ترقی یا فلاح۔۔؟
ترقی یا فلاح۔۔؟
موجودہ دور کا انسان بیک
وقت دو راستوں کا مسافر بن چکا ہے۔وہ
فلاح بھی چاہتا ہے اور ترقی بھی۔۔۔ ہم میں سے تقریبا ہرشخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ
اس کی دنیا فرعون کی طر ح ہو اور آخرت موسیٰؑ کے جیسی ۔۔کیا ایک ہی وقت میں دونوں
کا حصول ممکن ہے؟ فلاح کیا ہے، ترقی کیا ہے؟
کیا یہ دونوں چیزیں جدا جدا ہیں یا یہ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ کیا ماضی حال بن
سکتا ہے یا حال مستقبل۔ ہر گزرنے والا لمحہ ماضی ہے اور ہر آنے والا لمحہ مستقبل۔
کیا ہماری پوری زندگی اس درمیان میں پھنسے ایک لمحے کی قیدی ہے۔
ترقی اور فلاح میں
بڑا فرق ہے وہی فرق جو علم اور انفارمیشن میں ہے۔ترقی سے مراد ایسی کامیابی ہے جو
ہماری دنیا سے مشروط ہے۔جبکہ فلاح سے مراد وہ کامیابی جو آخرت کے ساتھ مشروط ہے۔ دنیا
میں کامیابی حاصل ہو یا نہ ہو مگر آخرت
میں کامیابی پکی ہے۔یہی معاملہ علم کا بھی
ہے۔علم باعمل ہی وہ نافع بخش علم ہے جس کا
منبع وحی الٰہی ہے جس کے وارث انبیاءے اکرام ہیں۔یہی وہ علم ہے جوغارحراء کی آواز ہے۔جبکہ انفارمیشن وہ علم ہے جو ہماری معلومات میں تو اضافہ کرتا
ہے لیکن ہمارے عمل کا حصہ نہیں بنتا جس کی
بنیاد وحی الہی پر مبنی نہیں ہوتی ۔
فلاح
کا لغوی معنی ہے چیرنا اور قطع کرنا ہے۔ کسان کو عربی میں فلاح اسی لئے کہتے ہیں
کیونکہ وہ زمین کو چیرتا ہے مگر اصطلاح میں فلاح سے مراد کامیابی و کامرانی ہے
کیونکہ کامیابی آسانی سے انسان کے ہاتھ نہیں آتی بلکہ اس کے حصول کے لئے بے شمار
پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ، جس طرح کسان زمین میں بیج بوتا ہے۔اس پر ہل چلاتا ہے۔اسے
پانی دیتا ہے۔موسموں کے سردو گرم سے بچاتا ہے۔بالکل یہی معاملہ فلاح کے راستے کا
بھی ہے۔فلاح کے راستے کا مطلوب انسان حسن نیت کا ہل چلا کر ایمان کا بیج بوتا
ہے۔پھر اس ایمان کو نشونما دینے کے لئےایک سازگار ماحول مہیا کرتا ہے جہاں روحانی
طاقتیں پھلتی پھولتی اور شیطانی طاقتوں کا
قلع قمع کیا جاتا ہے۔تب ایمان کا پودا لہلاتا اور پھل دیتا ہے۔کسان کی
زندگی میں انسانوں کے لیئے بے شمار نصیحتیں ہیں۔
جہالت کا کمال یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو مقدس بنا دیتی ہے
جو مقدس جھوٹ بولنے والوں میں ٹاپ پر ہوں۔ ترقی اور فلاح کو ایک سمجھنے والوں سے
بھی یہی کمال ہوا ہے۔وہ مقدس جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔بقول اشفاق احمد "یہ بڑا
غور طلب نکتہ ہے کہ ہم ترقی کے پیچھے
بھاگیں یا فلاح کی طرف لپکیں؟وہ ترقی جو آپ کے اردگرد ابلیسی ناچ کر رہی ہے
یا وہ ترقی جو آپ کو خوفناک ہتھیاروں سے سجا رہی ہے اسے ترقی نہیں کہا جا
سکتا۔کیا نئی چیزوں کو اس لیئے قبول کر لیا جائے گا کہ وہ ماڈرن دور میں پسندیدہ
ہیں اور وہ علم جو ہمیں پیغمبروں نے عطا کیا ہے
وہ اس وجہ سے پیچھے ہٹتی جائیں گے کہ ہم ماڈرن دور کے انسان کا مطلوب
نہیں ہے۔بقول بانو قدسیہ "بھلے غازی علم دین شہید نہ بنیں لیکن کم از کم ترقی کا وہ آب حیات نہ پئیں جو پیغمبروں کی تحقیر کے پیالے میں سرو کیا
جائے۔"
یہ دنیا اللہ رب العزت کی پیدا کردہ ہے۔یہاں اصول بھی وہی
پنپ سکتے جو اللہ کے بنائے ہوئے۔یقین نہیں آتا تو غو ر کیجئے۔۔ واصف علی واصفؒ
فرماتے ہیں کہ
باز اور شکروں کی موجودگی کے باعث چڑیا کے بچے پرورش پاتے
رہتے ہیں آندھیاں سب چراغ نہیں بجھاسکتیں۔شیر دھاڑتے رہتے ہیں اور ہرن کے بچے
کلکاریاں بھرتے رہتے ہیں۔یہ سب اس مالک کے کام ہیں اس کی پیداکردہ مخلوق اپنے اپنے
طرزعمل سے زندگی گزارتی رہتی ہے۔فرعون نے سب بچے ہلاک کر دیئے مگر وہ بچہ بچ
گیا۔یہ سب قدرت کے کام ہیں۔زمانہ ترقی کر گیا ہے مگر مچھر چوہے اور مکھیاں اب بھی
پیدا ہوتیں ہیں۔جراثیم کش دوائیاں نئے جراثیم پیدا کرتی ہیں۔طب مشرق و مغرب میں
بڑی ترقی ہوئی،بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔انسان کل بھی دکھی تھا آج بھی سکھی
نہیں ۔علاج خالق کے قرب میں ہے لوگ یہ بات
کیوں نہیں سمجھتے۔
پس ثابت ہوا کہ ترقی اور فلاح کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔اور فلاح کے راستے کو
دوام ہے۔فلاح کا راستہ ایک ہی ہے ۔وہ ہے اللہ کا راستہ اور اس کے چنیدہ بندوں کا راستہ۔۔آپ کا اصل ساتھی
آپ کا صحیح تشخص آپ کے اندر کا انسان ہے اسی نے عبادت کرنی ہے
اور اسی نے بغاوت!وہی دنیاوالا بنتا ہے
اور وہی آخرت والا،اور آخرت کی فکر کرنےوالے
ہی فلاح پانے والے ہیں۔
اللہ سے ہر گھڑی دعا مانگیں کہ وہ آپ کو ترقی اور فلاح کے
راستے کی سمجھ دے۔اور فلاح کے راستے پہ ثابت قدم رہنے کی توفیق دے۔ربنا اتنا فی الدنیا حسنا وفی الاخرتہ حسنتہ
وقنا عذاب النار
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں