قرآن کے تفسیری مدارس۔۔۔ آغازو ارتقاء

تفسیر قرآن ایک لامحدود اور وسیع موضوع ہے۔اس کا آغازوارتقاء دور رسالت مآب  ﷺمیں ہی ہو گیا تھا۔نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب کی خود تربیت فرمائی اور تفسیر قرآن کے سلسلے میں ان کی حوصلہ افزائی کی، یہی وجہ تھی کہ قرآن کی تفسیر کے بہت سے مدارس وجود میں آئے۔جن میں سے نمایاں ترین  تین مدرس درج زیل ہیں۔
مکہّ کا تفسیری مکتب
مدینہ کا تفسیری مکتب
کوفہ کا تفسیری مکتب
تفسیر صحابہ کی اہمیت:
محدث حاکم نے المستدرک میں لکھا ہے کہ جو صحابی نزول وحی کے وقت موجود ہو اس کی تفسیر  مرفوع حدیث  کا درجہ رکھتی ہے۔بقول حاکم امام بخاری و مسلم کا زاویہء نگاہ بھی یہی ہے۔
امام حاکم رقمطراز ہیں:
"حدیث کا  طالب علم آگاہ رہے کہ جو صحابی نزول وحی کے وقت موجود ہو اس کی تفسیر شیخین (امام  بخاری ومسلم) کے نزدیک حدیث مرفوع کا درجہء رکھتی ہے"
محدث ابن اصلاح اور شارح نووی فرماتے ہیں  کہ یہ اسباب نزول کے ساتھ ہو۔یا کسی  ایسی  آیت  کے سبب نزول کے ساتھ ہو۔یا کسی ایسی بات کے سلسلے  میں جو نبی کریمﷺ کے سوا کسی اور سے اخذ نہیں کی جا سکتی اور  اس میں انسانی عقل کو کوئی  دخل نہ ہو۔مثلاََ حضرت جابرؓ  کا یہ قول کہ یہودی  کہا کرتے تھے۔جو شخص اپنی بیوی سے پچھلی طرف سے مجامعت کرتا ہے،اس کے ہاں بھینگا بچہ پیدا ہوتا  ہے۔اس پر اللہ تعالیٰ  نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:
نساءُکم حرث لّکم (البقرہ:۲۲۳)
جہاں تک صحابہ کے دیگر تفسیری اقوال کا تعلق ہے جن نبی کریمﷺ کی جانب منسوب نہ کیا گیا ہو ان کو موقوف ہی قرار دیا جائے گا مرفوع نہیں"
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ امام حاکم نے اپنی کتاب "معرفتہ علوم الحدیث"میں ابن الصلاح کے قول کی تائید کی ہے۔وہ لکھتے ہیں"صحابہ سے اس قسم کے جو تفسیری اقوال ہیں ان کو موقوف ہی کہا جائے گا،باقی رہی یہ بات کہ صحابہ کے تفسیری اقوال  کو ہم مرفوع حدیث تصور کرتے ہیں تو ان کی قسم دوسری ہے۔پھر حضرت جابر ؓ کی روایت نقل کر کے کہتے ہیں کہ اس نوع کے اقوال مسند ہیں اور وہ وقوف روایات مین شمار نہیں ہوتے۔جو صحابی  کسی آیت  کے نزول کے وقت موجود ہو اور اس آیت کے بارے میں کہے کہ یہ فلاں واقعہ میں نازل ہوئی تو اس کو حدیث مرفوع قرار دیں گے"
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام حاکم نے جو بات  المستدرک میں مطلقاََ  کہی تھی اس کو اپنی کتاب "معرفتہ علوم الحدیث"میں مقید کر دیا۔لوگوں نے مقید پر اعتماد کیا اور مطلق کو نظرانداز کر دیا۔امام سیوطی نے اپنی کتاب  تدریب الراوی میں حاکم کے صحابہ کے تفسیری  اقوال کو مطلقا مرفوع کہنے کی یہ توجیہہ کی ہے کہ آپ المستدرک ،یں زیادہ سے زیادہ احادیث صحیحہ جمع کرنے کے حریص تھے۔اس کی حد یہ ہے کہ جو احادیث مرفوع کے معیار پر پوری نہیں اترتی تھیں۔امام حاکم نے ان کو بھی اس کتاب میں جگہ دی۔امام سیوطی نے حاکم پر اعتراض کیا ہے کہ انھوں نے  ذکر آخرت کے متعلق ابوھریرہ ؓ کی روایت کو موقوف قرار دیا،جو صحیح نہیں،اس لیے کہ ایسی بات میں عقل  انسانی کو دخل نہیں ہو سکتا،لہذا یہ حدیث ابوھریرہؓ نے نبی کریم ﷺ سے سن کر بیان کی ہو گی،بنابریں اسے مرفوع قرار دینا چاہیے"(1)
مکہ کاتفسیری مکتب :
جلال الدین السیوطی  نے
امام ابن تیمیہ کا قول  نقل کیا ہے"کہ تفسیر کے سب سے بڑھے ہوئے عالم مکہّ کے لوگ ہیں،اس لیے کہ وہ ابن عباس ؓ کے رفقاء ہیں۔
مکہ کا تفسیری  مکتب تفسیر کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ یہاں سے ہی تفسیر کا آغاز ہوا،مکہ کا تفسیری مکتب اس لیے بھی خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ ان میں سب سے بڑی تعداد نے شہرت پائی،اور ان میں سب سے یگانہ لوگ ہوئے"(۲)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ:
رسول اللہﷺ کے چچا ہیںان  کا لقب ترجمان القرآن ہے اور یہ وہ شخص ہیں جن کے لیے رسول اللہﷺ نے  خصوصی دعا فرمائی"او بار الہی! تو اس کو اپنے دین میں فقہیہ بنا اور اس کو تاویل کا علم بھی عطا فرما اور انہی کے لیے یہ بھی دعا فرمائی  کہ اے اللہ!تو اس کو حکمت کا علم مرحمت فرمائی"
ابن نعیم نے الحلیہ میں ابن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ابن عباسؓ کے حق میں دعا فرمائی اور کہا  یا اللہ!تو اس میں (علم)برکت ڈال اور اس سے علم کو پھیلا"
اسی راوی نے عبدالمومن بن خالد کے طریق پر عبداللہ بن یزید کے واسطے ابن عباسؓ کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا"میں رسول اللہﷺ کے پاس اس حال میں پہنچا  جب کہ آپ کہ پاس جبرایئل موجود تھے،پس جبرئیل نے  رسول اللہﷺ سے کہا "یہ شخص اس امت کا حِبر(زبردست عالم) ہے،لہذا آپ اس کی نسبت نیک وصیت کیجیے۔
بہیقی نے  اب ن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ نھوں نے کہا  کہ بے شک ترجمان القرآن عبداللہ بن عباسؓ ہیں۔
ابو نعیم نے مجاہد سے روایت کی ہے  کہ اس نے کہا  کہ ابن عباسؓ اپنے کثرت علمی کے سبب سے بحر رواں کے نام سے مشہور تھے"(۳)
تاریخ تفسیر و مفسرین میں ہے۔
"مکہ کا تفسیری مکتب حضرت ابن عباسؓ کے طفیل قائم ہوا،آپ اپنے تلامزہ کے درمیان بیٹھ کر درس قرآن دیتے اور اس کے مشکل  مطالب کی توضیح کیا کرتے تھے،آپ کے تلامذہ  ان سے جو باتیں سنتے ان کو دوسروں تک پہنچاتے تھے"(
حضرت ابن عباسؓ کےشیوخ:
رسول اللہﷺ کے بعد حضرت ابن عباسؓ نے جن شیوخ سے اپنے علوم حاصل کیے ،ان کی تعلیم وتربیت کا ان پر نمایاں اثر تھا،حضرت عمر بن الخطابؓ،حضرت ابی بن کعبؓ،حضرت علی بن ابی طالبؓ  اور حضرت عامر بن ثابتؓ تھے اور یہی پانچون آپ کے اہم شیوخ ہیں،جن سے آپ نے اپنا علم حاصل کیا اور اپنی تعلیم کا بڑا حصہ ان سے  حاصل کیا"(۴)
حضرت ابن عباسؓ کے تلامذہ:
تابعین کی ایک بڑی تعداد نے حضرت ابن عباسؓ سے علم حاصل کیا،آپ کے مشہور تلامذہ میں سے جنہوں نے آپ کی تفسیر اور آپ کے علم کثیر کو نقل کیا،درج ذیل ہیں
                                                                                                               سعید بن جبیر
مجاہد بن جبیر
الطاوس بن کسیان یمانی
عکرمہ مولیٰ ابن عباس
عطاء بن ابی رباح
اور یہ   وہ نمایاں  تلامذہ ہیں ،جنہوں نے تفسیر کے بارے میں  ابن عباسؓ کے دروس کو ہماری طرف منتقل کیا۔(5)
سعید بن جبیر:
آپ کا نام سعید بن جبیر بن ہشام اسدی اور کنیت ابو محمد یا ابو عبداللہ ہے۔
یہ حبشی الاصل اور سیاہ فام،مگر عمدہ سیرت و کردار کے حامل تھے۔آپ نے اکابر صحابہ خصوصا حضرت  ابن عباسؓ اور ابن مسعودؓ وغیرہ سے استفادہ کیا۔
تفسیر قرآن میں مقام:
ابن خلکان لکھتے ہیں۔
"ایک شخص نے سعید سے تفسیر قرآن لکھنے کی فرمائش کی،وہ ناراض ہو گئے،اور کہا میرے جسم کا ایک حصہ گر جائے تو وہ مجھے گوارہ ہے۔مگر قرآن کی تفسیر لکھنا پسند نہیں"
سعید بن جبیر کی ذات مین تمام تابعین کا علم یکجا ہو گیا تھا۔دوسرے لوگ صرف ایک ایک فن میں مہارت و تعبیر رکھتے تھے۔مگر آپ جامع الفنون تھے۔خصیف ان کے بارے میں فرماتے ہیں۔"تابعین میں طلاق کے مسائل  سب سے زیادہ سعیدبن المسیب جانتے تھے،مناسک حج کا علم عطاء  کو حاصل تھا۔حلال و حرام کے  عالم طاوس  تفسیر کے جاننے والے مجاہد اور ن سب کے جامع سعید بن جبیر تھے۔"انہی وجوہ کی بناء پر  ان کے استاد محترم حضرت ابن عباسؓ  ان کے علم پر بھروسہ کرتے تھے اور جو شخص  ان سے فتوٰی پوچھنے آتا،اس  کو سعید کا پتہ دیتے تھے۔جب اہل کوفہ آپ سے   مسائل دریافت کرنے آتے تو آپ فرماتے کیا سعید بن جبیر تمہارے درمیان موجود نہیں؟
بعض علماء کی رائے میں  ان کا علمی پایہء مجاہد و طاوس سے بھی بلند تر ہے۔قتادہ کا قول ہے کہ سعید  تابعین میں سب سے بڑے مفسر تھے،علماء کے جرح و تعدیل نے  آپ کو ثقہ قرار دیا ہے۔ابوالقاسم طبری فرماتے ہیں"کہ سعید ثقہ حجت اور امام المسلمین تھے"
۹۵ھ ماہ  شعبان  میں جب کہ آپ  کی عمر پچاسی برس تھی،حجاج نے آپ کو شہید کراودیا۔(۶)
مجاہد بن جبیر:
آپ ۶۱ھ میں پیدا ہوےاور۱۰۳

1  )تاریخ تفسیر ومفسرین،پروفیسر غلام احمد حریری،ص:۱۰۶،۱۰۷،ملک سنز پبلیشرز فیصل آباد
2)اتبیان فی علوم القرآن،ص: ۱۰۳
3)الاتقان فی علوم القرآن،جلال الدین سیوطی،ص: ۴۲۲،۴۲۳
4)تاریخ تفسیر و مفسرین ،پروفیسر غلام احمد حریری،ص:،۱۰۳
5)التبیان فی علوم القرآن،ص:۹۷،۹۸
6)تاریخ تفسیر و مفسرین،غلام احمد حریری،ص:۱۰۳،۱۰۴


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر