قائداعظم اور میرا آرٹیکل
تحریر:روبینہ شاہین
رومیصہ نے ایک نظر کلینڈر پہ ڈالی جو پچیس دسمبر کی نوید
سنا رہا تھا۔اف پھر بھول گئی۔۔۔اس نے سر پہ تاسف سے ہاتھ مارا اور احسن کو اٹھانے
کے لئے دوڑی جو کہ پچھلے دو گھنٹوں سے ٹیب پہ کارٹون دیکھنے میں مصروف تھا۔۔اف یہ
بچے بھی نا ہر چیز بھلا دیتے ہیں۔اچھا بھلا یاد تھا کہ قائداعظم پہ آرٹیکل لکھ کے
بھجوانا ہے۔۔۔مگر بھول گیا،اس کا افسوس کم ہونے میں ہی نا آ رہا تھا۔اس نے نو
نومبر پہ بھی قبال کمپیٹیشن ون کیا تھا۔جس سے اس کے حوصلے مزید بڑھ گئے،ایسا پہلی
بار ہوا تھا کہ اس نے فیس بک پہ منعقد ہونے والے مقابلہ مضمون نویسی میں پہلی
پوزیشن حاصل کی،علامہ اقبالؒ جسے وہ مرشد کہتی تھی۔اب قائد اؑظم ڈے پر بھی مقابلہ
منعقد ہونے جا رہاتھا۔۔۔جسے وہ بھول گئی۔۔۔۔۔
اماں آج تو آفیشلی چھٹی ہے میں نے نہیں پڑھنا۔احسن کب سے ضد
لگائے بیٹھا تھا کہ وہ آج کی تاریخ میں کتاب کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔رومیصہ کو
ایک تو آرٹیکل نہ لکھنے کا قلق تھا دوسرا احسن کی ضد،اس کی ٹیویشن والی ٹیچر نے
انفارم کیا تھا کہ وہ لکھائی پہ زیادہ
فوکس نہیں کر پا رہا،لہذا اس پہ توجہ دی جائے۔۔۔۔سوچا دسمبر کی چھٹیوں میں احسن کو
ٹائم دوں گی مگر وہ ہاتھ ہی نہ آتا۔۔۔۔احسن کا شمار ان بچوں میں ہوتا تھا جو الٹا
لکھتے ہیں۔یہ مرر رائٹنگ کہلاتا ہے،سائیکالوجی میں باقاعدہ ایک ٹاپک ہے۔ ایسے بچوں کے لیےلکھنا وبال جان ہوتا ہے۔۔۔۔سو کاپی پکڑے ایک بار پھر
اس کے سامنے بیٹھی تھی،احسن منہ پھلائے بیٹھا تھا کہ لکھنا نہیں ریڈنگ کروا
لیں۔۔۔رومیصہ نے اردو کی کتاب نکالی،انڈیکس میں قائد اعظم کا پاکستان کا صفحہ نمبر
دیکھا اور نکال کر احسن کے آگے رکھ دیا۔۔۔وہ
بڑی دلچسپی سے ریڈنگ میں مصروف تھا۔۔۔رومیصہ نے قائداعظم کی زندگی سے کچھ
دلچسپ واقعات اپنی یادداشت سے نکال کر اپنے بیٹے کو سمجھائے۔۔۔اور وعدہ بھی لیا کہ
وہ آئندہ کبھی بھی پڑھائی سے دل نہیں چرائے گا،بلکہ ہمیشہ ایک قدم آگے رہے گا،احسن
نے خوشی خوشی ریڈنگ لیسن مکمل کیا اور اب کاپی پہ نئے سال کی پلاننگز کر رہا تھا
جس میں سر فہرست قائد اعظم کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے ایک نڈر لیڈر بننا تھا۔
کہا تھا مت دلوائیں
ابھی سے احسن کو ٹیب۔۔مگر نہیں ہر وہ کام کریں گے جو مجھے ناپسند ہو،رومیصہ کچن
میں کام کرتے بڑ بڑا رہی تھی جب اس کے
کانوں میں احسن کی آواز سنائی دی۔اماں یار کدھر ہیں آپ مجھے رائٹنگ پریکٹس ہی کروا
دیں۔احسن ٹھیک ایک گھنٹے بعد رومیصہ کو آوازیں لگا رہا تھا جو کچن میں برتن دھونے
میں مصروف تھی۔۔۔۔احسن کی آواز پر اس کے دل کی کلی کھل گئی اور بے اختیار لاؤنج
میں لگی قائد کی تصویر کو دیکھا ،ااحساس تشکر سے اس کی آنکھیں بھیگ سی گئیں
تھیں۔۔۔۔آرٹیکل نہ لکھنے کا سارا قلق ایک پل میں اڑنچھوہو گیا،اس نے خود کو تھپکی
دی،قائد اعظم پہ انعام ون کرنے سے کہیں بہتر ہے ان کے فرمودات پرنسل نو کی تعمیر کی جائے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں