ذوالہجہ کے دس دنوں کی فضیلت اور کرنے کے کام
''قسم
ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔''
امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اس کی تفسیر
کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں ۔
'' ا ن
معلوم دِنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں ۔''
ابن عباسؓ کا قول ہے: ''أیام معلومات سے
ذوالحجہ کے دس دن مراد ہیں ۔''
امام بخاری رحمة اللہ علیہ رحمة اللہ علیہ
اپنی صحیح میں ابن عباسؓ سے روایت لائے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:
(ما
العمل في أیام أفضل من ھذہ) قالوا: ولا الجهاد؟ قال: (ولا الجهاد إلا رجل خرج
یخاطر بنفسه وماله فلم یرجع بشيء) 2
''(ذوالحجہ)
کے دِنوں میں کئے گئے اعمال سے کوئی عمل افضل نہیں ۔صحابہؓ نے عرض کی: جہادبھی
نہیں ؟ آپؐ نے فرمایا: جہاد بھی نہیں ، مگر وہ شخص جواپنی جان اور مال لے کر اللہ
کے رستے میں نکلا اور کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹا۔''
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
(ما من أیام أعظم عند اﷲ ولا أحب
إلیه العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر فأکثروا فیھن من التھلیل والتکبیر والتحمید(i)) 3
''اللہ
سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں سے زیادہ کوئی دن برتر نہیں اور نہ ہی ان
ایام میں کئے گئے اعمال سے کوئی عمل زیادہ پسندیدہ ہے۔ پس ان دنوں میں کثرت کے
ساتھ اللہ کی تہلیل،کبریائی اور تعریف کرو۔''
سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ کے متعلق آتا ہے کہ جب ذوالحجہ کے دس
دن شروع ہوتے تو آپ رحمة اللہ علیہ اعمال میں اپنی طاقت سے بڑھ کر محنت کرتے اور
آپ رحمة اللہ علیہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ ''اس عشرے کی راتوں میں اپنے چراغوں کو
بجھنے نہ دو۔'' (یعنی قراء ت اور قیام کا اہتمام کرو)
ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
والذي یظھر أن السبب في امتیاز عشر ذي الحجة لمکان اجتماع أمھات
العبادة فیه،وھي الصلاة والصیام والصدقة والحج،ولا یتأتي ذلي في غیرہ 4
' 'عشرئہ
ذوالحجہ کی برتری کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نماز، روزہ، زکوٰة اور حج
جیسی اساسی عبادات جمع ہوچکی ہیں جبکہ دوسرے دنوں میں ایسا نہیں ۔''
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ سے
پوچھا گیا کہ ذوالحجہ کے دس دن افضل ہیں یا رمضان المبارک کے آخری دس دن؟ تو آپ
رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا:''
ذوالحجہ کے دس دن رمضان المبارک کے
آخری دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری دنوں کی راتیں ذوالحجہ کے عشرہ کی
راتوں سے افضل ہیں ۔'' 5
مسلمان بھائیو ! اپنے وقت کو کارآمد بنانے
اور قیمتی گھڑیوں کے فوائد سمیٹنے میں جلدی کیجئے تاکہ آپ کی باقی ماندہ عمر
کامول پڑ جائے اور اللہ سے آئندہ وقت ضائع کرنے کی معافی مانگئے،بلاشبہ ان مبارک
ایام میں نیک اعمال کی چاہت میں رہنا بھلائی کی طرف پیش رفت ہے اور تقویٰ پردلالت
کرتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ
شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ ﴿٣٢﴾...سورة الحج
جو اللہ کی نشانیوں کی عزت و تکریم کرے تو یہ اس کے دلی تقویٰ کی وجہ
سے ہے۔''
اِن ایام میں مستحب افعال
ایک مسلمان کو یہی زیبا ہے کہ وہ اس عام
بھلائی کے موسموں کا سچی توبہ کے ساتھ استقبال اور خیرمقدم کرے۔کیونکہ دنیاو آخرت
میں اگر کوئی خیر سے محروم ہوتا ہے تو صرف اپنے گناہوں کی وجہ سے۔ اللہ تعالیٰ کا
ارشاد ہے:
وَمَآ أَصَـٰبَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ
وَيَعْفُوا عَن كَثِيرٍۢ ﴿٣٠﴾...سورة الشوری
''تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی
کمائی کابدلہ ہے، وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرمالیتاـہے۔ ''
گناہ دِلوں پرقدیم اثرات چھوڑ جاتے ہیں ۔ جس
طرح زہرجسموں کو نقصان پہنچاتا ہے اور جسم سے ان کانکالنا ضروری ہوجاتا ہے بعینہٖ
گناہ بھی دلوں پر مکمل طور پر اثر چھوڑتے ہیں ، اسی طرح سیاہ کاریاں الگ کھیتی
اُگا دیتی ہیں اورگناہوں کی دوسری آلائشوں کو بھی دعوت دیتی ہیں ، جس سے ان کی
نمو ہوتی رہتی ہے حتیٰ کہ ان آلائشوں کو انسان کے لئے دلوں سے نکالنا یا علیحدہ
کرنا انتہائی دشوار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا مسلمانو!سچی توبہ کرتے ہوئے،سیاہ کاریوں
اورگناہوں سے دامن بچاتے ہوئے اللہ سے بہ اصرا ربخشش طلبی کے ساتھ ان ایام کا
استقبال کیجئے اور اللہ عزوجل کے ذکر پر ہمیشگی اختیار کرلیں ۔ ہم میں سے کوئی
نہیں جانتا کہ اچانک کب اس کو موت کا بلاوا آجائے اور وہ اس دنیاے فانی سے کوچ
کرجائے۔ اَب ہم ان چند نیک اعمال کا ذکر کرتے ہیں :
عام نیک اعمال کثرت کے ساتھ بجا لانا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ما من أیام أعظم عند اﷲ ولا أحب إلیه
العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر۔۔۔)6
اور وہ نیک اعمال جن کے بارے میں عام طور پر
لوگ غفلت کاشکار رہتے ہیں ،ان میں قرآن کی تلاوت، بہت زیادہ صدقہ کرنا، مساکین پر
خرچ کرنا، أمربالمعروف ونھی عن المنکر پر عمل کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔
نماز
فرائض کی طرف جلدی کرنا، پہلی صف کے لئے سعی
کرناپسندیدہ اعمال ہیں ۔ اسی طرح نوافل زیادہ سے زیادہ ادا کئے جائیں ، کیونکہ
اللہ کے قرب کے لئے کئے جانے والے اعمال میں یہ سب سے افضل عمل ہے۔ ثوبانؓ کا بیان
ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
(علیك
بکثرة السجود ﷲ فإنك لا تسجد ﷲ سجدة إلارفعك اﷲ بھا درجة، وحط عنك بھا خطیئة) 7
''اللہ
کے آگے کثرت سے سجدہ ریز ہوا کر، اللہ کے آگے تیرے ایک سجدہ کرنے سے اللہ تیرا ایک
درجہ بلندکردے گا اور تیری ایک خطا کو مٹا دے گا۔''
نمازکے لئے مکروہ اوقات کے علاوہ یہ نیک عمل
ہروقت کیا جاسکتا ہے۔
روزے
''آپ
صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحجہ کے نوروزےii، دس محرم اور ہرمہینے کے تین دن (ایامِ بیض) کے روزے رکھتے تھے۔''
حضرت حفصہؓ فرماتی ہیں :
(أربع
لم یکن یدعھن رسول اﷲ ﷺ: صیام
عاشوراء، والعشر، وثلاثة أیام من کل شھر، والرکعتین قبل الغداة)
''رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار کام نہیں چھوڑتے تھے، عاشورا کا روزہ، عشرہ ذوالحجہiii کے روزے، اور ہر مہینے کے تین دن (ایام بیض)کے روزے اور فجر کی
دو سنتیں ۔''9
اور آپؐ کا فرمان ہے: (ما من
عبد یصوم یوما في سبیل اﷲ إلا باعد اﷲ بذلك الیوم وجھه عن النار سبعین خریفا)
''جو
آدمی اللہ کے رستے میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے، اللہ اس کے اور جہنم کے درمیان
ستر سال کی دوری ڈال دیتے ہیں ۔''10
عرفہ کے دن کا روزہ: آپؐ نے فرمایا: (صیام یوم عرفة أحتسب علی اﷲ أن یکفر السنة
التي قبله والتي بعدہ)11
''عرفہ
کے دن کاروزہ رکھنا،مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک سال قبل اور ایک سال بعد
کے گناہوں کا کفارہ بنا دے۔''
حج و عمرہ کی ادائیگی
نبیؐ کا فرمان ہے:(والحج
المبرور لیس لہ جزاء إلا الجنة)
''حج
مبرور کی جزا تو صرف جنت ہے۔'' 12
''جس
شخص نے اللہ کے گھرکا حج کیا اور بے ہودگی و فسق سے بچا رہا تو اس حالت میں لوٹے
گا جیسے آج ہی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو۔''
تکبیر، تہلیل اورتحمید
ابن عمرؓ کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اِن
دِنوں میں کثرت کے ساتھ تہلیل، تکبیر اور تحمید کیا کرو۔'' iv
امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے کہ
''کان ابن عمر وأبوھریرة یخرجان إلی السوق
في أیام العشر یکبِّران ویکبر الناس بتکبیرھما''
''حضرت
عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں بازار
میں نکل جاتے اور تکبیریں بلند کرتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیریں کہنے میں مل
جاتے۔'' 14
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں
:
''وکان
عمر یکبر في قبته بمنی فیسمعه أھل المسجد فیکبرون ویکبر أھل الأسواق حتی ترتجَّ
منٰی تکبیرا''
''حضرت
عمرؓ منیٰ میں اپنے خیمہ میں تکبیریں بلند کرتے جسے مسجد کے لوگ سنتے اور تکبیریں
کہتے اور بازار والے بھی تکبیریں کہناشروع کردیتے حتیٰ کہ منیٰ تکبیروں سے گونج
اٹھتا۔''15
ابن عمرؓ اِن دِنوں میں منیٰ میں تکبیریں
کہتے اور ان کی تکبیریں کہنے کا یہ سلسلہ نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں ، مجلس
میں اور چلتے پھرتے، سارے دِنوں میں جاری رہتا۔ مردوں کے لئے اونچی آواز میں
تکبیریں کہنا مستحب ہے، جیساکہ حضرت عمرؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور ابوہریرہ ؓسے ثابت
ہے جبکہ عورتیں یہ تکبیرات پست آواز میں کہیں ۔ اُمّ عطیہ فرماتی ہیں :
'' حتیٰ
کہ ہم حیض والیوں کو بھی عیدگاہ کی طرف نکالیں اور وہ لوگوں کے پیچھے رہیں ان کی
تکبیروں کے ساتھ تکبیریں کہیں اور ان کی دعاؤں کے ساتھ دعائیں کریں ۔''
ہم مسلمان ہیں اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم
ایسی سنت جو اَب متروک ہوتی جا رہی ہے کا احیا کریں ، وگرنہ قریب ہے کہ یہ سنت جس
پرسلف صالحین کاربند تھے، اہل خیر و اصلاح کو بھی بھلا دی جائے۔
عیدالاضحی کے احکام (یومِ عید کے احکام)
مسلمان بھائی! اللہ عزوجل کا شکر ادا کریں جس
نے آپ کو یہ عظیم دن نصیب فرمایا اور آپ کی عمر دراز کی کہ آپ پے در پے ان دنوں
اور مہینوں کو دیکھ لیں اور ان ماہ وایام میں ایسے اعمال، اقوال اور افعال کی
نشاندہی فرما دی جو آپ کو اللہ کے قریب کرنے کا وسیلہ ہیں ۔عید اُمت ِمحمدیہ کا
خاصہ، دین کی علامت اور اسلامی شعار ہے۔ اب اس کی حفاظت اور تعظیم ہم پرلازم ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
'' جو
اللہ کی نشانیوں کی عزت و تکریم کرے تو یہ اس کے دلی تقویٰ کی وجہ سے ہے۔''
عید کے دن میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا
جائے:
اور عید کی نماز تو عظیم نیکیوں میں
سے ہے۔لہذا اس کا بھر پور احترام اور خیال
رکھا جائے۔
امام بخاری رحمة اللہ علیه باب التبکیر للعید(عید
کی نماز کے لئے جلدی کرنے کا بیان) کے تحت حضرت براء بن عازبؓ کی یہ حدیث لائے ہیں
:
نحرکے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں
خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
''اس
دن میں ہمارا سب سے پہلا کام عید کی نماز ادا کرنا ہے۔''
حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ اس حدیث کی شرح
میں فرماتے ہیں
:
''اس
سے پتہ چلتا ہے کہ عید کے دن سواے عید کی نماز کی تیاری کے کسی کام میں مشغول ہونا
مناسب نہیں اور یہ ضروری ہے کہ نمازِ عید سے پہلے اس کے علاوہ کچھ نہ کیا جائے۔ یہ
امر عید گاہ کی طرف جلدی نکلنے کا تقاضا کرتا ہے۔''21
تکبیر کہنا
تکبیر مقید vi مشروع ہے جو کہ فرض نمازوں کے بعد کہی جاتی ہیں اور اس کا وقت
یومِ عرفہ کے دن فجر کے بعد سے لے کر ایامِ تشریق کی آخری یعنی تیرہویں ذی الحجہ
کی عصر کی نماز تک تکبیرات کہی جائیں ، جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
''اور
اللہ کو ان چند گنتی کے دِنوں (ایامِ تشریق) میں یاد کرو۔''
قربانی کے جانور کوذبح کرنا
عید کی نماز کے بعد قربانی کے جانور کوذبح
کیا جاتا ہے۔ نبیؐ نے فرمایا:
(من ذبح قبل أن یصلي فلیعد مکانھا أخری ومن لم یذبح فلیذبح)
''جس
شخص نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کا جانورذبح کیا تو وہ اس کی جگہ پر عید کے بعد
ایک اور جانور ذبح کرے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہیں کیا وہ بعد میں ذبح کرے۔''22
قربانی کا جانور ذبح کرنے کے چار دن
ہیں جن میں ١٠ ذوالحجہ اور ایام تشریق کے تین دن ہیں جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل أیام التشریق ذبح
عید کے دن نئے کپڑے ، خوشبو اور غسل
مردوں کے لئے عید کے دن یہ ہے کہ وہ
غسل کریں ، خوشبو لگائیں اور اِسراف سے بچتے ہوئے عمدہ لباس پہنیں ، کپڑے کو ٹخنوں
سے نیچے نہ لٹکائیں اورداڑھی مونڈنے جیسے حرام کام کا ارتکاب ہرگز نہ کریں ۔
عورتوں کو نمائشی بناؤ سنگھار کرنے اور خوشبو لگائے بغیر عیدگاہ کی طرف نکلنا
چاہئے۔ مسلمان عورتوں کیلئے مناسب یہی ہے کہ وہ نماز وغیرہ کیلئے نکلیں تو اللہ کی
نافرمانی سے بچتے ہوئے غیر محرم مردوں کے سامنے بناؤ سنگھار کی نمائش، بے پردگی
اور خوشبو لگانے سے مکمل اجتناب کریں ۔
عیدگاہ کی طرف پیدل جانا اور جاے نماز
عیدگاہ کی طرف ممکن ہو تو پیدل جانا چاہئے
اور یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔عید کی نماز کھلی جگہ پر پڑھنا آپ ؐ سے
ثابت ہے لیکن بارش وغیرہ کی وجہ سے مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ نماز ادا کرنا اور خطبہ میں شمولیت
علماے محققین کے نزدیک عید کی نماز پڑھنا
واجب ہے۔امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے، فرماتے ہیں :
اور یہ وجوب بغیر شرعی عذر کے ساقط
نہیں ہوتا۔ حیض والیوں اور نوعمر لڑکیوں سمیت تمام عورتوں پر واجب ہے کہ وہ
مسلمانوں کے ساتھ عید گاہ میں حاضر ہوں اور حیض والی عورتیں عیدگاہ میں علیحدہ
رہیں ۔
راستہ بدلنا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق
عیدگاہ میں آتے جاتے راستہ بدلنا سنت ہے۔ 24
عید کی مبارک باد دینا
نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا
حضرت بریدہؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم عید الفطر کے دن نماز کے لئے کچھ کھا کر جاتے جبکہ عید الاضحی میں نماز کے
بعد کچھ کھاتے۔26
ان مقدس ایام میں سرزد ہونے والے غیر مشروع
کاموں سے اجتناب کیجئے۔ ان میں سے چند ایک کا ہم اختصار سے ذکر کرتے ہیں :
تکبیرات کو سب لوگوں کا ایک ہی آواز میں
اکٹھے پڑھنا یا کسی ایک شخص کے تکبیر کہنے پر سب کا بیک زبان ہوکر تکبیرات پڑھنا۔
حرام کردہ چیزوں سے اس دن دل بہلانا، مثلاً
گانا وغیرہ سننا، فلمیں دیکھنا، غیر محرم مردوزن کا آپس میں اختلاط اور اس کے
علاوہ دیگرمنکرات کا ارتکاب۔
ان ایام میں قربانی کرنے والے کا بال اور
ناخن کٹوانا جبکہ آپؐ نے ان دنوں میں اس عمل سے منع فرمایا ہے۔
بلا مصلحت اور بے فائدہ اسراف و تبذیر کرنا
اور یہ اسراف وتبذیر خواہ وہ کپڑوں میں ہو یا کھانے اور پینے میں ہر حال میں حرام
ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِسراف نہ کرو بے شک وہ اسراف کرنے
والوں کو پسند نہیں کرتا۔''
عید کی شب بیداری کے مشروع ہونے کا
عقیدہ رکھنا اوراس کی فضیلت میں غیر مستند روایات نقل کرنا۔
زیارتِ قبور اور مردوں کو سلام بھیجنے
وغیرہ کے لئے عید کے دن کو شرعاً مخصوص سمجھنا۔
عید کے دن روزہ رکھنا، حالانکہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے دن اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے
منع فرمایا ہے۔27
ان ایام میں ہر مسلمان کو خاص طور پر نیکی
اور خیر کے کاموں کی کوشش کرنا چاہیے اور وہ نیک اعمال: صلہ رحمی کرنا، عزیز و
اقارب سے میل جول رکھنا، بغض ، حسد اور ناگواری سے اپنے دل کو پاک رکھنا، مسکینوں
، یتیموں اور فقراء پر مہربانی کرنا اور ان کے ساتھ تعاون کرکے اُنہیں آسودگی
پہنچانا وغیرہ ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں