اصلاح معاشرہ آج کی ناگزیر ضرورت
اصلاح معاشرہ سے مراد معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کا
سد باب ہے تاکہ ہر انسان امن و اطمینان کی زندگی گزار سکے۔چاہے اس کا تعلق کسی بھی
مذہب سے ہو۔اصلاح انفرادی سطح پر بھی ہو
سکتی ہے۔اور اجتماعی سطح پر بھی۔۔یہ ایک مسلسل عمل ہے۔انسان چونکہ سماجی حیوان ہے
وہ تنہا زندگی نہیں گزار سکتا لہذا اسے انسانوں کے ساتھ میل جول رکھنا پڑتا ہے یہ
اس کی فطری ضرورت بھی ہے اور سماجی بھی۔
اصلاح معاشرہ کن اصولوں کی روشنی میں ہونی چاہیئے؟یہ ایک
ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر دور میں ہر مذہب اور طبقے کے انسان نے اپنے طور پر
تلاش کرنے ھکی کوشش کی ہے۔یہ کوشش جاری ہے۔اصول دو طرح کے ہوتے ہیں۔انسانوں کے
بنائے اصول یا پھر اللہ کے بنائے اصول؟عقل کی کسوٹی اور حقائق کی روشنی میں دیکھا
جائے تو جواب یہی ہوگا کہ اللہ چونکہ رب ہے۔وہ اپنی تخلیق اپنی پروڈکٹ کے لیے کبھی
ایسے اصول اور قوانین نہیں دے سکتا جو اس کے لیئے نقصان دہ ہوں۔سو اللہ کے بنائے
ہوئے اصول ہر دور میں سود مند رہے ہیں اگر
چہ اکثریت آج بھی ان کو ماننے سے انکاری ہے۔اکثریت سے ایک سوال ہے اگر کائنات اور
اس کے اندر پائی جانے والی اشیاء انسان کے لیے نقصان دہ نہیں،تو اسی رب جس نے یہ
کائنات تخیلق کی اس کے بنائے ہوئے اصول انسان کے لیے کیسے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔کائنات
میں بکھری جا بجا نشانیاں ان کو دعوت فکر
دے رہی ہیں ۔
الہامی کتابوں میں جو اصول اللہ نے دیئے ہیں وہ آفاقی
سچائیوں کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔سچ کا پرچار،صبرو استقامت،محنت ،دیانت ،اللہ پر
ایمان اور توکل ۔۔یہ سب اصول تمام الہامی کتابوں میں یکسا ں پائے جاتے ہیں۔ایسا
کیوں ہیں؟کیونکہ تمام الہامی کتابوں کا منبع ایک ہے۔ایک ہی سرچشمے سے پھوٹنے والی
روشنی ہیں۔ان میں اختلاف میں بھی حکمت ہے کہ اللہ نے ہر دور کے حساب سے اصول دیئے
ہیں۔ہر دور کے انسانوں کی فطرت اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضابط حیات دیا ہے۔انسانوں
نے اس حکمت کا الٹ استعمال کیا انہوں نے اس اختلاف کو اتنی ہوا دی کہ جنگ و قتال
پہ اتر آئے اور فساد فی الارض کا باعث بنے۔
تورات،زبور انجیل اور قرآن مجید کو الہامی کتابیں ہونے کا
شرف حاصل ہے ۔پہلی تین تو منسوخ ہو چکی جب کہ قرآن اللہ رب العذت کا وہ کلام ہے جس
کے زریعے وہ آخری بار انسانوں سے ہم کلام ہوا۔اور اسے قیامت تک کے انسانوں کے لیے
ہدایت کا زریعہ بنایا۔اس میں ہر چیز بیان کر دی گئی ہے۔تمام کتابوں میں تحریف ہو
چکی مگر قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا۔چودہ سوسال گزرنے کے باوجود یہ آج
بھی من وعن اسی طرح موجود ہے جس طرح نبی آخرالزماںﷺ پر نازل ہوا تھا۔یہ واحد کتاب
ہے جو باقی تینوں کتابوں کی تصدیق کرتی ہے بلکہ اس پر ایمان تب تک مکمل نہیں ہوتا
جب تک باقی کتابوں پر ایمان نہ لایا جائے۔یہ واحد کتاب ہے جو تمام انبیاء ؑ کو
یکساں عزت دیتی ہے۔اس کا ماننے والا کبھی انبیاء ؑ کی توہین اور تکذیب کا مرتب نہیں ہو سکتا۔
اصلاح کے میدان میں اہم ترین
ترجیحات میں سے ایک یہ ہے کہ معاشرے کی تعمیر سے پہلے فرد کی تعمیر کا اہتمام کریں
۔ دوسرے الفاظ میں نظام اوراداروں میں انقلاب سے پہلے فرد میں انقلاب لانا ہوگا۔
بہتر یہ ہے کہ اسے ہم قرآن کے الفاظ میں بیان کردیں جس نے فیصلہ ہی کر دیا ہے کہ
کوئی بھی انقلاب ہو اس کے لیے نفس کی تبدیلی ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی
قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔انقلاب کی
بہترین مثال مدینہ کا ہے۔نبی کریمﷺ نے ایک ایسی قوم جو علم اور تہذیب سے عاری
تھی،ان میں تئیس سال کے عرصے میں ایسا نقلاب پرپا کیا کہ ان کی کایا ہی پلٹ گئی۔۔نبی
کریمﷺ کے اصولوں پر چل کر آج بھی انقلاب لایا جا سکتا ہے مگر شرط اخلاص کی ہے۔اللہ
پر ایمان اور توکل کی ہے۔
دور حاضر اپنی تمام تر حشر
سمانیوں کے ساتھ اپنے عہد کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔طاغوتی قوتیں ہر میدان میں
چھائی ہوئی ہیں۔مسلمان چاروں طرف سے پس رہے ہیں،صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی
۔۔۔بڑی طاقتں انسانوں کو غلام بنا کر انہیں اپنے مفاد میں استعمال کر رہی
ہیں۔مہنگائی امن و امان کی ابتر حالات،فحاشی کا سیلاب ان کو ایک بہائے لے جا
رہا ہے۔بے یقینی اور بے اطمینانی میں
سیکولر نظام تعلیم اور شکوک و شبہات بڑھا رہا ہے۔خود کش حملوں نے رہی سہی کسر بھی
پوری کر دی۔نامارنے والے کو پتہ کہ وہ کس جرم میں مارا جا رہا ہے اور نہ مرنے
والےکو۔۔۔اور اس پہ مستزاد یہ کہ دونوں اپنے ہیں اگر چہ اس گیم کا ماسٹر مائنڈ
کوئی اور ہے۔وہ جو کوئی بھی ہے بڑی کامیابی سے گیم کھیل رہا ہے۔علم و ہنر اور یقین
سے ماورا قوم مسلمان اپنے بدترین عہد سے گزررہی ہے۔اگرچہ ان کے پاس تمام وسائل ہیں
مگر ان کے دماغ کسی اور کے قبضے میں ہیں،ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے زیادہ کرب ناک
ہوتی،انسان کی سوچوں کو مفلوج کر دینے والی۔۔۔ایسے میں اصلاح معاشرہ کس قدر ناگزیر
ہے۔ہم میں سے ہر کوئی سوچ سکتاہے۔ہر دور میں اللہ نے حق کی صدا بلند کرنے والے
بھیجے ہیں۔آج بھی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انفرادی کوششوں کو اجتماعی سطح پر لایا
جائےور تمام جدید زرائع سے صدائے حق بلند کی جائے۔انٹرنیٹ اور میڈیا کو ڈھال بنایا
جائے۔کچھ ممکن نہیں کہ بجھی ہوئی چنگاری شعلہ جوالہ بن جائے۔اللہ کا وعدہ ہے کہ اس
کا نور ہدایت تمام ادیان پر غالب آکر رہے
گا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں