شام پر حملے کے امریکی عزائم
شام پر غیرملکی طاقتوں کی یورش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔رہی سہی کسر امریکہ نے پوری کر
دی۔سوال یہ ہے کہ امریکہ شام سے کیا چاہتا ہے؟
سب سے پہلی اور اہم وجہ جو ایک بڑے حلقے کی طرف سے بتائی جا
رہی ہے وہ یہ کہ "امریکہ شام کی مدد کرنا چاہتا ہے"(آپ ہنسے نہیں۔۔۔)وہ
واقعتا مدد کرنا چاہتا۔۔یہ میں نہیں امریکہ اور اس کے حامی کہہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا بجا نہیں امریکہ
اور اس کے اتحادیوں نے پہلے بھی اسی طرح انسانیت کی خدمات انجام دی ہیں اور اب بھی
دے رہا ہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ مغربی
سکرپٹ لکھنے والوں کو اب اپنا سٹائل بدلنا ہوگا۔دنیا اتنی اندھی نہیں جتنی وہ
سمجھتے ہیں۔
دوسرہی عالمی اور
مشہورومعروف وجہ جو امریکہ کی عادت بن چکی
وہ یہ کہ "شام میں کیمیائی ہتھیار "موجود ہیں جو امریکہ کی سلامتی کے لیئے
خطرہ ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادی عراق پر یہی الزام عائد کر کے قابض ہو چکے ہیں۔ لیکن
ایسا کوئی ثبوت نہیں جو یہ ثابت کر سکے کہ حکومتی فورسز نے کیمیائی ہتھیاروں کا
استعمال کیا ہے- حقیقت تو یہ ہے کہ بعض ایسی رپورٹس بھی ہیں جو دوسری
جانب اشارہ کرتی ہیں، وہ اس بدترین ہتھیار کے استعمال کا الزام باغیوں کو ٹھہراتی
ہیں۔
فرقہ واریت کا خاتمہ بھی ایک اہم وجہ ہے۔امریکہ کے بارے میں
کہا جاتا ہے کہ جب اس نے کسی ملک کو ٹارگٹ کرنا ہوتا ہے تو بیس سال پہلےاس کو سٹڈی کرتا ہے۔پھر اس پر حملہ آور ہوتا
ہے۔مسلم ممالک کی ایک بہت بڑی کمزوری ان کے ہاں رواج پا جانے والے فرقے ہیں۔جن
کی وجہ سے ان کے درمیان تصادم برپا رہتا ہے۔اس
پر مزید تیل ڈال کر امریکہ اپنے
عزائم کو توسیع دے رہا ہے۔ ان کی اسی کمزوری کو ڈھال بنا کر ان میں فساد
برپا کر کے وہ امن وامان کی بحالی کا دعویدار بن کر آن ٹپکتا ہے۔
دو
گروہوں کو لڑا کر اپنے اپنے مفاد حاصل کیئے جائیں۔یہ طریقہ واردات بھی کافی مقبول ہو چکا ہے۔لڑاو
اور حکومت کرو ۔۔۔اس نعرے کے موجد بھی اہل
کفر ہیں۔شام پر امریکی حملے کی ایک اہم وجہ یہی دکھائی دے رہی ہے۔
اسرائیل ،امریکہ اور شام
یہ گھٹ جوڑ ۔۔آخر معاملہ کیا ہے۔ رابرٹ فسک کا خیال ہے کہ مغربی طاقتوں کا
اصل ہدف ایران ہے ،شام ایک بہانہ ہے۔روس
اور ایران اس جنگ میں ایک طرف کھڑے ہیں، اور ان کے ساتھ لبنان کی حزب اللہ ہے۔ایران
کے مقاصد مختلف مگر اتنے ہی اہم ہیں۔ وہ حزب اللہ کے ساتھ زمینی رابطہ بحال رکھنا
چاہتا ہے، شامی زیارات کا تحفظ چاہتا ہے اور اپنے سنی حریف سعودی عرب کے مقابلے پر
پورے خطے میں اپنا سیاسی اور دفاعی اثر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
اگر
الاسد حکومت ختم ہو جاتی ہے تو اس کا بڑا فائدہ
اسرائیل ،امریکہ اور سعودی عرب کو پہنچے گا۔اگر حزب اللہ کمزور ہوتی تو اسرائیل کو جو خدشات لاحق ہیں وہ بھی
کافی حد تک کم ہو جائیں گے۔اور اس کے ساتھ ایران کو زبردست نقصان پہنچے گا اور وہ
اپنا واحد اتحادی کھو بیٹھے گا۔جس سے ایران کی حثیت نہ صرف کم ہوگی بلکہ اس کے
نیوکلیر پاور بننے میں مزید تاخیر بھی ہو گی۔۔جس کا براہ راست فائدہ امریکہ کو پہنچے گا۔۔یہ ہے گٹھ جوڑ اور
سیاست جس کے نام پہ جنگ مسلط کی جا رہی
ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ جسے ڈان نیوز نے نقل کیا ہے کہ 2011 ء میں سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے والے
ممالک امریکہ اور روس تھے۔اسامہ بن لادن کا پتہ صاف ہونے اور صدام حسین کی حکومت
کے خاتمے اور معمر قذافی کی حکومت کا تختہ
الٹنے سے یہ کاروبار کافی متاثر ہوا ہے۔الاسد حکومت کی بے دخلی سے روس ایک اہم مہرے کو کھو دے گا۔اور ساتھ ہی ساتھ
مڈل ایسٹ سے بھی نکل جائے گا۔لہذا ۔۔آگے
آپ خود سمجھ دار ہیں۔
رہ گئے شامی عوام تو ان میں سے ایک لاکھ اس دنیا سے جا چکے دو
لاکھ بے گھر ہو چکے۔۔۔اور جو رہ گئے ان کے درمیان فرقہ واریت کی خلیج اتنی وسیع ہے
کہ اس کو پاٹنے کے لیئے ایک نسل درکار
ہے۔درج بالا حقائق اور رپورٹس سے ظاہر ہوا کہ کہ جنگ کا مقصد کیا ہے اور یہ جنگ کن
لوگوں کے لیئے فائدہ مند ثابت ہوگی۔۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں