سبق ملا ہے معراج مصطفیٰﷺ سے مجھے


واقعۂ معراج کو ہر دور میں علماء اور خطباء اپنے اپنے انداز سے بیان کرتے اور مختلف زاویوں سے اِس کی تعبیر و تشریح فرماتے آئے ہیں۔ لیکن علامہ اقبال نے ایک نئے انداز میں اِس واقعے کو تعبیر فرمایا، اُن کے نزدیک یہ سفر انسانی زندگی کے ارتقاء کی پہلی منزل بنا، اسی لیے تو علامہ اقبال نے کہا تھا۔۔۔۔

سبق ملا ہے یہ، معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالَم بشریت کی زَد میں ہے گردوں
واقعہ شب معراج بلاشبہ انسانیت کی تکمیل ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے
ترجمہ: ''اے جنات اور انسان کے گروہو! اگر تم یہ طاقت رکھتے ہوکہ آسمانوں اور زمینوں کے کناروں سے نکل جاؤ، تو نکل جاؤ! تم جہاں بھی جاؤ گے، وہاں اُسی کی سلطنت ہے (رحمن:33)''۔
بلاشبہ یہ خالق کائنات کا انعام ہے۔اور انسانوں کے لیئے پیغام بھی۔۔۔کہ اس کے لیئے اللہ نے زمین ہی نہیں آسمان کی وسعتوں کو چھونے کے قابل بنایا۔اسے بتایا کہ تم محدود نہیں ہو،تمہاری حد بہت اوپر ہے۔
جدید سائنسی علوم کائنات کی جن سچائیوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں، قدم قدم پر انکشافات کی نئی، نئی دنیاؤں کے ظہور کی تصدیق کررہے ہیں، اس سے اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی آفاقی تعلیمات کی سائنسی توجیہہ خود بخود ہوتی جارہی ہیں۔ زمین سے فضا کا سفر کروڑوں نوری سال کا ہوتا ہے۔
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے جولائی1969 میں اپالو مشن کے تحت چاند کا پہلا کام یاب سفر کیا، نیل  آرمسٹرانگ، ایڈون بز اور کولون تین افراد پر مشتمل یہ قافلہ دو روز چاند پر رہنے کے بعد واپس لوٹا، اِس دوران ان کا زمینی مرکز سے مسلسل رابطہ رہا۔ عالمِ انسانیت کی اِن خلائی فتوحات اور تسخیرِ ماہتاب کا ذکر چودہ سو سال پہلے قرآن مجید میں وضاحت کے ساتھ کر دیا گیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: '' قسم ہے چاند کی، جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے، تم یقیناً طبق در طبق ضرور سوار ی کرتے ہوئے جاؤ گے، تو اُنہیں کیا ہوگیا ہے کہ (قرآنی پیشن گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) ایمان نہیں لاتے، (انشقاق:18-20)''۔
حضور سرورِ کائنات ﷺ براق پر سوار ہوکر ہزارہا روشنیوں کی رفتار سے سفرِ معراج پر گئے۔ براق، برق (روشنی) کی جمع ہے۔ جدید سائنس اپنی تحقیقات کی بنیاد پر اِس سچائی تک پہنچ چکی ہے کہ رفتار کی کمی بیشی کے مطابق کسی جسم پر وقت کا پھیلنا، سکڑنا، جسم کے حجم اور فاصلوں کا سکڑنا، پھیلنا، قوانین فطرت اور منشائے ایزدی کے عین موافق ہے ۔
ملکۂ سبا بلقیس جو حضرت سلیمانؑ سے9000 میل کے فاصلے پر ہے، حضرت سلیمانؑ سے ملنے آتی ہے۔ حضرت سلیمان ؑ چاہتے ہیں کہ اُس ملکہ کا تخت اُس سے آنے سے پہلے دربار میں پیش کردیا جائے۔ آپ نے اپنے درباریوں سے یوں کہا: ترجمہ: '' اے دربار والو! تم میں سے کون اُس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے، قبل اِس کے کہ وہ لوگ فرماں بردار ہوکر میرے پاس آئیں۔ ایک قوی ہیکل جن نے کہا میںآپ کے اٹھنے سے پہلے اُسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں اور میں اُس کے لانے پر طاقت ور اور امانت دار ہوں۔
اِس سے ثابت ہوا کہ حضرت سلیمانؑ کے دربار کے ایک جن کو قاعدۂ طیٔ مکانی پر دست رس حاصل تھی کہ دربار ختم ہونے سے پہلے 900 میل کے فاصلے سے تختِ بلقیس اٹھا کر لے آئے، حضرت سلیمانؑ کو اتنی تاخیر بھی گوارانہ تھی، آپ نے کہا: اِس سے زیادہ جلدی کون لاسکتا ہے؟ آپ کے ایک صحابی حضرت آصف بن برخیا جو کتاب کا علم رکھتے تھے ، اٹھے اور کہا :ترجمہ:'' میں آپ کی نگاہ چھپکنے سے پہلے وہ تخت آپ کے پاس لا سکتا ہوں، پس حضرت سلیمان نے اُس (تخت) کو اپنے پاس رکھا دیکھا اور کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے، (النمل:38تا40)''۔
صدیوں پر محیط وقت کے چند لمحوں میں سمٹ آنے کو ''طیٔ زمانی'' کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں دو ایسی اہم مثالیں ہیں۔ اصحابِ کہف جو تین سو نو سال ایک غار میں لیٹے رہے اور جب سو کر اٹھے تو یہ گمان گزرا کہ ایک دن یا اُس کا کچھ حصہ سوئے رہے۔ قرآن مجید میں ہے: ترجمہ:'' اُن میں سے ایک نے کہا: تم یہاں کتنا عرصہ ٹھہرے ہو ؟، اُنہوں نے کہا : ایک دن یا اُس کا کچھ حصہ ٹھہرے ہیں''، (الکہف:17) ۔
309سال گزرنے کے باوجود اُنہیں محض ایک دن یا اُس کا کچھ حصہ محسوس ہوا، اُن کے اجسام تر و تازہ رہے۔309 قمری سال300 شمسی سالوں کے مساوی ہوتے ہیں یعنی کرۂ ارض کے 300 سالوں کے شمسی موسم اُن پر گزرگئے، یہ اﷲ تعالیٰ کی خاص نشانی اور ''قدرتِ الٰہیہ '' کا ظہور تھا، جس سے ''عادتِ الٰہیہ'' کے پیمانے سمٹ گئے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :ترجمہ: ''اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے، تو اُن کے غار سے دائیں طرف ہٹ جاتاہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے، تو بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اُس کشادہ میدان میں ہیں، (الکہف:17)''۔
قیامت کا دن بھی کی صورت میں ہوگا۔ پچاس ہزار سال کا دن جو مومنین پر عصر کی چار رکعات کی ادائیگی جیسے وقت میں گزر جائے گا، جب کہ دیگر لوگوں پر طویل، ناقابلِ بیان کرب و اذیت ہوگا۔
قرآن مجید میں اﷲ کے ایک نبی حضرت عزیرؑ کا واقعہ موجود ہے، وہ جب ایک وادی سے گزرے اور حق الیقین کے لیے اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا، تو اﷲ تعالیٰ نے اُن پر سو سال کے لیے موت طاری کردی۔ قرآن مجید میں ہے : ترجمہ:'' پس (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لیے حضرت عزیز ) کو سو برس تک مردہ رکھا، پھر زندہ کیا اور پوچھا: تو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا؟، جواب دیا : میں ایک دن یا اُس کا کچھ حصہ ٹھہرا رہا ہوں، فرمایا: نہیں بلکہ تو سو برس یہاں رہا۔ پس اب تو اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کو دیکھ وہ باسی نہیں ہوئیں اور اپنی سواری (گدھے) کو دیکھ (جس کی ہڈیاں تک سالم نہ رہیں) اور ہم تجھے لوگوں کے لیے اپنی قدرت کا نشان بنائیں اور ان ہڈیوں کو دیکھ جنہیں ہم کس طرح ہلا کر جوڑتے ہیں، پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں، (البقرہ:259)''۔

حضرت عزیرؑ کا جسم سو سال گزرنے کے باوجود، موسموں کے تغیر و تبدل سے محفوظ رہا، کھانے پینے کی اشیاء کی تر و تازگی میں فرق نہیں آیا، لیکن یہی ایک صدی اُن کی سواری پر ایسے گزری کہ اُس کا نام و نشان مٹ گیا، ہڈیاں بکھر گئیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اُس گدھے کو زندہ کیا اور طیٔ زمانی اور احیائے ٰ کے منظر دکھلا دیے۔
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ''مادی انسانوں نے ترقی کی اور اُن کی ترقی کی معراج یہ ہے کہ چاند پر پہنچے، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ چاند پر بھی مٹی ہے، وہاں سے بطور سوغات مٹی کے ڈھیلے لائے، تو یہ مٹی سے چلے، مٹی تک پہنچے اور جو لے کر آئے وہ بھی مٹی تھی۔ حضور ﷺ اﷲ کے ذکر سے چلے، اﷲ کے ذکر تک پہنچے اور جو تحفہ لے کر آئے وہ بھی اﷲ کا ذکر ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ مادی معراج میں انسان مٹی سے آگے نہیں جاسکتا اور روحانی معراج میں مٹی سے بنا ہوا انسان خدا تک جا پہنچتا ہے۔
تحریر:مفتی عبدالرزاق نقشبندی
بشکریہ محدث  ویب سائٹ)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر