ª!ª قانون توہین رسالت قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ª!ª
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
دین اسلام میں تمام کے تمام قوانین اللہ ہی کے بنائے ہوئے ہیں مگر بعض کا بیان قرآن و سنت میں بہت واضح ہے اور بعض کے لیے خود اسی قرآن و سنت کے اصولوں کے تحت اخذ و استنباط کے مراحل ہیں کہ جن میں اگر اختلاف کی گنجائش ہے تو اس کا تعلق اخذ و استنباط کے مراحل میں فہم انسانی کے اعتبار سے تو ہوسکتا ہے مگر اصلا نہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت سے تمام تر قوانین فقط محکمات کی بنیاد پر اخذ نہیں کیئے جاتے بلکہ مختلف اصول ضوابط کی تحت اخذ کیئے جاتے ہیں اور وہ اصول ضوابط بھی خود قرآن و سنت سے ہی ماخوذ ہیں لہذا قرآنی اَحکام کا بیان و اِستنباط کہیں ’عبارۃُ النّص‘ سے ہوتا ہے اور کہیں ’اِشارۃُ النّص‘ سے، کہیں ’دلالۃُ النّص‘ سے ہوتا ہے اور کہیں ’اِقتضاء النّص‘ سے۔
کہیں اُس کا انداز ’حقیقت‘ ہے، کہیں ’مجاز‘، کہیں ’صریح‘ ہے، اور کہیں ’کنایہ‘۔ کہیں ’ظاہر‘ ہے، کہیں ’خفی‘، کہیں ’مجمل‘ ہے، اور کہیں ’مفسر‘۔ کہیں ’مطلق‘ ہے، کہیں ’مقید‘، کہیں ’عام‘ ہے اور کہیں ’خاص‘۔ اَلغرض قرآنی تعلیمات مختلف صورتوں اور طریقوں میں موجود ہیں۔ اُن میں اصل اَحکام (substantive laws) بھی ہیں اور ضابطہ جاتی اَحکام (procedural laws) بھی چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فقہائے اِسلام نے تمام شعبہ ہائے حیات سے متعلق قوانین اور اُصول و ضوابط کا اِستخراج اصلاً قرآن ہی سے کیا ہے۔ ۔۔۔
اب آتے ہیں قانون توہین رسالت کی جانب سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ کا قرآن گستاخان رسالت کے بارے میں کیا کہتا ہے ۔۔ ۔
لہذا اس ضمن میں جماعۃ الدعوہ کہ امیر حمزہ اپنے تحقیقی مقالہ میں رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
قرآن میں گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا:
اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں اپنے حبیب حضرت محمد کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ کی سزا کا اعلان فرما رہے ہیں:
”اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا ( تکلیف) پہنچاتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کر دی ہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب بھی تیار کر دیا ہے۔ “
الاحزاب : 58
اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے معصوم مومن عورتوں اور مومن مردوں پر الزام لگانے والوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اسے بھی ”ایذا“ قرار دیا ہے مگر اس ایذا کو صرف ” اثماً مبیناً“ واضح گناہ قرار دیا ہے۔
اس سے اگلی آیت میں اللہ نے اپنے نبی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ وہ ۔۔۔۔
اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں کو حکم دے دیں کہ وہ پردے میں ملبوس ہو کر نکلیں تاکہ وہ اوباشوں کی ایذا سے محفوظ رہیں ....
اس سے اگلی آیت میں انتباہ کیا کہ ایسی حرکتیں کرنے والے منافق اگر باز نہ آئے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غلبہ دیں گے اور دلوں میں کوڑھ رکھنے والے اور توہین آمیز خبریں پھیلانے والے مدینہ میں رہ نہ سکیں گے، کچھ قتل ہوں گے اور کچھ جلا وطن ہوں گے۔
اس کے بعد اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فیصلہ فرما دیا۔
توہین رسالت کرنے والوں کے بارے میں قرآن کا دو ٹوک اور واضح فیصلہ یوں ہے :
”ان پر ہر جانب سے لعنتیں برسیں گی یہ جہاں ملیں گے پکڑے جائیں گے اور قتل ہو کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں گے۔“ (الاحزاب : 61)
ملاحظہ ہو، اللہ تعالیٰ نے لعنت صرف ان لوگوں پر کی ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیں۔ مومنوں اور مومنات کو ایذا دینے پرلعنت نہیں کی، وہاں صرف بہتان اور واضح گناہ کی بات کی....
ثابت ہوا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا معاملہ نا قابل برداشت ہے، چنانچہ سورة احزاب کی مندرجہ بالا آیت کا آغاز کیا تو ” ملعونین“ کے لفظ سے کیا یعنی وہی ملعونین جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیں ان کی سزا یہ ہے کہ جہاں بھی بھاگ جائیں وہیں سے پکڑے جائیں اور قتل کیے جائیں تو ٹکڑے ٹکڑے کیے جائیں ....
اب اس سے اگلی آیت ملاحظہ ہو :
”وہ لوگ جو پہلے گزر چکے، ان میں بھی اللہ کا قانون یہی تھا اور تم ہر گز ہر گز اللہ کے طریق کار میں کوئی تبدیلی نہیں پاﺅ گے۔“ (الاحزاب : 62)
جی ہاں ! توہین رسالت کی سزا موت ایسا قانون ہے۔ اللہ کا ایسا طریق کار ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ....
چنانچہ کوئی حکومت توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کرنے کی مجاز نہیں۔
پہلے لوگوں میں لا محالہ یہودی اور عیسائی ہیں۔ دونوں کے لیے تورات شریعت کی الہامی کتاب ہے ....
بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور کی چھپی ہوئی بائبل کی چند آیات بھی ہم یہاں لکھتے ہیں، تورات یا بائبل کا یہ باب ” استثنا“ ہے۔ صفحہ 183 ہے، ملاحظہ ہوں آیات :
”شریعت کی جو بات وہ تجھ کو سکھلائیں اور جیسا فیصلہ تجھ کو بتلائیں اسی کے مطابق کرنا اور جو کچھ فتویٰ وہ دیں اس سے داہنے یا بائیں نہ مڑنا، اور اگر کوئی شخص گستاخی سے پیش آئے کہ اس کاہن کی بات جو خداوند تیرے خدا کے حضور خدمت کے لیے کھڑا رہتا ہے یا اس قاضی کا کہا نہ سنے تو وہ شخص مار ڈالا جائے اور تو اسرائیل میں سے ایسی برائی کو دور کر دینا اور سب لوگ سن کر ڈر جائیں اور پھر گستاخی سے پیش نہیں آئیں گے۔“
یاد رہے ! بائبل میں بنو اسرائیل کے انبیاءکو کاہن بھی کہا گیا ہے جیسے عزیز علیہ السلام ۔ ۔
کاہن یعنی عزیرعلیہ السلام .... ثابت ہوا کہ انبیاءکی توہین کا جرم جیسا کہ قرآن نے بتلایا پہلی قوموں میں بھی قتل ہے۔ نیز بائبل واضح کر رہی ہے کہ گستاخ رسول کو قتل کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ قتل کی سزا کے ڈر سے کوئی گستاخ توہین نبی کا ارتکاب نہیں کرے گا۔
لفظ ایذا کی عملی تفسیر :
آئیے ! اب دیکھتے ہیں کہ قرآن نے صاحب قرآن حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ”ایذا“ کے جس لفظ کا ذکر فرمایا اس کی شرح اللہ کے رسول حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح کی۔ اس کی عملی تفسیر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں ثابت ہے کہ کعب بن اشرف جو ایک یہودی سردار تھا، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کیا کرتا تھا.... توہین آمیز اشعار کہتا تھا اور دیگر بہت ساری توہین آمیز حرکتیں کیا کرتا تھا۔ ملاحظہ ہوں، صحیح بخاری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا :
”کون ہے جو کعب بن اشرف یہودی سے نبٹے کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ” ایذا“ دی ہے۔“ (بخاری)
یاد رہے ! قرآن نے واضح کیا ہے کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی .... اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری نا فرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔
چنانچہ کعب بن اشرف نے جب اللہ کے رسول کو ایذا دی تو اللہ کو ایذا دی چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایذا کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ”ایذا“ قرار دیا۔
یہ بین الاقوامی قانون ہے کہ کسی سفیر کی توہین کی جائے تو وہ اس ملک اور اس ملک کے حکمران کی توہین سمجھی جاتی ہے کہ جس ملک کا یہ سفیر ہے .... جب دنیا میں یہ قانون چلتا ہے تو اللہ کا قانون تو کہیں اعلیٰ و اولیٰ اور بلند و بالا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول یعنی سفیر ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اللہ کی توہین ہے۔
اب کیا ہوا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور رات کے اندھیرے میں کعب بن اشرف کو باہر بلا کر اس کے ٹکڑے کر دیے۔
امام ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ” زاد المعاد“ میں ” ایذا“ کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہودیوں کا ایک گروہ اس بات پر قتل کر دیا گیا کہ انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ”ایذا“ یعنی تکلیف پہنچائی، چنانچہ ایسا شخص جو توہین کا ارتکاب کرے، وہ مسلمان ہو یا ذمی یا ایسے ملک میں رہتا ہو جس ملک کے ساتھ معاہدہ ہو اس کے بارے میں فیصلہ یہی ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔
قرآن کی دوسری دلیل :
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں :
”اور اگر وہ اپنے عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمھارے دین میں توہین اور طعن و تشنیع کریں تو کفر کے لیڈروں سے لڑائی کرو، ان کے عہد کی کوئی حیثیت نہیں تاکہ یہ (توہین آمیزیوں سے) باز آ جائیں۔“ (التوبہ: 12)
ثابت ہوا اگر کوئی غیر مسلم ذمی مسلمانوں کے ملک میں توہین کرتا ہے تو اس کا ذمہ ٹوٹ گیا۔ اس کی سزا قتل ہے .... اور اگر کوئی ملک توہین کا ارتکاب کرتا ہے تو مسلم حکمرانوں کو اس کے خلاف اعلان جنگ کر دینا چاہیے کیونکہ توہین کے بعد عہد اور پیمان ٹوٹ گئے۔
یاد رہے ! حضور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا نام ” دین“ ہے۔ جب آپ کی توہین ہو گی تو سارے دین اسلام کی توہین ہو گی ....
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا ساری امت کو گالی دینا ہے۔
امام رازی اپنی تفسیر ’مفاتيح الغيب‘ میں مذکورہ آیت کی شرح میں لکھتے ہیں:
قال الزجاج: هذه الآية توجب قتل الذمي إذا أظهر الطعن في الإسلام، لأن عهده مشروط بأن لا يطعن، فإن طعن فقد نكث ونقض عهدهم
زجاج نے کہا یہ آیت ذمی کے قتل کو واجب کرتی ہے جبکہ وہ دین اسلام میں طعن کرئے کیونکہ اسکا ذمہ مشروط تھا اسلام پر طعن نہ کرنے سے مگر اس نے طعن کرکے اپنے ذمہ کو توڑ دیا ۔ ۔(آبی ٹوکول)
امام قرطبی اپنی تفسیر “جامع الاحکام القرآن“ میں اسی آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ۔۔
۔۔۔۔أجمع عامّة أهل العلم على أن من سبّ النبيّ صلى الله عليه وسلم عليه القتل. وممن قال ذلك مالك والليث وأحمد وإسحاق، وهو مذهب الشافعيّ ۔ ۔۔۔۔۔
اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب و شتم کرئے اسے قتل کیا جائے گا اور یہ کہا امام مالک و لیث اور امام احمد و اسحٰق نے اور یہی مذہب ہے امام شافعی کا ۔ ۔ ۔(آبی ٹوکول)
پس ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول کو گالی دینا دین پر طعن و تشنیع کی نسبت کہیں زیادہ بڑی بات ہے لہٰذا اہل ذمہ میں سے جس نے توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتکاب کیا اس نے ذمہ توڑ دیا۔ اس کی سزا قتل ہے۔
تیسری دلیل :
اللہ کا ارشاد گرامی ہے :
”بلاشبہ تیرا دشمن ہی ابتر ہے۔ “ (الکوثر :3)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ابتر کا معنی کاٹ ڈالنا، قطع کر دینا ہے۔ جب تلوار خوب تیز اور کاٹنے والی ہو تو اسے ” سیف بتار“ کہتے ہیں۔ یہ حصر و توکید کا صیغہ ہے۔
چنانچہ اللہ کی طرف سے اس لفظ کا جو تقاضا ہے وہ یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کرنے اور توہین کرنے والوں کو ابتر کی حالت سے دو چار کرنا لازمی ہے اور اس کی صورت جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اور اسلاف سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ شاتم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل ہونا چاہیے .... وہ قتل ہو گا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی اور توہین کی جڑ ختم ہو جائے گی۔
قرآن کی چوتھی دلیل :
اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں :
قل ابا للّٰہ وآیاتہ ورسولہ کنتم تستہزؤن، لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم۔“
(التوبہ:۶۵،۶۶)
ترجمہ:… ”آپ ان سے کہہ دیجئے! کہ کیا اللہ کے ساتھ اور اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ تم ہنسی...استہزا... کرتے ہو؟ تم اب...یہ بے ہودہ...عذر مت کرو، تم اپنے کو مومن کہہ کر کفر کرنے لگے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شعبان نظامی، باذوق اور شاکرالقادری نے اسے پسند کیا۔-
جواب: ª!ª قانون توہین رسالت قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ª!ª
اسلام علیکم معزز قارئین کرام قانون توہین رسالت کی سزا کا فقط سزائے موت ہونا ہم قرآن پاک سے بخوبی ثابت کرچکے اب سیرت رسول یعنی احادیث نبویہ سے اس کا ثبوت زیل میں دیا جائے گا پھر ساتھ فقہاء کا مذہب بھی نقل کردیا جائے گا کہ فقہاء نے اس پر اجماع امت نقل کیا ہے ۔
زیل میں محترم جناب محمد اسماعیل قریشی سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی کتاب " ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت " سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں یاد رہے کہ یہ وہی اسماعیل قریشی ہیں کہ جن کی بے پناہ جد و جہد ہے پاکستان کی تعزیراتی قانون میں اسلام کے اس قانون کو بطور حد شامل کروانے کے لیے ۔ ۔
۔ ۔ ۔
قانون توہین رسالت احادیث کی روشنی میں
قرآں نے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ واضح فیصلہ صادر کیا ہے کہ اس دنیا میں اس کے لیے سزاے موت مقرر ہے اور آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب جہنم تیار ہے احادیث کی مستند کتاب سنن ابی داؤد جو صحاح ستہ میں شامل ہے۔
توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں احادیث " کتاب الحدود " میں درج کی گئی ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا سزائے موت بطور حد مقرر ہے اور حد میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی -۔۔۔۔۔۔
اس مرحلہ پر ضروری ہے کہ حد کی متعین تعریف پیش نظر ہو حد لغت میں کسی کام سے روک دینے کو کہتے ہیں اسی لیے دربان کو عربی میں حدار کہا جاتا ہے شریعت کی اصطلاح میں حد اللہ پاک کا حق ہے :
العقوبتہ المقدرۃ حقا للہ تعٰالی اسی لیے حدود کو حقوق اللہ بھی کہا جاتا ہے ۔نیز حد اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سزا ہے جس میں سوئی کی نوک کے برابر بھی کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی ۔ ۔ ۔ ۔
۔اسلام کی مسلمہ تاریخ کی روسے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔ رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیاتھا ۔ سوائے گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ ان کے بارے میں آپ نے یہ حکم دیا کہ اگر یہ لوگ خانہ کعبہ کے پردے میں بھی لپٹ جائیں ۔ تب بھی انہیں معاف نہ کیا جائے اور انہیں ہر صورت قتل کیاجائے ۔ ابن خطل کو خانہ کعبہ کے پردے پکڑنے کی حالت میں ہی قتل کیاگیا۔ اسی طرح دو گستاخ رسول ۖ عورتیں سارہ اور قریبہ بھی قتل کی گئیں۔ (تاریخ طبری ص١٠٤)
اسی طرح 3ہجری میں کعب بن اشرف ایک گستاخ رسول کو حضرت محمد بن مسلمہ کی قیادت میں ایک کمانڈو آپریشن کے ذریعے جہنم واصل کیاگیا۔ (تاریخ طبری ،ص ٢١٣)
امیرالمؤمنین حضرت علی نے ایک یہودی عورت کے بارے میں بتایا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کیا کرتی تھی۔ ایک شخص نے اسے قتل کردیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کا بدلہ قصاص و دیت کی صورت میں نہیں دلوایا سنن ابی داؤ د6/2-2 ایک شاعر جوکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کلام کے ذریعے ہدف طعن تشنیع بناتاتھا ، اسے قتل کردیا گیا۔
(کتاب البخاری۔ باب المغازی، صفحہ :٥٧٦،٥٧٧-)
ایک صحابی نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والی عورت کو قتل کردیا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق کی ۔ جب ثابت ہوگیا کہ وہ توہین کی مرتکب ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، کہ تم سب گواہ رہو ، اس کا قتل ضائع ہوگیا، اس کا بدلہ نہیں دیا جائے گا۔
(سنن ابی داؤد کتاب الحدود)
عمل صحابہ کرام
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فتویٰ
حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ
...کنت عند ابی بکر رضی اللہ عنہ ، فتغیظ علیٰ رجل ، فاشتد علیہ ، فقلت : ائذن لی یا خلیفۃ رسول اللّٰہ اضرب عنقہ قال : فاذھبت کلمتی غضبہ ، فقام فدخل ، فارسل الی فقال : ما الذی قلت آنفا ؟ قلت : ائذن لی اضرب عنقہ ، قال : اکنت فاعلا لو امرتک ؟ قلت : نعم قال : لا واللّٰہ ما کانت لبشر بعد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم
( رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ بھی جواباً بدکلامی کرنے لگا ۔ میں نے عرض کیا ۔ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ۔ مجھے اجازت دیں ۔ میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ میرے ان الفاظ کو سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سارا غصہ ختم ہو گیا ۔ آپ وہاں سے کھڑے ہوئے اور گھر چلے گئے ۔ گھر جا کر مجھے بلوایا اور فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے مجھے کیا کہا تھا ۔ میں نے کہا ۔ کہا تھا ۔ کہ آپ رضی اللہ عنہ مجھے اجازت دیں میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میں تم کو حکم دے دیتا ۔ تو تم یہ کام کرتے ؟ میں نے عرض کیا اگر آپ رضی اللہ عنہ حکم فرماتے تو میں ضرور اس کی گردن اڑا دیتا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ نہیں ۔ اللہ کی قسم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں کہ اس سے بدکلامی کرنے والے کی گردن اڑا دی جائے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کی ہی گردن اڑائی جائے گی۔
روایت ہے کہ حضرت عباس نے اپنے ایک غلام کو جو گستاخ رسول تھا، قتل کروا دیا ۔
(حدیث:٩٧٠٤،صفحہ:٣٠٧،جلد:٥،مصنف :عبدالرزاق )
ابن وہب نے حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت کیا کہ ایک راہب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ۔ جب اس کا پتہ ابن عمر کو چلا تو آپ نے کہاکہ سامعین نے اس کو زندہ کیوں چھوڑا ۔
(کتاب الشفاء قاضی عیاض)
ان کے علاوہ بھی اگر سیرت اور تاریخ اسلام کے واقعات پر اگر محض سرسری سی نظر ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ زمانہ اقدس سے لیکر خلفائے راشدین اور ہر دور کے مسلمان حکمرانوں نے توہین رسالت کی سزا قتل کو ہی جاری و ساری رکھا ہے اور یہ امت میں اس تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ جس پر ہر شیعہ سینی وہابی دیوبندی غیر مقلد سب بالاتفاق متفق و مجمع ہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ امت کے بڑے بڑے فقہاء نے اس پر مستقل کتابیں لکھیں اور اجماع امت نقل کیا مگر افسوس کہ آج کہ دور میں وہ لوگ جو کہ ہمیشہ ملاں کو اس بات کا طعنہ دیتے آئے ہیں کہ یہ مولوی کسی ایک مسئلہ میں بھی متفق نہیں ہوسکتے آج وہی طبقات فکر امت مسلمہ کہ اس متفق علیہ مسئلہ میں امت کو تقسیم کرنے کی ناپاک جسارت کررہے ہیں ۔۔ ۔
قانون توہین رسالت پر مذاہب فقہاء امت
تمام فقہائے امت بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت و گستاخی اور توہین و تنقیص کا ارتکاب کریں، اگر وہ پہلے مسلمان تھے تو اب مرتد ہوگئے اور ان کی سزا قتل ہے۔ چنانچہ امام ابو یوسف کی کتاب الخراج میں ہے
جس مسلمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی یا آپ کی کسی بات کو جھٹلایا، یا آپ میں کوئی عیب نکالا یا آپ کی تنقیص کی، وہ کافر و مرتد ہوگیا اور اس کا نکاح ٹوٹ گیا، پھر اگر وہ اپنے اس کفر سے توبہ ...کرکے اسلام و نکاح کی تجدید...کرے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔“ اس کے علاوہ علامہ شامی نے ”تنبیہ الولاة والحکام“ میں علامہ تقی الدین سبکی کی کتاب ”السیف المسلول علی من سب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم“ سے اس پر پوری امت، تمام اہلِ علم اور فقہائے امت کا اجماع نقل کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
امام خاتمہ المجتہدین تقی الدین ابی الحسن علی بن عبدالکافی السبکیاپنی کتاب ”السیف المسلول علی من سب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم“ میں لکھتے ہیں کہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ امت کا اجماع ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تنقیص کرے اور سب و شتم کرے وہ واجب القتل ہے، ابوبکر ابن المنذر فرماتے ہیں کہ تمام اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کرے اس کا قتل واجب ہے، امام مالک بن انس، امام لیث، امام احمد اور امام اسحق اسی کے قائل ہیں اور یہی مذہب ہے امام شافعی کا، قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اس طرح کا قول امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب سے اور امام ثوری سے اور امام اوزاعی سے شاتم رسول کے بارے میں منقول ہے۔ امام محمد بن سحنون فرماتے ہیں کہ علماء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کرنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کے کفر پر اجماع کیا ہے،۱ ور ایسے شخص پر عذاب الٰہی کی وعید ہے اور جو شخص ایسے موذی کے کفرو عذاب میں شک و شبہ کرے وہ بھی کافر ہے، امام ابو سلیمان الخطابی فرماتے ہیں کہ مجھے کوئی ایسا مسلمان معلوم نہیں ،جس نے ایسے شخص کے واجب القتل ہونے میں اختلاف کیا ہو۔
“ علامہ ابن عابدین شامی اپنی مشہور زمانہ کتاب ”رسائل ابن عابدین“ میں اس سے بڑھ کر لکھتے ہیں جو ملعون اور موذی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی میں گستاخی کرے اور سب و شتم کرے، اس کے بارے میں مسلمانوں کے دل ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک کہ اس خبیث کو سخت سزا کے بعد قتل نہ کیا جائے یا سولی پر نہ لٹکایا جائے، کیونکہ وہ اسی سزا کا مستحق ہے، اور یہ سزا دوسروں کے لئے عبرت ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شعبان نظامی، باذوق اور شاکرالقادری نے اسے پسند کیا۔
جواب: ª!ª قانون توہین رسالت قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ª!ª
بہت شکریہ آبی! اللہ آپ کو جزائے خیر دے
اردو محفل پر میں بھی اسی سلسلہ کا مواد پیش کر رہا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ وہاں کے سوالات و جواب کو یہاں بھی پیش کروں، لیکن مصروفیت آڑے آ رہی ہے
اگر کوئی صاحب اس سے سلہ میں بکھرا ہوا مواد مبسوط انداز میں جمع کر کے پیش کرے تو افادہ امت کے لیے کئے گئے اس کا کا اجر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس محفوظ ہےآبی ٹوکول نے اسے پسند کیا۔-
جواب: ª!ª قانون توہین رسالت قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ª!ª
قانون توہین رسالت کے حوالہ سے چند دیگر اعتراضات کا محاکمہ
علامہ سلیم اللہ خان رقمطراز ہیں کہ۔ ۔
پاکستان، اسلام کے نام پر بننے والا ملک ہے جس کی پہچان اور دنیا کے نقشے پر جس کے وجود میں آنے کا جواز اسلام اور اس کی تعلیمات کا عملی نفاذ تھا، برصغیر میں ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے بڑی ایمان افروز تحریکیں چلی ہیں اور خواجہٴ بطحا صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے تقدس پر جانیں قربان کرنے کی لہو رنگ تاریخ مرتب ہوئی ہے، عام مسلمانوں نے جب بھی دیکھا کہ توہین رسالت کے مجرم کو قانون گنجائش فراہم کررہا ہے اور انصاف پر قانون کی گرفت ڈھیلی پڑرہی ہے تب مسلمانوں نے انصاف خود اپنے ہاتھوں میں لیا ہے، انہوں نے پھر کسی قانون، کسی کالے ضابطے کی پروا نہیں کی۔ انیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں راجپال نامی بدبخت نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مشتمل ایک کتاب ”رنگیلا رسول“ کے نام سے لکھی تھی، انگریز کا قانون نافذ تھا، مسلمان بجا طور پر مشتعل تھے، دفعہ 144 نافذ کردی گئی تھی اور کسی قسم کے جلسے اور اجتماع کی اجازت نہیں تھی، اس موقع پر خطیب الہند، حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ الله نے جو تقریر کی اس سے مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،
انہوں نے فرمایا:
”جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے، پولیس جھوٹی، حکومت کوڑھی اور ڈپٹی کمشنر نااہل ہے وہ ہندو اخبارات کی ہرزہ سرائی تو روک نہیں سکتا لیکن علمائے کرام کی تقریریں روکنا چاہتا ہے، وقت آگیا ہے کہ دفعہ 144 کے یہیں پرخچے اڑا دئیے جائیں۔ میں دفعہ144 کو اپنے جوتے کی نوک تلے مسل کر بتا دوں گا۔
پڑا فلک کو دل جلوں سے کام نہیں
جلا کے راکھ نہ کردوں تو داغ نام نہیں
راجپال کو غازی علم دین نے حملہ کرکے ٹھکانے لگایا اور یوں جس انصاف کو فراہم کرنے میں عدالت پس وپیش سے کام لیتی رہی، ایک عام مسلمان نے بڑھ کر قانون اپنے ہاتھ میں لیا اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا۔
انگریزی دور حکومت میں مجموعہ تعزیرات ہند نافذ تھا جس کی دفعہ 295میں مذہبی محترم شخصیات اور مقدس مقامات کی بے حرمتی اور توہین کی سزا زیادہ سے زیادہ دو سال قید اور جرمانہ تھا، پاکستان بننے کے بعد اس مجموعہ کو ضابطہ تعزیرات پاکستان کے طورپر تسلیم کرلیا گیا لیکن اس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے مجرم اور اس کی سزا شامل نہیں تھی۔ 1986 ء میں تعزیرات پاکستان میں ایک نئی دفعہ ”295، سی“ کا اضافہ کیا گیا جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے مجرم کو عمر قید یا موت کی سزا مقرر کی گئی، 30 اکتوبر 1990ء میں وفاقی شرعی عدالت نے ”عمر قید“ کی سزا کو غیر شرعی قرار دے کر منسوخ کردیا اور صرف موت کی سزا کو برقرار رکھا، جس کے الفاظ یہ ہیں:
جو شخص بذریعہ الفاظ زبانی ، تحریری یا اعلانیہ اشارتاً یا کنایتاً بہتان تراشی کرے، یا رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاک نام کی بے حرمتی کرے، اسے سزائے موت دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا“
چناچہ اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حافظ حسن مدنی رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
۔ ۔ تہتر کے متفقہ دستور کی دفعہ نمبر 227 میں اہلیانِ پاکستان کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ خلافِ اسلام دفعات کی نشاندہی کرکےان کو اسلام کے مطابق تبدیل کرا سکتے ہیں۔بھٹو کے زیر نگرانی تیار کردہ اس دستور کے دیے ہوئے حق کو استعما ل کرتے ہوئے مجاہد ناموس رسالت محمد اسمٰعیل قریشی ایڈوکیٹ نے 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت میں ایک رِٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں مذہبی دل آزاری کےسابقہ قوانین کو ناکافی قرار دیتے ہوئے،ان میں توہین رسالت کے جرم کی سزا کے تعین کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اِس دوران17 مئی١٩٨٦ء کو سیکولر ایجنڈے کی اَن تھک منادی عاصمہ جہانگیرنے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کیا جس کی روک تھام کے لئے قومی اسمبلی میں محترمہ نثار فاطمہ نے توہین رسالت کے مجرم کے لئے سزاے موت کا بل پیش کیا جس کے نتیجے میں فوجداری ترمیمی ایکٹ نمبر 3 (سال 1986ء)کے ذریعے 295سی کی صورت میں توہینِ رسالت کا قانون نافذ کیا گیا لیکن اس قانون میں توہین رسالت کی سزا ’سزاے موت یا عمر قید مع جرمانہ‘ کی صورت میں رکھی گئی تھی۔ چونکہ اس بل سے یہ قانون عین اسلام کے مطابق نہ ہوسکا ، اور جناب محمد اسمٰعیل قریشی کی رٹ پٹیشن کی ضرورت باقی رہی، اس بنا پر وفاقی شرعی عدالت میں داخل اس رٹ پٹیشن کا فیصلہ اکتوبر 1990 کو آیا جس میں 295سی سے عمر قید کی سزا حذف کرنے کی سفارش کی گئی اور فاضل عدالت نے یہ بھی قراردیا کہ حکومت ِپاکستان نے یہ اگر مجوزہ تبدیلی نہ کی تو 30 اپریل 1991ء کے بعد ’عمر قید کی سزا‘ کے الفاظ خود بخود حذف ہوجائیں گے۔ یادر ہے کہ اس فیصلہ میں یہ سزا تمام انبیا کرام کی گستاخی تک وسیع کرنے کی سفارش بھی کی گئی تھی۔ یہ فیصلہ ملک کی اعلیٰ وفاقی شرعی عدالت کے پانچ فاضل جج صاحبان نے ملک کے جید علماے کرام کی معاونت سے صادر کیا ۔ ان جج صاحبان کے نام یہ ہیں:
1.چیف جسٹس گل محمد خاں سابق جج لاہور ہائی کورٹ
2.جسٹس عبد الکریم خاں کنڈی سابق جج پشاور ہائی کورٹ
3. جسٹس عبد الرزاق تھہیم سابق جج کراچی ہائی کورٹ
4.جسٹس عبادت یار خان سابق جج کراچی ہائی کورٹ
5.جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خاں پی ایچ ڈی ،اسلامی قانون
مذکورہ تاریخ تک حکومت نے مطلوبہ قانون سازی نہ کی جس کے نتیجے میں فاضل عدالت کا فیصلہ از خود نافذ ہوگیا۔ یہ نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کا پہلادور تھا اور حکومت سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے کی تیاری کررہی تھی۔اسی دوران عوام کے پرزور مطالبے پر نواز حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا، اور حکومت نے اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں بل پیش کردیا۔ اس موقع پر ناموسِ رسالت کے قائدین نے اس بل کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کو بے فائدہ قراردیتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر حکومت اس سے متفق ہے تو سپریم کورٹ میں اپیل کی پیروی نہ کرے،نتیجتاً یہ قانون خود ہی مطلوبہ ترمیم کے ساتھ نافذ ہوجائے گا۔ تاہم 2 جون 2010ء کو قومی اسمبلی میں یہ قانون زیر بحث آیا اور اسمبلی نے ’عمر قید‘ کی سزا کے خاتمے کو منظور کردیا اور 8 جولائی 1992ء کو پاکستان کی سینیٹ نے بھی اس بل کو اتفاقِ رائے سے منظور کیا۔
گویا توہین رسالت کا حالیہ قانون تین مختلف سمتوں سے ہونی والی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستان کے مجموعہ تعزیرات کا حصہ بنا ہے:
1. جناب محمد اسمٰعیل قریشی کی 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت کو دی جانے والی درخواست اور اس پر وفاقی شرعی عدالت کا 1990 کا فیصلہ (یہی اس قانون کا اصل محرک ہے)
2. قومی اسمبلی میں آپا نثار فاطمہ کا پیش کردہ بل اور اس کے نتیجے میں محدود قانون سازی
3. آخر کار جون1992ء میں پاکستانی پارلیمان میں سزاے عمر قید کے خاتمے کا بل پیش ہونا اوراس کا منظور ہوجانا، گو کہ اس آخری مرحلہ کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں مقررہ تاریخ گزرجانے کے بعدقانون خود ہی تبدیل ہوچکا تھا، تاہم پارلیمان کی قانون سازی نے اس ترمیم کی مزید تائید کر دی۔ اب اس قانون کو دستور 1973ء میں دیے ہوئے حق کے استعمال یا قومی اسمبلی کی 1992ء میں منظوری کا نتیجہ قراردیا جاسکتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ ہر دو اقدامات کسی آمر کے ذریعے حاصل نہیں ہوئے۔
یہ اسلام کا ایک متفقہ شرعی تقاضا اور پاکستانی پارلیمنٹ کا منظور شدہ قانون ہے ، اس کے باوجود افسوس ناک امر یہ ہے کہ ١٨ سال سےاس قانون کے نفاذ کے باوجود آج تک کسی کو توہین رسالت کی سزا نہیں دی جاسکی جس کی ایک وجہ سیکولر عناصر کا یک طرفہ، بدترین پروپیگنڈا اورشدید عالمی دباؤ ہےتو دوسری طرف پاکستانی حکومتوں کی منافقت بھی ہے کہ اس قانون کے معاً بعد سے اس قانون میں ایسی ترامیم کردی گئیں جس سے قانون ناقابل عمل ہوگیا۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ سیکولر قوتوں کے شدید پروپیگنڈہ کے نتیجے میں جو شخص بھی توہینِ رسالت کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ اہانت اس کے لئے خصوصی ’اعزاز‘ کا سبب بن جاتی ہے۔جس طرح عاصمہ جہانگیر کی توہین رسالت کے بعد آج ہماری قوم نے عدلیہ کے ایک اعلیٰ منصب یعنی سپریم کورٹ بار کی صدارت کا اعزاز اُسے بخشا ہے اور اس کے لئے پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھرپور منصوبہ بندی اور لابنگ کی ہے، اسی طرح توہین رسالت کے دیگرمرتکبین کو عاصمہ جہانگیر کا انسانی حقوق کمیشن عالمی قوتوں کا تحفظ فراہم کرتا اور اُنہیں خصوصی پروٹوکول عطا کرواتا ہے۔ ماضی میں سلامت مسیح کا کیس ہو یا رحمت مسیح کا، شانتی نگر کا واقعہ ہو یا جوزف روبنسن کا ،ان واقعات میں آسیہ مسیح کے کیس کی طرح ملزمین کو ہمیشہ عالمی ہمدردی اور خصوصی اِعزاز ہی حاصل ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ’نیشنل کمیشن برائے عدل وامن‘ کی رپورٹ کی رو سے پاکستان میں 1986 تا 2009ء تک کل 986 کیس سامنے آئے ہیں جن میں سے479 کا تعلق مسلمانوں سے اور صرف 119 کا تعلق عیسائیوں سے ہے۔ان تمام مقدمات میں کسی ایک کو بھی سزائے موت نہیں دی گئی۔اس سے ایک طرف حکومت کےمنافقانہ کردارکا پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف اس اعتراض کی حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ یہ قانون اقلیتوں کے خلاف بنایا گیا ہے۔
سیکولر لادین اور ملحدانہ نظریات کی حامل سوچ کی طرف سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ قانون یعنی قانون ِتوہین رسالت جنرل ضیاء الحق مرحوم کا نافذ کردہ ہے لہذا اس لحاظ سے یہ انسان کے ہاتھوں کا بنایا ہوا قانون ہے کہ جس میں ترمیم ہوسکتی ہے لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ۔ ۔ یہ بیچارے اپنی ملحدانہ سوچ کے اس قدر مارے ہوئے ہیں کہ ایک قانون کے بطور تعزیر پاکستان کے آئین میں شمولیت اور نفاذ کو اسکے بننے یا ماخذ سے تعبیر کررہے ہیں ان بیچاروں کی عقلیں اتنا نہیں سمجھ پاتی کہ اس قانون کا اصل ماخذ قرآن و سنت ہی ہیں جبکہ پاکستان جو دنیا کے نقشہ میں ایک نو مولد اسلامی ریاست تھی اس کے تعزیراتی قانون میں اس اس قانون کا بطور حد کے اضافہ پاکستان کے آئین و قانون میں ایک تعزیری دفعہ کا اضافہ تو کہلا سکتا ہے مگر اس سے قرآن و سنت کی حدود میں کوئی اضافہ ہرگز نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی کمی و بیشی ہوتی ہے بلکہ جب تک یہ قانون پاکستان کہ آئین و قانون کا حصہ نہ تھا تب بھی بطور حد کہ اسلامی قانون کا حصہ تھا اور اگر خدانخواستہ دنیا کی کسی اسلامی ریاست میں اسے بطور قانون اگر نہ بھی نافذ کیا جائے تو تب بھی یہ اسلامی قانون ہی رہے گا اور کہلائے گا ۔
کیونکہ کسی بھی قانون کو اسکے اصل اوریجن و ماخذ کے مطابق بطور قانون دیکھا اور سمجھا اور مانا جاتا ہے نہ کہ اسکی تنفیذ و عدم تنفیذ کو معیار قرار دیکر اس قانون کے اصل مخارج کا انکار کیا جاتا ہے اور اگر کوئی ایسا کرئے تو عقل اس پر بجز ماتم کے اور کچھ نہیں کرسکتی .
اسی قانون کہ پس منظر میں آزادی رائے کہ اظہار پر جناب علامہ سلیم اللہ خان رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
جہاں تک آزادی یا آزادی اظہار رائے کا تعلق ہے تو دنیا کے کسی بھی دستور میں ”آزادیِ مطلق“ کا حق نہیں دیا گیا، یہاں سیکولر ہونے کے دعویٰ دار چند معروف دستوروں کے حوالے دئیے جاتے ہیں: سب سے پہلے فرانس کو لے لیں جہاں کے اخبارات نے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں اہانت آمیز خاکے شائع کیے ہیں اور اسے ”آزادی اظہار رائے“ کا اپنا حق قرار دیا ہے، اس کے آرٹیکل نمبر ۱ میں کہا گیا ہے: ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور آزاد رہے گا اور سب کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے، لیکن سماجی حیثیت کا تعلق مفاد عامہ کے پیش نظر کیا جائے گا“۔ اور آرٹیکل نمبر4میں کہا گیا ہے: ”آزادی کا حق اس حد تک تسلیم کیا جائے گا جب تک کہ اس سے کسی دوسرے شخص کا حق متاثر یا مجروح نہ ہو اور ان حقوق کا تعین بھی قانون کے ذریعہ کیا جائے گا“۔ جرمنی کے آئین کے آرٹیکل نمبر5 میں کہا گیا ہے: ”ہر شخص کو تحریر، تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق حاصل ہے“۔ مگر اس کے ذیلی آرٹیکل نمبر 2 میں واضح کردیا گیا ہے کہ یہ حقوق شخصی عزت و تکریم کے دائروں میں رہتے ہوئے استعمال کئے جاسکیں گے۔ امریکی دستور میں بھی مطلق آزادی کا کوئی تصور نہیں، امریکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دستور میں ایسی تحریر اور تقریر کی اجازت نہیں جو عوام میں اشتعال انگیزی یا امن عامہ میں خلل اندازی کا سبب بنے یا اس سے اخلاقی بگاڑ پیدا ہو، ریاست کو ایسی آزادی سلب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، اسی طرح آزادیٴ مذہب کے نام پر توہین مسیح کے ارتکاب کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ (امریکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تفصیل محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب ”ناموس رسالت اور توہین رسالت“ کے باب پنجم میں لکھی ہے) یہی حال برطانیہ کا ہے، وہاں بھی حضرت عیسی علیہ السلام یا برطانیہ کی ملکہ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کی اجازت نہیں، وہاں ہائیڈ پارک میں ”اسپیکر کارنر“ کے نام سے ایک گوشہ مختص ہے جہاں مخصوص اوقات میں ہر شخص کو جو جی میں آئے کہنے یا بکنے کی چھوٹ دی گئی ہے، لیکن یہاں بھی کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کرے یا ملکہ کی شان میں گستاخی کرے۔ جب خود ان قوموں کے دساتیر میں ”آزادیٴ اظہار رائے“ کو مشروط کیا گیا کہ اس کی اسی وقت اجازت ہے جب وہ کسی کے حق اور جذبات مجروح کرنے کا ذریعہ نہ بنے، ایسے میں قانونی حوالے سے اس کا جواز کیونکر ہوسکتا ہے کہ کائنات کی سب سے بزرگ ہستی کی توہین کی جائے۔ جو دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے اربوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا ذریعہ بنتی ہے!! حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت پر حملوں کے اس طرح کے افسوس ناک واقعات، عیسائی دنیا کی اس پرانی اسلام دشمنی کا نتیجہ ہیں جو صدیوں سے قائم ہے اور قرب قیامت تک قائم رہے گی، پیغمبر اسلام، اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ، اس کے متعصبانہ خمیر میں شامل ہے اور اس کے لیے انہوں نے بڑے بڑے ادارے قائم کیے جن کے تحت ہزاروں افراد کام کررہے ہیں ، یہ لوگ صدیوں سے اسلام کے قلعے پر علمی ، عملی اور سائنسی محاذوں سے حملہ آور ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اس قلعے میں شگاف پڑے، انہیں معلوم ہے کہ دین اسلام ہی ان کی ظاہری چمک دمک والی لیکن اندر سے کھوکھلی اور فرسودہ تہذیب کو کارزارحیات میں شکست وریخت سے دوچار کرکے مٹا سکتا ہے کہ وہی ایک زندہ، جاوید اور قیامت تک رہنے والا دین برحق ہے ۔
اسی اجمال کی مزید تفصیل جناب حافظ حسن مدنی کے قلم سے ۔ ۔
دیگر ممالک میں قانونِ توہین رسالت کے مماثل قوانین
کہا جاتا ہے کہ اس قانون سے پاکستانی میں مذہبی انتہاپسندی میں اضافہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص ایک کٹر اور شد ت پسند ملک کے طورپر نمایاں ہوتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہےکہ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کو بلاوجہ مطعون اور پاکستان کے مذہبی اقدامات کے بارے غیرمعمولی حساسیت کا مظاہرہ بلاوجہ ہی کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے قانون میں صرف مسلمانوں کے نبی آخر الزمان کو ہی یہ تحفظ وتقدس حاصل نہیں بلکہ تمام انبیا اور جملہ اَدیان کو یہاں قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں مذہبی جذبات کے احترام کا یہ تحفظ صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کو بھی حاصل ہے، اس کے بعد اس الزام کی بھی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ یہ قانون اقلیتوں کے خلاف یا مذہبی امتیاز پر مبنی ہے۔دفعہ 295سی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے:
دفعہ٢٩٥ (ج): ’’پیغمبر اسلام کے بارے توہین آمیز الفاظ وغیرہ استعمال کرنا: ’’جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا نقوش کے ذریعے، یا کسی تہمت، کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بلاواسطہ یا بالواسطہ رسول پاک حضرت محمد کے پاک نام کی توہین کرے گا تو اسے موت کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہوگا۔‘‘
اسلام کا قانونِ توہین رسالت تو کائنات کی عظیم الشان ہستی کی ذات کے تقدس کے بارے میں ہے جس کی عظیم الشان خدمات کی مثال انسانی تاریخ کسی بھی حوالے سے پیش کرنے سے قاصرہے۔ نبی کریمﷺ کی اس ہمہ جہتی عظمت کا اعتراف مسلمانوں سمیت غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔ جبکہ دیگر ممالک میں ایسا ہی تحفظ ان کے ایسے حکمرانوں کو حاصل ہے جو گناہوں اور کوتاہیوں میں بری طرح غرق ہیں۔ان میں سے ایک ملکہ برطانیہ بھی ہے جس کے تقدس کو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے۔
ایسا ہی تحفظ یہودیوں کے ہولوکاسٹ (ہٹلر کے دور میں یہودیوں کے خلاف ڈھائے گئے مظالم) کو بھی حاصل ہے جس میں یہودی جذبات کا احترام نہ کرنے والوں اور ایک تاریخی واقعہ کے بارے میں مطلوبہ اظہار نہ کرنے کو سنگین سزا کامستحق قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ سزا فرانس، جرمنی، ہنگری، ہالینڈ اور سوئٹزر لینڈ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں موجود ہے۔
علاوہ ازیں ہرملک میں چند انسانوں کے بنائے ہوئے دستور کی مخالفت کرنے والےشخص کو ریاست کا باغی قرار دے کر آج کی ریاست اس سے جینے کا حق چھین لیتی ہے اور اسے موت کی سزا دیتی ہے۔ صد افسوس کہ کائنات کی سب سے عظیم ہستی کو مغرب کی متعصب تہذیب وہ تحفظ دینے کی روا دار نہیں جو وہ اپنے دستور کی ’کتاب ِمقدس‘کو دیتے ہیں۔ آج کی حکومتیں ریاست سے بغاوت کو تو قابل گردن زدنی قرار دیتی ہے لیکن مذہب سے بغاوت کو جرم نہیں سمجھتیں ۔
خاتمہ کی تلقین کرتی ہیں لیکن اپنے آپ کو ایک سیکولر ریاست باور کرانے کے باوجود اپنے ہاں عیسائیت کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرنے اور اس کو برقرار رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ ان کی ’منتخب اخلاقیات‘ کا نوحہ لکھا جائے یا اُنہیں منافقت اور دھوکہ دہی کا مجرم سمجھا جائے۔ جیسا کہ امریکہ نے اپنے ہاں عیسائی حقوق کے تحفظ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور امریکہ کی سپریم کورٹ توہین مسیح سےمتعلق اپنے ایک فیصلہ میں واضح طور پر یہ قرار دیتی ہے کہ
’’امریکہ میں چرچ اور سٹیٹ ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں، لیکن دیگر مذاہب کے مقابلہ میں امریکہ میں مسیح کے پیروکاروں کی تعداد زیادہ ہے۔ امریکہ کے بڑے عہدیدار بائبل پر ہی حلف لیتے ہیں، چنانچہ عدلیہ، مقننہ او رانتظامیہ کا مذہب سے یک گونہ تعلق بالکل واضح ہے۔ اس بنا پر آزادئ مذہب، آزادئ پریس اوربنیادی حقوق،توہین مسیح کے قانون اور اس کی بابت قانون سازی میں قطعاً مزاحم نہیں ہیں۔‘‘ (مختصراً)
یاد رہے کہ امریکہ میں دیگر مذاہب اور ان کی مقدس شخصیات کی توہین قابل مؤاخذہ جرم نہیں، البتہ توہین مسیح کی سزا موت کی سزاکے خاتمہ کے بعد عمر قید کردی گئی ہے۔
ایسے ہی جب برطانیہ میں جب شاتم رسول سلمان رشدی کو تحفظ دینے کا واقعہ پیش آیا تو برطانیہ اس کی حفاظت کے لئے کھڑا ہوگیا ۔ برطانیہ کے مسلمان باشندوں نے یہ مطالبہ کیا کہ برطانیہ میں توہین مسیح کے قانون کے ساتھ توہین محمدﷺ کی شق کو بھی شامل کرلیا جائے تو برملا اس سے انکار کیا گیا او رواضح جانبداری دکھائی گئی کہ برطانیہ صرف عیسائیوں کے حقوق کا ہی محافظ ہے۔ یہ ہے مذہبی غیرجانبداری کا دعویٰ کرنے والوں کا مکروہ چہرہ!
اس موقع پر برطانیہ کے وزیر قانون جان پیٹس نے مسلمانوں کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے تحریری طورپر بتلایا کہ حکومت ِبرطانیہ توہین مسیح کے قانون میں کسی قسم کی ترمیم کو جائز قرار نہیں دیتی۔ پھر برطانیہ کی سب سے بڑی عدالت ’ہاؤس آف لارڈز‘ نے اس بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے حکومت ِبرطانیہ کے موقف کو درست قرار دیا اور لکھا کہ
’’برطانوی قانون کی روسے مذہب ِاسلام پر جارحانہ حملہ غیرقانونی نہیں ہے۔ اگر حکومت ِبرطانیہ قانونِ توہین مسیح میں اسلام کے قانون توہین رسالت کی کوئی شق شامل کردے تو برطانیہ کی اعلیٰ عدلیہ اس کو یہاں نافذ کرنے سے گریز کرے گی۔ ‘‘
یہ رویہ صرف یورپ وامریکہ کا ہی نہیں بلکہ یورپ کی ’ہیومن رائٹس کورٹ‘ کو بھی جب مسلمانوں نے اس ضمن میں درخواست دی تو اُس نے مسلمانوں کی یہ درخواست مسترد کردی۔
کیا قانون توہین رسالت انسانیت کے منافی ہے کہ عنوان کہ تحت جناب حافظ صاحب رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
توہین رسالت کی سزا کیا ’انسانی حقوق‘ کے منافی ہے؟
اوپر بیان کردہ حقائق کے بعد یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ جب توہین مسیح کا قانون مغرب کے اکثر ممالک میں نافذ العمل ہے اور یورپی ممالک کی عدالتیں ان کے فیصلوں کو نافذ کرتی اور یہ بھی قرار دیتی ہیں کہ یہ قانون انسانی حقوق کے خلاف نہیں ہے تو پھر پاکستان میں کیوں کر اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاسکتا ہے؟
یورپ کے بعض ممالک مثلاً ڈنمارک، اسپین، فن لینڈ، جرمنی، یونان، اٹلی ، آئرلینڈ، ناروے ، آسٹریا، نیدر لینڈ وغیرہ میں بھی مذہبی جذبات کی توہین پر سنگین سزائیں موجود ہیں اور برطانیہ میں تو ملکہ کی توہین کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس کےبعد پاکستان میں اس قانون کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینے کی کیا تک ہے؟
جناب علامہ سلیم اللہ خان رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
بعض مغرب زدہ مسلمان دانشوروں نے ”تنقید اور توہین“ کا شوشہ چھوڑ کر اس بات پر جو زور دیا ہے کہ مسلمانوں کو تنقید اور توہین کا فرق ملحوظ رکھنا چاہیے، توہین رسالت کی تو گنجائش نہیں لیکن تنقید پر مسلمانوں کو جذبات میں نہیں آنا چاہیے، یہ درست نہیں، منصب نبوت ہر قسم کی تنقید سے بلند ہے، انبیا معصوم ہوتے ہیں اور حضورصلی الله علیہ وسلم سید الانبیاء ہیں، منصب نبوت کی طرف کسی قسم کی انگشت نمائی یا تنقید ”توہین رسالت“ ہی کے زمرے میں آتی ہے، امت کے جلیل القدر علما نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، یہ دانشور اگر ان کتابوں کا بغور مطالعہ کرلیں تو انہیں مستشرقین کے دائرہ اثر سے نکلنے کا موقع مل جائے گا، علامہ تقی الدین سبکی کی کتاب ”السیف المسلول علی من سب الرسول“ علامہ ابن الطلاع اندلسی کی تالیف ”اقضیة الرسول“ مشہورحنفی عالم، علامہ زین العابدین شامی کی ”تنبیہ الولاة علی احکام شاتم خیر الأنام“ اور علامہ ابن تیمیہ کی شہرہ آفاق تصنیف ”الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ … اس موضوع پر ایسی کتابیں ہیں جنہوں نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا اور سب اس پر متفق ہیں کہ بارگاہ رسالت میں کسی بھی قسم کی تنقید کی سزا موت اور قتل ہے۔ چنانچہ جب اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ تھا اور مسلمانوں کی عدالتیں دشمنوں کے دباؤ سے آزاد تھیں، تب کوئی ایسا واقعہ پیش آتا تو مجرم موت کی سزا پاکر کیفر کردار تک پہنچ جاتا بلکہ نویں صدی کے وسط میں اندلس کے اندر ”شاتمین رسول“ نے ایک جماعت کی شکل اختیار کرلی تھی لیکن مسلمان قاضیوں نے کوئی نرمی نہیں برتی اور اس کیس کے ہر مجرم کو سزائے موت دی، یولوجیس نامی عیسائی اس گروہ کا سربراہ تھا اور اس کی سزائے موت کے ساتھ ہی مسلم ہسپانیہ میں اس بدبخت جماعت کا خاتمہ ہوا۔(تفصیل کے لیے دیکھئے، تاریخ ہسپانیہ، جلد۱، صفحہ:200)
اوپری اقتباس سے جہاں یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ قانون نویں صدی ہجری میں بھی مسلمانوں کی ریاستوں میں نافذ تھا وہیں ہم عرض کرتے چلیں کہ اگر پوری اسلامی تاریخ کا بھی اگر سرسری مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روشن ہوجائے گی کہ جہاں جہاں جس بھی دور میں اسلامی ریاستیں رہیں وہاں وہاں اس قانون کو بطور حد کے ہی نافذ کیا جاتا رہا اور اسکی سزا بالاتفاق سزائے موت پر ہی تمام فیصلے کیئے جاتے رہے چاہے یعنی صحابہ سے لیکر بنو امیہ و بنو عباسیہ اور پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز اور پھر انکے بعد تابعین تبع تابعین سے لیکر مسلسل خلافت عثمانیہ تک اور پھر مغلیہ سلطنت میں بھی یہی قانون رہا حتٰی کہ مغلیہ دور کہ انتہائی ملحد بادشاہ اکبر کہ جس نے دین الٰہی ایجاد کیا تھا اسکے دور میں بھی اس جرم کی سزا پر ایک ہندو کو قتل کیا گیا ۔ ۔
اب آخر میں ہم اپنے معزز قارئین کرام کی خدمت میں مولانا مودودی کا ایک اقتباس محترم جناب محمد اسماعیل قریشی کی کتاب" ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت " میں سے نقل کیئے دئتے ہیں۔۔
مولنا رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقدیس کے متعلق مسلمانون کہ جذبات کا صحیح اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لیے اسلام میں قتل کی سزا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کا خون مباح قرار دیا گیا ہے۔نسائی میں کئی طریقوں سے ابو برزہ الاسلمی کی یہ روایت منقول ہوئی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک شخص پر ناراض ہوئے تو میں نے کہا کہ میں اس کی گردن ماردوں ؟؟؟؟ یہ سنتے ہی آپ رضی اللہ عنہ کا غصہ دور ہوگیا اور آُ نے جھڑک کر مجھے فرمایا کہ ما ھِذا لا حد بعد رسول اللہ یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کا درجہ نہیں (کہ اس کی توہین کرنے والے کو قتل کیا جائے ۔۔۔ مزید آگے بھی انھون نے مختلف روایت سے استدلال کرتے ہوئے اس سزا کا اسلامی سزا ہونا اور بالاتفاق ہونا تسلیم کیا ہے تفصیل کے دیکھیئے ۔ ۔
محمد اسماعیل قریشی سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی کتاب ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت مطبوعہ تراب مبین پرنٹرز ۔ ۔ ۔ والسلامشعبان نظامی اور باذوق نے اسے پسند کیا۔ -
جواب: ª!ª قانون توہین رسالت قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ª!ª
کیا گستاخ رسول کی توبہ قبول ہے ؟
اسلام علیکم محترم !
محترم جناب محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی رٹ پیٹیشن پر عدالت میں معاونت کے لیے ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب جو اپنے منطقی زور استدلال سے کسی بھی مسئلہ کو مبرھن کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں پیش ہوئے اور ان کے ساتھ دیگر تمام مکاتب فکر کہ علماء نے بھی اس مسئلہ میں نمایاں خدمات انجام دیں جن میں جماعت اہل حدیث کہ جناب حافظ صلاح الدین صاحب کا نام قابل زکر ہے اور انکے علاوہ محمد اسماعیل قریشی صاحب نے اپنی کتاب میں جن نمایاں ناموں کا ذکر کیا ہے وہ درج زیل ہیں ۔
مفتی غلام سرور قادری
مولانا محمد عبد الفلاح
مولانا فضل ہادی
مولانا سبحان محمود
مولانا سعید الدین شیر کوٹی
مولانا سید محمد متین ہاشمی
اور جناب سید ریاض الحسن نوری
اب آخر میں ہم آپکی آسانی کے لیے محترم جناب محمد اسماعیل قریشی کی کتاب
"ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم " سے محترم جناب طاہر القادری صاحب کے دلائل کے متعلق چند اقتباسات نقل کریں گے ۔
محترم محمد اسماعیل قریشی رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔
پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان اور بیرون پاکستان کی ایک معروف علمی اور دینی شخصیت ہیں فیڈرل شریعت کورٹ میں صاحب موصوف نے صدر اور حکومت پاکستان کہ خلاف توہین رسالت کی سزا کے بارے میں ہماری شریعت پیٹیشن اور اس میں اٹھائے گئے نکات کی اور ہماری آئینی اور قانونی بحث کی نہ صرف مکمل تائید اور حمایت کی بلکہ اپنے منطقی زور استدلال سے عدالت کی بھی بھرپور قوت کے ساتھ معاونت کی مگر راقم الحروف اور معاونین علمائے عدالت کا پروفیسر صاحب موصوف سے جرم توہین رسالت کے سلسلہ میں صرف "نیت" اور "ارادے"
(intention and motive) کے مسئلہ پر دیانت درانہ اور تحقیقی اختلاف رہا ہے ۔
(یاد رہے اسماعیل قریشی صاحب نے اس اختلاف کی تفصیلات ذکر نہیں کیں مگر عرض کہ جناب محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اس مسئلہ میں مجرم کی نیت کو جانچنے کے قائل نہیں جبکہ اسماعیل قریشی کا مؤقف اس کے خلاف ہے۔ آبی ٹوکول)
اب زیل میں ڈاکٹر صاحب کے دلائل مختصرا پیش کیے جاتے ہیں ۔ ۔
کیا شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توبہ قبول ہے ۔
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسئلہ توبہ
:
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ کا وجود اس لائق نہیں کہ وہ زمین پر موجود رہے بلکہ اس فی الفور واصل جہنم کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عمل اس پر شاہد و عادل ہے کہ انھوں نے جب دیکھا کہ اس شخص کو محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ منظور نہیں تو انھوں نے اسے توبہ کرنے کے لیے نہیں کہا بلکہ فی الفور اندر سے تلوار لاکر اس کا سر تن سے جدا کردیا ۔اور اس پر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں کہا کہ اسے توبہ کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے تھا بلکہ ان کے فیصلے کی تحسین فرماتے ہوئے تاقیامت امت مسلمہ کو سنت فاروقی پر عمل کرنے کا حکم دیا بلکہ اسے علامت ایمان قرار دیا۔
( اس بارے میں یہی دلائل امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مضمون میں تفصیل کہ ساتھ آچکے ہیں۔اس لیے انکا یہان اعادہ نہیں کیا گیا از مصنف )
عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے کہ بعد جب تائب ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو علم ہونے کہ باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملاقات نہ فرمائی بلکہ تاخیر فرمائی تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل کردے ۔
شیخ ابن تیمیہ
اس روایت کو نقل کرنے کہ بعد لکھتے ہیں کہ ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اس بارے میں نص ہے کہ اسکی توبہ قبول نہیں ہوئی ۔
اگر اسے فی الفور قتل نہ کیا جاسکے اور وہ توبہ کرلے تو اس کی توبہ پر توجہ نہیں دی جائے گی بلکہ اس پر حد جاری ہوگی کہ جس طرح دیگر جرائم میں ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں فقہاء اسلام کی تصریحات ملاحظہ ہوں۔
فقہاء اسلام کی تصریحات :
(فقہاء اسلام کی تصریحات میں امام شامی ،امام ابن ھمام کی ان آراء کا یہاں تزکرہ نہیں کیا جائے گا کہ جن کا حوالہ علامہ احمد سعید کاظمی کے مضمون میں ہوچکا ان کے علاوہ فتاوی جات درج زیل ہیں۔ از مصنف کتاب )
امام صدر شہید حنفی کا فتوٰی بھی ہے ۔
ہم اس کی توبہ اور اسلام لانے کو قبول نہیں کریں گے بلکہ اسے قتل کردیں گے ۔
" اسکی توبہ نہ اللہ کے ہاں مقبول ہے اور نہ لوگوں کہ ہاں اور اسکا حکم سوائے قتل کے کچھ نہیں۔ اس پر تمام متاخرین علماء کا اجماع ہے ۔اور یہی رائے اکثر متقدمین کی ہے ۔(خلاصۃ الفتاوٰی 386:4)
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دیگر مرتدین سے الگ ہے :
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گستاخی کی وجہ سے مرتد ہوجاتا ہے مگر چونکہ اس کا جرم دیگر جرائم سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس نے اس ہستی کی عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالا جو اس کائنات میں سب سے بڑھ کر ہے ۔لہذا یہ جرم دیگر مرتدین کے جرم سے زیادہ سنگین تر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دیگر مرتدین پر اسلام پیش کیا جائے گا اور اگر وہ اسے قبول کرلیں تو انھے چھوڑ دیا جائے گا مگر گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اسلام نہیں پیش کیا جائے گا ۔
یہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی تعطیم و توقیر سے متعلق ہے اور غیرت الٰہیہ کا تقاضا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسا ہی ہے۔
امام بن نجیم حنفی : رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والے شخص کو مرتد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دیگر مرتدین سے اس کا حکم جدا ہے کیونکہ دیگر مرتدین کی توبہ قبول کی جائے گی مگر گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توبہ قابل قبول نہیں۔
" ہر ارتداد برابر ہوتا ہے اگر مرتد اسلام کی طرف راغب ہوجائے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا مگر اس سے کچھ مسائل مستثنٰی ہیں ان میں پہلا یہ ہے کہ جو گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو اسے نہیں چھورا جائے گا اور اسکی توبہ نہیں قبول کی جائے گی " ۔ (بحرالرائق 135:5)
امام شامی اسیے شخص کے جرم کو دیگر مرتدین کہ جرم سے زیادہ سنگین تر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
" شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتداد دوسرے ارتداد کی طرح نہیں ہے کیونکہ دیگر ارتداد انفرادی عمل ہوتے ہیں اور اس میں کسی دوسرے کا حق متعلق نہیں ہوتا اس لیے اسکی توبہ قابل قبول ہوتی ہے مگر شاتم اگر توبہ کرلے تو بھی صحیح مذہب کے مطابق اسے حدا قتل ہی کیا جائے گا۔ " ۔(تنقیح حامدیہ 157)
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب وشتم کرنا اسلام سے اعراض (ارتداد) کی بنسبت بدرجہ ہا بدتر ہے (الصارم المسلول 892)
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم زندیق ہے اس کا عمل قابل معافی نہیں ۔
امام خیر الدین رملی حنفی فتاوٰی بزازیہ میں رقمطراز ہیں ۔
شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہر طور حدا قتل کرنا ضروری ہے ۔اس کی توبہ بالکل قبول نہیں کی جائے گی خواہ یہ توبہ گرفت کے بعد ہو یا پھر وہ اپنے طور پر تائب ہوجائے کیونکہ ایسا شخص زندیق کی طرح ہوتا ہے جسکی توبہ قابل توجہ ہی نہیں اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس میں کسی مسلمان کے اختلاف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اس جرم کا تعلق حقوق العباد سے ہے یہ صرف توبہ سے ساقط نہیں ہوسکتا جس طرح دیگر حقوق چوری اور زنا وغیرہ توبہ سے ساقط نہیں ہوتے اور جس طرح حد تہمت توبہ سے ساقط نہیں ہوتی یہی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ،امام اعطم ،اہل کوفہ اور امام مالک کا مذہب ہے ۔
(تنبیہ الولاۃ والحکام 32)
علماء اور عدالتوں پر لازم ہے کی وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے پیش نظر ایسے شخص کے قتل کا حکم جاری کریں۔
امام محمد بن عبداللہ صاحب تنویر الابصار عدم قبول توبہ کے بارے میں فرماتے ہیں ۔
میری رائے کہ مطابق یہی قول قوی ہے کہ جو شخص صاحب شرع کو برا کہتا ہے اسکی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔فتاوٰی اور قضاء کی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کے پیش نظر علماء اور عدالت پر لازم ہے کہ وہ اس کے قتل کا حکم دیں ۔
پھر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں کہ :
آخری بات یہ ہے کہ کیا کوئی عدالت یا حکومت اس کو معاف کرسکتی ہے ؟؟؟؟؟؟
کوئی عدالت یا حکومت اس سزا کو معاف نہیں کرسکتی ہے
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل بطور حد لازم ہے اور حد کوئی ساقط نہیں کرستا حد کی تعریف ہی یہ ہے کہ اس میں انسان کوئی تغیر و تبدل نہیں کرسکتا بلکہ یہ اللہ پاک کی طرف سے مقرر ہوتی ہے اور عدالت اور حکومت پر اسکا اجراء لازم ہوتا ہے جبکہ اس کو ساقط کرنا کسی کہ اختیار میں نہیں ۔
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اسے کوئی معاف نہین کرسکتا جس طرح دیگر افراد کے حقوق وہی معاف کرسکتے ہیں ۔
امام خیر الدین اسی امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے رقمطراز ہیں :
شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل بطور حد لازم ہے جو توبہ سے ساقط نہیں ہوسکتا اور اس بارے میں کسی مسلمان کہ اختلاف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ایسا حق ہے جس کہ ساتھ عبد خاص ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کا حق متعلق ہے اس لیے فقط توبہ سے ساقط نہیں ہوگا جیسے دوسرے لوگوں کہ ہر قسم کے حقوق کے لیے خود حق دار کا معاف کرنا ضروری ضروری ہے۔
(تنبیہ الولاۃولحکام )
جب چوری ،زنا اور شراب جیسے جرائم پر لاگو حد کوئی عدالت اور حکومت منسوخ نہیں کرسکتی اور نہ ہی اس کا ارتکاب کرنے والون کو معاف کرسکتی ہے تو پھر اتنے عظیم جرم کی سزا کو کیسے معاف کیا جاسکتا ہے ۔
قارئین کرام یہ تھا محمد اسماعیل قریشی کی کتاب "ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم " میں سے ڈاکٹر طاہر القادری کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں بیان کیے گئے دلائل کا مختصر بیان جس کسی کو تفصیل درکار ہو تو وہ محترم جناب ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب" تحفظ ناموس رسالت " کا مطالعہ فرمائے نیز آپ سب کی معلومات کہ لیے عرض کردوں کہ جناب محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فقط اس ایک مسئلہ میں امت اور دین اسلام کے لیے عدالتی خدمات نہیں ہیں بلکہ شادی شدہ زانی کی اسلامی سزا رجم کے سلسہ میں 14 گھنٹوں سے زائد دورانیہ کے عدالتی دلائل اور مسئلہ ختم نبوت کے سلسلہ میں قادیانیوں کہ دائر کردہ مقدمہ میں انکے خلاف اس مؤقف کہ قادیانی اسلامی شعار کا استعمال نہیں کرسکتے پر بھرپور دلائل بھی موجود ہیں کہ اس مقدمہ میں عدالت کی کاروائی فقط ڈاکٹر صاحب کی کینڈا یا غالبا ناروے سے تشریف آوری میں تاخیر کی وجہ سے معطل رہی تھی اور جب جناب پاکستان پہنچے تو اپنی منطقی قوت استدلال سے مسلمانوں کو ایک ہارا ہوا مقدمہ جتوایا موصوف چونکہ خود بھی ماہر قانون دان تھے کہ موصوف کی پی ایچ ڈی ہی اسلامی سزاؤں اور انکی تشریحات کہ موضوع پر ہے نیز موصوف ایک ماہر وکیل اور ایک ماہر استاد بھی رہے ہیں کہ ان سے لاء کالج میں پڑھ کر آج یقینا کئی وکلاء ججز کی کرسیون پر براجمان ہونگے ۔
جزاکم اللہ خیرا ۔ ۔ ۔ ۔ والسلام
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں