مائیں نیں آنگن تیرا۔۔


مائیں نیں آنگن تیرا۔۔  
بے غیرتوں  اب بس بھی کر دو کب سے ٹیں ٹیں لگا رکھی ہے۔امی کی آواز سے عائشہ اور فریحہ کی آوازوں کو بریک لگا دیئے جو کچن میں   کسی مسئلے  پہ توں توں میں  مصروف  تھیں۔ایک دن  آئے گا تم  لوگ ایک دوسرے کی شکلوں کو ترسو گے۔۔۔۔امی  شروع ہو چکی تھیں۔۔۔اور فریحہ جو گھر بھر میں زبان دراز تھیں جواب دینا ضروری سمجھا۔۔۔۔میں اور ان کی شکلیں دیکھنے کو ترسوں گی۔۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔ادھر فریحہ نے جملہ پورا کیا اور ادھر امی کا جوتا  فریحہ کا نشانہ لے چکا تھا۔۔۔۔۔اس نے چونک کے ادھر ادھر دیکھا۔۔۔نہ عائشہ اور فریحہ کی آوازیں تھیں اور نہ ماں  کا آنگن۔۔۔۔کچھ پل لگے تھے اسے واپس آنے میں۔۔۔۔
عورت کی زندگی بھی کیا عجیب چیز ہے۔۔۔۔ماں باپ کے گھر ہو تو شکایتیں ختم نہیں ہوتیں۔۔۔زرا بڑی ہوتی ہیں تو شادی کی فکر دامن گیر ہو جاتی ہے۔اور زرا شادی لیٹ ہوئی نہیں اور وظیفے شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔۔بہن بھائی  یہاں تک کے والدین تک برے لگنے لگتے ہیں۔وہ سارے پل وہ سارے لمحے جو بہن بھائیوں کی سنگت میں گزارنے  کے لئے ملے ہوتے ہیں۔عجیب ٹینشنوں کی نظر ہو جاتے ہیں۔پھر لیٹ ہی سہی ماں کے آنگن سے دیس نکالا  ملنے کا سندیسہ سنائی دیتا ہے۔۔۔۔۔ساری آوازیں ،شوخیاں۔لڑائیاں،روٹھنا  اور منانا    دور کہیں کھو جاتا ہے۔۔۔۔بس سناٹے رہ جاتے ہیں۔۔۔
فریحہ میری فائل کہاں ہے جو صبح ٹیبل پہ رکھی تھی۔۔۔۔پتا نہیں ادھر ہی کہیں ہو گی۔۔فریحہ نے لاپرواہی سے جواب دیا۔۔۔۔وہ جو تھکی ہاری گھر لوٹی تھی۔۔۔اپنے ڈاکومینٹس کی فائل غائب دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئ۔۔۔عائشہ تم نے دیکھی میری فائل۔۔۔نہیں تو ۔۔۔۔یہیں کہیں ہوگی۔۔اس کے لیئے چائے بناتی  عائشہ نے جواب دیا۔۔۔۔اتنے میں  سارہ    اس کی فائل ڈھونڈ کر لے آئی تو اس کی جان میں جان آئی۔۔۔۔۔اس فائل میں پڑے ڈاکومینٹس اس کا کل اثاثہ تھے۔۔۔۔ساری عمر کی کمائی۔۔۔۔اس نے بے ساختہ فائل مل جانے پہ اللہ کا شکر ادا کیا۔۔۔عائشہ نے اس کے سامنے چائے کا کپ رکھا تو ساری تھکن ہوا ہو گئی۔۔۔۔چائے اس کا فیورٹ مشروب تھا۔۔۔اتنا فیورٹ کہ اسے لگتا  زندگی کی ساری مٹھاس اس چائے میں پوشیدہ ہے۔ چائے کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے وہ اکثر کہا کرتی،اس کی بے رنگ زندگی میں جو کچھ رنگ تھے تو اس کی ایک بڑی وجہ چائے بھی تھی،۔۔۔بے ساختہ اس   نے اپنے   سامنے دیکھا  مگر وہاں تو چائے ہی نہیں تھی اور نہ چائے بنانی والے۔۔۔۔پھر کچھ سوچ کے اداسی سے مسکرائی۔۔۔۔آج کل یادیں اس پہ زیادہ ہی حاوی ہونے لگی تھیں۔۔
فون کی پہلی بیل پہ ہی کال ریسو کر لی۔۔بھابی نے اس کا حال چال دریافت کیا اور کہنے لگی۔۔۔۔تمہارا دل لگ گیا سسرال ۔۔ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کیا جواب دے کہ بھابی خود ہی بول پڑی۔۔۔تمہیں تو تنہائی پہلے بھی بہت پسند تھی۔۔۔۔دل تو لگ ہی جانا تھا۔۔پھر گویا ہوئیں۔۔اچھا لاہور کب آ رہی ہو۔۔۔اس نے خاموشی بھری اداسی سے کہا۔۔پتہ نہیں ابھی تو۔۔۔۔کیوں؟لڑکیاں شادی کے بعد بھاگ بھاگ کے میکے آتیں ہیں ایک تم ہو کہ تمہارا دل ہی نہیں چاہتا۔۔۔۔اس نے سسکی بھری اور فون کاٹ دیا۔۔۔۔۔
الماری سے کچھ کتابیں نکالیں تو عامرہ احسان   کی کتاب"تصویر کائنات میں رنگ"پکڑی اور مطالعے کے لئے بیٹھ گئی۔۔۔شادی کو چار ماہ ہو گئے تھے  ،کچھ پڑھا ہی نہ جاتا۔۔۔۔تنہائی بھی تھی اور فرصت بھی پر دل ہی نہ چاہتا تھا۔۔۔شادی کے بعد وہ اپنے  میاں کے ساتھ  اکیلی رہتی تھی۔۔۔۔کبھی اس تنہائی کے لیئے وہ ترسا کرتی تھی۔۔۔اسے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی اس نے تنہائی میں پڑھا ہو۔۔۔پڑھنے بیٹھتی تو اردگرد بہنوں کا جم گفیر اکٹھا ہو جاتا۔۔۔لاکھ بولتی کہ اکیلا چھوڑ دو پر وہ ٹس سے مس نہ ہوتی۔۔۔۔اول تو نیند ہی نہ آتی،آ بھی جاتی  تو اتنا سناٹا ہوتا کہ اس  سناٹے سے ڈر کے اٹھ جاتی۔۔۔۔بوجھل دل اور بوجھل آنکھوں کے ساتھ وہ  آرام دہ کرسی پر بیٹھ گئ۔۔۔ایک آنسو چپکے سے آنکھ سے نکلا اور کتاب بگھو گیا۔کتاب کھول تو لی پر آوازیں کہاں پڑھنے دیتی تھیں۔۔۔۔بیچ میں فریحہ اور عائشہ کی چخ پخ کی آوازیں۔۔۔فرصت بھی تھی،تنہائی بھی اور کتابیں بھی۔۔۔پر تسلسل پھر نہیں بن پا رہا تھا۔۔۔منظر ابھر رہے تھے۔تحلیل ہو رہے تھے۔۔۔وہ لمحے جو شکایتیں کرتے گزر گئے تھے اب وہی یادیں بن کر دامن بھگو رہے تھے۔اس کی زندگی میں سب کچھ پہلے سے بہتر تھا پر وہ ماں کا آنگن کہاں سے لائے؟




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر