والی ہے۔لکھتے ہیں کہ
"ہندو "کی صرف ایک جغرافیائی تعریف
ممکن ہے کہ کوئی بھی شخص جو ہندوستان میں
رہتا ہے یا ہندوستانی تہذیب سے ادھر آکر آباد ہوا۔ہندو علماء کے نزدیک "ہندومت"ایک
غلط اصطلاح ہے۔اس مذہب کو سناتن دھرم یعنی ابدی دھرم کہنا چاہیئے۔یا وید دھرم یعنی
وہ مذہب جو ویدوں پر مبنی ہے۔سوامیدیو
آنند ویوک کے بقول اس مذہب کے ماننے والوں ویدانتی کہا جانا چاہیئے۔"[8]
ہندو مت کا
بانی:
"دنیا میں جتنے بھی بڑے اور قابل
ذکر مذاہب ہیں ان کا کوئی نہ کوئی بانی ضرور ہے اور وہ کسی شخصیت کی طرف انتساب
کرتے رہے ہیں لیکن ہندو مذہب ایک ایسا مذہب ہے جس کا بانی نا معلوم ہے۔اور کوئی
ہندو بھی اس کے متعلق دعویٰ نہیں کر سکتا کہ مجھے اپنے مذہب کا بانی معلوم ہے۔گو
کہ ہندووں کی تاریخی کتابوں میں بعض مذہبی شخصیات کا حوالہ ملتا ہے۔لیکن ان میں سے
ایک شخصیت بھی ایسی نہیں جس کی تعلیمات
بعد کی ہندو فکر کا سرچشمہ بنی ہوں اور کامل یقین کے ساتھ کسی بھی شخص کو ہندو مذہب
کا موسس اور بانی قرار نہیں دیا جا سکتا۔"[9]
احمد شلبی لکھتے
ہیں کہ
"و اذ کانت الہندوسیتہ لیس لھا موسس معین فان الیدا کذلک،وھی
الکتاب المقدس الذی جمع العقائد والعادات والقوانین بین دفتیہ لیس لہ کذلک واضع
معین،ویعتقد الہندوس انہ ازلی لا بدایتہ لہ،و ملھم بہ قدیم قدم الملھم،و یری
الباحثون من الغریبین والمحققون من الھندوس انہ قد نشأ فی قرون عدیدہ متوالیہ لا
تقل عن عشرین قرنا،بدأت قبل المیلاد بز من طویل،وق د انشأتہ أجیال من
الشعراء،والزعماء الدینین،والحکماء الصوفیین عقبا بعد عقب،وفق تطورات الضروف و تقلبات
الشؤن۔"[10]
مذہبی کتابیں:
ڈاکٹر حمیداللہ
"ہندوؤں کی مقدس"کتابوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
"ہندوستان میں بھی کچھ دینی کتابیں پائی
جاتیں ہیں۔اور ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ یہ خدا کی طرف سے الہام شدہ کتابیں ہیں۔ان
مقدس کتابوں میں وید،اپنشد،پران اور دوسری کتابیں شامل ہیں۔یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ
سب کتابیں ایک ہی نبی پر نازل ہوئی ہیں۔ممکن ہے متعدد نبیوں پر نازل ہوئی
ہوں۔بشرطیکہ وہ نبی ہوں۔ان میں بھی خصوصا پران نامی کتابوں میں کچھ دلچسپ اشارے
ملتے ہیں۔"پران"وہی لفظ ہے جو اردو میں یعنی قدیم ہے۔اس کی طرف ہمیں
قرآن مجید میں ایک عجیب و غریب اشارہ ملتا
ہے۔
"اس چیز کا
پرانے لوگوں کی کتابوں میں ذکر ہے"
میں یہ نہیں
جانتا کہ اس کا پران سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟بہرحال دس پران ہیں۔ایک میں یہ ذکر
آیا ہے۔کہ آخری زمانے میں ایک شخص ریگستان
کے علاقے میں پیدا ہوگا۔اس کی ماں کا نام قابل اعتماد اور باپ کا نام اللہ کا غلام
ہوگا۔اس کا شمال کی جانب سے ظہور ہوگا۔وہ اپنے وطن کو متعدد بار دس ہزار آدمیوں کی
مدد سے فتح کرے گا۔جنگ میں اس کی رتھ کو اونٹ کھینچیں گے اور وہ اونٹ اس قدر تیز
رفتار ہوں گے کہ آسمان تک پہنچ جائیں
گے۔اس کتاب میں جو مذکور الفاظ ہمیں ملتے ہیں۔ان سے ممکن ہے کہ رسول اللہﷺ کی طرف
اشارہ مستنبط کیا جا سکے۔"[12]
ہندو و مت اور
یہود میں کچھ باتوں کی قدرے مماثلت پائی جاتی ہے۔
"تلمود اور
ہندومت کے عقائد میں بھی اشتراک پایا جاتا ہے۔یہودیوں کا عقیدہ ہے
کہ جنت میں جائیں گے مگر گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے بعداسی طرح ہندوؤں کا بھی عقیدہ ہے۔کہ ارواح اپنے گناہوں
کی سزا بھگت کر ہی شانت ہوتی ہیں۔
یہودی مال کی
محبت میں قدرے سخت ہوتے ہیں اسی طرح ہندو بھی مال سے محبت رکھتے ہیں۔اور مال کی ان
کے ہاں باقاعدہ دیوی ہے۔لکشمی دیوی۔
سامری نے بچھڑا بنایا اور بنی اسرائیل نے اس کی پوجا کی
جبکہ ہندوؤں کے ہاں بھی گائے کی پوجا کی جاتی ہے۔
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ غیر یہودی نجس ہیں۔اسی طرح ہندو بھی
احساس برتری میں مبتلا ہیں ۔ذات پات کا نظام اور عدم مساوات اس کی واضح مثالیں
ہیں۔"[13]
سید ابو الاعلی مودودیؒ لکھتے ہیں کہ
"ہندو مذہب ان حوالوں سے کوئی مذہب ہی نہیں ہے کیونکہ مذہب کے لیئے
کسی مرکزی عقیدہ کا ہونا ضروری ہے مگر ہندوؤں کا کوئی مرکزی عقیدہ ہی نہیں
ہے۔تاہم اس مشکل کو ہندوؤں کے جدید مذہبی میلان نے ایک حد تک آسان کر دیا ہے۔گو
مذاہب و مسالک کا اختلاف اب بھی باقی ہے۔لیکن چند مخصوص کتابوں پر اپنی مذہبی
عقیدت کو مرکوز کرنے کی طرف ہندوؤں کا میلان بڑھتا جا رہا ہے۔اور ان کی ایک بڑی
اکثریت نے ان کتابوں کو اپنے دین کی اساس و بنیاد کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔یہ
کتابیں تین ہیں،وید،گپتا اور منو سمرتی۔"[14]ہندو
اپنی مذہبی کتاب کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔شرتی یعنی کانوں سے سنا ا،جسے
مکاشفہ کہنا چاہیئے۔ور سمرتی یعنی باپ
دادا کی طرف سے پہنچا۔جسے حدیث یا روایت کہنا چاہیئے۔"[15]"شروتی
میں میں دو طرح کی کتابیں شامل ہیں یا یوں
کہیئے کہ شروتی کی مزید تقسیم دوحصوں میں کی گئ ہے۔
1-وید
مقدس 2-اپنشد-3 بھگوت گیتا
سمرتی کی اہمیت ثانوی ہے پھر بھی انھیں
بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔اور یہ کتابیں آج کل ہندوؤں میں بہت زیادہ مقبول
ہیں۔سمرتی کا مطلب "یاددداشت"یعنی وہ چیزیں جنہیں یاد کر لیناچاہیئے۔ان
کتابوں کو دھرم شاستر بھی کہا جاتا ہے۔ان میں "پران"،التہاس اور متعدد
دیگر تحریریں شامل ہیں۔"[16]
وید:
"آریاؤں کے مذہبی ارتقاء میں"وید"سنگ میل کی حثیت رکھتی
ہے۔جس کے معنی مقدس علم"کے ہیں۔ویدوں میں قربانی اور عبادت کا ذکر ہے ۔[17]"ویدوں
کو 1200 ق م کے بعد کئی صدیوں تک مرتب کیا جاتا رہا۔ویدوں کے علم کی بنیاد دیوتا عظیم (بھگوان) اور ہندو رشیوں (مذہبی
رہنما)کے درمیان بلا واسط رابطے میں آنے
والے وجود کا نام ہے۔ وید چار ہیں "[18]
1-رگ وید
یہ منظوم ہے۔اس میں دس ہزار منتر
ہیں۔"[19]بعض
کا خیال ہے کہ اس کا تعلق تین ہزار سال ق م مسیح سے ہے۔اس میں جو تعلیمات ہیں۔ان
کے زریعے ہندو اپنے معبودوں کے سامنے عاجزی اور انکساری پیش کرتے ہیں۔"[20]
2-یجروید
یہ سارا رگ وید سے ماخوذ ہے۔قربانی کے موقوں پر گایا جاتا
ہے۔اس کے دو حصے ہیں۔400 ق م میں لکھا گیا۔"[21]
3-سام وید
اس میں محض راگ اور گیت ہیں۔رگ وید سے
نصف ہے تمام منتر رگ وید سے ماخوذ ہیں۔صرف 75 بھجن اس کے اپنے ہیں۔یہ وید زیادہ
اہمیت کا حامل نہیں ہے۔"[22]
4-اتھروید
"یہ جادو اور عملیات پر مشتمل ہے۔اس میں ہندی زندگی کی
تصویر کشی بھی کی گئی ہے۔اتھر وید اس زندگی کی تصویر کشی اس طرح کرتا ہے کہ یہ
زندگی گناہوں سے پر ہے اور شیطانوں سے
بھری ہوئی ہے۔"[23]
اہم تعلیمات
وید ہندو ادب میں سنگ میل کی حثیت رکھتی ہے۔ہندوؤں کے ہاں
اس کی حثیت الہامی ہے۔وید کی تعلیمات کے حوالے سے نہال سنگھ لکھتے ہیں کہ
"وید
چار مضامین پر مشتمل ہے۔معرفت،عمل،عبادت اور علم۔ان میں سے معرفت سب سے مقدم
ہے۔کیونکہ اس میں پرمیشور سے لے کر تنکے تک کل اشیاء کا علم حقیقی شامل ہے۔اور اس
میں بھی ایشور(کی ذات) کو کل کائنات پر شرف ہے۔"[24]
دھرم کی وضاحت ویدوں
میں اس طرح سے کی گئی ہے
"اے انسانو!تم میرے بتائے ہوئے پر
انصاف،بے تعصب راستی کی صفت سے موصوف دھرم پر چلو۔اور ہمیشہ اس پر قائم رہو۔اور
اسے حاصل کرنے کے لیئے ہر طرح کی صفت چھوڑ کر آپس میں ملو تاکہ تمہارے درمیان
اعلیٰ درجہ کا سکون ہمیشہ ترقی پائے۔اور تمام دکھ مر جائیں۔"[25]
اخلاقیات کی تلقین ویدوں میں اس طرح سے کی گئ ہے۔"سب
لوگوں کو سچائی پر پورا پورا اعتقاد رکھنا چاہیئے۔اور جھوٹ پر کبھی یقین نہ لانا
چاہیئے۔"[26]
جنگ کی تعلیمات بھی
ویدوں میں ملتی ہیں۔سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ویدوں کی جنگی تعلیمات پر تبصرہ کرتے
ہوئے لکھتے ہیں کہ"یہ اگنی ہم کو وسیع مکان اور آرام و آسائش نکشے اور ہمارے
دشمنوں کو ہمارے آغے مارتی بھگاتی چلے۔وہ مال غنیمت حاصل کرنے کی جنگ میں مال
غنیمت لوٹے،وہ اپنی فاتحانہ پیش قدمی میں دشمنوں کو زیر کرے۔"[27]
"اے اگنی !ہماری مزاحمت کرنے والی جماعتوں کو مغلوب
کر،ہمارے دشمنوں کو بھگا دے۔اے اجیت!دیوتاؤں کو نہ ماننے والے حریفوں کوقتل کر
اپنے پجاری کو عظمت و شوکت نصیب کر۔"[28]
اسی سے ملتی جلتی تعلیمات چاروں ویدوں میں ملتی ہیں جن سے
ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کا کوئی بڑا مقصد ان کے پیش نظر نہیں تھا۔سوائے ناموری اور
دولت کے۔"[29]
اپنشد:
اپنشد
بھی ہندومت کے متون مقدسہ میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔اپنشد کا لفظ دراصل تین
لفظوں سے مل کر بنا ہے۔اپا جس کے معنی قریب،نی جس کا مطلب ہے نیچے اور شد یعنی
بیٹھنا۔۔۔گویا اپنشد کا مطلب ہے قریب ہو کر زمین پر بیٹھنا،جس طرح شاگرد اپنے
استاد کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔"[30]
"اپنشد میں ہندو مذہب کی فلسفیانہ بنیادیں استوار کی
گئی ہے۔"[31]
اپنشد
وہ فلسفیانہ خطبات ہیں جو گروؤں نے اپنے ہونہار ذہین و فطین شاگردوں کو دیئے
تھے۔یہ خطبات 800 ق م اور 500 ق م کے مابین مرتبہ ہوئے۔ان میں 112 خطبے ہیں۔"[32]
اہم تعلیمات:
"اپنشد یا پوشیدہ تعلیمات میں رسوم ،شعائر سے الگ ہٹ کر ان میں کائنات
اور اس سے انسان کے رشتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔"[33]
"اپنشد کے اندر غالب رجحان اور جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔وہ
وحدت الوجود کا نظریہ ہے۔یہ حقیقت ویدک ادب کے برہمن حصہ میں ہی سامنے آ گئی تھی
کہ برہمن ہی ایک حقیقت ہے۔جو کائنات کی سبھی چیزوں کے پیچھے ہےاور یہ کہ قربانی
میں پڑھے جانے والوں منتروں میں ہی اس کا
سب سے بڑا اظہار ہوتا ہے۔لیکن اپنشد کے اندر اس نظریہ میں کچھ کچھ مزید ارتقاء
ہوا۔اور اس کو ایک اعلیٰ مذہبی حقیقت کے طور سے بڑے شدومد کے ساتھ بیان کیا گیا
۔اپنشد میں برہمن کے قربانی کے ساتھ تعلق کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے اس ے بذات
خود کائنات کی بنیادی حقیقت کے طور سے بیان کیا گیا۔"[34]
"اپنشد
کا ایک اہم موضوع براہمہ بھی ہے۔جو تمام کائنات کی روح اعظم ہے۔ساری کائنات پر
مستولی ہے۔مذکر ہے نا مونث،یہ وہ قوت عظیم ہے جو تمام طاقتوں پر غالب ہے۔مگر اس کے
باوجود وہ نہ کسی کو بخش سکتی ہے نہ سزا دے سکتی ہے۔[35]
"اپنشد
کی تعلیمات کے مطابق نجات کا زریعہ ریاضت ہے۔اور یہ کہ مجاہدات کے زریعے تمام نفسانی خواہشات کو کچل کر اپنی آتما کو
کائنات میں مدغم کیا جا سکتا ہے۔اس میں نجات کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں تناسخ بھی
اس میں شامل ہے۔"[36]
اثرات:
اگرچہ یہ ویدک ادب اور بھگوت گیتا کی طرح
عالمگیر شہرت تو حاصل نہ کر سکے مگر پھر بھی اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
بھگوت گیتا:
بھگوت گیتا
ہندو
مت کا سب سے مقدس الہامی صحیفہ ہے۔اٹھارہ
ابواب اور سات سو شلوک پر مشتمل یہ کتاب رداصل مہا بھارت کے باب
23 تا 40 کا حصہ ہے۔ بھگوت گیتا کے لفظی معنی نغماتِ حب یا محبت کے گیت کے ہیں ۔
گیتا کے دنیا کی ہر معروف زبان میں تراجم ہوچکے ہیں۔
بھگوت گیتا وشنو بھگوان کے اوتار شری کرشن اور پانڈو خاندان کے بہادر جنگجو ارجن کے مابین مکالمے کی منظوم صورت ہے۔
گیتا کا پس منظر جنگ کا میدان ہے (جو درحقیقتاً زندگی کا استعارہ ہے)۔ جہاں ارجن
جیسا سورما جب اپنے ہی اہل خانہ کو دولت اور اقتدار کی خاطر کشت و خون پر آمادہ
دیکھتا ہے تو شدید باطنی کرب اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوجاتا ہے۔ جنگ کی ہولناکی
اور قتل عام کا سوچ کر وہ آبدیدہ ہوجاتا ہے، اور اپنے ہتھیار پھینک دیتا ہے۔ ایسے
میں بھگوان کرشن غیب سے نمودار ہوتےہیں اور پھر ارجن اور کرشن کے مابین مکالمے کا
آغاز ہوتا ہے۔ جو اپنے آپ میں نہایت عمیق آفاقی پیغام لئے ہوئے ہیں۔
اہم تعلیمات
گیتا کو ہندو
ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے۔سید مودودیؒ اس
پہ بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"گیتا اس دور کی کتاب ہے جب
شمالی ہند پر آریوں کا تسلط قائم ہو چکا تھا۔اور تفوق و برتری کے لیئے خود آریوں
کے دوبا اثر خاندانوں میں کش مکش ہورہی تھی۔یہ کتاب ہم کو کرشن جی جیسے
مذہبی پیشوا کی زبان سے جنگ کے متعلق ہندوؤں کے فلسفیانہ افکار کا علم دیتی ہے۔[37]
"صاحبان
ساری گیتا کا نچوڑ اسی اشلوک میں ہے
آتما امر ہے۔یہ
کبھی فنا نہیں ہوتی۔ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔
کھشتری کا دھرم
یہ ہے کہ وہ دل و جان کے ساتھ یدھ میں حصہ
لے۔اور دشمن پر فتح حاصل کرے۔یاخود مٹ جائے ۔دھرم ید نہ کرنا یا میدان جنگ سے
بھاگنا گناہ عظیم ہے۔جو اسے سید ھا جہنم میں لے جاتا ہے۔مہاتما گاندھی کا کہنا تھا
کہ گیتا کہتی ہے
کہ نتیجہ کی فکر چھوڑ اور عمل کرو۔امید چھوڑو اور عمل بے لوث کرو۔یہ گیتا کی ایک
ناقابل فراموش نصیحت ہے۔جو عمل چھوڑتا ہے وہ گرتا ہے۔عمل کرتے ہوئے جو اس کے نتیجے
سے بے بیاز ہوتا ہے اسے اوج نصیب ہوتی ہے۔"[38]
"یہ امتیازی خصوصیات کی حامل کتاب ہے۔یہ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں
میں رہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔کہ انسان کو زندگی کیسے گزارنی چاہیئے۔اس میں فلسفہ
یوگ،سانکھیہ اور ویدانت کی تعلیمات کو ملانے کی ایک شاندار کوشش ہے۔اور روح کے
لافانی ہونے کا درس ہے۔دیوتا کا اتار کی شکل میں آنا ناممکن ہے۔اور اچھوتوں کے
لیئے بھگوان کی پوجا کے طریقے درج ہیں۔یہاں تک کہ گاندھی جی اپنے عدم تشدد جیسے
عقیدے کی بنیاد گیتا پر رکھتے ہیں۔اس کے برعکس دوسرے مفکر جنگ و تشدد کو صحیح راہ
عمل گیتا سے ثابت کرتے ہیں۔"[39]
سید مودودیؒ لکھتے ہیں کہ
"ہندو مذہب میں گیتا کو جو عظمت حاصل ہے۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ
سری کرشن جیسے ممتاز مذہبی پیشوا کی طرف منسوب ہے۔اس میں ہندو مذہب اور فلسفہ کو
جس وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔اس کی مثال پورے سنسکرت لٹریچر میں نہیں ملتی۔گو
اس میں ہندو تصوف کے بیسیوں مسائل زیربحث آئے ہیں لیکن اس کا اصل مرکزی نقطء جہاد
ہی ہے۔کیونکہ وہ ایک پست ہمت سپاہی کو جنگ پر ابھارنے اور اس کے خوں ریزی سے
بیزاردل میں رزم آرائی کا شوق پیدا کرنے کے لیئے لکھی گئی ہے۔
جب ارجن ہمت ہارنے لگتا ہے تو کرشن جی ان
الفاظ مین اسے ہمت بندھاتے ہیں
"جسم کی آتما غیر فانی اور
ناقابل ادراک ہے۔اور اس کو حا صل ہونے والے اجسام فانی ہیں۔اس لیئے اے ارجن!تو جنگ
کر،جو شخص سمجھتاہے کہ آتما مارتی ہے یا
آتما ماری جاتی ہے۔اس کو سچا گیان حاصل نہیں ہے۔کیونکہ یہ آتما نا تو مارتی ہے۔ یہ
آتما نہ کبھی پیدا ہوتی ہے۔اور نہ مرتی ہے۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ ایک مرتبہ
ہونے کے بعد کبھی پھر کبھی نہ ہوتی ہو۔یہ کبھی بوڑھی نہ ہونے والی ،دائم ،او کبھی
نہ مٹنے والی ہے وہ ایک انسان کو کیسے مار ڈالے گا یا مروا دے گا۔جس طرح کوئی شخص
پرانے کپروں کو اتار کر نئے کپڑے پہن لیتا ہے۔اسی طرح جسم کی مالک آتما بھی پرانے
جسم کو چھوڑ کر نیا جسم اختیار کر لیتی ہے۔اس آتما کو ہتھیار نہیں کاٹ سکتے۔آگ
نہیں جلا سکتی۔نہ اسے پانی تر کر سکتا ہے۔اور نہ ہوا خشک کر سکتی ہے۔۔۔اس لیئے اس
آتما کا اسطرح کا سمجھ کر افسوس کرنا تجھے
مناسب نہیں ہے۔"[40]
"اے دھنجے!تو اس آتم گیانی شخص کو کرم اپنی قیود میں نہیں پھنسا سکتے
جس کے سب شکوک و شبہات گیان سے دور ہوتے گئے۔اس لیئے تیرے دل میں گیان (عدم و
عرفان)سے جو شبہہ پیدا ہو گیا ہے اسے تو گیان روپ کی تلوار سے کاٹ دے اور کرم یوگ
کا سہارا لے کر جنگ کے لیئے کھرا ہو جا۔"[41]
"اگر تو سب پاپیوں سے بھی زیادہ پاپ کرنے والا ہو تب بھی اس گیان کی
کشتی سے ہی تو پاپوں کو پار کر جائے گا۔جس
طرح روشن کی ہوئی آگ تمام ایندھن کو جلا کر
خاک کر دیتی ہے۔اسی طرح اے ارجن!یہ گیان روپ کی آگ بھی سب کاموں کو نیکی و بدی کی
قیود کو جلا ڈالتی ہے۔"[42]
سید مودودیؒ وضاحت کرتے ہیں کہ کرشن جی کی اس تعلیم کا ماحصل صاف الفاظ میں یہ ہے:
"چونکہ عقیدہ تناسخ کی رو سے انسان ایک دفعہ مر کر پھر دوسرے جنم میں
آ جاتا ہے۔اس لیئے قتل کر دینا کوئی بری بات نہیں ہے۔مرنے کے بعد وہ پھر جہنم لے
لے گا۔اور اس کی غیر فانی روح پر قتل کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ایسی تعلیم کا قدرتی
نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ انسان کے دل میں انسانی جان کی کوئی قدروقیمت نہ رہے۔جسم کی
فنا پذیری کا دائمی فلسفہ پیش کر کے قتل کی ذمہ داری سے بری ہو جائے۔جو شخص گیانی
ہونے کا مدعی ہو اس کے لیئے قتل کیا معنی،کوئی جرم جرم اور کوئی گناہ گناہ ہی نہیں
رہتا۔وہ آزادی کے ساتھ ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کر کے بھی بے جرم و بے قصور رہ
جاتا ہے۔ایک طرف گیتا نے اس قدر آزادی کے ساتھ جنگ کی تلقین کی ہے۔دوسری طرف ہم
دیکھتے ہیں کہ پورے اٹھارہ ابواب میں ایک جگہ بھی اس نے یہ نہیں بتایا کہ جس خوں
ریزی پر وہ اس طرح انسان کو اکسا رہی ہے اس کا مقصد کیا ہے اور کن اغراض کے لیئے
وہ بنی نوع انسان کا خون بہانا اور ارواح و اجساد کے تعلق کو قطع کرنا جائز سمجھتی
ہے۔جنگ کے مسئلہ میں مقصد جنگ کا سوال درحقیقت ایک بنیادی سوال ہے۔کیونکہ اس
خطرناک کام کو اگر کوئی چیز مقدس بنا سکتی ہے۔تو وہ صرف مقصد کی پاکی و طہارت ہی
ہے۔ورنہ ناجائز مقصد کے لیئے تو خواہ کتنی ہی شرافت کے ساتھ جنگ کی جائے بہر حال
وہ ناجائز ہوگی۔اور اگر کہیں کوئی مقصد جنگ واضح بھی ہے تو وہی مال و زر کی
خواہش،وہی شہرت و ناموری کا شوق ،وہی حکومت و سلطنت کی طلب،وہی شکست کی ذلت اور
بدنامی کا خوف۔کوئی اعلیٰ اخلاقی ہدایت نہیں ہے کوئی بہتر نصب العین نہیں ہے،حیوانی خواہشات و جذبات سے بلند تر کسی
جذبہ و خواہش کی طرف انسان کی رہنمائی کی گئی ہے۔"[43]
اثرات:
بھگوت گیتا نے عالمگیر اثرات مرتب کیئے۔اس
کے اثرات پر بات کرتے ہوئے یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں کہ
"کہ گیتا کی تصنیف کو اڑھائی ہزار برس
گزر چکے ہیں اس طویل مدت میں ہندوستانی
نظریات کو متواتر ارتقاء اور تنزل کے دوروں سے گزرنا پڑا۔ایک تجربہ کی جگہ دوسرے
نے لے لی۔ایک فکر کے بعد دوسری فکر پیدا ہوئی۔لیکن ہر زمانے میں ہندوستانی نظریات
کو گیتا میں زندگی کا نشان ملتا رہا۔اور اس زندگی نے گیتا کو ارتقاء پذیر فکر سے
ہم آہنگ رکھا۔اس میں ہمیشہ تازگی اور نیا پن رہا۔اور ان روحانی مسائل کو جو انسان
کو مضطرب رکھتے ہیں۔اس نے ہمشہ اس کی رہبری اور رہنمائی کی۔"[44]
منوسمرتی
منو سمرتی ہندوستان کی ایک قدیم مذہبی
کتاب ہے جس میں پہلی بار ہندوستانیوں کے سامنے ایک نظام زندگی رکھا گیا۔"منو
کوشل خاندان سے بادشاہ تھا۔اس نے ہندو قوم کے لیئے 880 ق م میں قانون وضع کیا۔جسے
منو سمرتی کا نام دیا گیا۔"[45]اس
قانون کی اہمیت میں بات کرتے ہوئے رشید احمد لکھتے ہیں کہ
"قدیم
ہندوستانی لٹریچر میں جو درجہ منو سمرتی کا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ہماری معاشرت
کے بعض اصول جو امتداد زمانہ کی وجہ سے
مذہبی حثیت اختیار کر چکے ہیں۔بہت حد تک منو سمرتی سے ماخوذ ہیں۔اور چونکہ منو
سمرتی ہندوؤں کے قانون ریاست اور سیاسی نظریوں کی بنیاد پرقائم ہے۔"[46]رہی
بات زمانہ ء تصنیف کی تو "میکس مولر اسے چوتھی صدی عیسوی کی کے بعد کی تصنیف
بتاتا ہے۔بویلر نے منو سمرتی پر بہت وقت صرف کیا اور پوری تحقیق و تفتیش کے بعد اس
نتیجے پر پہنچا ہے۔کہ موجودہ منو سمرتی دوسری صدی میں موجود تھی۔"[47]
اہم تعلیمات
"ان قوانین نے ہندؤں کی زندگی کو منظم کر دیا۔ان کے دین
کی بنیادی باتوں کو پختہ ہونے میں ان کا بڑا دخل ہے۔ان قونین میں مذکور ہے:
"یقینا جو
آدمی اپنے نفس پر غالب آگیا تو وہ اپنے ان حواس پر غالب آگیا جو اسے شر کی طرف لے
جاتے ہیں۔نفس تو برائی پر اکساتا ہی ہے کبھی سیر نہیں ہوتا بلکہ اپنی خواہش کو
پالینے اس کی حرص مزید بڑھ جاتی ہے۔یقنا
جسے ہر چیز میسر آئی اور جو اپنے ہاتھ میں بھی موجود ہر چیز سے کنارہ کش ہو گیا تو
یہ پہلے سے بہتر ہے۔"[48]
البیرونی ذات پات پہ لکھتے ہیں کہ
"
ہندوؤں کے ہاں چار ابتدائی طبقات
ہیں۔ہندوجنہیں الوان یعنی رنگ کہتے ہیں۔سب سے اونچا طبقہ برہمن ہے۔برہمن براہما کے
سر سے پیدا ہوئے۔دوسرا طبقہ کھشتر ہے،ہندوؤں کے خیال میں یہ لوگ براہما کے
مونڈھوں سے پیدا ہوئے۔ان کا مرتبہ برہمنوں سے زیادہ دور نہیں۔تیسرا طبقہ دیش ہیں
اور چوتھا شودر،یہ برہما کے دونوں پیروں سے پیدا ہوئے۔اخیر کے دونوں طبقے باہم قریب ہیں۔یہ
چاروں طبقے باوجود ایک دوسرے سے فرق و امتیاز رکھنے کے شہروں اور دیہاتوں میں
مخلوط محلوں اور مکانوں میں رہتے ہیں۔"[49]
منو اسمرتی میں
برہمن کو عام انسان سے اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا گیا ہے۔اس کے بر خلاف شودر کو
انسان ہی نہیں مانا گیا۔شودر سے اگر کسی برہمن
کی شان میں گستاخی ہو جائے تو اس ضمن میں منو مہاراج کہتے ہیں۔
اگر کوئی شودر کسی برہمن کو گناہگار کہہ
کر پکارے یا کوئی گالی دے تو اس کی زبان میں سوراخ کر دیا جائے۔کیونکہ اس کی
پیدائش پاؤں کے درمیان سے ہوئی ہے۔"[50]
"اگر
کوئی شودر فخر کی وجہ سے برہمنوں کو نصیحت کرنے کی کوشش کرے تو اس جسارت و گستاخی
کے کے جرم میں راجہ کو چاہیئے کہ اس کے منہ میں
اور کان میں کھولتا ہوا تیل ڈلوا دے۔[51]
منو سمرتی میں
جنگ کی تعلیمات کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے سید مودودیؒ لکھتے ہیں کہ
"کہ
سب سے پہلا سوال مقصد جنگ کا ہے۔منو نے اس پر کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ بحث نہیں کی
ہے۔تاہم حسب ذیل تصریحات سے صاف معلوم ہوتا ہے کن مقاصد کے لیئےجنگ کو جائز رکھتا
ہے:
"روئے
زمین کے جو حکمران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے (یا قتل کرنے)کی خواہش سے اپنی تمام
قوت کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔اور کبھی منہ نہیں موڑتے وہ مرنے کے بعد سیدھے بہشت کی
طرف لے جاتے ہیں۔[52]
"جس
راجہ کی فوجیں ہر وقت جنگ کے لیئے تیار رہتی ہیں۔اس سے تمام دنیا خوف زدہ و مرعوب
رہتی ہے۔پس ایسے راجہ کو اپنی مستعد فوج کے ساتھ تمام مخلوقات کو اپنا تابع فرمان
بنانا چاہیئے۔یا دوسرے زرائع اختیار کرنے چاہیئے۔یعنی رشوت،توڑ جوڑ اور جنگی
طاقت۔"[53]
"کامیابی
کے ان چاروں زرائع میں سے عقلمند لوگ
سلطنت کی توسیع کے لیئے صلح و رضا اور جنگی طاقت کو زیادہ "[54]
"دھرم
کے مطابق عمل کرنے والے راجہ کا خاص فرض یہ ہے کہ وہ ممالک فتح کرے اور جنگ سے کبھی نہ ٹلے۔"[55]
ان
اشلوکوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصد کے سوال میں منو ی پرواز فکر بھی کرشن جی سے کچھ
زیادہ اونچی نہیں ہے۔سلطنت کی توسیع،ممالک کی فتح و تسخیر اور ہمسایہ قوموں اور
حریف طاقتوں کو نیچا دکھانے کی جہانگیر انہ خواہش سے بلند تر کسی اخلاقی نصب العین
تک اس بھی رسائی نہیں ہوئی۔عام دنیا داروں کی طرح وہ بھی حکومت و بادشاہی کو طاقت
وروں کا منتہائے مقصود سمجھتا ہے۔اور انھیں ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنی قوت کو ہر
وقت اسی ملک گیری کے کام میں صرف کرتے
رہیں۔فرماں روائی کے استحقاق اور قوت کے
مصرف کا یہ تصور کسی اخلاقی کا مقتضیٰ
نہیں ہو سکتا۔اخلاق تو بنی نوع انسان کی مجموعی صلاح و فلاح کا خواہش مند ہے۔اور
جنگ جیسے مہلک عمل کی اجازت صرف اسی صورت میں دے سکتا ہے۔جب کہ انسان کا خون،قوموں
کی آزادی اور ملکوں کا امن وسکون
زیادہ قیمت رکھتا ہے۔کسی کی حرص وہوس کا پورا کرنا کبھی
اخلاق کا مقتضیٰ نہیں ہو سکتا۔اخلاق تو بنی نوع انسان کی مادی ،روحانی،اور اخلاقی
زندگی کو حریص طاقتوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچانے کے لیئے اس کے سوا کوئی دوسری
سورت باقی نہ رہے۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس نظریئے تک منو کیا کسی ہندو فلاسفی اور
مقنن کی رسائی بھی نہیں ہوئی۔اور جنھوں نے کچھ اونچا اڑنے کی کوشش کی وہ حد اعتدال
سے گزر کر آہنسا کی سرحد پر پہنچ گئے۔جو انسان کی مجموعی صلاح و فلاح کے لیئے خوں
ریزی کی کھلی اجازت سے کچھ کم نقصان رساں نہیں ہے۔بلکہ عملا دونوں کا نتیجہ ایک ہی
ہے۔یعنی قوموں اور ملکوں کی تباہی اور شریر و فاسد لوگوں کا غلبہ و تسلط۔"[56]
اثرات
منو
سمرتی نے ہندو معاشرے کو جس لاحاصل زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔اور معاشرے پر جو طبقاتی اثرات مرتب کیئے
ہیں اس پہ بات کرتے ہوئے پروفیسر محسن عثمان ندوی لکھتے ہیں کہ
"بہرحال
"منو سمرتی "کے مطالعے اور اس کے قوانین پر گہرائی سے نظر ڈالنے کے بعد
یہ کہا جا سکتا ہے۔کہ کسی مہذب انسانی معاشرے کے لیئے اس کا نفاذ کسی بھی حثیت
سے مناسب نہیں"[57] ذات
پات کےنظام پہ تبصرہ کرتے ہوئےانسائیکلو پیڈیا آف
بریٹینیکا میں ہے
The caste system, which hierarchically arranges the groups of Hindus
socially on the basis of relative purity, has been identified by some schoolers
as the central unifying institution of Hinduism. Growing one of an ancient
ideological division of society into four classes, priests, warriors,
agriculturists and trades and servants, the complex caste structure is indeed
generally adhered to and often actively supported by the vana Hindu traditions.
Many, though not all, hindues acknowledge the supremacy of the Brahman
(priestly)class as the highest representative of religions purity and knowledge
,and many support the notion that social and religious duties are differently
determined according to birth and inherent ability. This is the underlying
principle of dharma. The religious and moral law governing individual conduct.”[58]
اس کے علاوہ مہا
بھارت اوررامائن بھی مشہور کتابیں ہیں۔
عقائدو نظریات:
ہندو قوم اگرچہ
مختلف بت پرست قوم ہے مگر کہا جاتا ہے کہ
ان کے اندر شروع میں خدائے بزرگ و برتر واحد پر ایمان کا کامل عقیدہ موجود تھا ۔
اللہ کی ذات پر
ایمان کے حوالے سے ابوریحان البیرونی لکھتے ہیں کہ
"اللہ
پاک کی شان کے حوالے سے ہندووں کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ واحد ہے،ازلی ہے،جس کی نہ ابتداء ہے نہ
انتہا،اپنے فعل میں مختار ہے،قادر ہے،حکیم ہے،زندہ ہے،زندہ کرنے والا ہے،صاحب
تدبیر ہے،باقی رکھنے والا ہے،اپنی بادشاہت میں یگانہ ہے۔جس کا کوئی مماثل اور
مقابل نہیں نہ وہ کسی چیز سے مشابہہ ہے اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ مشابہت رکھتی
ہے۔"[59]
جبکہ موجودہ
ہندومت کے پیروکار اس کے برعکس متعدد خدا رکھتے ہیں۔احمد شلبی اس پہ تبصرہ کرتے
ہوئے لکھتے ہیں کہ
"و یعلق کتاب Hinduism علی کثیرتہ الآلھتہ بقولہ:أن ھذہ الدیانتہ تو زع الآلھتہ حسب المناطق و ھسب
الاعمال التی تنا ط بھذہ الآلھتہ ،فلکل منطقتہ الہ،ولکل عمل أو طاھر تہ
الہ۔""[60]
ہندومت کے
ارتقاء پر بحث کرتے ہوئے سید امیر علی لکھتے ہیں کہ
"اگر
ہم ایک قدم پیچھے پلٹ کر نگاہ ڈالیں تو ہمیں ہندوستان میں آریائی فتوحات کا
سیلاب مشرق اور جنوب کی طرف بڑھتا دکھائی
دیتا ہے۔وہ آریائی مذہب جو حملہ آور اپنے قدیم وطن سے اپنے ساتھ لائے تھے۔زیادہ تر
دوچیزوں پر مشتمل تھا۔یعنی اجداد کی روح کی پرستش
اور مرئی مظاہر میں مجسم قوائے فطری کی پرستش۔پنجاب میں روحانی تصور نے مزید
نشونما پائی۔ویدوں میں ہمیں ترقی کا کارواں آگے بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔تآنکہ ہم اپنشدوںمیں ہندوؤں ک
مذہبی خیالات کو اپنے اوج کمال پر پہنچا ہوا دکھائی دیتے ہیں۔آپنشدوں میں روحانی
ولولہ اس شدت سے ہے کہ وہ بلند ترین
وحدانیت کے قریب جا پہنچتا ہے۔اپنشد نہ صرف خدا کے نفوذمطلق سے بحث کرتے ہیں جو
ایک ایسا تصور ہے۔جس نے بعد کے زمانوں میں مادی وحدت الوجود کی صورت اختیار کر
لی۔بلکہ یہ تعلیم بھی دیتے ہیں کہ روح
مطلق کی آتما تمام موجودات کی محافظ
اور ساری کائنات کی حاکم ہے ۔وہ انسانوں کے دلوں میں رہتی ہے۔اور آخرکار
انفرادی روحوں کی لامتناہیت کو یوں جذب کر لیتی ہے۔جیسے سمندر دریا کو اپنے اندر
جذب کر لیتا ہے۔جب یہ انجذاب ہو جاتا ہے۔تو انسانی روح پر کالبد خاکی میں جو
تجربات گزرے ہوتے ہیں۔وہ ان سب کا شعور کھو دیتی ہے۔لیکن انسانی ترقی کی ان دلچسپ
دستاویزوں میں بلا شک و شبہ روحانی انحطاط کے جراثیم موجود تھے۔جنہون نے بہت
جلد ارتقاء کے عمل کا رخ پلٹا دیا۔چنانچہ
مزید عروج کی بجائے ہمیں مسلسل تنزل و بگاڑ دکھائی دیتا ہے۔اپنشدوں کا مقام
"پران "حاصل کر لیتے ہیں۔اور
پھر "تینتروں "کا طریق پرستش پرانوں کو اس مقام سے ہٹا دیتا
ہے۔"[61]
عقیدہ تناسخ
تناسخ کا عقیدہ
ہندوؤں میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔مظہرالدین صدیقی لکھتے ہیں کہ
"برہمنا کے
عہد میں سب سے زیادہ اہم عقیدہ جو ہندومت میں داخل ہوا،تناسخ کا عقیدہ تھا۔ویدوں
میں یہ عقیدہ کہیں نہیں ملتا ۔اس کے برعکس
ان کتابوں میں بقائے شخصی کا عقیدہ نہایت نمایاں حثیت رکھتا ہے۔یعنی مرنے کے بعد
انسان کی روح باقی رہتی ہے۔اور اسےدوبارہ
دنیا میں نہیں آنا پڑتا۔لیکن ست پت برہمنا میں
یہ پہلی بار بتایا گیا ہے۔کہ جو لوگ مذہبی رسوم کو پورے طور پر ادا نہیں
کرتے انھیں موت کے بعد پھر دنیا میں آنا
پڑتا ہے۔"[62]
اس کی ہمیت پہ
بات کرتے ہوئے البیرونی لکھتے ہیں کہ
"جس
طرح کلمہء اخلاص (لاالہ الااللہ محمد رسول
اللہ)مسلمانوں کے ایمان کا شعار،تثلیث عیسائیوں کی علامت اور سبت منانا یہودیوں کی
خصوصیت ہے۔اسی طرح تناسخ کا (عقیدہ) ہندو مذہب کا متیاز ہے۔جو شخص تناسخ
کا قائل نہیں ہے۔وہ ہندو نہیں ہے۔اور اس کا شمار ہندوؤں میں نہیں ہو سکتا۔"[63]
عقیدہ تناسخ پہ
بات کرتے ہوئے احمد شلبی لکھتے ہیں :
"و سبب التناسخ أو تکرارالمولد ھو (اولا)أن الروح
خرجت من الجسم ولا تزال لھا أھواء و شھوت مرتببتہ بالعالم المادی لم تتحقق بعد،و
(ثانیا)أنھا خرجت من الجسم و علیھا دیون کثیرتہ فی علاقاتھا بالآخرین لا بد من
أداءھا ۔فلا مناص اذا من أن تستوفی شھواتھا فی حیوات أخری،و أن تتذوق الروح
ثمار أعمالھا التی قامت بھا فی حیاتھا السابقتہ۔"[64]
تناسخ کی حقیقت پہ بات کرتے ہوئے البیرونی
لکھتے ہیں کہ
"تناسخ
میں ارواح کی آمدورفت ادنیٰ درجے سے اعلیٰ درجے کی طرف ہوتی ہے۔اس کے برعکس نہیں
ہوتی۔جس کا سبب یہ ہے کہ اعلیٰ میں،ادنیٰ اور اعلیٰ دونوں شامل رہتے ہیں۔دونوں درجے کے مرتبے میں
اختلاف ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان کے مزاج اور اجزائے ترکیبی کی کمیت اور
کیفیت کی مقدار(یعنی ان کی تعداد اور دوسرے حالات) میں فرق و امتیاز اور اس وجہ سے
ان کے افعال میں بھی اختلاف ہو جائے۔اور
یہی تناسخ ہے۔آنے جانے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے۔کہ نفس اور مادہ دونوں
جانب سے مقصود کامل طرح پر حاصل ہو جائے۔اسفل یعنی مادہ کی جانب سے مقصود اس طرح
حاصل ہوتا ہے کہ مادہ میں جو صورت ہے وہ
فنا ہو جاتی ہے۔اور سوائے اس اعادہ کے جو مرغوب ہو کچھ باقی نہیں رہتا۔جانب اعلیٰ سے مقصود اس طرح حاصل ہوتا ہے۔کہ نفس کو اس چیز
کے جاننے کا شوق نہیں رہتا۔جانب اعلیٰ سے مقصود اس طرح حاصل ہوتا ہے۔کہ نفس کو اس
چیز کے جاننے کا شوق نہیں رہتا۔جس کو وہ نہیں جانتا۔اس کو اپنی ذات کی شرافت اور
اپنے وجود بقا میں غیر پر موقوف نہ ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔اور مادہ کی حقارت ،اس
کی سورتوں کی ناپاییداری ،محسوس مادی کے حاصل اور مادی لذتوں کے حال سے پوری
واقفیت ہو جانے کے بعد مادہ سے ایسا استغنا ہو جاتا ہے۔کہ وہ اس سے اعراض کرتا
ہے۔بندش کھل جاتی ہے۔تعلق منقطع ہو جاتا ہے۔فرقت وجدائی پیش آ جاتی ہے۔اور جس طرح
تل کے دانہ میں جو صلاحیتیں اور انوار ہیں وہ اس کے بعد ،تیل سے جدا نہیں ہوتے۔اسی
طرح نفس سعادت علم کے ساتھ کامیاب اپنے معدن کی طرف واپس آ جاتا ہے۔اور عقل،عاقل
اور معقول متحد ہو کر ایک ہو جاتے ہیں۔"[65]
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں