غلامی کی جدید سائنس


غلامی کی جدید سائنس


تحریر:روبینہ شاہین
کہا جاتا ہے کہ تاتاریوں نے جب بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو   ایسی مثالیں دیکھنے کو ملیں کہ عقل دنگ رہ گئی۔۔۔۔کوئی نہتا تاتاری اگر کسی مسلمان کو دیکھ لیتا تو کہتا تم یہی رکو میں زرا تلوار لے آؤں۔۔اور جب تک وہ واپس آتا تو مسلمان وہی کھڑا انتظار کر رہا ہوتا۔۔اس سے بھی آگے ایک قدم ملاحظ کیجئے۔۔  جب امریکہ کو پاکستان نے خود اڈے دیئے اور کہا آیئے جناب !ہمارے ہی سر اور ہمارے ہی جوتے۔۔۔۔ ڈینگہ ضلع گجرات کا ایک شہر ہے جو دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان واقع ہے۔۔لفظ ڈینگہ اصل میں "دین گاہ"تھا۔انگریز جب اس علاقے میں آئے تو دین گاہ بولنا مشکل تھا سو ان کی زبانوں پہ ڈینگہ رواں ہو گیا۔یہ تو تھا اس وقت  کی وجہ جس کی بناء پر دین گاہ کو ڈینگہ بولایا جانے لگا۔مگر قابل توجہ یہ بات ہے کہ انگریز کو پون صدی گزر چکی اس ایریا سے گئے ہوئے۔ہم ابھی بھی اسے ڈینگہ ہی بولتے ہیں۔۔



شاید زہانت کی طرح غلامی میں بھی درجہ بدرجہ ارتقاء ہوتا رہا ۔۔۔۔غلامی کا تعلق ہمارے دل اور دماغ سے ہے۔انسانی نفسیات بتاتی ہے۔جب بھی قوموں کو شکست دی گئی۔۔۔سب سے پہلے ان کے دماغوں کو تسخیر کیا گیا۔۔جی ہاں دماغ وہ قلعہ ہے جہاں دشمن سب سے پہلے  وار کرتا ہےاگر وہ یہاں کامیاب ہو جاتا ہے تو اگلی کامیابی یقینی ہے۔میں نے غلامی  اور غلام قوموں کو جب بھی پڑھا اور سوچا تو ایک چیز سمجھ میں آئی۔۔۔کہ اللہ نے انسان کو عبد  بنایا یعنی اپنا غلام۔جب وہ  اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی غلامی میں آتا ہے تو انسانیت سے نیچے گر جاتا ہے۔پھر اسے رب یاد نہیں رہتا نہ اس کی بندگی۔۔یقین نہ آئے تو مطالعہ کر کے دیکھ لیں  نماز کی پابند قوموں میں وہ قومیں سرفہرت ملے گی جو کبھی غلام نہیں رہیں۔جیسا کہ افغان قوم۔۔عربوں کو قرآن جیسی کتاب ملنے کے پیچھے جو وجوہات تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ یہ آزاد صفت لوگ تھے۔کبھی کسی کے غلام نہیں رہے۔۔لہذا اللہ نے اپنے آخری کلام کے لئے اس قوم کو چنا۔کہا جاتا ہے کہ دماغ کا کوئی دماغ نہیں ہوتا۔دماغ کو چلانے والا خود انسان ہوتا ہے جسے اللہ نے دماغ ودیعت کیا ہوتا۔۔جدید ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ دماغ کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ کام حقیقت میں ہو رہا ہے یا صرف ایکٹنگ کی جا رہی ہے۔۔یہ بہت بڑی دریافت تھے،جس نے تہلکہ مچا دیا۔دی سیکریٹ مووی   اسی تحقیق پر مبنی ہے۔ریسرچ کرنے والوں نے فٹ بال کی ٹیم پہ تجربہ کیا۔جب وہ کھیل رہے تھے تب ان کی دماغ کی لہروں کو پڑھا گیا اور جب وہ  فارغ تھے تب ان سے کہا گیا کہ  اب وہ سوچیں کہ ہم فٹ بال کھیل رہے ہیں دونوں کے نتائج ایک سے تھے۔۔ثابت ہوا کہ دماغ کو اپنی ناکامیوں  اور برے حالات سے بچایا  جا سکتا ہے۔۔اگر انسان قوت یقین پیدا کر لیں تو غلامی میں بھی "آزادی کی زندگی گزار سکتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح آج ہم آزادی میں بھی غلام ہیں۔ہماری اردگرد سینکڑوں مثالیں ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم غلام ہی نہیں غلام ابن غلام ہیں۔اللہ نے ہمیں آزاد پیدا کیا تھا۔۔اس نے اتنا کرم کیا کہ ہمیں علامہ اقبال جیسا شاعر دیا۔جس نے سوئے ہوئے لوگوں کو جگایا۔علام اقبالؒ کے نزدیک غلامی یہ ہے کہ انسان انسان کے تابع فرمان ہو اور محض اس کی زاتی مصلحتوں کا غلام ہو کر رہ جائے۔غلامی وہ آنکھ ہے جو خود پر ہمیشہ بند رہتی ہے۔غلامی  وہ دروازہ ہے جو اگر ذہن پر لگ جائے تو نسلیں برباد ہو جایا کرتی ہیں۔اس آنکھ کو کھولیئے سارے قفل کھل جائیں گے۔
جدید سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ غلامی کا تعلق دماغ سے ہے۔۔اور ہمارا دماغ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے اسے ہم  برے حالات میں بھی کنٹرول رکھ سکتے ہیں۔۔برے سے برے اثرات سے بچا سکتے ہیں ۔یہاں تک کہ غلامی سے بھی  جو ایک رزیل صفت ہے۔انسان دراصل اپنے ذہن کا خود غلام ہو جاتا ہے ۔پھر وہ دماغ کو نہیں دماغ اس کنٹرول کرتا ہے۔اسی حقیقت کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی دکھائی دیتی ہے کہ انسانوں نے اللہ کو چھوڑ جن خداووں کی بندگی کی ان میں سب سے زیادہ  اپنا نفس ہے۔
 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر