حضرت عمر فاروق ۔۔۔۔ایک عظیم مدبر
عمر وہ جن کو مانگا گیا،طلب کیا گیا بڑی چاہت سے ،بڑی دل
لگی سے۔۔۔دربار بھی وہ جہاں سب بھکاری ہیں صرف ایک شہنشاہ۔اور مانگنے والی ہستی
اگر کائنات کی سب سے محبوب ہستی ہو تو پھر
دعا مستجاب ہونے میں کیا امر مانع ہو سکتا ہے۔۔۔
دعا مقبول ٹھہری اور عمر بن خطاب عمر فاروق بن گئے۔۔حق کے
علمبردار،حق کی خاطر مٹ جانے والے۔۔عظیم الجثۃ،بلند قامت ۔۔جن کے دونوں ہاتھوں میں یکساں قوت تھی۔دانائی
اور تدبر سے مرقع پیشانی جب غصے میں آتی
تو بڑے بڑے دہل جاتے ،بڑے بڑے طوفان ان کی جلالی طبیعت سے سہم کر دم توڑ جاتے،یقین
اور اعتماد کی دولت سے مالا مال دوسری طرف اتنے عاجز اور مسکین انسان کہ اینٹ کا
تکیہ بنا کر ننگی زمیں پر سو جاتے۔۔۔انصاف اور عدل پر کبھی مداہنت نہ کرنے والے۔۔۔ایک
عظیم لیڈر اور ایک عظیم خلیفہ اور ایک عظیم مدبر ۔۔جس دن مشرف بہ اسلام ہوئے اس دن مکہ کی وادیاں اللہ اکبر کے نعروں سے
گونج اٹھیں۔مسلمانوں نے اعلانیہ خانہ کعبہ
میں نماز ادا کی۔۔جن کے زریعے اسلام کو قوت ملی۔۔سن ہجری کا آغاز کرنے والے محرم
الحرام کے اسی مہینے میں اس دنیا سے اُس
دنیا میں تشریف لے گئے جو ہمیشہ رہنے والی ہے۔اس عمر فاروق کی تاریخ انمٹ نقوش سے
بھری پڑی ہے۔غیر مسلم تک ان کی دانش کے
آگے گھٹنے ٹیکتے نظر آتے ہیں۔عربی معقولہ ہے کہ تعریف وہ جو دشمن کرے۔
انسائکلو پیڈیا برٹانیکا ’’Muhammadanism“
کے عنوان سے درج ہے کہ ”حضرت عمر دس سال تک مسلمانوں کے خلیفہ رہے۔ امور سلطنت پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ انہوں نے اپنے نبیﷺ کی تابعداری کا حق ادا کیا۔ وہ خود مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر امور سلطنت چلاتے لیکن ان کے دور میں وسیع و عریض فتوحات ہوئیں۔ ان کی شخصیت سحر انگیز اور طاقت ور تھی۔ انہوں نے قانون کی حکمرانی کو رواج دیا۔
کے عنوان سے درج ہے کہ ”حضرت عمر دس سال تک مسلمانوں کے خلیفہ رہے۔ امور سلطنت پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ انہوں نے اپنے نبیﷺ کی تابعداری کا حق ادا کیا۔ وہ خود مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر امور سلطنت چلاتے لیکن ان کے دور میں وسیع و عریض فتوحات ہوئیں۔ ان کی شخصیت سحر انگیز اور طاقت ور تھی۔ انہوں نے قانون کی حکمرانی کو رواج دیا۔
سر ولیم میور اپنی کتاب ”The Caliphate, its rise, decline and
fall“
کے صفحہ 190 پرلکھتے ہیں۔”حضرت عمرؓ کی زندگی کے چند گوشے یہ ہیں۔ سادگی اور فرائض
کی انجام دہی پر آمادگی ان کے دو راہنما اصول تھے۔ آپ کے نظم و نسق کے دو بہترین
جوہر غیر جانبداری اور اخلاص تھے۔ آپ کا نظام عدل و انصاف بہت مضبوط تھا۔ سپہ
سالاروں اور گورنروں کی تعیناتی میں آپ انصاف پسند تھے۔ کسی طرح کی رو رعایت سے آپ
کا مزاج پاک تھا۔ آپ کا دل رقیق اور شفیق تھا جبکہ آپ کی دہشت سے مجرم کانپتے تھے۔
یہ حقیقت ان گنت شواہد پر مبنی ہے۔ بیوہ عورتوں اور یتیموں کی دستگیری کرتے۔ ان کے
دکھ درد کو دور کر کے سکھ کا اہتمام کرنا آپ کا نصب العین تھا۔ان حقائق کے ثبوت
کیلئے ایک مثال کافی ہے۔ قحط کا زمانہ تھا۔ دوران گشت آپ کی نظر ایک غریب عورت اور
اس کے بھوک سے روتے بچوں پر پڑی۔ کیفیت یہ تھی کہ آگ جل رہی تھی۔ بچے ارد گرد
بیٹھے تھے اور کھانے کیلئے کچھ نہ تھا۔ حضرت عمرؓ تیزی سے خود چل کے قریب کی بستی
میں گئے۔ کچھ کھانے پینے کا اہتمام کیا۔ واپس آکر خود گوشت پکایا اور اپنے ہاتھوں
سے بھوکے بچوں کو کھلایا۔ جب بچے کھا پی کر ہنسنے اور کھیلنے میں مصروف ہو گئے تو
پھر حضرت عمر وہاں سے تشریف لے گئے۔
ذیل میں حضرت عمر فاروق کے وہ کارہائے نمایاں جن سے دنیا ناواقف تھی دانش اور تدبر پر مشتمل
وہ ایجادات،ڈسکوریز جن کو اولیات عمر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔جن سے دنیا آج بھی
فیض یاب ہو رہی ہے۔ ۔ان میں سے چند اولیات کاتذکرہ کیا جائے گا۔
۱۔ بیت المال یعنی خزانہ
قائم کیا۔
۲۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔
۳۔ تاریخ اور سنہ قائم کیا جو آج تک جاری ہے۔
۴۔ امیر المومنین کا لقب اختیار کیا۔
۵۔ فوجی دفتر ترتیب دیا۔
۶ - رضاکاروں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
۷ -دفتر مال قائم کیا۔
۸ پیمائش جاری کی۔
۹۔ مردم شماری کرائی۔
نہریں کھدوائیں۔
۱۱ نئے شہر آباد کرائے یعنی کوفہ، بصرہ، جیزہ، فسطاط، موصل۔
۱۲۔ ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا۔
۱۳۔ عشور یعنی دہ یکی مقرر کی۔
۱۴۔دریا کی پیداوار مثلاً عنبر وغیرہ پر محصول لگایا اور محصل مقرر کیے۔
۱۵۔ خربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔
۱۶۔ جیل خانہ قائم کیا۔
۱۷۔ درہ کا استعمال کیا۔
۱۸۔ راتوں کو گشت کرکے رعایا کے دریافت حال کا طریقہ نکالا۔
۱۹۔ پولیس کا محکمہ قائم کیا۔
۲۰۔ جا بجا فوجی چھاونیاں قائم کیں۔
۲۱۔ گھوڑوں کی نسل میں اصیل اور مجنس کی تمیز قائم کی جو اس وقت تک عرب میں نہ تھی۔
۲۲۔ پرچہ نویس مقرر کیے۔
۲۳۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کے مسافروں کے آرام کے لیے مکانات بنوائے۔
۲۴۔ لاوارث بچوں کی پرورش اور پرداخت کے لیے روزینے مقرر کیے۔
۲۵۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے۔
۲۶۔ یہ قاعدہ قرار دیا کہ اہل عرب [گو کافر ہوں] غلام نہیں بنائے جاسکتے۔
۲۷۔ مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے روزینے مقرر کیے۔
۲۸۔ مکاتب قائم کیے۔
۲۹۔ معلموں اور مدرسوں کے مشاہرے مقرر کیے۔
۳۰ حضرت ابوبکر کو اصرار کے ساتھ قرآن مجید کی ترتیب پر آمادہ کیا اور اپنے اہتمام سے سے اس کام کو پورا کیا۔
۳۱۔ قیاس کا اصول قائم کیا۔
۳۲۔ فرائض میں عول کا مسئلہ ایجاد کیا۔
۳۳۔ فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم اضافہ کیا۔ ( موطا امام مالک میں اسکی تفصیل مذکور ہے۔)
۳۴۔ نماز تراویح جماعت سے قائم کی۔
۳۵۔ تین طلاقوں کو جو ایک ساتھ دی جائیں طلاق بائن قرار دیا۔
۳۶۔ شراب کی حد کے لیے اسی کوڑے مقرر کیے۔
۳۸۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکوۃ مقرر کی۔
۳۹۔ بنو تغلب کے عیسائیوں پر بجائے جزیہ کے زکوۃ مقرر کی۔
۳۹۔ وقف کا طریقہ ایجاد کیا۔
۴۰۔ نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر تمام لوگوں کا اجماع کرادیا۔
۴۱۔ مساجد میں وعظ کا طریقہ قائم کیا چنانچہ ان کی اجازت سے تمیم داری نے وعظ کہا اور یہ اسلام میں پہلا وعظ تھا۔
۴۲۔ اماموں اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
۴۳۔ مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔
۴۴۔ ہجو کہنے پر تعزیر کی سزا ائم کی۔
۴۵۔ غزلیہ اشعار میں عورتوں کے نام لینے سے منع کیا حالانکہ یہ طریقہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا ۔
۲۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔
۳۔ تاریخ اور سنہ قائم کیا جو آج تک جاری ہے۔
۴۔ امیر المومنین کا لقب اختیار کیا۔
۵۔ فوجی دفتر ترتیب دیا۔
۶ - رضاکاروں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
۷ -دفتر مال قائم کیا۔
۸ پیمائش جاری کی۔
۹۔ مردم شماری کرائی۔
نہریں کھدوائیں۔
۱۱ نئے شہر آباد کرائے یعنی کوفہ، بصرہ، جیزہ، فسطاط، موصل۔
۱۲۔ ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا۔
۱۳۔ عشور یعنی دہ یکی مقرر کی۔
۱۴۔دریا کی پیداوار مثلاً عنبر وغیرہ پر محصول لگایا اور محصل مقرر کیے۔
۱۵۔ خربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔
۱۶۔ جیل خانہ قائم کیا۔
۱۷۔ درہ کا استعمال کیا۔
۱۸۔ راتوں کو گشت کرکے رعایا کے دریافت حال کا طریقہ نکالا۔
۱۹۔ پولیس کا محکمہ قائم کیا۔
۲۰۔ جا بجا فوجی چھاونیاں قائم کیں۔
۲۱۔ گھوڑوں کی نسل میں اصیل اور مجنس کی تمیز قائم کی جو اس وقت تک عرب میں نہ تھی۔
۲۲۔ پرچہ نویس مقرر کیے۔
۲۳۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کے مسافروں کے آرام کے لیے مکانات بنوائے۔
۲۴۔ لاوارث بچوں کی پرورش اور پرداخت کے لیے روزینے مقرر کیے۔
۲۵۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے۔
۲۶۔ یہ قاعدہ قرار دیا کہ اہل عرب [گو کافر ہوں] غلام نہیں بنائے جاسکتے۔
۲۷۔ مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے روزینے مقرر کیے۔
۲۸۔ مکاتب قائم کیے۔
۲۹۔ معلموں اور مدرسوں کے مشاہرے مقرر کیے۔
۳۰ حضرت ابوبکر کو اصرار کے ساتھ قرآن مجید کی ترتیب پر آمادہ کیا اور اپنے اہتمام سے سے اس کام کو پورا کیا۔
۳۱۔ قیاس کا اصول قائم کیا۔
۳۲۔ فرائض میں عول کا مسئلہ ایجاد کیا۔
۳۳۔ فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم اضافہ کیا۔ ( موطا امام مالک میں اسکی تفصیل مذکور ہے۔)
۳۴۔ نماز تراویح جماعت سے قائم کی۔
۳۵۔ تین طلاقوں کو جو ایک ساتھ دی جائیں طلاق بائن قرار دیا۔
۳۶۔ شراب کی حد کے لیے اسی کوڑے مقرر کیے۔
۳۸۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکوۃ مقرر کی۔
۳۹۔ بنو تغلب کے عیسائیوں پر بجائے جزیہ کے زکوۃ مقرر کی۔
۳۹۔ وقف کا طریقہ ایجاد کیا۔
۴۰۔ نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر تمام لوگوں کا اجماع کرادیا۔
۴۱۔ مساجد میں وعظ کا طریقہ قائم کیا چنانچہ ان کی اجازت سے تمیم داری نے وعظ کہا اور یہ اسلام میں پہلا وعظ تھا۔
۴۲۔ اماموں اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
۴۳۔ مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔
۴۴۔ ہجو کہنے پر تعزیر کی سزا ائم کی۔
۴۵۔ غزلیہ اشعار میں عورتوں کے نام لینے سے منع کیا حالانکہ یہ طریقہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا ۔
(الفاروق از شبلی
نعمانی، جلد دوئم، صفحہ ۲۳۸)
حضرت عمر فاروق کی
ڈسکوریز سے اندازا ہوتا ہے کہ وہ کس پائے کے انسان تھے۔جن کے بارے میں خود نبی
کریمﷺ نے فرمایا "میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا"
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں