کتاب کا مطالعہ کیسے کریں؟


سیکھنے کا عمل صرف کلاس میں نہیں ہوتا  بلکہ آپ کو ساتھ ساتھ کچھ اسلامی کتابیں بھی پڑھنی چاہیے۔reading  کے موضوع پر آج آپ سے بات کروں گی،آپ یہ بتائیں کہ معلومات حاصل کرنے کے کون کون سے زرائع ہیں؟سیکھنے کا عمل کس کس چیز سے متعلق ہے۔یا کیا کیا چیزیں اس میں مددگار ثابت ہو سکتیں ہیں۔آپ کن کن چیزوں سے سیکھتے ہیں؟استاد،ماحول،دوست احباب ،معاشرہ ،میڈیا اور سوشل میڈیا  اور قدرت یعنی نیچر اور غوروفکریہ سب وہ زرائع ہیں جن سے ہمیں معلومات حاصل ہوتیں ہیں۔اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نشانیاں جو تفریح کائنات کی شکل میں  آپ کے اردگرد پھیلی ہوئیں ہیں۔ ان سب چیزوں سے انسان سیکھتا ہے۔جب انسان قرآن پڑھتا ہے تو ان سب باقی چیزوں سے اس کا تعلق رہنا بہت ضروری ہے۔کیونکہ قرآن ان تمام چیزوں کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔پھر آپ کی دیگر معلومات  اور وحی الہی کا جو پتہ چل رہا ہے اس میں  آپ  comparison  کو کرنا ہے۔اچھے اور غلط کی پہچان کرنی ہے۔ایک طرف آپ کے دیگر زرائع ہیں اور دوسری طرف قرآن ہے۔لہذا ہم اپنے اس پروگرام میں کچھ تو  ویڈیوز دکھائی جائیں گی،کچھ آپ سبق اپنا یاد کر کے آئیں،سنائیں گے پھر تشریح ہو گی۔استاد اور طالب علم کے درمیان،شاگرد اور گھر کے ماحول کے درمیان اور پھر معاشرے کے درمیان انٹرایکشن ہوگا۔ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے کہ سب سے کٹ کر صرف دین پہ فوکس کر دیں۔اور ہمیں یہ معلوم نا ہو کہ باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ملٹی میڈیا اور جدید گیجٹ کے زریعے آپ کو تعلیم دی جائے گی،کچھ کام آپ گھر پہ کریں گے اور کچھ کام آپ چھٹیوں میں کریں گے۔اس کے لیے ہم نے یہ سوچا ہے۔کہ مختلف اوقات میں  جو آپ کی چھٹیاں ہوں گیں حتیٰ کہ جو آپ کی ریگولر ویک اینڈ چھٹیاں ہیں  ان پہ بھی آپ کوئی ایسی ایکٹیویٹی کریں  ایسا کام کریں جو آپ کو قرآن پاک سیکھنے میں مددگار ثابت ہو،اور آپ کے پنا ذہن کو خود کام کرنے کا موقع ملے۔آپ کو اپنی مہارتیں استعمال کرنے کا موقع ملے۔آپ کو اپنی صلاحیتیں نکھارنے کا موقع ملے۔مثلا جب آپ کلاس روم میں ہوتے ہیں  تو آپ باؤنڈ ہوتے ہیں  صرف وہی سن سکتے جو آپ کو سنایا جا رہا ہوتا ہے۔وہی پڑھ سکتے جو آپ کو پڑھایا جا رہا ہوتا ہے۔وہی کر سکتے جو آپ کو کروایا جا رہا ہوتا ہے۔اس کی اپنی جگہ ایک ضرورت ہے۔لیکن یہ علم جو آپ یہاں سے حاصل کرتے ہیں اس کو اگر کہیں اپلائی نہیں کرتے یا اس کو آپ پرکھتے نہیں یا آپ اس کو چیک نہیں کرتےتو پھر آپ کا ذہن بند ہونے لگے گا۔ہم نہیں چاہتے کہ آپ بند ذہین کے ساتھ دباؤ میں سیکھیں۔اور پھر اسی روش پہ چل نکلیں۔آپ سیکھیں پھر اس کو anylase کریں۔دیکھیں کہ جو ہمیں بتایا جا رہا ہے وہ درست بھی ہے کہ نہیں۔اور جب آپ کو یقین آ جائے کہ یہ درست ہے  جو اللہ کی کتاب کہتی ہے۔پھر اس پر اسطرح جم جائیں کہ پوری دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے  لیکن آپ نا ہوں۔ کیونکہ آپ کا یقین اور ایمان اتنا پختہ ہو چکا ہے۔کہ بڑے بڑے پہاڑ تو ٹل جائیں مگر آپ نہیں۔اور یہ یقین صرف کلاس روم کی ایکٹیویٹی سے نہیں آیا کرتا جب تک  اس کتاب میں آؤٹ ڈور ایکٹیویٹی شامل نہیں ہوتی۔تو ہم آپ کو وقتا فوقتا کچھ کتابوں کے پڑھنے کا کام دیں گے۔جو آپ کے کورس کا حصہ ہیں،کچھ کتابیں ڈائریکٹ قرآن وسنت کی تفسیر ہوں گی،کچھ کتابیں ان ڈائریکٹلی اچھی سوچ پیدا کرنے والی ہوں گی۔شاید اس میں براہ راست آیات اور احادیث شامل نہ کی گئی ہوں۔اسی طرح کچھ ایسی کتابیں بھی ہو سکتیں ہیں جن میں براہ راست دین کا نام نا لیا گیا ہو،ہو سکتا کچھ ایسی کتابیں بھی پڑھنی پڑھ جائے جو دین کے الٹ ہوں،اس کا مقصد کیا ہے؟اس کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ لوگ سوچتے کس طرح سے ہیں؟اس سے آپ کا ذہن  کھلے گا۔اور ایسے لوگوں کی خیرخواہی ہم نے کیسے کرنی ہے؟چیزیں اپنے الٹ سے پہچانیں جاتیں ہیں۔

روشنی کے ساتھ جب تک اندھیرے کا تصور نہیں ہوگا،روشنی کا تصور واضح نہیں ہوگا۔روشنی کی قدر جبھی ہوگی جب اندھیرے کا پتہ ہوگا۔جہاں تک  ریڈنگ کی بات ہے  readers are leaders .وہی دوسروں کو گائیڈ کر سکتے ہیں جو خود پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔اگر آپ خود نہیں پڑھتے تو آپ کسی کو کچھ نہیں بتا سکتے۔کتاب کے ساتھ آپ نے کیا کرنا ہے۔۔سب سے پہلے اپنا نام  اور رول نمبر ضرور لکھنا ہے۔ایسا ناہو کہ آپ کتا ب کہیں رکھیں اور کوئی دوسرا اسے اٹھا لے۔۔اگر نام لکھا ہوگا تو واپس آپ تک پہنچ جائے گی۔کتاب لینے کے بعد اس کو سرسری طور پر پڑھیں گے ۔پھر اس کے بعد ٹائیٹل کو غور سے پڑھیں گے۔۔۔لکھا کس نے ہے؟رائٹر کانام پڑھیں گے۔ پھر آپ یہ دیکھیں گے کہ موضوعات کی فہرست کیا ہے؟اس سے کیا ہوگا کہ آپ کو اندازہ ہو جائے گا  کہ کتاب کس چیز کے متعلق ہے؟اگر ایک سیکنڈ میں یہ تین کام کر لیں تو کافی ہیں۔اس کے بعد اس کے صفحوں کی تعداد دیکھیں گے کتنی ہے؟اور آپ کے پاس دن کتنے ہیں؟اس کے مطابق ان کو تقسیم دے لیں ،اگر چار دن ہیں تو چار حصوں میں کتاب تقسیم کر لیں۔اگر ہو سکے تو اس کو تنہا نہیں کسی اور کے ساتھ مل کر پڑھ لیجئے۔ہو سکے تو ان الفاظ کو منہ سے بول کر پڑھیے۔۔صرف خاموش ریڈنگ نہیں کریں بلکہ بول کر کریں۔بول کر کیوں پڑھنے کو کہہ رہی ہوں آپ کو۔۔اس لئے کہ آپ کے کان بھی سنیں گے۔اگر پہلی بار پڑھے گے تو شاید ریڈنگ مشکل ہو،لیکن جب بول کر پڑھیں تو اس سے سمجھ میں آنے لگے گا۔پھر اسی طرح کتاب کی تاریخ اشاعت کب چھپی،ناشر کون ہے،مکتبہ کانام،اچھا اس کا جاننا کیوں ضروری ہے کہ کہاں چھپی؟تاکہ اگر کوئی پوچھے کہ اس موضوع پر کون سی کتاب پڑھی تو آپ آسانی اس کے بارے میں بات کر سکیں۔تو کوئی پوچھے کہاں سے چھپی میں بھی لینا چاہتی ہوں۔تو آپ یہ نا کہیں کہ یہ تو مجھے نہیں پتا ،اس لئے آپ کو پتا ہونا چاہیے۔
گھر میں جب کتاب ہوتی ہے اور تو بوریت کے وقت کوئی بھی کتاب اٹھا کے پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔پھر آپ دیکھیں کہ جو ریڈنگ ہوتی ہے وہ دو طرح کی ہوتی ہے۔ایک ہوتی ہے سرسری طور پر پڑھنا،اچٹتے اچٹتے نام اور چیزیں پڑھ لیں  اور بس،یہ نہیں ہونا چاہیے۔دوسری ریڈنگ  ہوتی ہے ڈوب کر گہرائی سے پڑھنا،غور سے پڑھنا،غور سے جو ریڈنگ کی جاتی ہے اس پر پھر سوال بھی اٹھتے ہیں۔ یعنی پڑھتے وقت آپ کے دماغ میں سوال اٹھنے چاہیئے۔پھر اس کے جواب تلاش کریں۔ایک اور کام یہ ہے کہ اگر آپ  مشکل الفاظ کو انڈر لائن کر لیں۔اس مقصد کے لیے پینسل ساتھ رکھیں۔جو جملے اور پہراگراف بہت پسند آئیں ان کو ہائی لائیٹ کر لیں۔اور ایک چھوٹی سی پرسنل لائبریری ہونی چاہیے۔اس کا فائد ہ یہ ہوگا کہ کل کو کوئی شخص آپ سے بحث مباحثہ کرتا ہے یا آپ کسی کو کچھ بتا رہے ہیں اور وہ کہتا ہے کہ کہاں لکھا ہوا ہے؟تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟کتاب سے اسے دکھا سکتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ بعض دین پڑھنے والے  ہوتے ہیں وہ دنیاوی علوم سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں علم ہے تو بس یہی ہے۔اور کچھ نہیں۔۔ایسے لوگوں کو کیا جواب دیا جائے۔اس کا جواب خود قرآن پاک کے اندر موجود ہے۔اقرا باسم ربک الذی جو پہلی آیت نازل ہوئی ،اس سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟تو کس کی بات ہوئی ہے۔تخلیق کی بات ہوئی ہے۔رب کی پہچان کس صفت کے حوالے سے ہوئی ہے۔تخلیق کے حوالے سے ہوئی ہے۔خلق الانسان من علق۔۔انسان کو علقہ سے پیدا کیا۔جمعے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ی انسان کی تخلیق کا علم  علم ایمبالوجی کون سا علم ہے؟دینی علم ہے یا سائنس کا؟سائنس کا۔۔۔تو انسان کو پیدا کس نے کیا،اللہ نے تو سائنس کا تعلق اللہ سے ہوا نا۔۔۔تو کیا آپ سائنس پڑھیں گے تو آپ عبادت کا کام کریں گے یا نہیں۔۔۔یقنا کریں گے۔پھر تو قرآن کی پلی ہی وحی آپ کو ایمبرالوجی سکھا رہی ہے۔وہ چیز جو آج دریافت ہو رہی ہے چودہ سو سال پہلے بتا دی گئی ہے۔یہ کیا ہے دراصل ۔۔سائنس ہے۔اقرا باسم ربک الذی خلق،خلق الانسان من علق،الذی و رب الااکرم۔۔الذی علم بالقلم۔۔۔اور اگر کوئی قلم بنائے گا ہی نہیں۔۔۔تو آپ قلم کہاں سے لائیں گے۔۔۔آپ کہیں گے کہ ہم درخت کاٹ کر قلم گڑھ لیں گے۔۔۔چلیئے خالی قلم سے کام چلا سکتے ہیں۔سیاہی لانی پڑے گی نا،کوئی انک بنائے گا ہی نہیں تو کہاں سے لائیں گے۔اور لکھنا کس پر ہے؟اس کے لئے کاغذ بھی چاہیئے ہوگا۔۔جب ضرورت ہے تو پھر بنانا بھی پڑے گا ۔۔اگر یہ سوچ لیا جائے کہ مسلمان کاغذ بنانا نہیں سیکھیں گے کیونکہ یہ دنیاوی کام ہے۔تو پھر امپورٹ کرنا پڑے گا۔جو پھر مہنگا بھی ہوگا۔تو یہ کیا سوچ ہے ؟اسی سوچ سے مسلمان باقی دنیا سے پیچھے ہیں۔او ر ہم ہر چیز امپورٹ کرتے ہیں۔اس امپورٹ میں خالی کاغذ نہیں آتا لکھا ہوا بھی آتا ہے۔اگر لکھا ہوا آتا ہے تو ان کے نظریات بھی ساتھ آتے ہیں۔اس کے ساتھ کشش بھی آتی ہے۔پھر آپ ان کے نظریات پڑھتے ہیں۔انہی کی طرح سوچتے ہیں۔ان کی طرح رویہ اپناتے ہیں۔پھر آپ قرآن کو ایک معمولی کتاب جانتے ہیں۔دین کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔آپ کا اپنا دماغ کام ہی نہیں کرتا۔غوروفکر کی ہمیں عادت نہیں۔پھر امت مسلمہ زوال کا شہکار ہوتی ہے۔





تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر