موجود دور میں یہودی ریاست کا قیام اور ان کے مذموم مقاصد
موجودہ
یہودی ریاست جسے عرف عام میں
"اسرائیل"کے نام سے بولا جاتا ہے۔
احمد دیدات اسرائیل کے قیام کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
"مشرق
وسطیٰ پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کے لیئے
یورپی طاقتوں نے سازش کے زریعے
فلسطین پر اسرائیلی حکومت قائم کر دی۔یہ واقعہ 1948 ء کا ہے۔"[1]
یہودی
ریاست کے قیام کا پس منظر:
سید
ابولاعلیٰ مودودیؒ یہودی ریاست کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"ارض
فلسطین جہاں تیرہ سو برس قبل مسیح میں بنی
اسرائیل اس علاقے میں داخل ہوئے تھے اور دو صدیوں کی مسلسل کشمکش کے بعد بالآخر اس
پر قابض ہو گئے تھے۔وہ اس سرزمین کے اصل باشندے نہ تھے۔اصل باشندے قدیم لوگ تھے جن
کے قبائل اور قوام کے نام خود بائیبل میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔بائیبل ہی سے
معلوم ہوتا ہے کہ ان قدیم قبائل کو بنی
اسرائیل نے قتل عام کر کے اس سرزمین پر قبضہ کر لیا جس طرح فرنگیوں نے سرخ ہندیوں
کو فنا کر کے امریکہ پر قبضہ کیا۔ان کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا نے یہ ملک ان کی میراث
میں دے دیا ہے،اس لیئے انھیں یہ حق پہنچتا ہے۔کہ اس کے اصل باشندوں کو بے دخل کر
کے بلکہ ان کی نسل کو مٹا کر اس پر قابض
ہو جائیں۔
اس
کے بعد آٹھویں صدی قبل مسیح میں اسیریا نے شمالی فلسطین پر قبضہ کر کے اسرائیلیوں
کا بالکل قلع قمع کر دیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لا بسایا جو زیاد تر عربی
النسل تھیں۔پھر چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر
قبضہ کر کے تمام یہودیوں کو جلا وطن کر دیا۔بیت اکمقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔اور
ہیکل سلیمانی کو جسے دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت سلیمانؑ نے تعمیر کرایا تھا۔اس
طرح پیوند خاک کر دیا۔اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ قائم نہ رہی۔ایک طویل مدت کی
جلا وطنی کے بعد ایرانیوں کے دور حکومت میں یہودیوں کو پھر سے جنوبی فلسطین میں آکر
آباد ہونے کا موقع ملا۔اور انھوں نے بیت المقدس دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی۔لیکن یہ دوسرا وقفہ بھی تین چار سو
برس سے زیادہ دراز نہ ہوا۔70 ء میں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی جس کی
پاداش میں بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی کو بالکل مسمار کر دیا گیا۔اور پھر ایک
دوسری بغاوت کو کچل کر 135ء میں رومیوں نے پورے فلسطین سے یہودیوں کو نکال باہر
کیا۔اس دوسرے اخراج کے بعد جنوبی فلسطین میں بھی اسی طرح عربی النسل قبائل آباد
ہوگئے جس طرح شمالی فلسطین میں وہ آٹھ سو برس پہلے آباد ہوئے تھے۔اسلام کی آمد سے
پہلے یہ پورا علاقہ عربی قوموں سے آباد تھا۔بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ تک رومیوں نے ممنوع کر رکھا تھا ،اور
فلسطین میں بھی یہودی آبادی قریب قریب
بالکل ناپید تھی۔
اس
تاریخ سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ:
یہودی
ابتدا نسل کشی کے مرتکب ہوکر فلسطین پر زبردستی قابض ہوئے تھے۔
شمالی
فلسطین میں صرف چار پانچ سو برس تک آباد
رہے۔
جنوبی
فلسطین میں ان کے قیام کی مدت زیادہ سے زیادہ آٹھ نو سو برس رہی۔
اور
عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے
اور جنوبی فلسطین میں تقریبا دو ہزار سال سے آباد چلے آ رہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود
یہودیوں کا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین
ان کے باپ دادا کی میراث ہے۔جو خدا
نے انھیں عطا فرمائی ہے۔اور انھیں حق پہنچتا ہے کہ اس میراث کو بزور حاصل کر کے اس
علاقے کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور خود ان کی جگہ بس جائیں جس
طرح تیرہ سو برس قبل مسیح میں انھوں نے کیا تھا۔
دوہزار
برس سے دنیا بھر کے یہودی ہفتے میں چار مرتبہ یہ دعائیں مانگتے رہے ہیں کہ بیت
المقدس پھر ہمارے ہاتھ
آئے
اور ہم ہیکل سلیمانی کو پھر سے تعمیر کریں۔ہر یہودی گھر میں مذہبی تقریبات کے موقع پر اس تاریخ کا پورا ڈرامہ کھیلا جاتا
رہا ہے کہ ہم مصر سے کس طرح نکلے اور فلسطین میں کس طرح سے آباد ہوئے اور کیسے
بابل والے ہم کو لے گئے اور ہم کس طرح سے فلسطین سے نکالے گئے۔اور تتر بتر ہوئے۔اس
طرح یہودیوں کے بچے بچے کے دماغ میں یہ بات 20 صدیوں سے بٹھائی جا رہی ہے کہ
فلسطین تمہارا ہے اور تمھیں واپس ملنا ہے اور تمہارا مقصد زندگی یہ ہے کہ تم بیت
المقدس میں ہیکل سلیمانی کو پھر تعمیر کرو۔بارھویں صدی عیسوی کے مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون
نے اپنی کتاب قانون یہود میں صاف صاف لکھا
ہے۔کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو از سر نو تعمیر کرے۔"[2]
یہودیوں
کی منصوبہ بندی اور مذموم مقاصد:
"“Deliberate deceptions جو پال فنڈ لے کی معرکتہ الآراء تصنیف ہے۔اس کے مطابق اسرائیل
یہودی ریاست کے قیام کی بنیاد جن تین بڑے ماخذوں پر تعمیر کرتا ہے۔وہ ہیں
اول
انجیل میں عہد نامہ قدیم کی میراث ،دوم 1917ء میں حکومت برطانیہ کا اعلان بالفور
یہ اعلان 2 نومبر 1917ء کو اسی خط میں کیا گیا تھا جو برطانوی سیکڑری خارجہ کو
بھجوایا تھا۔یہ بیان برطانوی سیکڑری خارجہ لارڈ آرتھر بالفور نے برطانوی صیہونی
فیڈریشن کے صدر دارڈ روتھ چائلڈ کو بھجوایا تھا،یہ بیان برطانوی کامیشن کا منظور
شدی تھا۔ "[3]اور
سوم 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سفارش جس میں فلسطین کو عربوں اور
یہودیوں میں تقسیم کرنے کے لیئے کہا گیا تھا۔"[4]
یہودیوں
نے بڑی مکاری اور چالاکی سےمنصوبہ بندی کر
کے فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیئے کام کیا ہے۔سب سے پہلے ان کے ہاں
ایک تحریک شروع ہوئی۔کہ مختلف علاقوں سے یہودی اکٹھے ہو کر فلسطین میں جمع ہوں اور
اس مقصد کے لیئے زمینیں خریدیں گئیں۔1880 ء سے اس مہاجرت کا سلسلہ شروع ہوا
اور زیادہ تر مشرقی یورپ سے یہودی وہاں جمع ہونے لگے۔"انیسویں صدی کے آغاز
پر 5 ہزار یہودی فلسطین میں رہ رہے تھے۔یہ لوگ
زیادہ تر ہنرمند تھے یا تجارت پیشہ تھے اور ان کے پاس کوئی زمین نہیں
تھی۔چونکہ عثمانی مملکت کا سورج اپنی آب وتاب کھو چکا تھا۔ اورنظام حکومت پہ
بدعنوان ھاکم چھائے ہوئے تھے،اس عالم میں یہود چوردروازے سے وارد ہونا شروع ہوئے
1918ء تک انھوں نے بدعنوان افسران کو رشوتیں دے کر 42000 ایکڑ سرکاری اراضی ہتھیا
لی،جو اس وقت فلسطین کے 561 فیصد حصے پر مشتمل تھی۔"[5]
"اس
کے بعد صیہونی تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اس میں اس بات کو مقصود قرار دیا گیا
کہ فلسطین پر دوبارہ قبضہ حاصل کیا جائے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے۔یہودی
سرمایہ داروں نے بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کی۔پھر 1901ء میں ہرتزل نے سلطان عبدالحمید ( سلطان ترکی) کو
پیغام بھجوا دیا کہ یہودی ترکی کے تمام
قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں۔آپ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دے
دیں۔مگر سلطان عبدالحمید نے اس پیغام پر تھوک دیا۔اور صاف کہہ دیا کہ "جب تک
میں زندہ ہوں اور جب تک ترکی سلطنت موجود ہے اس وقت تک اس کا کوئی امکان نہیں ہے
کہ فلسطین یہودیوں کے حوالے کیا جائے۔جس شخص کے ہاتھ یہ پیغام بھجا گیا اس کا نام
حاخام قرتہ صو آفندی تھا۔یہ سالونیکا کا یہودی باشندہ تھا اور ان یہودی کاندانوں
میں سے تھا جو اسپین سے نکالے جانے کے بعد
ترکی میں آ آباد ہوئے تھے۔ترکی رعایا ہونے
کے باوجود اس نے یہ جراءت کی کہ سلطان ترکی کے دربار میں پہنچ کر فلسطین کو
یہودیوں کے حوالہ کرنے کا مطالبہ پیش کیا
گیا۔اس پر بس نہیں بلکہ سلطان کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔چنانچہ اس کے فورا بعد سلطان
کا تخت الٹنے کی ساززشیں شروع ہو گئیں۔بالآخر سلطان عبدالحمید کو معزول کر دیا
گیا۔اوراس پر ظلم یہ کہ معزولی کا پروانہ
بھی اسی حاخام قرتہ صوآفندی کے ہاتھوں بھیجا گیا۔"[6]
یہودیوں
کا آئندہ لائحہ عمل:
یہودیوں کی حکمت عملی
اور ان کے آئندہ عزائم کے حوالے سے یہودی پروٹوکول جوگریٹر اسرائیل کے حصول کے خفیہ منصوبوں کی
دستاویز ہے کا مصنف لکھتا ہے:
"تاریخ
نے یہود پر واضح کر دیا کہ وہ دنیا میں کہیں بھی بطور یہودی نہیں پنپ نہیں
سکتے۔انھیں مختلف تحریکوں اور نظریاتی فلسفوں میں پناہ لینی ہوگی،تاجر اور صنعت
کار بن کر روزی کمانا ہوگی اور ہر ملک کے حکمران طبقے میں اپنے لیئے جگہ
بنانا ہوگی،دانشوروں کا روپ دھارنا
ہوگی۔سائنس کے میدان میں کارنامے سرانجام دینا ہوں گے۔تاکہ وہ ہر میدان میں ہر فن
مولا بن کر ہر کسی کی ضرورت بن جائیں۔اس منصوبے کو ذہن نشین کر کے انھوں نے کئ
لبادے تیار کیئےاور متعدد روپ اپنائے۔"[7]
ذیل
میں اہل یہود کی منصوبی بندی کی تفصیل دی جائے گی۔ ۔
قومی
وطن سے قومی ریاست تک"
سید
مودودی ؒ لکھتے ہیں:
نومبر
1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے
فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔یہ فیصلہ
ہو ا کس طرح؟اس کے حق میں 33 ووٹ اور اس
کے خلاف 13 ووٹ تھے۔دس ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا۔یہ کم سے کم اکثریت تھی۔جس سے
جنرل اسمبلی میں کوئی ریزولیوشن پاس ہو سکتا تھا۔چند روز پہلے تک اس تجویز کے حق
میں اتنی اکثریت بھی نہ تھی۔صرف 30 ملک اس کے حق میں تھے۔آخرکار امریکہ نے غیر
معمولی دباؤ ڈال کر ہائیٹی،فلپائن اور لائبیریا کو مجبور کرکے اس کی تائید کرائی۔یہ بات خود امریکن کانگریس
کے ریکارڈ میں موجود ہے۔کہ یہ تین ووٹ زبردستی
حاصل کیئے گئے تھے۔اور جیمز فوریسٹائل اپنی دائری میں لکھتا ہے۔کہ :اس
معاملہ میں دوسری قوموں پر دباؤ ڈالنے اور ان کو ووٹ دینے پر مجبور کرنے کے لیئے
جو طریقے استعمال کیئے گئے۔ وہ انتہائی شرمناک تھے۔تقسیم کی جو تجویز ان ہتھکنڈوںں سے پاس کرائی گئی تھی ۔اس کی رو
سے فلسطین کا 55 فی صد رقبہ،33 فی صد یہودی آبادی کو،اور 45 فی صد رقبہ27 فی صد
آبادی کو دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت فلطین کا 6 فی صد یہودیوں کے قبضے میں آیا
تھا۔یہ تھا اقوام متحدہ کا انصاف۔لیکن
یہودی اس بندر بانٹ سے بھی راضی نہ ہوئے۔ااور انھوں نے مار دھاڑ کر کے عربوں کو
نکالنا شروع کر دیا۔اور ملک کے زیادہ سے زیادہ حصوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔اس
سلسلے میں جو مظالم عربوں پر کیئے گئے،آرنلڈ ٹائن بی ان کے متعلق اپنی کتاب
( a study of history)میں لکھتا ہے۔کہ وہ کسی طرح بھی ان مظالم سے کم نہ تھے۔جو نازیوں
نے خود یہودیوں پر کیئے تھے۔دیریاسین میں 9 اپریل 1948 ء کے قتل عام کا خاص طور پر
اس نے ذکر کیا ہے۔جس میں عرب عورتوں ،بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا
گیا۔عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس سڑکوں پر نکالا گیا۔اور یہودی موٹروں پر
لاؤڈ سپیکر لگا جگہ جگہ یہ اعلان کرتے
پھرتے کہ "پم نے دیریاسین کی عرب آبادی
کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے۔اگر تم نہیں چاہتے کہ کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ
ہو تو یہاں سے نکل جاؤ۔ہر شخص سوچ سکتا ہے کہ کیا یہ کسی ایسی قوم کا کارنامہ ہو
سکتا ہے جس میں رمق برابر بھی شرافت و انسانیت موجود ہو؟
ان
حالات کے دوران میں 14 مئی 1948 ء عین اس
وقت جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلے پر بحث کر رہی تھی،یہودی
ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست
کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا،اور سب
سے پہلے امریکہ اور روس نے آگے بڑھ کر اس کو تسلیم کیا۔حالانکہ اس وقت تک اقوام
متحدہ نی یہودیوں کو فلسطین میں اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا۔اس
اعلان کے وقت تک 5 لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیئے جا چکے تھے،اور اقوام
متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف یروشلم ( بیت المقدس) کے آدھے حصے پر اسرائیل قبضہ کر چکا
تھا۔
ریاست
اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونے کے بعد گردوپیش کی عرب ریاستوں نے بے سہارا عرب
آبادی کو مار دھاڑ اور لوٹ مار سے بچانے کے لیئے مداخلت کی اور ان کی فوجیں فلسطین
میں داخل ہوگئیں۔"اور یہ لوٹ مار اور قتل عام اتنا بڑا تھا کہا جاتا ہے کہ یہ
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سب سے بڑا قتل عام تھا"[8]لیکن
یہودی اسوقت اتنے طاقت ور ہو چکے تھے کہ یہ سب ریاستیں مل کر بھی ان کا کچھ نہ
بگاڑ سکیں۔بلکہ جب نومبر 1948 ء میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا فیصؒہ کیا۔اس وقت
فلسطین نے رقبے کا 77 فیصدی سے بھی کچھ زیادہ حصہ یہودیوں کے قبضے میں جا چکا
تھا۔سوال یہ ہے کہ یہودیوں کو اتنی جنگی طاقت کس نے فراہم کر کے دی تھی۔کہ پانچ عرب ریاستوں کی متحدہ
طاقت بھی ان کا مقابلہ نہ کر سکی؟اس طاقت کے فراہم کرنے میں سرمایہ داری نظام اور
اشتراکی نطام دونوں شریک تھے۔اور سب سے
زیادہ ہتھیار اس جنگ کے لیئے چیکو سلوواکیا سے آئے جو آج خودظلم و ستم
کا شکار ہے۔اقوام متحددہ میں بھی
جو بحثیں اس زمانے میں ہوئیں ان
کا ریکارڈ شاہد ہے کہ یہودیوں کی حمایت اور عربوں کی مخالفت میں مغربی سرمایہ
درانہ اور اشتراکی نظام ،دونوں کے
علمبردار ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہے تھے،اور یہ کہنا مشکل تھا کہ
ان میں کون یہودیوں کا زیادہ حامی ہے۔
یہودی
منصوبے کا تیسرا مرحلہ:
اس
کے بعد یہودی منصوبے کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا جو 19 سال کے اندر جون 1967 ء کی جنگ میں بیت المقدس اور پورے باقی ماندہ
فلسطین اور پورے جزیرہ نمائے سینا اور
سرحد شام کی بالائی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے
سے تکمیل کو پہنچا ۔نومبر 1948 ء میں اسرائیلی ریاست کا رقبہ 7993 مربع میل
تھا ۔جون 1967ء کی جنگ میں اس کے اندر 27
ہزار مربع میل کا اضافہ ہو گیا۔اور چودہ پندرہ لاکھ عرب یہودیوں کے غلام بن گئے۔اس
مرحلے میں اسرائیل کے منصوبے کی کامیابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر امریکہ
اس کا حامی و مددگار اور پشت پناہ رہا۔۔برطانیہ اور فرانس اور دوسرے مغربی ممالک
بھی اپنی اپنی حد تک اس کی تائید و حمایت کا پورا حق ادا کرت رہے۔۔1955ء میں جب
عرب ممالک اس سے بالکل مایوس ہوگئے کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں سے ان کو
اسرائیل کے مقابلے اپنی اپنی حد تک اس کی تائید و حمایت کا پورا حق ادا کرتے
رہے۔روس اور اس کا مشرقی بلاک بھی کم ازکم 1955ء تک اعلانیہ اس کا حامی رہا اور
بعد میں اس نے اگراپنی پالیسی بدلی بھی تو
وہ عرب ممالک اس سے بالکل مایوس ہو گئے کہ
امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں سے ان کو اسرائیل کے مقابلے میں اپنی حفاظت کے لیئے ہتھیار مل سکیں گے تو انھیں مجبورا اشتراکی
بلاک کی طرف رجوع کرنا پڑا اور اس بلاک کے ملکوں نے اس لالچ میں ان کو ہتھیار دینے
شروع کیئے کہ اس طرح انھیں عرب ممالک میں
ا شتراکیت پھیلانے اور ان کو اپنے دائرہ اثر میں لانے کا موقع مل جائے گا۔اس کے
نتیجے میں یہ تو نہ ہو سکا کہ عرب ممالک اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیئے ہتھیار
دینے شروع کیئے کہ اس طرح انھیں عرب ممالک میں اشتراکیت پھیلانے اور ان کو اپنے
دائرہ اثر میں لانے کا موقع مل جائے گا۔اس کے نتیجے میں یہ تو نہ ہو سکا کہ عرب ممالک
اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو
جاتے،البتہ یہ ضرور ہوا کہ روس کو مصر و شام سے یمن تک اور عراق سے الجزائر تک
اپنے اثرات پھیلانے کا موقع حاصل ہو گیا اور عرب ملکوں میں رجعت پسندی اور ترقی
پسندی کی کشمکش اتنی بڑھی کہ اسرائیل سے نمٹنے کے بجائے وہ آُس ہی میں ایک دوسرے
سے الجھ کر رہ گئے۔"یہودی پروٹوکولز"کا مترجم لکھتا ہے کہ یہ حالات ایک
دن میں نہیں بدلے تھے اس کے لیئے نہایت خفیہ طریقے سے کام کیا گیا تھا۔فلسطین
پہنچنے والے یہودیوں نے تھیوڈور ہرزل کی اس نصیحت کو ہمیشہ طرزجاں بنائے رکھا:
"جب
تک یہودیوں کو اپنا وطن نہیں ملتا ،انھیں سکون نصٰیب نہیں ہو سکتا،اس قومی اور
مذہبی نصب العین کے لئے ۔۔اور اپنے مقصود کو حاصل کرنے کے لیئے ہر ھربہ اور ہر ہتھیار جائز ہے۔زن
،رشوت،شراب اور فحاشی۔۔۔جہاں یہ کام نہ دیں تو قتل کرنے سے گریز نہ کیا
جائے۔"[9]
انیس
برس کی مدت میں امریکہ نے اسرائیل کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی مالی امداد دی۔مغربی
جرمنی سے اس کو 82 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا تاوان دلوایا گیا۔اور دنیا بھر کے یہودیوں نے دوارب ڈالر سے
زیادہ چندے دے کر اس کی مالی پوزیشن مضبوط
کی۔جنگی حثیت سے اس کو زفرق تا بقدم اس قدر مسلح کر دیا گیا۔کہ جون 1967ء کی جنگ
سے پہلے ہی امریکی ماہرین کا یہ اندازہ تھا۔کہ وہ صرف چار پانچ دن کے اندر اپنے
گردوپیش کی تمام عرب ریاستوں کو پیٹ لے گا۔سیاسی حثیت سے ہر موقع پر امریکہ اور اس
کے ساتھی اس کی پشت پناہی کرتے رہے۔اور انہی کی حمایت کی وجہ سے اقوام متحدہ اس کی
پے درپے زیادتیوں کا کوئی تدارک نہ کر سکی۔نومبر 1947 ء سے 1957ء تک اقوام متحدہ
کے 28 ریزولیوشن وہ اس کے منہ پر مار چکا تھا۔ستمبر 1948ء سے نومبر 1966 ء تک 7
مرتبہ اقوام متحدہ نے اس کے خلاف مذمت کی
قاردادیں پاس کیں مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔اس کی بے باکی کا اندازہ آپ اس
وقت اسرائیل کے وزیراعظم لیوی اشکول نے ا
علی الاعلان یہ کہا کہ"اگر اقوام متحدہ کے 122 ممبروں میں سے 121 فی صد دے
دیں اور تنہا اسرائیل کا پنا ووٹ ہی ہمارے
حق میں رہ جائے۔تب بھی ہم اپنے مفتوحۃ علاقوں سے نہ نکلیں گے۔"یہ سب کچھ اس
وجہ سے ہے کہ امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی حمایت کے بل پر اسرائیل تمام دنیا کی
رائے کو ٹھوکر پر مارتا ہے اور اقوام متحدہ اس کے مقابلے میں قطعی بے بس ہے۔
امریکہ
کی دلچسپی اسرائیل کے ساتھ کتنی بڑھی ہوئی ہے،اس کو جاننے کے لیئے آپ ذرا اس رویئے
پر ایک نگاہ ڈال لیں جو جون 1967 ء کے موقع پر اس نے اختیار کیا تھا۔جنگ سے ایک
ہفتہ پہلے امریکی فوج کے چیفس آف اسٹاف کے
صدر جنرل وہیلر نے صدر جانسن کو اطمینان دلایا تھا کہ اگر اسرائیل بڑھ کر پہلے ایک
کامیاب
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ ہوائی ھملہ
کر دے تو پھر زیادہ سے زیادہ تین چاردن کے اندر وہ عربوں کو مار لے گا۔لیکن اس رپورٹ پر بھی جانسن پوری
طرح مطمءن نہ ہو سکے۔اور انھوں نے سی آئی اے کے چیف رچرڈ ہیلمس سے رپورٹ طلب کی۔جب
اس نے بھی وہیلر کے اندازوں کی توثیق کر دی تو جانسن صاحب نے روس سے رجوع کر کے یہ
اطمینان حاصل کیا کہ وہ عربوں کی مدد کے لیئے عملا کوئی مداخلت نہ کرے گا۔اس کے بعد کہیں جا کر
اسرائیل پر "وحی"نازل ہوئی کہ اب عرب ملکوں پر حملہ کر دینے کا مناسب
موقع آ گیا ہے۔اس پر بھی امریکہ کا چھٹا بھری بیڑہ مصرو اسرائیل نے سواحل کے قریب
اپنی پوری طاقت کے ساتھ مستعد کھڑا تھا
تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے۔
انگریزوں
کی اسرائیل نوازی کا یہ حال تھا کہ ان کا طیارہ
بردار بحری جہاز مالٹا میں اور دوسرا عدن میں ایک منٹ کے نوٹس پر اسرائیل
کی مدد پر حرکت کرنے کے لیئے تیار کھڑا تھا۔جنگ کے بعد لنڈن سنڈے ٹائمز نے ایک
کتاب شائع کی جس کا نام تھا( THE
HOLY WAR- JUNE 67)
اس
کا جو باب بیت المقدس پر یہودی قبضے کے بیان میں ہے اس کا عنوان رکھا گیا ہے BACK AFTER 896 YEARS "یعنی 896 برس کے
بعد واپسی"اب یہ ظاہر ہے کہ 896 سال پہلے بیت المقدس پر سے صلیبی عیسائیوں کا
قبضہ اٹھا تھا نہ کہ یہودیوں کا۔اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ
انگریزوں کی ہمدردی میں صلیبی جذبہ کام کر رہا تھا اور اس لڑائی کو وہ صلیبی جنگوں
ہی کا ایک حصہ سمجھتے تھے۔
روس
کی عرب دوستی کا ھال بھی یہ تھا کہ جس صبح کو مصر کے ہوائی پر اسرائیل کا حملہ
ہونے والا تھا ۔اسی کی رات کو روس نے صدر ناصر کو اطمینان دلایا تھا کہ کوئی حملہ
ہونے والا نہیں ہے۔یہ ویسی ہی یقین دہانی تھی جیسی ستمبر 1965ء میں ہم کو کرائی
گئی تھی کہ ہندوستان بین الاقوامی سرحد پار نہ کرے گا!عربوں کے ساتھ روس کے رویئے
پر یوگوسلاویہ کے ایک ڈپلومیٹ کا یہ تبصرہ بڑا سبق آموز ہے کہ"ایک بڑی طاقت
جب تمہارا ساتھ چھوڑتی ہے تو وہ تم کو
پیراشوٹ کے بغیر ہوائی جہاز گرا دیتی ہے۔"
یہ
ہیں وہ اسباب جن کی وجہ سے یہودیوں کا تیسرا منصوبہ بھی کامیاب ہو گیا اور بیت
المقدس سمیت پورا فلسطین جزیرہ نمائے سینا سمیت ان کے ہاتھ آ گیا۔
یہودیوں کا چوتھا منصوبہ :
اب
درحقیقت جس چیز سے دنیائے اسلام کو سابقہ
درپیش ہے وہ یہودیوں کا چوتھا اور آخری منصوبہ ہے جس کے لیئے وہ دوہزار سال سے بے
تاب تھے۔اور جس کی خاطر وہ 90 سال سے باقاعدہ ایک اسکیم کے مطابق کام کرتے رہے
ہیں۔یہ اسکیم جو بڑے خفیہ طریقے سے کام کر رہی تھی،دنیا کے سامنے آ گئی۔جسے
"یہودی پروٹوکولز "کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس
منصوبے کے اہم ترین اجزاء دو ہیں۔ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ اور قبہء صخرہ کو ڈھا کر
ہیکل سلیمانی پھر سے تعمیر کیا جائے،کیونکہ اس کی تعمیر ان دونوں مقامات مقدسہ کو ڈھائے بغیر نہیں ہو سکتی۔دوسرے یہ کہ
اس پورے علاقے پر قبضہ کیا جائے۔جسے اسرائیل اپنی میراث سمجھتا ہے۔جہاں تک پہلے
جزئ کا تعلق ہے اسرائیل اسے عملی جامہ پہنانے پر اسی وقت قادر ہو چکا تھا۔جب بیت
المقدس پر اس کا قبضہ ہوا تھا۔لیکن دو وجوہ سے وہ اس کام میں تامل کرتا رہا ہے۔ایک
وجہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے سرپرست امریکہ کود نیائے اسلام کے شدید ردعمل کا اندیشہ
ہے۔دوسرے یہ کہ خود یہودیوں کے اندر مذہبی بنیاد پر اس مسئلے میں اختلاف برپا ہے۔ان کے ایک گروہ کا
عقیدہ یہ ہے ہ ہیکل کی تعمیر نو مسیح ہی
آکر کرے گا۔جب تک وہ نہ آ جائے ہمیں انتظار کرنا چاہیئے۔یہ ان کے قدامت پسند گروہ
کا خیال ہے ۔دوسرا گروہ جو شدت پسند ہے،اور جس کے ہاتھ میں دراصل اس وقت اسرائیل
کے اقتدار کی باگیں ہیں،کہتا ہے کہ قدیم بیت المقدس اور دیوار گریہ پر قبضہ ہو
جانے کے بعد ہم دور مسیحائی میں داخل ہو
رہے ہیں۔ انہی دو وجوہ سے مسجد اقصیٰ کو ڈھا دینے کے بجائے تمہید کے طور پر اس کو
آگ لگائی گئی ہے تاکہ ایک طرف دنیائے اسلام
کا ردعمل دیکھ لیا جائے اور دوسری طرف یہودی قوم کو آخری کاروائی کے لیئے
بتدریج تیار کیا جائے۔یہ میراث کا ملک
کیا ہے؟اسرائیل کی پارلیمینٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں۔
"اے
اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں۔"
دنیا
میں صرف ایک اسرائیل ہی ایسا ملک ہے جس نے کھلم کھلا دوسری قوموں کے ملک پر قبضہ
کرنے کا ارادہ عین اپنی پارلیمینٹ کی عمارت
پرثبت کر رکھا ہے۔کسی دوسرے ملک نے اس طرح علانیہ اپنی جارحیت کے ارادوں کا
اظہار نہیں کیا ہے۔اس منصوبے کی جو تفصیل
صیہونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے۔اس کی رو سے اسرائیل جن
علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ان میں دریائے نیل تک مصر،پورا اردن،پورا شام،پورا
لبنان،عراق کا بڑا حصہ،ترکی کا جنوبی علاقہ اور جگر تھا کر سنیئے مدینہ منورہ تک
حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔اگر دنیائے عرب اسی طرح کمزور رہی جیسی آج ہے
اور خدانخواستہ دنیائے اسلام کا ردعمل بھی مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی پر کچھ زیادہ
موئثر ثابت نہ ہوسکا۔تو پھر حاکم بدہن ہمیں وہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔جب یہ دشمنان
اسلام اپنے ارادوں کو پورا کرنے کے لیئے پیش قدمی کر بیٹھیں۔"[10]
یہود نے جس سرزمین
کو اپنے صدیوں کے خواب کی تعبیر قرار دیا وہ ان کی صدیوں کی غلط فہمی اور صدیوں کا
فریب تھا،ابھی فلسطین پر غلبہ حاصل کرنے اور وہاں ریاست قائم کرنے کا کوئی خلاقی،قانونی
اور تاریخی جواز موجود نہیں تھا۔
سید مودودی ؒ نے
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ہمیشہ دو ٹوک
اور بے باکانہ رائے رکھی ہے۔پوپ پال ششم کے جواب میں 1967ء میں انھوں نے واضح طور
پر کہا تھا کہ "مسیحی یورپ اور امریکہ ،فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی جارحیت
کی حمایت کر کے زیادتی کا ارتکاب کر رہے ہیں اور سید مودودیؒ نے پاپ کے جواب میں
یہ سوال اٹھایا کہ ان تلخ تجربات ( اعلان بالفور،برطانوی مینڈیٹ)کے بعد کوئی شخص
مسلمانوں اور مسیحیوں میں دوستانہ تعلقات کی توقع کیسے کر سکتا ہے؟[11]
الغرض سید مودودیؒ نے یہودیوں کی
تاریخ پر مفصل کام کیا۔طوالت کے پیش نظر ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ورنہ آپ نے یہود
کے انبیاء کی کرداری سازی پر جو حملے کیئے
ان کو بھی بطور خاص موضوع بنایا،اور ظہور اسلام سے پہلے جو یہود عرب میں
آباد تھے۔ان پر بھی روشنی ڈالی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں