انٹرویو "روبینہ شاہین"کالم نگار ،ریسرچر اور افسانہ نگار
سوال نمبر 1تعارف تعلیم کامیابیاں
اور شوق وغیرہ
روبینہ شاہین نام ہے میرا،زندہ دلان لاہور سے تعلق ہے ،اسلامک
اسٹیڈیز میں ایم فل کیا،قرآن مجید ترجمہ تفسیر کورس کیا۔گراف ڈیزائنر بھی ہوں،سیکھنے
سکھانے کا سلسلہ جاری ہے۔انشاء اللہ
کتابوں کی بچپن سے رسیا تھی،گھر میں پنجابی ادب وافر مقدار
میں موجود تھا سو سب سے پہلے انہی کا مطالعہ کیا۔ہیر وارث شاہ،یوسف زلیخا میں نے
اوائل عمری میں ہی پڑھ ڈالیں تھیں۔انٹر کے بعد دینی تعلیم کا آ غاز ہوا،وہاں پہ
موجود رائٹنگ سیل سے میری لکھنے کے جراثیم دریافت ہوئے۔تب اخبارات میں لکھنا شروع
کیا۔جنگ،نوائے وقت کے اسلامی ایڈیشن میں میرے آرٹیکل چپھتے رہے،اس کے ساتھ ساتھ
خواتین میگزین جو کہ لاہور منصورہ سے نکلتا ہے اور عدالت میگزین جو کہ گوجرانوالہ
سے شائع ہوتا ہے۔ان دونوں میں کئی سال تواتر سے لکھا۔عدالت میگزین سے بیسٹ رائٹر
ایوارڈ بھی ملا۔اسی رائٹنگ سیل کی بطور ادارت فرائض سرانجام دیتے ہوئے ایک مجلہ
بھی شائع ہوا،بعد ازاں اس کی چیف ہیڈ کے فرائض سرانجام دیئے۔پنجاب یونیورسٹی سے جب
ایم اے کیا تو مقابلہ مضمون نویسی میں میری سیکنڈ پوزیشن تھی۔لکھنے لکھانے کا شوق
تھا سو ایم اے پارٹ 2 میں تھیسز لکھا۔جس کا عنوان تھا" سورہ ملک ادبی و
تعارفی مطالعہ"تھیسز لکھنا ایک بہت مزیدار تجربہ تھا۔قرآن مجید کو اتنی
گہرائی سے پڑھنا انوکھے اسرار سے آشنا
ہوئی ،تیس آیتوں پر مشتمل سورت کو تین ابواب میں سمیٹنا دریا کو کوزے میں بند کرنا تھا۔تبھی یہ انکشاف
ہوا کہ قرآن کے ایک ایک نکتے پہ تفسیریں لکھی جا سکتیں ہیں۔تھیسز لکھتے ہوئے اصول
تحقیق سے واقفیت ملیں۔مگر یہ وہ دور تھا
جب میں اخبارات اور میگزین میں لکھنا چھوڑ چکی تھی۔ایم فل میں بھی تھیسز لکھا۔جس
کا موضوع "سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تقابل ادیان میں خدمات تھا۔جو لوگ سید
مودودی ؒ سے واقفیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ مولانا کا اسلوب تحریر کتنا
اعلیٰ و ارفع تھا۔کہا جاتا ہے کہ انیسویں صدی میں دو قلم کاروں نے ان مٹ نقوش
چھوڑے شاعری میں علامہ اقبال ؒ اور نثر میں :سید مودودیؒ ، وہ اس پائے کے تخلیق کار اور مصنف تھے کہ ان کے طرز
تحریر پہ تھیسز لکھے جا چکے ہیں۔ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔غرض سید
مودودیؒ پہ تھیسز نے میرےلکھنے کے فن کو
جلا بخشی کیونکہ مولانا خود بہت منجھے ہوئے لکھاری تھے۔جہاں
ادیان تک رسائی ہوئی وہاں سید مودودیؒ کے منہج تک بھی رسائی ہوئی اور کافی کچھ
سیکھنے کا موقع ملا۔ایم فل کے بعد دوبارہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا،ہماری
ویب اور دلیل https://daleel.pk/author/robinashaheenپہ آرٹیکل لکھے انہی دنوں
الف کتاب لاؤنج ہوا۔تو وہاں پہ پہلی بار کہانی
لکھی ،پچاس لفظوں کی کہانی میں سیکنڈ پوزیشن آنے پہ ہمت بندھی،تو باقاعدہ
اس صنف میں لکھنا شروع کیا۔مقابلہ محبت کے لیے ایک ناول لکھا جو شامل اشاعت تو نا
ہو سکا مگر اس سے کافی سیکھا بھی اور تجربات بھی کیئے۔تحریریں جو لوگوں نے پسند کی
ہیں۔ان میں سے ایک کالم تھا جو میں نے عراق امریکہ جنگ پس منظر میں لکھا تھا۔دکھ لفظوں میں کہاں کے
نام سے تھا شاید۔۔نام اسی سے ملتا جلتا
تھا۔اس کے بارے میں ایڈیٹرعدالت میگزین نے
کہا تھا کہ اس جیسا کالم کوئی لکھ نہیں سکتا۔پھر سن 2000ء میں جہیز پر ایک افسانہ
لکھا تھا جو خواتین میگزین میں شائع ہوا ،اس پرآزاد کشمیر کوٹلی سے ایک خط آیا
تھا۔ابھی ایک سائنس فکشن پہ کہانی لکھی
"کیا انسان ایلین ہے؟جسے پڑھ کر ایکسپریس کے ایک سینئر نے اپنی بلاگ میں پبلش
کرنے کی اجازت مانگی۔میرا نکتہ کے نام سے
اپنا بلاگ بھی ہے۔جس کے قارئین کی تعداد پینتیس ہزار سے تجاز کر چکی ہیں۔الف کتاب
پہ ایک افسانہ "رعنا کی چھتری "مشہور ہوا اور پہلی بار کسی افسانے کی پے
منٹ بھی ملی۔ایک اور تجربہ جو سن 2013 سے 2015 کے دوران ہوا،وہ قاسم علی شاہ کے
ساتھ کام ہے۔ہوا کچھ یوں کہ میں نے ان کا ایک لیکچر سنا" نائن انٹیلی جینس
تھیوری" پہ جسے میں نے من و عن لکھ کر ہماری ویب پر بھیج دیا،اسے ایک دن میں
پانچ ہزار لوگوں نے مطالعہ کیا اور اس پر بہت اچھا فیڈ ملا۔میں نے اس کا لنک شاہ
صاحب کو بھیج دیا،انہوں نے کہا کہ آپ فوری طور پر مجھ سے رابط کریں اور یوں انکی
دو عدد کتب "بڑی منزل کا
مسافر"اور "اونچی اڑان"پہ کام کا موقع ملا۔تب سے امید بندھی کہ میں
بھی کتاب رائٹر ہو سکتی ہوں۔میری دو کتب تیاری کے مراحل میں ہیں جو اس سال کے
احتتام تک مکمل ہو جائیں گی ۔انشاء اللہ ،قاسم
علی شاہ کے میری تحریر پہ کمنٹ میرے لیے
بہت اہم اور قیمتی ہیں جو ہمیشہ مجھے لکھنے پہ مائل کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ آپ
کی تحریر میں روانگی ،سلاست ہے۔
سوال:ایک لکھاری کا معاشرے میں
کیا کردار ہونا چاہیئے؟
نہی عن المنر وامر بالمعروف بحثیت مسلمان ہم سب کا اولین
فریضہ ہے۔حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ برائی کو دیکھو تو اسے ہاتھ سے مٹا دو اگر اس
کی بھی ہمت نہیں تو زبان سے ،اور اس کی
بھی نہیں تو کم ازکم دل سے ہی برا جانو،اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ہاتھ
سے مٹانے میں میری ناقص رائے کے مطابق لکھنا بھی آتا ہے۔ہم رائٹر ہاتھ
مطلب قلم کی طاقت سے یہ فریضہ بخوبی و احسن سرانجام دے سکتے ہیں۔قلم کار کو
کبھی بھی اپنے اصولوں پہ سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیئے۔اسے ہمیشہ حق کا علم بردار ہو
نا چاہیے۔
سوال :اپنے لکھے کسی ایک کردار کا
تعارف کروائیں جو آپ کے دل کے قریب ہے اور کیوں؟
کیا انسان ایلین ہے میں پروفیسر کا کردار جو سائنس دان
ہے۔انوکھی تحقیق کا شوق اسے انسان سے ہوتا ہوا جانوروں تک لے جاتا ہے۔پھر اس پر
انوکھا انکشاف ہوتا ہے کہ انسان اس کر ہ ارضی پر واحد مخلوق ہے جو دو پاؤں پر چلتا ہے۔اس کی ساخت،عادات اور تاریخ بتاتی ہے کہ وہ باقی مخلوق سے الگ
تھلگ ہے۔نیز یہ کہ اسے بعض اوقات بغیر کسی وجہ کے اداسی کا دورہ پڑتا ہے جو اس بات
کا گواہ ہے کہ انسان کو کسی ایسی منزل کی
تلاش ہے جو اس سے چھن چکی ہے۔۔یہ تحقیق بالآخر قرآن جیسی ام لکتاب پر جا کے احتتام
پذیر ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انسان
زمین پر رہنے سے پہلے جنت میں رہائش پزیر تھا پھر کسی گناہ کی پاداش میں
اسے زمین پر اتارا گیا۔۔۔یہ تحقیق اس کے چودہ طبق روشن کر دیتی ہے۔یوں وہ قرآن سے
متاثر ہو کر ایک نئی تحقیق کا آغاز کرتا ہے۔
میں ریسرچ کی سٹوڈنٹ ہوں ،اس لئے ریسرچ کو موضوع بنایا جو
بیک وقت سائنس اور قرآن کا موضوع ہے۔اپنی انفرادیت کی وجہ سےیہ کہانی بہت پسند ہے۔اس کے علاوہ ایک
2000ء میں کالم لکھا تھا "مغربی جمہوریت بالمقابل اسلامی جمہوریت"یہ
کالم بھی مجھے بہت پسند ہے۔حالانکہ وہ میری ابتدائی تحریروں میں سے ہے لیکن اپنے
موضوع کی اہمیت کے اعتبار سے مجھے بہت
پسند ہے آج بھی۔یہ واحد فیچر تھا جس کے لئے میں نے بہت مطالعہ کیا۔جہاں تک اس
تحریر کے تعارف کی بات ہے۔اس میں جمہوریت
کو موضوع بنایا گیا ہے۔مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں ایک شق ایسی ہے جو مشترک ہے وہ ہے مشورے سے
حکومت بنانا،جبکہ باقی ساری شقیں خلاف اسلام ہے۔جیسا کہ الیکشن کے لئے اپلائی کرنا،نبی کریم ﷺ کی
حدیث ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو حکومت نہیں دیتے جو اس کے خواہش مند ہوں۔نمبر دو
پارٹی بنانا،اسلام میں دو ہی پارٹیاں ہیں
ایک مسلمان اور دوسری کافر،اس کے علاوہ
کوئی پارٹی نہیں۔اسلام میں ان پڑھ اور پڑھے لکھے بندے کی رائے میں فرق ہے۔ان دونوں
کی رائے ایک جیسی شمار نہیں کی جائے گی۔مثلا قرآن کہتا ہے کہ اندھیرا اور روشنی
برابر نہیں ہو سکتے،ان پڑھ اور پڑھے لکھے بھی برابر نہیں تو سب انسانوں کے ووٹ کی
قیمت ایک کیوں؟
سوال:آپ بطور لکھاری آنے والے
سالوں میں خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟
انشاء اللہ اسی سال کے اینڈ پر میری دو عدد کتب آ جائے
گی،اس کے علاوہ ادب کی مزید صنفوں ناولٹ اور ناول لکھنے تک رسائی حاصل کرناچاہوں
گی۔آگے جو اللہ کو منظور
سوال:ادب کے میدان میں جو لوگ نئے
ہیں ان میں سے کس سے متاثر ہیں؟
مطیہ جان،گل ارباب اور مبشرہ ناز بطور خاص پسند ہیں اس کے
علاوہ بہت سے رائٹر بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔
سوال:نئے لکھنے والوں کے لیے کوئی
پیغام؟
خود کو دریافت کریں کیا
آپ لکھاری بننے کے لیے پیدا ہوئیں ہیں؟اگر جواب ہاں میں آئے تو جت جائیں۔پیسے کے
پیھے مت بھاگے،مقصد کو لے کر چلیں۔اپنے قلم کو ہتھیار بنائیں مگر مثبت سوچ کے فروغ کے لئے،اپنی راہ اور اپنا
انداز لے کر چلیں،نقال مت بنیں اور رہی
بات مطالعہ کی تو سب کچھ پڑھ کے بھی بے کار اور بے فائدہ ہے اگر آپ نے قرآن جیسی
حکمت کی کتاب کو سمجھ کر نہ پڑھا تو آپ کے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔مجھے ان لوگوں
پہ بڑی حیرت ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ دیکھی دیکھی دین کو موضوع بنانے کا رواج چل
نکلا ہے۔بھئی یہ تو ہماری بنیاد ہے۔شناخت ہے اس کو چھوڑ دیں گے تو کہیں کے نہیں
رہیں گے۔بقول اقبالؒ
وہ زمانے میں معزز
تھے مسلماں ہو کر اور تم
خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں