نجومیوں کے اندازے اور مومن کی فراست

ہاتھ کی لکیریں دیکھنا ، حساب لگانا، اعداوشمار وغیرہ یہ تمام علوم ہیں اور ان کا دنیا میں وجود ہے یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان پر یقین کرنے سے منع کیا ہے۔ یہ جتنے بھی علوم ہیں ان سب میں اعداد و شمار کا عمل دخل ہے اور ان اعداد وشمار میں انسانی دماغ کا عمل دخل ہے ۔ انسان کے اندر خود بھی خامیاں ہیں اس کی عقل میں بھی خامیاں ہیں اور اس کے علم میں بھی خامیاں ہیں ۔ جہاں انسانی دماغ کا اعدادوشمار میں عمل دخل ہوگا وہاں غلطی کا احتمال بڑھ جائے گا ۔ فرض کریں کسی شخص نے حساب لگایا اور کہہ دیا کہ یہ کام ایسے نہیں ایسے ہے اور پوچھنے والے نے اس پر یقین کر لیا اور وہ اس کام سے دور ہو گیا غورطلب بات یہ ہے کہ کسی کام کا نتیجہ دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ہو سکتا ہے وہ کام صحیح ہو ۔ پامسٹ لوگ صدیوں سے ہاتھ کی لکیریں دیکھ رہے ہیں اس دوران انہوں نے کروڑوں لوگوں کے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھا اور انہوں نے اندازہ لگایا کہ اگر ہاتھ کی فلاں لکیر اس انداز کی ہوتو اس کا یہ مطلب ہے یہ لکیر اس انداز کی ہوتو یہ مطلب ہے یوں انہوں نے ایک تھیوری بنا لی ۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی لوگ گزرے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پر یا اپنی ذات پر اتنا اعتماد اور یقین تھا کہ اگر انہیں کسی نجومی نے کہا کہ آپ کے ہاتھ میں فتح کی لکیر ہی نہیں ہے تو اس نے اس کے جواب میں خنجر نکالا اور ہاتھ پر لکیر کھینچ کر کہا کہ یہ لو فتح کی لکیر بن گئی ۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالی نے منع فرمایا اور قرآن مجید میں ایک فیصلہ کر دیا کہ " ہرشخص کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے "اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کو مانے یا پھر اس قسم کے علوم کے پیچھے چل پڑے اور ٹھوکریں کھائے ۔
جو مسلمان ایک سچے مومن کے سے انداز میں اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس کا ہو جاتا ہے پھر اس کو ایسی فراست نصیب ہو تی ہے کہ اس کے کیے ہوئے فیصلے عام طورپر درست ثابت ہوتے ہیں ۔ اس کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ مومن پوری طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور پھر اس عبادت سے اس کو فوکس حاصل ہوتا ہے مثال کے طور پر جیسے نماز ہے ۔ نماز کو یوگا کی جدید شکل بھی کہا جاسکتا ہے یہ یوگا کی ایسی ورزش ہے کہ جس کے اندر یوگا کی بہت ساری ورزشیں اکھٹی ہو گئی ہیں بازو ؤں کے ہلنے سے خون بازؤں میں حرکت کرتا ہے ، حالتِ قیام میں خون کا زور جسم کے نیچے حصے کی جانب ہوتا ہے ، رکوع کی حالت میں خون جسم کے دوحصوں میں کمپریس ہوجاتا ہے اوپر والے حصے کا خون جب دماغ کی طرف زیادہ جاتا ہے تو اس سے دماغ کو زیادہ آکسیجن ملتی ہے، سجدے کی حالت میں بھی خون دماغ کی طرف حرکت کرتا ہے جس سے پھر دماغ کو آکسیجن ملتا ہے، التحیات کی حالت میں ٹانگو ں میں خون کی مقدار کم ہو جاتی ہے ۔ یہ سارا عمل خون کے سرکولیشن کی مینجمنٹ ہے جو دن میں پانچ بار ہوتی ہے یہ ایک پارٹ ہے جبکہ دوسرا پارٹ یہ ہے کہ جب مسلمان اللہ تعالیٰ کو ماننا شروع کر تا ہے تو اس کا دل صاف ہونا شروع ہو جاتا ہے اس کے دل سے کینہ، حسد ، حرص اور غصہ ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے، جب یہ ساری چیزیں نکلتی ہیں تو دل آئینے کی طرح ہو جاتا ہے پھر اس کی سوچ غیر جانبدار ہو جاتی ہے ۔ ایک مومن ہر وقت کرسی پر جج بن کر بیٹھتا ہے جب وہ کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اپنی ذات سے دور ہٹ کر فیصلہ کرتا ہے اور یہ فیصلہ انصاف پر مبنی ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ فیصلہ درست ہوتا ہے اس لیے جب مومن دس سال بعد کی بھی بات کرے گا تو وہ درست ہوگی اصل میں یہی مومن کی فراست ہے۔
(نشست وِد سیدسرفراز اےشاہ)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر