تئیس مارچ۔۔۔۔۔آئیے قوم بنیں۔

قوم کیا ہے؟
لفظ قوم عربی زبان کا لفظ ہے۔قام یقوم سے قیام اور پھر قوم بنتا ہے۔اس کا مادہ ق و م ہے۔مطلب کھڑی ہوئی۔۔اصطلاحی معنوں میں قوم سے مراد " ایسی مخلوق جو اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی ہو"۔ 
دنیا میں جن قوموں نے ترقی کی اور بحثیت قوم اپنا آپ منوایا۔۔۔مسلمان قوم ان میں سے ایک منفرد مقام رکھتی ہے تاریخ کے ورق الٹا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمان قوم نے بحثیت مجموعی اپنا آپ منوایا اور دنیا پر اپنے اچھے اخلاق کی بدولت رائج کیا۔جیسے جیسے مسلمان علم و عمل سے دور ہوتے گئے جہالت و پستی ان کا مقدر بنتی چلی گئی ۔
وہ کون سے عوامل ہیں  جو قوم بننے کے لیئے ضروری ہے۔آئیے مختصر ان کا جائزہ لیں۔
ترقی یافتہ اقوام پہ نظر ڈالیں  ان پہ غور کریں تو ان میں درج ذیل خوبیاں نمایاں نظر آتی ہیں۔
خودداری و خودمختاری
جداگانہ تشخص
اپنے قوت بازو  پہ بھرسہ کرنے والی
یہ تین خوبیاں کسی بھی قوم کو حقیقی معنوں میں قوم بنا دیتی ہیں۔درج بالا تینوں نکات کا مختصرا جائزہ لیں گے کہ یہ ہیں کیا؟؎
خوداری و خود مختاری
خودداری و خودمختاری جسے اگر مختصر کہیں تو اقبال ؒ کی نظر میں خودی کہہ لیں۔اپنے  انا اور وقار پہ کبھی  مداہنت نہ کرنے والی،پاکستان کو معرض وجود میں آئے پون صدی گزر چکی ہے مگرہم آج بھی اپنے پاوں پہ کھڑے  نہیں ہوئے باوجود اس کے پاکستان کو اللہ نے ہر طرح سے زمینی،جغرافیائی ،ماحولیاتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔۔دنیا کو ہم چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔١،سپر پاور ،٢،ورلڈ پاور، ٣، ریجنل پاور ۔٤۔ کمزور ممالک۔ ایک زمانے میں روس سپر پاور تھا۔ امریکہ نے اس کی مخالفت میں قدم بڑھا یا اور اپنی کوششوں سے بلاآخر روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔اور خود سپر پاور بن گیا۔بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات تو یہ ہے کہ ہم اقبال کے خواب کو تعبیر کیونکر دے سکتے ہیں ۔ کسی بھی ملک وقوم کی ترقی تین ستونوں پہ کھڑی ہوتی   ہے ۔تعلیم ۔معیشت ۔اور دفاعی خود کفالت ۔اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو کل آبادی ۔١٨ کروڑ کے لگ بھگ افرادی قوت ٧٩،٦٠ ملین ۔جبکہ وسائل کی تعداد ٦ بلین اگر فوج کا جائزہ لیں تو فوج کی کل تعداد ١٢ لاکھ ٥٠ ھزار اور آٹھ سو ہے ۔افرادی قوت ٧٩،٦٠ ملین ہے ۔اگر ہتھیاروں کا جائزہ لیں ٣٥٨ لڑاکا طیارے ،٣٥٠٠ ٹینک ،٩ آبدوزیں ٨ بحری جہاز ،١٠ میزائل حنف اول و دوئم ، غزنوی اول و دوئم ، شاہین اول دوئم غوری اول دوئم، سوئم ، بابر اور رعد شامل ہیں ۔(مضمون اقبال کا خواب پاکستان،ماہنامہ نوائے وقت)
پھر بھی ہماری اکنامی ادھار کی محتاج ہے وہ بھی سود والا ادھار جو نسلیں اجاڑ دیتا ہے۔(ہم 80 ملین ڈالر کے مقروض ہیں۔)ہم آج تک خود مختار کیوں نہیں ہو سکے یہ بہت اہم سوال ہے۔ہماری نسل پر قرض ہے کہ وہ اس سوال کا جواب تلاش کرے اور اس کی روشنی میں اس کا حل بھی تلاش کرے۔اقبال شکوہ کناں ہے
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
جدگانہ تشخص:
ہر قوم ایک جداگانہ تشخص رکھتی ہے جو اسے باقی قوموں سے ممتاز کرتا ہے۔مسلمانوں کی پہچان اسلام سے تھی۔یہ اسلام تھا جس نے اسے دنیا میں منفرد اور یگانہ بنایا۔۔۔اسلام نے جو اصول دیئے وہ ابدی  اور فطری تھے۔آج اہل مغرب ان اصولوں پہ چل کر کامیاب ہے۔اگرچہ یہ دنیاوی کامیابی ہے۔مگر اللہ نے دکھا دیا کہ جو میرے بتائے اصولوں پہ چلے گا میں اسے کامیابی سے ہمکنار کروں گا اور جو اسے چھوڑ دے  گاوہ ذلیل و رسوا ہو گا۔
تو طے یہ پایا کہ عروج وزوال کسی قوم کے ساتھ خاص نہیں ہے، جس قوم نے اصولوں پرچلنا سیکھاوہ ترقی سے  ہمکنار ہوئی۔۔اور جنہوں نے اصولوں کو پس پشت ڈال دیا وہ ذلیل و رسوا ہوئے۔اقبال نے دلائل سے ثابت کیا کہ درجہ کمال تک پہنچنے کے لئے فرد کو ایک ملت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ملت میں فرد کی انفرادیت ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کی حیثیت پہلے سے زیادہ مضبوط اور نمایاں ہو جاتی ہے۔ ملت اسلامیہ کی بنیادیں قرآنی تعلیمات پر استوار ہوتی ہیں۔ یہ ملت توحید و رسالت، تقلید اور اجتہاد کے اصولوں پر عمل کر کے خود کو دوسروں سے ممتاز کر لیتی ہے موجودہ دور میں ملت اسلامیہ ہی انفرادی اور اجتماعی خودی کی تربیت کا بہترین نظام عمل پیش کرتی ہے۔

دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں۔۔۔۔ اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں۔۔۔ جذب باہم جو نہیں، محفل ِ انجم بھی نہیں
اپنے قوت بازو پہ بھروسہ کرنے والی:
وہ قومیں جو خود پہ بھروسہ کرتیں اپنے وسائل کو بروئے کار لاتیں ہیں۔دنیا میں ان کے نام کا  ڈنکا بجتا ہے  اور جو قومیں کاسئہ فقیر لیئے کبھی اس د ر تو کبھی اس در پہ دستک دیتی ہیں وہ ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی رسوا ہوتی ہیں۔پاکستانی قوم اپنے اس وصف سے محرومی کے باعث اقوام عالم میں رسوا ہو رہی ہے۔چودھری عبدالخالق کا کلام ملاحظ کیجئے۔
اقبال کا یہ پراثر پیغام لیجئے
اپنی خودی کا ہاتھ ذرا تھام لیجئے
روکے تجھے اڑان سے وہ خیر خواہ نہیں
غیروں کے در پہ جانے کا نام نہ لیجئے
کرنا ہے اپنی قوت بازو پہ بھروسہ
غیرت کے عوض نہ کسی سے دام لیجئے
پہاڑوں کی چٹانوں کو مسکن ہے بنانا
ہمت سے، جستجو سے یہ مقام لیجئے
چھونا ہے آسمان کی بلندی کو اگر
اپنے ذہن کی سوچ سے پھر کام لیجئے
( چودھری عبدالخالق)
جن قوموں میں فقر و فاقہ کو برداشت کر کے اللہ رب العزت کے عطا کر دہ وسائل پر انحصار کر نے کا  حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے تو انقلابات زمانہ ان کے قدم چومتا ہے۔در حقیقت یہ فاقہ مستیاں ہی ان کے اندر جینے کا حوصلہ  پیدا کرتی ہیں۔بھوک کے خوف سے بے نیازی انسان کو کندن بنا دیتی ہے اور بھوک کا خوف انسان کو شیر سے زیادہ طاقتور ہوتے ہوئے بھی کمزور کر دیتا ہے۔۔ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کی ساری زندگی ہمارے لیئے نمونہ ہے کہ انھوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر اس وقت کی سپر طاقتوں سے مقابلہ کیا۔ حکیم الامت علامہ اقبال اسی جانب ہماری توجہ مبذول کرتا ہے
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری 
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری 
اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
اک فقر سے شبیری اک فقر میں ہے میری 
میراث مسلمانی، سرمایہ شبیری
ضرورت اس امر کی ہے کہ قرضوں کی بجائے قومی خودانحصاری پہ بھروسہ کرنا ہوگا۔چین اور جاپان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔انہوں نے اپنی قومی کودانحصاری  پہ بھروسہ کیا آج وہ بام عروج پہ ہیں۔چین کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی تمام فیکٹریوں کو تالا لگا دے گا اور تالا بھی چین کا ہوگا۔اور وہ اپنے اس دعوے کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ مسلمان کا کامل یقین اور بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے۔اس کے ارادوں کی مضبوطی  توکل علی اللہ کے  عقیدہ محکم میں پنہاں ہوتی ہے۔جبھی اس کا یقین مکمل ہوتا ہے۔ہمیں اپنے قوت بازو پہ انحصار کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت پر بھروسہ کرنا ہوگا۔اور اللہ اپنے بندوں کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لٹاتا۔
دنیا میں قوموں کے عروج و زوال  یہ بتاتا ہے۔کہ قوم   بننے کے لیئے  ملت سے رابط استوار رکھنا ہوگا۔ہم مسلمانوں کو پھر سے ایک ملت ہونے کی ضرورت ہے۔قوم تبھی قوم بنے گی جب  وہ سب مسلمان ایک پلیٹ فارم پہ جمع ہوں گے۔۔بقول واصف علی واصف
"ملتیں پائیدار رفاقتوں سے بنتی ہیں  اور رفاقتیں میسر نہ ہو تو عناصر ترتیبی میں ظہور نہیں ہو سکتا۔اینٹ کا اینٹ سے ربط ختم ہو جائے تو دیواریں اپنے بوجھ سے گرنا شروع ہو جاتیں ہیں۔"
بحثیت مجموعی مسلمان اپنا مقام کھو چکے ہیں۔اگر چہ دنیا میں وہ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ایک امریکی تھنک ٹینک کی  تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا میں مسلمانوں  کی تعداد ایک ارب ستاون کروڑ ہے۔دنیا میں ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔مگر ان کی حثیت تنکوں  کے سوا کچھ بھی نہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ابھی قوم  کے مفہوم  کو سمجھا ہی نہیں گیا۔
قوم کیا ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
تحریر:روبینہ شاہین




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر