پرشین فالٹ
کالم
نگار:روبینہ شاہین
ایران میں قالین بانی
کی صنعت آج سے کئی سو سال پہلے بھی اتنے
عروج پہ تھی کہ اگر قالین پہ تالاب کاڑھ دیا جاتا تو اس پر چلنے والا بے اختیار
اپنے گھنٹنوں سے شلوار اوپر کر لیتا کہ کہیں پانی میں ڈوب نہ جائے۔۔۔۔وہاں کے کاریگروں
نے جب اس فن کو اتنا مکمل اور پرفیکٹ
دیکھا تو انھوں نے سوچا کہ یہ ٹھیک بات نہیں۔۔۔پرفیکشن کے لائق تو صرف رب کی ذات ہے۔۔۔اس کے بعد انھوں نے قالین کے
ایک کونے پر چھید لگانا شروع کر دیا جسے پرشین فالٹ کا نام دیا گیا۔یہ ایک سوچ
نہیں ایک فلسفہ ہے۔جو باقاعدہ ایک اصطلاح بن گئی۔پرشین فالٹ کی یہ اصطلاع عیاں کرتی ہے
کہ
پرفیکٹ صرف اللہ کی
ذات ہے۔باقی سب خام ہے۔المیہ یہ ہے کہ موجودہ دور کا انسان پرفیکشن کی تلاش میں
نکل کھڑا ہوا ہے۔جو کہ ایک لاحاصل شے ہے۔انسان
سوجھ بوجھ والی مخلوق ہے۔اگر وہ یہ علم رکھتے
ہوئے بھی کہ کمال صرف اللہ کی ذات کوہے اس کی تگ ودو کرتا ہے تو اسے ذہنی
مریض ہی کہا جا سکتا ہے۔
انسان کے لئے پرفیکٹ کا میدان اگر ہے بھی تو دنیاوی چیزوں کے حصول اور عیش و عشرت میں نہیں
بلکہ ایمان میں ہے۔یقین میں ہے۔رب کی ذات پہ ایمان اور یقین وہ الوہی جذبہ ہے جو
اپنے اندر جتنا خوبصورت ہے اتنا بامکمل بھی ہے۔۔انسان کا کمال اسی میں ہے کہ اسے
پرشین فالٹ کے ساتھ پیدا کیا گیا۔ورنہ تو فرشتے انسان سے زیادہ مکمل تھے۔مگر اللہ نے اس کے باوجود بھی کسی
ایسی مخلوق کی ضرورت محسوس کی جو نیکی بھی کرے اور گناہ بھی ،جو توبہ کے اسلوب سے بھی آگاہ ہو اور رنددرگاہ ہونے کا
حوصلہ بھی رکھے،جو اپنے اندر آگ اور
پانی،خیر اور شر،اندھیرا اور روشنی کے
متضاد عناصر کا جزو ہو۔جو سب صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہوئے بھی اپنی ایک چھوٹی سی خامی کے لئے اللہ کے سامنے
بے بس ہو،اس کے سامنے روئے گڑ گڑائے۔۔۔کیونکہ وہ پرفیکٹ نہیں۔وہ انسان ہے۔
چیزوں میں پرفیکشن ڈھونڈنے والے ڈوب جایا کرتے ہیں،سرابوں
میں کھو جاتے ہیں،جو قومیں پرفیکشن کے پیچے بھاگیں ،انہوں نے اس کا کچھ حصہ پابھی
لیا مگر بے سکون ہو گئے۔۔۔۔کیونکہ ان کے پاس مقصد نہیں تھا۔غم کے بعد خوشی کی تلاش
انسان کو مصروف بنا دیتی ہے مگر خوشی اور خوش حالی آ جائے اور پھر برقرار بھی رہے
تو انسان بور ہو جاتا ہے ۔یہی ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ہوا ،ترقی کے بعد وہ لوگ
خود کشیوں پہ اتر آئے۔۔۔پرفیکشن انھیں لے ڈوبی،ان کے گلے کی ہڈی بن گئی جسے نا
نگلا جا سکتا اور نہ اگلا جا سکتا۔۔۔۔۔
چیزیں پرفیکٹ نہیں
ہوتیں،ایمان پرفیکٹ ہوا کرتا ہے۔انسان کو لائف
بنانے نہیں ایمان کی تکمیل کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔پرفیکشن اگر تلاشنی ہی
ہے تو اپنے من میں اترو،کھوج لگاؤ،یہ کہیں اور نہیں تمہارے اندر ہے۔ساری دنیا مل
کر پوری دنیا کا کوڑا صاف نہیں کر سکتی مگر ایک انسان اکیلا اپنا دل صاف کر سکتاہے۔پرفیکشن کا اگر
حصول ہے بھی تو اس دنیا میں نہیں،صرف اس
دنیا میں جو آنکھوں کے اس پار ہے۔زندگی جس کا احتتام ہے جس کے لئے مرنا پڑتا ہے۔جو
موت کے بعد شروع ہوگی اور جسے کبھی احتتام نہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں