سستی اور کاہلی ۔۔اسباب و علاج







تساہل ایک غیر محسوس بیماری اور خوش بودار نشہ ہے۔ اس سے انسان لذت لیتا ہے۔ یہ انفرادی مرض بھی ہے، معاشرتی بھی اور قومی بھی۔ اس کے اثرات بھی سخت ہیں۔ ذیل میں اس موضوع کے دو ماہرین جین بی برکا اور لینورا ایم یو آن کی کتاب ’’procrastination‘‘ سے ان اثرات کی فہرست دی جارہی ہے۔ ممکنہ خارجی اثرات ٭ اعتماد اور عزت میں کمی ٭ دوستوں اور اہل خاندان کے ساتھ تنازعات ٭ ساتھیوں اور ہم عصر افراد سے اختلاف و ناراضی ٭ افسر بالا سے اختلاف و ناراضی ٭ ملازمت کا نقصان یا بے دخلی ٭ سرکاری جرمانے ٭ مالیاتی نقصان ٭ حادثات یا جسمانی تکلیف ممکنہ داخلی اثرات ٭ احساس کمتری ٭ شرمندگی اور پشیمانی ٭ پریشانی ٭ یکسوئی کا نہ ہونا ٭ سرگرمیوں میں شریک نہ ہونا ٭ خود ملامتی ٭ اضطراب ٭ گھٹن ٭ جسمانی تکلیف یا بیماری ٭ تنہائی پسندی جاگتے کو جگانا ہے ہم تساہل کی اس بیماری کے باعث اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے۔ نہ آخرت کی تیاری کرتے ہیں اور نہ د نیا بناتے ہیں۔ زندگی میں ناکامی زنجیرں کی طرح پیروں کو جکڑ لیتی ہے اور حسرت اور ملامتیں مستقبل کا سامان بن جاتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سوتے کو جگانا آسان اور جاگتے کو جگانا مشکل ہے۔ ہم اور آپ جاگ رہے ہیں مگر بستر سے اُٹھ نہیں رہے۔ ہمیں جاگنا ہے اور مقصدِ حیات کے حصول کے لیے کام کرنا ہے۔ دنیا میں دو چیزوں کے وقت کا پتا نہیں چلتا، ایک تو یہ کہ رات کو نیند کب آئی۔ دوسرے کسی قوم کا زوال کب شروع ہوا۔ یہ اس قوم کو پتا نہیں چلتا البتہ اس کے نقصانات آئندہ نسلوں کو پہنچتے ہیں۔ ہمارے زوال اور انحطاط کی بہت بڑی وجہ یہ تساہل اور کاہلی ہے، نااہلی ہے، عدم توجہی ہے، مقصد کے شعور کی کمی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ گھر کے معاملات سے لے کر قومی معاملات تک میں الجھائو ہے اور منٹوں کے کام مہینوں میں بھی نہیں ہوتے اور ہم خوار ہو کر رہ گئے ہیں۔ اپنی ذات کا جائزہ لیجیے، پھر اپنے گھر کا، پھر اپنے ادارے، معاشرے، بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی حکومت کا، ہر سطح پر آپ کو تساہل اور سست روی کا سامنا ہے۔ یہ قومی بیماری نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ زوال کی علامت نہیں اور کیا ہے۔ یہ بیماری اور نشہ ہیروئین اور افیون سے کچھ کم نہیں ہے۔
آپ نے وہ واقعہ ضرور سنا ہوگا کہ ایک بچے نے انسان کی تصویر درست جوڑ کر دنیا کا بگڑا ہوا نقشہ ٹھیک کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان جہاں کہیں بھی ہو، اور جس قسم کی بھی اصلاح چاہتا ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کرے اور اپنی ذات کی تنظیم کی طرف توجہ دے۔ ہمارے گھروں کا، ہمارے دفتروں کا، ہمارے محلوں اور علاقوں کا، ہمارے معاشرے کا اور زندگی کے جن جن معاملات سے ہمارا تعلق ہے، وہاں کا نقشہ بگڑا ہوا ہے۔ اس نقشے کی درستی کے لیے ضروری ہے کہ ہم انسان کی تصویر کو ٹھیک کریں۔ یہ انسان کی تصویر در حقیقت میری اور آپ کی تصویر ہے۔ یہ بکھری پڑی ہے، اسے جوڑنا ضروری ہے۔ ہم اپنے ماحول کی اصلاح اور حالات کی درستی کی کوشش کرتے ہیں تاکہ نقشہ ٹھیک ہوجائے لیکن ہم کام یاب نہیں ہوتے۔ معلوم ہوتا ہے، تصویر بکھری ہوئی ہے۔ تصویر اس لیے بکھری ہوئی ہے کہ: ٭ ہمارے ارادے اور عزائم ضعیف ہوچکے ہیں۔ ٭ ہماری طبیعت میں سستی اور کاہلی آگئی ہے۔ ٭ ہمارے معاملات میں تساہل پیدا ہوگیا ہے۔ ٭ ہم آج کا کام کل پر ٹالتے ہیں۔ ٭ ہم ’’پھر کبھی‘‘ کا شکار ہیں۔ ٭ فیصلوں میں اتنی تاخیر ہوتی ہے کہ بس نکل جاتی ہے، ٹرین چھوٹ جاتی اور فلائٹ بند ہوجاتی ہے۔ ٭ ہم اتنے ڈرپوک ہوگئے ہیں کہ قسمت کام یابی کے دروازے پر دستک دیتی ہے اور ہم اسے کھولتے تک نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں سستی اور کاہلی آگئی ہے اور ہم نے ’’کل‘‘ پر بھروسا کیا ہوا ہے۔ ہمارے دشمن یہ ’’تساہل‘‘، ’’سست روی‘‘، ’’ٹال مٹول‘‘، ’’تاخیر‘‘ اور ’’پھر کبھی‘‘ ہمارے دشمن اور ہمارے اور مستقبل کے لیے انتہائی تباہ کن ہیں۔ یہ نشہ آور چیزوں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔ جو شخص نشہ کرتا ہے وہ بڑی حد تک معاشرے سے کٹ جاتا ہے مگر تساہل اور سست روی کاشکار فرد معاشرے میں رہ کر معاشرے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ امام عبدالرحمن ابن جوزیؒ (597-511) نے اپنی کتاب منہاج القاصدین میں توبہ کے باب میں تسویف (آئندہ کرلوں گا) کے بارے میں لکھا ہے۔ ’’آئندہ پر ٹالنے والے بالعموم ہلاک ہوتے ہیں کیوںکہ وہ ایک ہی جیسی دو چیزوں میں فرق کر جاتے ہیں۔ آئندہ پر ٹالنے والے کی مثال اُس آدمی کی سی ہے جسے ایک درخت اُکھاڑنا ہو۔ وہ دیکھے کہ درخت بہت مضبوط ہے، شدید مشقت سے اکھڑے گا، تو وہ کہے کہ میں ایک سال کے بعد اس کو اُکھاڑنے کے لیے آئوں گا۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ درخت جتنی مدت باقی رہے گا، مضبوط ہوتا جائے گا اور خود اس کی جتنی عمر گزرتی جائے گی، وہ کم زور ہوتا جائے گا۔ جب وہ طاقت ور ہونے کے باوجود درخت کی کم زوری کی حالت میں اسے نہیں اکھاڑ سکتا تو جب وہ کم زور ہوجائے گا اور درخت زیادہ طاقت ور، تو پھر اس پر کیسے غالب آسکے گا۔‘‘
انتظار مت کیجیے ذرا اپنا جائزہ لیجیے کہ ماضی میں آپ کتنا وقت صرف فرصت وفراغت کے اور حالات کی درستی کے انتظار میں گزارتے رہے ہیں۔ ایک فہرست تو بنائیے کہ آج تک آپ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے اور اب تک کیا کچھ حاصل کرچکے ہیں۔ جو حاصل نہیں کرسکے اس کی قابل قبول وجوہات تھیں یا محض اپنی نفس پرستی، سستی، کاہلی اور خوف خدا کی کمی۔ تو پھر آئیے آج ہم اپنے نفس کو غفلت سے پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تھوڑا سخت حساب کرلیں اور اپنے نفس اور ذہن وجسم کی حرکات وسکنات اور اس کے رحجانات پرکڑی نگاہ رکھیں۔ امام ابن جوزیؒ فرماتے ہیں: ’’جب بندہ حج کے فریضے سے فارغ ہوجائے تو چاہیے کہ کچھ دیر اپنے دل کو فارغ کرے اور اپنے نفس سے شرائط طے کرے اور کہے: اے نفس! میرے پاس سرمایہ صرف زندگی ہے۔ اگر میرا یہ سرمایہ فنا ہوگیا تو تجارت اور منافع سے مایوسی ہوجائے گی۔ یہ ایک نیا دن ہے جس میں اللہ نے مجھے مہلت دی ہے اور میری موت کو مؤخر کرکے مجھے پر احسان کیا ہے۔ اگر وہ مجھے دنیا سے اُٹھا لیتا تو میں تمنا کرتا کہ زندگی کی کچھ مہلت اور عطا کردے تاکہ میںکوئی نیک عمل کرلوں۔ تو اے نفس! یہی سمجھ کہ تو فوت ہوچکا ہے اور پھر تجھے واپس کیا گیاہے۔ اس دن کو ضائع کرنے سے بچ جا اور جان لے کہ دن رات میں چوبیس گھنٹے ہیں اور یوں سمجھ لے کہ بندے کے لے ہر روز چوبیس الماریاں قطار درقطار رکھی ہیں۔ قیامت کے دن یہ الماریاں کھولی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ ہر گھنٹے میں کمائی ہوئی نیکیوں کو دیکھے گا۔ اگر یہ نیکیوں کے نور سے بھری ہوں گی تو اسے اتنی خوشی ہوگی کہ اگر وہ دوزخیوں پر تقسیم کی جائے تو حیرانی کی وجہ سے ان کو آگ کی تکلیف کا احساس نہ رہے۔ اگر بدقسمتی سے صورت حال دوسری ہوئی یعنی کوئی شخص نیکیوں کے بجائے برائیوں میں پھنسا رہا، تو نور کی جگہ اندھیرا ہوگا اور تعفن پھیلے گا اور وہ گھنٹہ جس میں اس نے اللہ کی نافرمانی کی ہوگی، اسے عذاب الیم سے ہم کنار کردے گا۔ اسے اتنی گھبراہٹ اور ذلت محسوس ہوگی کہ اگر وہ تمام جنتیوں پر تقسیم کردی جائے تو ان کی نعمتیں مکدر ہوجائیں۔ بے عمل لوگوں کے لیے ایک اور خزانہ کھولا جائے گا جو خالی ہوگا۔ نہ اس میں کوئی خوشی کی بات ہوگی، نہ غمی کی۔ یہ وہ گھنٹہ ہوگا جس میں یہ لوگ سوئے رہے تھے (یعنی وقت ضائع کررہے تھے) ان میں سے ہر شخص اس کے خالی ہونے پر افسوس کرے گا اور اسے ایسا دکھ ہوگا جیسا کہ اس آدمی کو جو بہت سا منافع حاصل کرنے پر قادر تھا لیکن موقع ضائع کرکے اس سے محروم ہوگیا۔ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے نفس سے کہے: ’’آج کے دن کوشش کرکے ہر الماری کو نیک اعمال سے بھر، ایک کو بھی خالی نہ چھوڑ۔ ایسا نہ ہو کہ تیرے علّیین کے درجات ضائع ہوجائیں اور دوسرے ان کو حاصل کرلیں۔‘‘ شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: عقل مند وہ آدمی ہے جو اپنے نفس کو اپنے تابع رکھے اور موت کے بعد کام آنے والے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کے پیچھے لگ جائے اور اللہ سے بھلائی کی امید رکھے۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: قیامت کا حساب ہونے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرو اور اعمال کا وزن ہونے سے پہلے ان کو تو لو اور بڑی پیشی کے لیے تیار کرو۔ سورہ حاقہ میں ہے اور اس دن تم پیش کیے جائو گے تم سے کوئی چیز مخفی نہ رہے گی۔ (منہاج القاصدین)
تساہل کی چند مزید صورتیں ہماری عمومی زندگی میں تساہل چند مزید صورتوں میں آموجود ہوتا ہے، جیسے: ٭ ہمارے عمومی کام، اہم کاموں کے آگے جاتے ہیں اور ہم ترجیحات کے معاملے میں اپنی ضرورت کا خیال نہیں رکھتے۔ ٭ قومی ڈسپلن کی کمی کے باعث انتہائی اہم کاموں سے فراد کے لیے ہمیں ہزاروں بہانے مل جاتے ہیں۔ ہم اپنے فرار اور ناکامی کا بوجھ خارجی اسباب پر ڈالتے ہیں۔ ٭ ہم زندگی کے اپنے مقرر کردہ اہداف تک اپنی اسی قسم کی کوتاہیوں کے باعث نہیں پہنچ سکتے۔ نتیجتاً ذہنی دبائو کا شکار ہوتے ہیں جس سے استعدادِ کا متاثر ہوتی ہے۔ ٭ چوں کہ ہماری قومی زندگی میں بنیادی فلسفے، تصورحیات، پالیسی، متعلقہ منصوبہ بندی اور افراد کار کے بہتر استعمال کی صلاحیت کی کمی ہے لہٰذا قومی مزاج ہنگامی اور ایڈہاک ازم کا شکار ہوگیا ہے۔ حکومتیں اور ادارے اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے اجتماعی قومی نقصان نظر انداز کرکے اہم اقدامات کرلیتے ہیں جو ان کے وجود کو تو فوری طور پر برقرار رکھ لیتے ہیں مگر بحیثیت قوم ہم اپنی بنیادوں ہی کو ڈائنامائیٹ کرتے ہیں۔ ہمارا مزاج یہ ہے کہ جس کام کے لیے کوئی آخری تاریخ ہوتی ہے، ہم وہ کام آخری تاریخ کو ہی کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کئی مواقع ایسے آتے ہیں جن میں اس کام کی نہ صرف منصوبہ بندی بلکہ اصل کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔ ٭ ہمارا مزاج اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ موسم برسات میں جب پانی جمع ہوتا ہے تو ہم پتھر رکھ کر راستہ بناتے ہیں حالاں کہ اس معاملے میں انفرادی اور بلدیاتی کوششیں پہلے بھی ہوسکتی ہیں۔ ٭ امتحانات کے دنوں میں وقفہ کرنے کے لیے چند گھنٹے تک فلمیں دیکھ لی جاتی ہیں یا دوستوں کی محفل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ وقت چاہے چند منٹ کا ہی کیوں نہ ہو، بہت قیمتی ہے۔ اخبار پڑھنے لگتے ہیں، ناول پر وقت گزار لیتے ہیں۔ اتوار کے دن گھر کے سودا سلف کی ضرورت ہوتی ہے مگر اخبارات کو سودا سلف پر ترجیح دیتے ہیں نتیجتاً گھر کے لیے بچی کھچی چیزیں آتی ہیں حالاں کہ اخبارات تو سودا سلف کے بعد بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔
انگور کھٹے تھے تساہل کے معاملے میں ہم خود کو مندرجہ ذیل عذرات سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ انسان عموماً اپنی غلطیوں کو تسلیم کرلینے کے باوجود اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے۔ ’’کام کرنے کے لیے مناسب سازو سامان نہیں ہے۔ تحریری کام تو عموماً نیلے رنگ کی روشنائی سے کرتے ہیں۔ میرے پاس تو سیاہ رنگ کی تھی اس لیے کام نہیں ہوسکا۔‘‘ ’’منی بس میں تو جانوروں کی طرح بٹھاتے ہیں جب کہ رکشا ٹیکسی کی ہڑتال تھی اس لیے کام نہیں ہوسکا۔‘‘ ’’کافی دیر سے کام کررہا ہوں بس اب آرام کی ضرورت ہے۔‘‘ ’’قوت محرکہ کی ضرورت ہے، اس کے بغیر کام نہیں کرسکتا۔‘‘ ’’یہ تو ہفتے کے آخری ایام ہیں اب اس ہفتے میں کام کی ابتدا کا کیا فائدہ!‘‘ ’’پوچھا کیوں جائے حالاں کہ جواب تو ہمیں پتا ہے ’’نہ‘‘ ہی ہوگا۔‘‘ دو چھوٹے سے واقعات ہیں جس سے تساہل سے گریز کرنے والے ذمے دار افراد کا کردار سامنے آتا ہے۔ ٭ دفتر میں شام کے اوقات میں اچانک ٹیلی فون کا ایک پیغام تحریر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ وہ صاحب پنسل یا قلم ڈھونڈتے رہے۔ نہیں ملی۔ اب وہ پیغام سن کر یاد داشت کے ذریعے دوسرے روز کہہ سکتے ہیں مگر انہوں نے سے ایسا نہیں کیا۔ ٹائپسٹ کی میز پر کاربن پڑا ہوا تھا۔ ردی کی ٹوکری سے کاغذ اُٹھایا اور ماچس کی تیلی سے کاربن پر تحریر کیا جس کا اثر کا غذ پر آگیا۔ درحقیقت یہ ذہانت، احساس ذمے داری اور تساہل سے گریز کی علامت ہے۔ ٭ ایک صاحب اپنے نئے فلیٹ میں منتقل ہوئے۔ دوسرے روز صبح سویرے اخبار والے نے دروازے پر دستک دی: ’’آپ اخبار لیں گے۔‘‘ ان صاحب نے اخبار والے سے پوچھا: ’’آپ کو پتا کیسے چلا کہ ہم رہنے کے لیے آگئے ہیں۔‘‘ جواب دیا: ’’آپ کی بالکنی میں کپڑے لٹک رہے تھے۔‘‘ ان صاحب کو اس کے اس احساس کی قدر ہوئی اور اخبارات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اخبار والا یہ بھی کرسکتا تھا کہ آج تو پہلا ہی دن ہے ’’کل‘‘ پوچھ لیں گے۔ نئے نئے آئے ہیں تھکے ہوئے ہوں گے۔ ایسی صورت میں یقینا اس کردار کی کمی نہیں ہے لیکن ایسا کردار بہت کم ملتا ہے۔ عملی زندگی میں تساہل سے گریز کی چند مزید صورتیں یہ ہیں؛ ٭ ’’ممکن ہے کہ کام کے اچھے نتائج نہ ہوں، مگر ذمے داری دی گئی ہے لہٰذا پورا کرلیا جائے۔ کل کا انتظار کیوں کروں۔ آج ہی کرلوں۔‘‘ ٭ آج تو بہت تھکا ہوا ہوں۔ بس آدھے گھنٹے تک یہ کام کرکے اچھی نیند کرلوں گا۔ ٭ اوہ! آج تو ٹی وی پر میری پسند کا پروگرام ہے۔ ابھی پندرہ منٹ ہیں۔ پھر پانچ منٹ کے اشتہار۔ چلو ان بیس منٹوں میں یہ چھوٹے چھوٹے کام نمٹالوں۔ ٭ کام کے لیے سازوسامان نہیں۔ دیکھیں کسی اور ترکیب سے بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔ ٭ آج تو ہفتے کا آخری دن ہے۔ اب یہ کام اس ہفتے میں تو نہیں ہوتا۔ چلیں ابتدا تو کرلیں۔ وجوہ ہم تساہل کیوں کرتے ہیں۔ ہمارے اجتماعی مزاج میں تساہل کی وجوہ اور عناصر کے جائزے کی ضرورت ہے۔ ٭ ہمارے عمومی کام جو بعض وجوہ کی بنا پر فوری نوعیت کے ہوجاتے ہیں، ان کے باعث ہمارے اہم کام متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں ترجیحات متعین کرنے کا شعور نہیں ہے۔ ٭ تساہل کی ایک بہت بڑی وجہ ناکامی کا خوف ہے۔ ہم دوسروں کے سامنے شرمندہ ہونے کے خوف سے اپنے اہم امور کو ٹالتے ہیں۔ ایسی ہی مثال ہے کہ کسی طالب عمل نے یہ سوچ لیا ہو کہ اسے میٹرک کے امتحان میں پہلی پوزیشن لینی ہے۔ بس یہ خوف کہ وہ امتحان کی ایسی تیاری نہیں کر سکا لہٰذا پہلی پوزیشن نہیں آسکی۔ نتیجتاً وہ امتحان ہی نہ دے۔ یہ خوف تو ہمیں تباہ کردے گا۔ زندگی تو ایک عظیم مقابلہ ہے جس میں کروڑوں افراد ہم سے بہتر ہیں اور ہم کروڑوں افراد سے بہتر ہیں۔ مقابلے سے فرار کیوں اختیار کریں۔ اتنی جرأت تو ہونی چاہیے کہ ہم اپنی غلطی کا جائزہ لیں اور صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں۔ ٭ اپنے بارے میں بہت اعلیٰ تصور قائم کرلینا اور اور کام اس لحاظ سے ملتوی کرنا کہ اس تصور سے اس کا تناسب نہیں۔ ٭ اپنے آپ کو فرشتہ صفت انسان سمجھنا اور غلطیوں سے مبرا محسوس کرنا۔ بغیر غلطیوں کے کام کرنے کا عزم رکھنا۔ اس صورت میں تو آپ کوئی بھی کام نہیں کرسکیں گے۔ ٭ ہم ہر کام خود کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ناگزیر ہیں۔ جب تک کام خود نہیںکریں گے، کام نہیں ہوگا۔ یہ تصور غلط ہے۔ ہمیں اپنے ماتحت افراد کو تیارکرنا ہوگا۔ ہم اپنے اداروں کے معاملے میں اداروں اور اپنے ساتھیوں کے مقروض ہیں۔ تربیت ہی یہ قرض ادا کراسکتی ہے۔ ٭ غصہ اور ناراضگی کا اظہار پشیمانی پیدا کرتا ہے۔ پھر ہم احساس ندامت کے باعث کم از کم اس دن اور اس فرد کے لیے کام کرنے سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ ٭ صلاحیتوں کی کمی بھی تساہل پیدا کرتی ہے۔ اپنی صلاحیتوں اور اداروں کے ضروریات میں توازن ہونا چاہیے۔ ٭ جب پہیا ایجاد ہوچکا ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیے۔ اپنے طور پر اس پہیے کو بنانے کے لیے تحقیق میں وقت صرف مت کیجیے۔ جو کام ہوچکے ہیں انہیں رد مت کیجیے بلکہ بھر پور فائدہ اٹھائیے۔ ٭ تساہل کی بہت بڑی وجہ، جس کا شعور ہوجائے تو ہم اس عادت کا علاج بھی کرسکیں گے، وہ زندگی کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شعور، وقت ہی کو زندگی سمجھنا اور اس معاملے میں خوفِ خدا رکھنا اور آخرت میں جواب دہی کا احساس رکھنا کہ یقینا ہم سے، ہمارے وقت کا، ہماری صلاحیتوں کا، ہمارے مال و دولت کا، ہمارے اہل و عیال کا ضرور سوال ہوگا۔ اس احساس کے ساتھ دیکھیے زندگی کتنی آسان ہوجاتی ہے۔
تحریر:محمد بشیر جمعہ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر