نماز میں خشیت کیسے لائی جائے؟

’’میں بچپن میں بھائی کے ساتھ قرآن پڑھنے آپ کے گھر آتی تھی‘ آپ کے پاس ہی ہم دونوں نے آخری دس سیپارے حفظ کیے تھے۔ آپ ہی نے ہمیں تفسیر پڑھائی تھی ‘ بلکہ قرآن سکھایا تھا ‘ مگر.....’مگر میں کھو چکی ہوں۔ میں اپنی زندگی ضائع کر رہی ہوں۔ نہ میں قرآن یاد رکھ پائی‘ نہ میں آرگنائزڈ ہوں‘نہ نیک ہوں‘ نہ ٹائم مینیج کرنا سیکھ سکی۔ میں فجر میں اٹھ نہیں پاتی اور باقی نمازوں کے لئے دل نہیں چاہتا۔ گو کہ میری خواہش ہے کہ میں بھی پانچ وقت کی نمازی بن جاؤں‘ مگر....یہ بہت مشکل بہت بھاری چیز لگتی ہے۔‘‘
وہ خاموشی سے سن رہی تھیں‘ اس بات پہ تائید میں سر ہلایا۔
’’نماز بہت بھاری چیز ہے ‘ واقعی!‘‘
’’مگر پھر وہ لوگ کون ہوتے ہیں جو منہ اندھیرے نیند توڑ کر اٹھتے ہیں اور ٹھنڈے پانی سے بھی خود کو بھگو لیتے ہیں مگر نماز نہیں چھوڑتے۔‘‘ وہ بے چین ہوئی۔
’’حنین...الله فرماتا ہے....بے شک نماز بہت بھاری ہے سوائے ان لوگوں پر جو خشعیت رکھتے ہیں۔‘‘
’’خشعیت کیا ہوتا ہے؟‘‘ اسے سارے اسباق بھول گئے تھے۔
’’خشعیت ڈر ہوتا ہے ‘ اور خشعیت محبت ہوتی ہے ‘ مگر نہ یہ صرف ڈر ہے نہ صرف محبت۔ یہ محبت بھرا ڈر ہوتا ہے جو انسان کو اپنے ماں باپ کا کہنا ماننے پہ مجبور کرتا ہے۔ صرف محبت میں ہم ان کی بات نہیں مانتے ‘ یا صرف ڈر کے باعث ان کی اطاعت نہیں کرتے۔ کوئی چھری تو نہیں دے ماریں گے نا وہ ہمیں۔ صرف یہ دھڑکا ہوتا ہے کہ ان کے اوپر ہمارا امپریشن نہ خراب ہو جائے ۔ہم ان کو دکھ دینے سے ان کی محبت کی وجہ سے ڈرتے ہیں۔جس کے دل میں الله کے لئے ایسی خشعیت ہوتی ہے ‘ نماز اس پہ آسان ہو جاتی ہے۔‘‘
’’تو انسان اپنے اندر یہ خشعیت کیسے پیدا کرے؟‘‘
’’تمہاری جگہ کوئی اور پوچھتا تو اس کے آگے لمبی تقریر کر سکتی تھی مگر تم حنین ‘ تم پریکٹیکل زیادہ پسند کرتی ہو۔‘‘ کہتے ہوئے وہ لیٹر پیڈ سے چند کاغذ علیحدہ کرنے لگیں۔حنہ مسکرا دی۔ وہ درست جگہ آئی تھی۔
’’یہ دو کاغذ لو۔‘‘ انہوں نے دو کاغذ اس کے سامنے ڈالے ‘ اور پھر ایک سرخ اور ایک سبز قلم ان کے اوپر رکھا۔
’’پہلے بائیں ہاتھ والے پہ ایک سرخ دائرہ کھینچو اور اسی سرخ رنگ سے اس کے اندر لکھتی جاؤ۔‘‘
’’کیا؟‘‘
وہ رسان سے مسکرائیں۔’’فون پہ تم نے کہا تھا کہ تم نے بہت سی ایڈکشنز(لت) چھوڑی ہیں مگر تمہارا ہر مسئلہ اس لئے ہے کہ تم فجر پہ نہیں اٹھتی۔ اب اس کاغذ پہ لکھو کہ جب تم فجر پہ نہیں اٹھتی تو تمہیں کیا ملتا ہے؟‘‘
حنین نے الجھ کر سوچا۔پھر لکھنے لگی۔
’’تھوڑی سی مزید نیند۔بہت سارا سکون۔گرم گرم بستر۔ چند مزید خواب۔ پلیژر۔‘‘ سر اٹھایا۔ ’’اب؟‘‘
’’اب اس کے ساتھ لکھو‘ کہ تم اس وقت....یوں سوتے ہوئے الله تعالیٰ کو کیسی لگتی ہو؟ تمہارا کیا امپریشن جا رہا ہوتا ہے الله کے سامنے؟‘‘
لمحے بھر کے لئے حنین کے اندر کچھ ہلا۔ اس نے سر جھکایا۔ سرخ دائرے کو دیکھا۔پھر لکھنے لگی۔
’’اس وقت میں الله کے سامنے کیسی نظر آ رہی ہوتی ہوں؟
ایک غافل لڑکی ‘ جو سو رہی ہے۔ جو نشئیوں کی طرح سو رہی ہے۔ جو روزِ قیامت سے بے خبر ہے ‘ جس کو اپنے بنانے والے کے سامنے جاتے اپنے امپریشن کی کوئی فکر نہیں ہے۔‘‘ اس کا ہاتھ کانپا مگر لکھتی گئی۔ ’’جنت کی نہریں‘ جہنم کی آگ....اسے نہ کسی پہ یقین ہے ‘ نہ ان کا احساس ہے۔ الله کی طرف سے اسے بار بار پکارا جا رہا ہے مگر وہ ڈھٹائی سے ‘ غرور سے سو رہی ہے۔ نماز پڑھنا اس کے نزدیک ایک حقیر کام ہے ‘ اگر حقیرنہ ہوتا تو وہ اٹھ جاتی۔ وہ الله کی نافرمان نظر آ رہی ہے۔ فرشتے اس کے بارے میں یہی جا کر اوپر بتائیں گے کہ فجر پہ اسے سوتا پایا۔ اس کی ’’اوپر ‘‘ والوں میں نہ کوئی قدر ہو گی ‘ نہ عزت ۔ وہ بھٹکے ہوؤں میں سے ہے۔ اسی طرح غافل سوتی ‘ جاگتی کسی دن مر جائے گی اور رحمت کے فرشتوں کو اس سے کوئی ہمدردی نہ ہو گی کیونکہ انہوں نے ہمیشہ اسے سوتے پایا ہے۔‘‘ اس سے مزید نہیں لکھا جا رہا تھا۔’’اور پھر سارا دن وہ سست اور بے زار رہتی ہے ۔اس کا ہر کام بے برکتا ہے۔ اس کا دل گلٹ سے بھر چکا ہے مگر اس گلٹ کو نکالنے کے لئے بھی وہ کچھ نہیں کرتی۔ اس کے اندر کوئی خیر نہیں ہے۔ جب وہ الله سے دعا مانگے گی تو کیا الله اس کی دعا قبول ....؟‘‘ بس بہت ہوا۔اس نے قلم چھوڑ دیا۔دل پہ بہت زور سے لگی تھی۔ صفحہ الٹا کر کے میز پہ رکھ دیا۔ سر ابھی تک جھکا تھا۔
’’اب اس دوسرے صفحے پہ سبز دائرہ کھینچو۔‘‘ حنہ نے ذرا سے توقف کے بعد دوسرا صفحہ اٹھایا۔ اور سبز دائرہ کھینچا۔ انگلیوں میں لرزش تھی۔
’’اس پہ لکھو کہ فجر پڑھنے کے لئے تمہیں کیا کچھ کھونا پڑتا ہے۔‘‘
وہ سر جھکائے لکھنے لگی۔
‘‘نیند توڑنا۔ گرم بستر چھوڑنا‘ سردی میں باتھ روم تک جانا‘ پانی سے خود کو بھگونا‘ اور پانچ ....دس منٹ کی نماز پڑھ کر واپس آنا۔‘‘ وہ رک گئی۔
’’اور اب یہ لکھو کہ جب تم یہ کرو گی تو الله کے پاس تمہارا کیا امپریشن جائے گا؟‘‘ وہ ذرا سی چونکی۔ پھر صفحے کو دیکھا۔ سبز دائرہ چمک رہا تھا۔ وہ بنا سوچے لکھنے لگی۔
’’الله کو اس وقت میں کیسی لگوں گی؟ وہ ہر پچھلی بات مٹا دے گا۔ میں اس کے سامنے ایک ایسی لڑکی ہوں گی جو اپنا آرام چھوڑ کر اس کی پہلی پکار پہ اٹھتی ہے۔ جو اس کی بات مانتی ہے۔ اس کو قیامت کا احساس ہے ‘ اس کو جہنم اور جنت کی پرواہ ہے۔ وہ غافلوں میں سے نہیں ہے۔ ٹھیک ہے اس میں بہت برائیاں ہوں گی‘ مگر فرشتے جب فجر اور عصر کے وقت اوپر جائیں گے تو اس کا اچھا ذکر کریں گے الله کے سامنے....اوپر والوں میں اس کا نام عزت سے لیا جائے گا۔‘‘اس کے لکھنے میں روانی آ گئی تھی۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔
’’وہاں اس کا امپریشن اچھا جائے گا۔ اس کی بہت سی غلطیوں سے صرفِ نظر کر لیا جائے گا۔ وہاں اس کی قدر ہو گی۔ الله اس کی تعریف کرے گا۔ جب وہ فجر کے لئے اٹھے گی اور دوسروں کو بھی اٹھائے گی تو الله بھی اوپر والوں کے سامنے اس کی تعریف کرے گا۔‘‘ اس کا دل پھر سے بھر آیا۔لبوں پہ ہاتھ رکھ کر خود کو قابو کیا۔’’اس کا دل گلٹ سے پاک ہو گا۔ الله اس کی تعریف کرے گا۔ اس کے کاموں میں برکت ہو گی۔ الله اس کی تعریف کرے گا۔ الله اس کی تعریف کرے گا۔ وہ اس کو اپنے پاس‘‘نماز پڑھنے والوں‘‘ میں لکھ لے گا۔ الله اس کی تعریف کرے گا....‘‘ وہ ایک فقرہ اتنا قیمتی اور اتنا اندر تک ہلا دینے والا تھا کہ وہ اس کو بار بار لکھتی گئی یہاں تک کہ دائرہ بھرگیا۔
ٹیچر نے میز پہ دستک دی تو اس نے گہری سانس لی۔ نمی اندر اتاری ‘ اور کاغذ الٹا کر کے میز پہ ڈال دیا۔
’’اب ان دونوں کاغذوں کو اپنی الماری پہ....یا بیڈ کے اوپر دیوار پہ کہیں بھی لگا لو اور دن میں بیس دفعہ لازمی ان باتوں کو پڑھو حتیٰ کہ یہ تمہارے دل میں بیٹھ جائیں۔زندگی میں جب بھی کسی ایڈکشن کے ہاتھوں پریشان ہو‘ فوراً دو دائرے بناؤ،اور ایک میں لکھو کہ ذرا سی تسکین کے لئے یہ کام کرتے وقت میں الله کو کیسی لگتی ہوں گی؟ اور دوسرے میں لکھو کہ اگر یہ چھوڑ دوں تو اس کو کیسی لگوں گی؟ ‘‘ وہ رکیں۔’’مگر نماز کی عادت بنانے کے لئے تمہیں کچھ اور بھی کرنا ہو گا۔‘‘
’’کیا ؟‘‘ وہ تیزی سے بولی۔ اس وقت اندر سے اتنی ہل چکی تھی کہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔
’’تمہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ نماز ہے کیا؟‘‘ وہ پرسکون سی پیچھے ہو کر بیٹھی‘ کہہ رہی تھیں۔ ان کی نرم آنکھیں حنہ کے چہرے پہ جمی تھیں۔’’نماز پہ آپ کو الارم کلاک نہیں اٹھاتی۔ آپ کا ایمان اٹھاتا ہے۔ پچھلے دن اگر جھوٹ بولے ہیں، خیانت کی ہے، وعدہ خلافی کی ہے یا غیبت کی ہے تو اگلے روز فجر پہ اٹھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
’’میں کچھ دن نماز بہت اچھی پڑھتی ہوں، پھر کچھ دن چھوڑ دیتی ہوں۔ ایک فیز سے نکل کر دوسرے فیز میں چلی جاتی ہوں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘
’’ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نیت کی اہمیت نہیں سمجھتے ۔ نماز میں دل کا سکون ہے ‘ مگر یہ دل کے سکون کے لئے نہیں پڑھی جاتی ۔ جو اس لئے نماز پڑھتا ہے کہ اس کو پڑھ کر وہ خود کو مطمئن اور پرسکون محسوس کرتا ہے وہ سخت فتنے میں مبتلا ہے کیونکہ وہ اپنے ’’دل‘‘ کے لئے نماز پڑھتا ہے ‘ الله کے لئے نہیں۔ایسے ہی لوگphases میں مبتلا رہتے ہیں۔ کچھ دن نماز پڑھی پھر کچھ دن نہیں پڑھی کیونکہ دل کو جو مرہم لگانا تھا لگ گیا۔ اب ضرورت نہیں ہے ۔وہ اسی لیے کچھ دن بعد نماز چھوڑ دیتے ہیں کہ اب ان کو ضرورت نہیں رہی، اب وہ پر سکون ہیں۔پھر جب تک پریشان نہیں ہوتے، نماز کے قریب نہیں جاتے۔ نماز پڑھ کر ہمیشہ سکون نہیں ملتا‘ تو اگر کیا سکون نہ ملے تو چھوڑ دیں ہم نماز پڑھنا؟داغ لگوانے میں شفا ہے۔ داغ لگوانا سمجھتی ہو نا؟ جیسے کوئی کاری زخم لگے تو قدیم قوموں میں‘ اور اب بھی چین جاپان بلکہ پاکستان میں بھی. ...سلاخ گرم کر کے اس جگہ کو داغا جائے تو زخم ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس میں شفا ہے مگر ہماری امت کے لئے یہ منع ہے۔ تو جو لوگ نماز کو ایکسرسائز سے تشبیہہ دیتے ہیں‘ ان کو سوچنا چاہیے کہ اگر الله نماز میں شفا نہ رکھتا بلکہ تکلیف رکھتا توکیا ہم اسے نہ پڑھتے؟ نماز کو اپنا دل مطمئن اور خوش کرنے کے لیے نہ پڑھا کرو۔‘‘
’’توپھر ہم کیوں پڑھتے ہیں نماز؟‘‘ اس نے نکتہ اٹھایا۔
’’کیونکہ یہ الله کا حکم ہے۔ دی اینڈ۔ فل اسٹاپ۔ہم اسے اس لئے پڑھتے ہیں تاکہ الله راضی رہے ہم سے ‘ ہمارا امپریشن اس کے سامنے اچھا جائے۔ اور اگر ہمارے دل میں یہ ’’خشعیت‘‘ ہوتو یہ بہت آسان ہے۔‘‘
نمرہ احمد کے ناول " نمل " کی انیسویں قسط سے.
Top of Form

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر