اسماءالحسنیٰ

البارِیُ:
مطلب:"اپنے منصوبے کو نافذکرنے ولا"
خالق کے لیے "باری"کا لفظ اسی معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سوچے ہوئے نقشہ کو نافذ کرتا اور اس چیز کو جس کا اس نے نقشہ سوچا ہے۔عدم سے نکال کر وجود میں لانا ہے۔اس کی مچال ایسی ہے جیسے انجینئر نے نے عمارت کا جو نقشہ ذہن میں بنایا تھا  اس کے مطابق وہ ٹھین ناپ تول کر کے  زمین پر خط کشی کرتا ہے۔پھر بنیادیں کھودتاہے۔دیواریں اٹھاتا ہےاور تعمیر کے سارے مراحل طے کرتا ہے۔(اسماءالحسنیٰ:ص،۶۱)
الخالِقُ:
مطلب:"تخلیق کا منصوبہ بنانے والا"
پوری دنیا اور دنیا کی ہر چیز تخلیق کے ابتدائی منصوبے سے لیکر ان مخصوص صور موجود پذیر ہونے تک اسی خالق کی محتاج ہے کوئی چیز نہ خود وجود میں آئی ہے نہ اتفاقاََ پیدا ہوئی ہے۔مولانا مودودی لکھتے ہیں
"اللہ تعالیٰ کے فعل تخلیق الگ مراتب ہیں،جو یکے بعد دیگرے واقع ہوتے ہیں،پہلا مرتبہ  خلق ہے۔جس کے معنی تقدیر یا منصوبہ سازی کے ہیں۔اس کی مثال ایسی ہےجیسے کوئی انجینئیر ایک عمارت بنانے سے پہلے ارادہ کرتا ہےکہ ایسی اور ایسی عمارت خاص مقصد کے لیے بنانی ہے۔اور اپنے ذہن میں اس کا نقشہ سوچتا ہے۔(اسماءالحسنیٰ،ص:۵۲)
صرف یہی نہیں اللہ تعالیٰ ننے کائنات کی ہر چیز کو وجود بخشا ہے۔بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت،جسامت،قوت و استعداد،اوصاف و خصائص،کام اور کام کا طریق،بقا کی مدت،عروج و ارتقاء کی حد اور دوسری تمام تفصیلات  مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب و وسائل اور مواقع پیدا کیے ہیں،جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہے۔
أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَىٰ
ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ
فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَىٰ (القیامہ:۳۶۔۳۹)
ترجمہ: 
"کیا وہ حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو رحم مادر میں ٹپکایا جاتا ہے۔پھر وہ ایک لوتحڑا بنا  پھر اللہ نے اس کا جسم بنایااور اس کے اعضاء درست کیے۔پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں"
(وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ  ۔ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ  ۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَاالْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ق ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ)
'' اور ہم نے انسان کو مٹی کے سَت سے پیداکیا۔پھر ہم نے اسے ایک محفوظ مقام (رحم مادر)میں نطفہ بنا کر رکھا۔پھر نطفہ کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا،پھر ہم نے اسے ایک اور ہی مخلوق بنا کر پیدا کر دیا۔ پس بڑا بابرکت ہے ،اللہ جو سب بنانے والوں سے بہتر بنانے والا ہے'' (1)

ان آیات میں انسانی  پیدائش کے  سات مراحل کا ذکر ہے جن میں سے پہلے کا تعلق اس کی کیمیائی تشکیل سے ہے اور بقیہ چھ کا اس کے بطن مادر کے تشکیلی مراحل سے ۔مذکورہ بالا آیات میں بیان کردہ انسانی ارتقاء کے مراحل کی ترتیب اس طرح بنتی ہے ۔
سبق:
اللہ رب العزت نے ہمیں تخلیق کیا،یہ خوبصورت دنیا،اس کی رنگ برنگ چہک مہک،پیار بھرے رشتے۔۔۔یہ سب اس ایک ہستی نے تن تنہا پیدا کیے۔۔تو کیا وہی اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے؟۔۔۔۔۔۔جی ہاں وہی اس لائق ہے۔
المصوِّرُ:
مطلب:صورت بنانا(اپنے منصوبے کے مطابق صورت گری کرنے والا)
اس دنیا اور اس میں بسنے والی ہر چیز کی صورت گری کرنے والا صرف اور صرف اللہ ہے۔اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اصل مصور اللہ تعالیٰ ہے۔جس نے ہر فرد کی صورت گری کی اور ایسی کمال کی فنکاری دکھائی کہ ایک صورت دوسرے صورت سے  بالکل الگ تھلگ۔۔ہر انسان نہ صرف شکل و صورت کے اعتبار سے بلکہ رنگ،زبان اور جینز کے اعتبار سے بھی منفرد حثیت رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صنائی کا مظہر دیکھنے کے لیے تتلیوں کی مثال لے لیں۔جب ہم تتلیوں کے پروں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک نہایت خوبصورت تناسب نظر آتا ہے۔ان کے دلکش نمونے ،نقطوں اور رنگوں سے  مزین کیا ہوا شاہکار،ایک حسین و جمیل نمونہ پیش کرتا ہے۔ان باریک پروں پر موجود ایک رنگ دوسرے رنگ میں گڈ مڈ نہیں ہوتا۔
هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿الحشر:٢٤ ﴾
ترجمہ:"وہی اللہ ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا،اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔اسی کے لیے بہترین نام ہیں ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے  اسی کی تسبیح کر رہی ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے"
اللہ رب العزت کی مصوری اور صنائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی جسم کے اعضاء اور اس کے درمیان اللہ نے جو توازن رکھا ہے۔وہ جدید سائنس کے مطابق بالکل متناسب سے ہے مثلاََ  انسانی جسم کی لمبائی آٹھ گناہ زیادہ ہے اس کے سر کی لمبائی سےاسی طرح سر کی لمبائی ناک کی لمبائی سے تین گناہ زیادہ ہے۔
انسانی ٹانگوں اور بازوں کے درمیان بھی ٹھیک ٹھیک تناسب رکھا۔اگر جسمانی تناسب ذرہ بھی ادھر ادھر ہوا تو انسان کی خوبصورتی اور توازن بگڑ جاتا اور وہ کبھی اتنا خوبصورت نہ دکھتا۔
اللہ تعالیٰ کی مصوری کا شاہکار انسان  کے اعضاء پر غور کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۖ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ﴿الملک:٢٣﴾ 
ترجمہ:"ان سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا،تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں۔سوچنے سمجھنے والے دل دیے،مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو"
درج ذیل آیت میں سماعت یعنی سننے کی حس کا پہلے ذکر ہے اور دیکھنے کا بعد میں۔لحاظ انسان سنتا پہلے ہے اور دیکھتا بعد میں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک سماعت و بصارت  کی حسیات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"رحم مادر میں پرورش پانے والے وجود میں سب سے پہلے سننے کی حس پیدا ہوتی ہے(یہ)وجود چوبیس گھنٹوں بعد سننے لگتا ہے۔اس کے بعد اٹھائسویں  ہفتے سے (اس میں)دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہےاور پردہ بصارت روشنی کی شناخت کرنے لگتا ہے۔
قرآن پاک کی دیگرآیات بھی سننے کی حس دکھنے کی حس سے قبل پیدا ککی گی کی تصدیق کرتی ہیں۔پس قرآن کی تصریح جدید علم جینیات میں ہونے والی دریافتوں سے مماثلت رکھتی ہے۔
سبق:
پیارے بچوں  اس آیت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ہمارے کان آنکھیں اور دل بنائے تاکہ ہم سن،دیکھ اور سمجھ سکیں۔لہذاہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے اللہ ناراض ہو۔۔۔گناہ کی بات سننا،دیکھنا اور سوچنا سب اللہ کی ناراضگی کا سبب ہیں۔قیامت کے دن یہی چیزیں ہمارے خلا ف گواہی دے گی۔
الرحمٰن:
مطلب:"بہت زیادہ رحم کرنے والا"
رحمٰن مبالغے کا صیغہ ہے۔مطلب بہت زیادہ رحم کرنے والا"اللہ تعالیٰ کی صفت رحمٰن پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ہے۔چاہے وہ اللہ کے ماننے والے ہوں یا انکار کرنے والے،اللہ کی یہ صفت تب بھی انسان کے ساتھ ہوتی جب وہ اس دنیا میں نہیں آتا اور تب بھی ہوگی جب انسان اس دنیا سے چلا جائے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
الرَّحْمَٰنُ 
عَلَّمَ الْقُرْآنَ
خَلَقَ الْإِنْسَانَ 
عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (الرحمٰن:۱،۴)
ترجمہ:"رحمٰن نے اس قرآن کی تعلیم دی،اسی نے انسان کو پیداکیا،اور اسے بولنا سکھایا"
اللہ کی رحمانیت کی سب سے بڑی انتہا جو انسانوں پر اس نے کی وہ "قرآن مجید"جیسی نعمت ہے۔قرآن مجید وہ کتاب جو رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے۔یہ وہ سرچشمہ ہے جہاں سے لوگ نورہدایت سے فیض یاب ہو کر کامیابی کی بلندیوں پر براجمان ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اللہ نے خود اپنی اس نعمت کا تذکرہ کر کے انسانوں کو بتایا۔
بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اپنے اردگرد ماں باپ،بہن بھائی دیکھتا ہے۔یہ سب اللہ کی رحمانیت ہے جو پیدا ہوتے ہی اتنے مہربان اور پیار کرنے والے رشتے مہیاکردیے جو اس کی ذرا سی تکلیف سے تڑپ اٹھتے ہیں۔ان خوبصورت رشتوں کی بدولت ہی وہ "بولنا"سیکھتا ہے۔اس کے علاوہ رنگ برنگی دنیا،سر سبز پودے،نیلا آسمان،سورج چاند اور تارے،کھانے پینے کی چیزیں یہ سب اللہ کی رحمانیت ہی کی بدولت ہے۔
اللہ کی محبت ستر ماؤں سے زیادہ۔۔۔ایک ماں کا واقعہ
حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں کچھ جنگلی قیدی گرفتار ہو کر آئےان میں ایک  عورت بھی تھی۔جس کا شیرخوار بچہ چھوٹ گیا تھا۔اور وہ مامتا کی ماری ایسی بے چین تھی کہ جس بچے کو دیکھتی اسے چھاتی سے چمٹا کر دودھ پلانے لگتیں تھی۔نبی کریمﷺ نے اس کا حال دیکھ کر ہم لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم لوگ یہ توقع رکھتے ہو  کہ یہ ماں اپنے بچے کو آگ مین پھینک دے گی؟ہم نے کہا ہرگز نہیں خود پھینکنا تو درکنار یہ آخری حد تک اس کو بچانے کی کوشش کرے گی۔اللہ کا رحم اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ ہےجو یہ عورت اپنے لیے رکھتی ہے۔اللہ ستر ماؤں سے زیادہ محبت رکھتا ہے اپنے بندوں سے۔
سبق:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اتنا "مہربان"ہے تو انسان پر مشکلیں اور مصیبتیں کیوں آتیں ہیں؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مصیبتیں بھی دراصل اللہ کی طرف سے مہربانی ہے جب انسان ظالم اور سرکش ہوجاتے تو وہ اللہ کو بھول جاتے ہیں۔تب اللہ کی طرف سے مصیبتوں کا آنا اصل میں اس کی طرف آنے کا بلاوا ہوتا ہے۔اور پھر یہی مصیبتیں اور پریشانیاں انسان کو مضبوط بناتیں اور اللہ پہ ایمان کو پختہ بھی کرتیں ہیں۔
الرحیمُ:
مطلب:"رحم کرنے والا"
 ترمذی کی صحیح حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا"
رحمٰن سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور رحیم سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے۔
وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا( الاحزاب:43)
ترجمہ:"مومنون کے ساتھ رحیم ہے۔ "
(پس معلوم ہوا کہ رحمن میں مبالغہ بہ نسبت رحیم کے بہت زیادہ ہے۔)
"اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے کیے،۹۹ اپنے پاس رکھے اور ایک انسانوں کو دیا"(بخاری)
آپ اپنے ماں باپ،بہن بھائیوں اور دوستوں سے محبت کرتے ہیں یہ اس ایک حصے کی وجہ سے ،آپ سوچیں اللہ کے پاس کتنی بے پایاں اور بے حساب محبت ہے جو وہ دن رات اپنی مخلوق پر لٹا  رہا ہے۔
نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿الحجر:٤٩﴾
ترجمہ:"اے نبی!میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں اپنے بندوں کو معاف کرنے والا اور رحیم ہوں" 
نبی کریمﷺ کی جانوروں سے مثالی محبت:
المؤمنُ:
مطلب:"امن دینے والا"خوف سے نجات دینے والا                                                           
الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ ﴿القریش:٤﴾                                   
ترجمہ:
"جس نے انھیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن دیا"
اللہ رب العزت کی ذات ہی ہے جو ہر طرح کے خوف سے امن دینے والی ہے۔اللہ نے اپنے بندوں کو بھی حکم دیا کہ وہ دوسروں کو امن و امان سے رہنے دیں،مومن اس لیے مومن ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو امن دیتا ہے۔مگر اللہ رب العزت امن کا اصل منبع ہے،وہ نہ صرف  اپنے بندوں کو دنیا میں بلکہ آخرت میں گھبراہٹوں سے محفوظ رکھے گا۔آخرت میں جب ہر شخص نفسی نفسی پکار رہاہوگا تو اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائے گا۔ایسے لوگوں کے لیے ہی وعدہ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ﴿فصلت:٣٠﴾
ترجمہ: "جن لوگوں نے کہا اللہ ہمارا ربّ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے،یقیناََ ان پر فرشتے بانل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرونہ غم کرو،اور خوش ہو جاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے"
مشکل وقت میں ایمان بندوں کو ڈگمگاتا نہیں بلکہ انھیں ثابت قدم رکھتا ہے۔
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ ﴿النمل:٨٩﴾
ترجمہ"جوشخص بھلائی لے کر آئے گا اسے اس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گااور ایسے لوگ اس دن  کے ہول(خوف)سے محفوظ ہوں گے":
غزوتبوک:
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                  
سبق:
امن دینے والی دعا:
اَللھمّ استُر عوراتی و اٰمن روعاتی
ترجمہ:
اےاللہ!ہمارے عیب ڈھانک لے اور خوف سے امن دے"
المُھیمِنُ:
مطلب:"حفاظت کرنے والا"
مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ المھیمن کے تین معنی ہیں
·      نگہبانی کرنے والا
·      شاہد ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔
·      لوگوں کی حاجات اور ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار
اللہ ربّ العزت وہ ذات ہے جو ہر وقت ہر لمحے نہ صرف ہمیں دیکھ رہا بلکہ ہماری حفاظت بھی فرما رہا ،اپنے بندوں کی حفاظت لے لیے س نے کائنات کے اندر توازن رکھا ہے۔مثلا یہ زمیں جس پر ہم رہتے ہیں گول ہے اور ہر وقت اپنے مدار میں حرکت کر رہی ہے۔مگر اللہ نے اس کے اندر ہم انسانوں کی حفاظت کے لیے ایسا توازن رکھا ہے کہ ہم گرتے نہیں۔اسی طرح آسمان کا معاملہ ہے ہر روز نجانے کتنے شہاب ثاقب فضا  میں گرتے ہیں مگر وہ زمیں پر آنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتے۔۔۔یہ سب ہماری حفاظت کا سامان ہے۔
اسی طرح جانوروں کا بھی معاملہ ہے کہتے سانپ دنیا میں اتنی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں کہ اگر وہ زندہ رہیں تو ان کی تعداد انسانوں سے بھی بڑھ جائے۔مگر وہ امرربی سے ختم ہوتے رہتے ہیں۔
ہد ہد اپنے گھونسلے درختوں کے تنوں میں چونچ سے سوراخ کرکے بناتی ہے۔لیکن آپ نے غور کیا ہے کہ دماغ کا جریان خون کیوں نہیں ہوتا؟جبکہ وہ تنے کی زور زور سے کھدائی کرتا ہے۔ایسا اس لیے کہ اللہ نے اپنے میں دماغ میں ایسا نظام رکھا ہے  جو اس کے دماغ کی قوت کو کم کرتا اور جذب کرتا ہے۔بؑض جانور اپنے ماحول سے اتنی مطابقت رکھتے ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ جانور ہے یا پودا؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے
لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ ۖوَمَا لَهُمْ مِنَ اللَّـهِ مِنْ وَاقٍ ﴿الرعد:٣٤﴾
ترجمہ:
"ایسے لوگوں کے لیے دنیا کی زندگی ہی میں عذاب ہے،اورآخرت کا عزاب اس سے بھی سخت ہے،کوئی ایسا نہیں جو خدا سے بچانے والا ہو"
 سبق:
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے ہر آن ہر لمحہ ہم اس کی نظر میں ہوتے ہیں۔اس لیے گناہ کا کام کرتے ہوئے یہ ضرور سوچنا چاہیے  کہ ہم کیا کر رہے؟
بہیقی میں ہے کہ ایک بدو نبیﷺ کے پاس آیا  کہ ایسے کلمات سکھا دیجے جو میری حفاظت کریں۔آپﷺ نے انھیں یہ کلمات سکھائے
اللھمّ لک الحمد کلہ والیک یرجع الامرکلہ
مالِک:
مطلب:"وہ بادشاہ ہے"

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر