سورہ فاتحہ تفسیر ابن کثیر کی روشنی میں
الہاد وفتنہ کے اس
دور میں جب ہر طر ف بے سکونی اور بے اطمینانی کا راج ہے۔امت انتشار کا شکار
ہے۔قرآن جیسے آب حیات سے دور ی خلیج بنتی جا رہی ہے۔ایسے میں امت مسلمہ کو قرآن سے
جوڑنے کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔"معوذتین"یعنی دو پناہ مانگنے والی
سورتیں"اپنی اہمیت کے پیش نظر قرآن پاک کی اہم ترین دو سورتیں ہیں۔اگرچہ قرآن مجید کی یہ آخری دو
سورتیں بجائے خود الگ الگ ہیں۔اور مصحف
میں الگ الگ ناموں ہی سے لکھی ہوئی ہیں۔لیکن ان کے درمیان باہم اتنا گہرا تعلق ہے۔اور ان کے مضامین ایک دوسرے سے
اتنی قریبی مماثلت رکھتے ہیں۔کہ ا ن کا
ایک مشترکہ نام "معوذتین"رکھا گیا۔
اس فتنے کے دور میں
جو چیز کمزور ایمان والوں کے لیے بہت زیادہ تشویش کا باعث ہے وہ ہے"جادو"یہی
ان سورتوں کا بنیادی موضوع ہے کہ شر سے کیسے بچا جائے۔معوذتین سے مراد سورہ الناس
اور سورہ فلق ہیں۔انسان کو فتنے اور شر میں دو چیزیں مبتلا کرتی ہیں ایک شیطان جن
اور ایک انسان،ان سورتوں میں دونوں سے
پناہ مانگی گئ ہے۔لہذا عصر حاضر میں ان دو سورتوں کا مطالعہ اس لءے بھی بہت ضروری
ہے کہ کمزور ایمان والے خود کو شیطان اور اس کی چالوں سے کیسے پناہ میں آئیں؟
علماء نے اپنی
استطاعت کے باعث ہر دور میں جو تفسیر لکھی اس میں روشنی ڈالی ہے۔حافظ القیم جوزی ؒنے
"تفسیر معوذتین" کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔جو پڑھنے کے قابل ہے۔جس
کا اردو ترجمہمولانا عبدالرحیم (مرحوم) پشاوری نے کیا۔
معوذتین کی تفسیر سید
ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن کی روشنی میں کی جائے گی۔
اس بے دینی کے دور
میں امت کے اندر نئی روح پھونکنا اور اسے ازسرنو جگانا یہ سرف اور صرف قرآن سے تعلق ہے۔یہی سب سے بڑا
مقصد ہے۔بندے کا اپنے خالق سے رشتہ مضبوط کرنا عصر حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔دین
کے سمجھ بوجھ رکھنے والوں پر فرض ہے کہ وہ "تواصوا بالحق"کا فریضہ ادا
کریں چاہے وہ قلم کی صورت میں یہو یا عمل کیصورت میں۔یہی اس تحقیق کا م مقصد ہے
·
مقالہ بیانیہ تحلیلی و استنباطی تحقیق پرمشتمل ہوگا۔
·
مقالہ کو مستند بنانے کے لیے تمام بنیادی مآخذ سے اقتباسات کا اندراج کیا جائے
گا۔
·
تحقیقی کام میں انٹرنیٹ اور مختلف علمی سافٹ ویئرز کا استعمال کیا جائے گا۔
·
مقالہ کی تکمیل کے دوران اساتذہ اکرام اور اہل علم حضرات سے خصوصی استفادہ کیا
جائے گا۔
·
درج ذیل لائبریریوں سے استفادہ کیا جائے گا۔
·
مکتبہ خدام القرآن لائبریری
·
منصورہ لائبریری
·
شیخ زید اسلامک سینٹر لائبری
کیا اس جدید
ٹیکنالوجی کے دور میں یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ جن بھی کوٰ مخلوق ہے؟اور اگر ہے
تو قرآن اس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
وسواس:وسوسہ ڈالنے
والے شیطان
شر:ہر وہ برائی جو
انسا ن کو گمراہ کرے۔
باب نمبر
ا۔۔۔تعارف سورت
ٖفصل اول:لغوی اور
اصطلاحی مفہوم
فصل دوئم:تعارف تفہیم القرآن
باب نمبر
۲۔۔۔معوذتین کے مسائل تفہیم القرآن کی روشنی میں
فصل
اول:سورہ فلق میں مذکور اہم مسائل
فصل
دوئم:سورہ النا س کے تفسیری نکات
"معوذتین"سے
مراد "دو پناہ مانگنے والی"(سورتیں)ہیں۔تفسیر معانی القرآن میں
ہے"کہ سورہ فلق اور الناس کو معوتین کہا جا تا ہے"[1]
ضیاءالقرآن میں ہے
"دونوں سورتوں
کا نزول بھی بیک وقت ہوا ،مفہوم و معنی اور مقصد کے اعتبار سے بھی ان میں اس قدر
اتصال ہے کہ انھیں الگ الگ کرنا بہت دشوار ہے۔اس لیے اسے "معوذتین" کے
ایک نام سے موسوم کیا گیا۔"[2]سید
ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں
"چونکہ یہ ایک
ساتھ نازل ہوئیں اس لیے ان کو معوذتین کہا جاتا ہے۔امام بہیقی نے دلائل نبوت میں
لکھا ہے کہ یہ نازل بھی ایک ساتھ ہوئیں اس لیے ان دونوں کا مجموعی نام معوذتین
ہے۔"[3]
الفلق:
تدبر قرآن میں اس کے مطالب اور اسالیب یوں بیان کیے گئے ہیں
" الفلق کا
ترجمہ عام طورپر لوگوں نے صبح کیا ہے لیکن اس کے اصل معنی پھاڑنے کے ہیں۔
صبح چونکہ شب کے پردے کو چاک کر کے نمودار ہوتی ہے اس وجہ سے اس پر بھی اس کا
اطلاق ہوا ۔ لیکن پھاڑ کر نمودار ہونے والی چیز صرف صبح ہی نہیں ہے۔ ہر چیز کسی نہ
کسی کے اندر سے اس کو چاک کر کے ہی نمودار ہوتی ہے۔ گٹھلی سے پودا نمودار ہوتا ہے،
دانے کو پھاڑ کر انکھوئے نکلتے ہیں، زمین کو پھاڑ کر نباتات اگتی ہیں، پہاڑوں کا
سینہ چاک کر کے چشمے اور دریا ابلتے ہیں، اسی طرح انڈے کو پھاڑ کر بچے نکلتے ہیں
اور رحم کے منہ کو کھول کر دوسری تمام زندہ مخلوقات وجود پذیر ہوتی ہیں۔ پھر لفظ
’فلق‘کو اس قدر محدود کر دینے کے لیے کیا جواز ہے؟ ہمارے نزدیک اس کو اس کے وسیع
معنی میں رکھنا ہی موقع و محل کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہے۔ لغت میں یہ لفظ وسیع
معنی میں آیا بھی ہے۔ قرآن میں جس طرح ''فالق الاصباح'' (الانعام ۹۵:۶ ) کی
ترکیب استعمال ہوئی ہے اسی طرح ''فالق
الحب و النوٰی''(الانعام ۹۵:۶ ) کی ترکیب بھی وارد ہوئی ہے۔ اسی طرح
زمین و آسمان سے متعلّق ارشاد ہے کہ ''کانتا
رتقاً ففتقنهما'' (الانبیاء
۳:۲۱ ) وہ دونوں بند ہوتے ہیں تو ہم انہیں
پھاڑتے ہیں۔ یعنی آسمان کو کھول کر اس سے پانی برساتے اور زمین کو پھاڑ کر اس سے نباتات
اگاتے ہیں۔"[4]
الناس کامطلب"
لوگ "ہیں۔یہ لفظ اردو میں بھی انہی معنوں میں مستعمل ہے۔عوام الناس وغیرہ
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں
"حضرت حسن بصریؒ
،عکرمہ،عطاء اور جابر بن یزیدکہتےہیں کہ یہ سورتیں مکی ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓ
سے بھی ایک روایت یہی ہے۔مگر ان سے دسری روایت یہ ہے۔کہ یہ مدنی ہے۔اور یہی قول
عبداللہ بن زبیر اور قتادہ کا بھی ہے۔ساس دوسرے قول کو جو روایت تقویت پہنچاتی
ہے۔ان میں سے ایم مسند احمد بن حنبل،مسلم،ترمذی،نسائی میں حضرت عقبہ بن عامر کی یہ حدیث ہے۔کہ رسول
اللہﷺ نے مجھ سے ایک دن فرمایا :
الم تر اٰیات الیلتہ،لم یر مثلھن،اعوذ
برب الفلق،اعوذ برب الناس
"کہ آج رات مجھ
پر ایسی آیات نازل ہوئیں ہیں۔یہ بے مثل آیات ہیں اعوذ برب الفلق اور اعوذ برب
الناس۔"یہ حدیث اس بناء پر مدنی ہونے کی دلیل ہے کہ حضرت عقبہ بن عامرؓ
ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں ایمان لائے تھے۔جیسا کہ ابوداؤد سے اور
نسائی نے خود ان کے اپنے بیان سے نقل کیا ہے۔"[5]
الاتقان فی علوم القرآن میں ہے۔
"قول مختار یہ
ہے کہ یہ دونوں سورتیں مدنیہ ہیں کیونکہ ان کا نزول لبید بن اعصم کے قصہ سحر میں
ہو تھا۔جیسا کہ بہیقی نے کتاب الدلائل میں اس حدیث کی روایت کی ہے۔"[6]
امام ابن کثیر کا بھی
یہی موقف ہے کہ یہ دونوں سورتیں مدنی ہیں۔ جبکہ سید مودودیؒ کا گمان یہ کہ یہ
دونوں سورتیں مکی ہیں ۔واللہ اعلم
سورہ فلق کی پانچ آیتیں،ایک رکوع،۲۳ کلمات اور ۷۹ حروف
ہیں۔
سورہ الناس کی چھ آیتیں،ایک رکوع،۲۰ کلمات اور ۷۹ حروف ہیں"[7]
"حضرت ابن
عابس جہنیؓ بیان کرتے ہیں کہ "
یا ابن عبا س!ٔلا ادلک،او قال:ألا
اخبرک بأفضل ما یتعوّذ بہ المتعوّذون؟
"اے ابن
عباس!کیا میں تجھے سب سے بہرین تعویز نہ بتاؤں جس کے زریعے سے پناہ طلب کرنے والے پناہ طلب کرتے ہیں۔"
انھوں نے عرض کیا ہاں
ضرور بتائیے اے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :قل اعوذ بر ب الفلق اور قل اعو برب
الناس یہ دو سورتیں ہیں۔"[8]
صحیحین
میں سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم جب سو نے کا ارادہ کرتے تو قُلْ
ھُواﷲُاَحَدٌ اور معوذتین کو پڑھ کر اپنے ہاتھوں
پر پھونکتے تھے جس کے بعد اپنے منہ پر اور اپنے جسم کے تمام حصوں پر جہاں تک آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک پہنچ سکتا تھا پھیر لیتے تھے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ
طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ۔"[9]
ترمذی
، نسائی ، اور ابوداؤد میں سیدنا عبداللہ بن حبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ
ہم ایک اندھیری رات میں جب کہ بارش ہو رہی تھی اس لئے اپنے گھروں سے نکلے کہ
نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کریں ،
ہم
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں پہنچے
تو
ارشاد ہوا ، کہو (کیا کام ہے ) میں چپ رہا ۔
آٓپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہو؟ میں پھر بھی چپ رہا تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد
فرمایا :
صبح
و شام قل ہو اللہ احد اور معوذ تین پڑھا کرو، تم ہر ایک قسم کے شر سے محفوظ رہوگے
ترمذی
نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے"[10]
عبدالرحمٰن
بن یزید بیان کرتے ہیں۔کہ حضرت عبداللہ بن
مسعودؓ معوذتین کو مصاحف سے کھرچ دیتے تھے۔اور کہتے تھے یہ دونوں سورتیں کتاب اللہ سے نہیں ہیں۔(مسند احمد
:۵/۱۳۰)[11]
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اس پر بحث
کرتے ہوئے لکھتے ہیں
"آیا
ان سورتوں کا قرآنی سورتیں ہونا قطعی طور پر ثابت ہے،یا اس میں کسی شک کی گنجائش
ہے؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جیسے عظیم المرتبت
صحابی سے متعدد روایتوں میں یہ بات منقول
ہوئی ہے کہ وہ ان دونوں سورتوں کو قرآن کی سورتیں نہیں مانتے تھے۔اور اپنے مصحف سے
انھیں صاف کر دیا تھا۔امام احمد،بزار،طبرانی،ابن مردویہ،ابویعلیٰ،عبداللہ بن احمد
بن حنبل،حمیدی،ابونعیم،ابن حبان وغیرہ محدثین نے مختلف سندوں سے اور اکثر و بیشتر
صحیح سندوں سےیہ بات حضرت ابن مسعودؓ سے نقل کیا ہے۔ان روایات میں نہ صرف یہ کہا
گیا ہے کہوہ ان سورتوں کو مصحف سے ساقط کر دیا دیتے تھے،بلکہ یہ بھی بیان کیا گیا
ہےکہ وہ کہتے "قرآن کے ساتھ وہ چیزیں نہ ملاؤ۔یہ دونوں قرآن میں شامل نہیں
ہیں۔یہ تو ایک حکم تھا۔جو نبی ﷺ کو دیا گیا تھا۔کہ آپ ﷺ ان الفاظ میں خدا کی پناہ
مانگیں۔بعج روایات میں اس پر یہ اضافہ بھی ہے کہ وہ ان سورتوں کو نماز میں نہیں
پڑھتے تھے۔
ان
روایات کی بناء پر مخالفین اسلام کو قرآن کے بارے میں یہ شبھات ابھارنے کا موقع مل
گیا کہ معازاللہ یہ کتاب تحریف سے پاک نہیں ہے۔بلکہ اس میں جو دو سورتیں ابن
مسعودؓ جیسے صحابی کے مطابق الحاقی ہیں تو اور نہ جانے کیا کیا خذف و اضافہ ہون
گے۔ اس طعن سے پیچھا چھڑانے کے لیے قاضی ابوبکر الباقلانی اور قاضی عیاض نے یہ
تاویل کی کہ عبداللہ بن مسعودؓ "معوذتین "کی قراءت کے خلاف نہیں تھے
بلکہ مصحف میں درج کرنے کے حق میں نہیں تھے کیونکہ ان کو یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی۔کہ
حضور ﷺ نے اس کی اجازت دی ہے۔لیکن یہ تاویل درست نہیں ہے۔کیونکہ صحیح سندوں کے
ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ ابن مسعودؓ نے ان کے قرآنی سورتیں ہونے کا انکار کیا ہے۔کچھ دوسرے بزگوں مثلا امام نووی،امام ابن ھزم اور امام فخرالدین
رازی نے سرے سے اس کا رد کیا ہے کہ
عبداللہ بن مسعودؓ سے کوئی ایسی بات ثابت ہے۔مگر مستند تاریخی حقائق کو ملا کر سند
رد کر دینا کوئی علمی طریقہ نہیں۔
اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابن مسعودؓ کی ان روایات سے قرآن پر جو طعن وارد ہوتا ہے ۔اس
کا صحیح رد کیا ہے؟اس سوال کے کئی جواب
ہیں جن کو ہم سلسلہ وار تحریر کرتے ہیں۔
حافط
کزار نے اپنی مسند میں ابن مسعود ؓکی روایات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اپنی اس
رائے میں وہ بالکل منفرد ہیں۔صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کے اس قول کی تائید نہیں کی ہے۔
تمام
صحابہ کے اتفاق سے خلیفہ ثالث سیدنا عثمان ؓ نے قرآن مجید کے جو نسخے مرتب کروائے
تھے۔اور خلافت اسلامیہ کی طرف سے جن جن کو
دنیا ئے اسلام کے مراکز میں سرکاری طور پر بھیجا جاتا تھا۔ان میں یہ دونوں سورتیں
درج تھیں۔
رسول
اللہ ﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک تمام دنیائے اسلام کا جس مصحف پر اجماع ہے اس
میں دونوں سورتیں درج ہیں۔تنہا عبداللہ مسعودؓ کی رائے ،ان کی جلالت قرد کے باوجود
،اس عظیم اجماع کے مقابلے میں کوئی وزن نہیں رکھتے۔
رسول
اللہ ﷺ سے نہایت صحیح و معتبر احادیث کے
مطابق یہ ثابت ہے کہ آپ نے ان سورتوں کو نماز میں خود پڑھا ہے۔اور دوسروں کو پڑھنے
کی ہدایت فرمائی ہے۔اور قرآن کی سورتوں کی حثیت ہی سے لوگوں کو ان کی تعلیم دی ہے۔
مسلم،احمد،ترمذی
اور نسائی کے حوالہ سے حضر ت عقبہء بن
عامرؓ سے یہ روایت نل کی ہے۔کہ حضور ﷺ نے سورہ فلق اور سورہ ناس کے تعلق
فرمایا کہ آج رات یہ آیات مجھ پر نازل
ہوئی ہیں۔نسائی کی ایک روایت میں عقبہ بن
عامر ؓ سے یہ ہے کہ رسول اللہ و نے یہ دونوں سورتیں صبح کی نماز میں پڑھیں۔ابن
حبان نے انہی ھضرت عقبہ سے روایت نقل کی ہے۔کہ حضور ﷺ نے فرمایا "اگر ممکن ہو
تو تمہاری نمازوں سے ان دونوں سورتوں کی قراءت چھوٹنے نہ پائے۔"
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت
عبداللہ بن مسعودؓ کو آخر یہ غلط فہمی کیونکر لاحق ہوئی؟
اس
کا جواب ہمیں دو روایتوں کو جمع کر کے ملتا ہے۔ایک یہ روایت کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے تھے کہ یہ تو ایک حکم تھا جو رسول اللہ ﷺ کو دیا گیا تھا۔کہ آپ اس طرح تعوذ
کریں۔جو حضرت ابی بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔زر بن جیش کا بیان ہے کہ کہ میں نے
حضرت ابی بن کعب ؓ سے،جو علم قرآن کے لحاظ سے صحابہ اکرام میں ایک ممتاز مقام
رکھتے تھے۔سے کہا کہ آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعودؓ ایسا اور ایسا کہتے ہیں۔آپ ان
کے اس قول کے متعلق کیا کہتے ہیں؟انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس
کے بارے میں سوال کیا تھا۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے کہا گیا کہ قل،تو میں نے بھی
کہا قل"۔اس لیے ہم بھی اسی طرح کہتے تھے جس طرح رسول ﷺ کہتے تھے۔امام احمد کی
روایت میں ابی بن کعب ؓ کے الفاط ہیں۔"میں شہادت دیتا ہون کہ کہ رسول اللہ ﷺ
نے مجھے بتایا کہ کہ جبریل ؑ نے آپ سے کہا قل اعوذ برب الفلق کہا تھا اس لیے آپ نے
بھی ایسا ہی کیا۔اور انھوں نے قل اعوذ برب
الناس کہا تھا اس لیے آپ ے بھی ایسا ہی کہا۔لہذا ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں۔جس طرھ
حضور ﷺ نے کہا۔ان دونوں روایتوں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن
مسعودؓ کو لفظ"قل"سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔[12]
تفہیم القرآن قرآن مجید کی
تفسیر بقلم ابو الاعلی مودودی "ہے۔
قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر پر اُردو زبان میں اتنا کام ہو چکا تھا کہ مولانا مودودی
رحمتہ اللہ علیہ نے صرف برکت اور سعادت کے لیے تفہیم القرآن تحریر نہیں کیا بلکہ
انکا حقیقی مقصد یہ تھا کہ عام تعلیم یافتہ لوگوں تک روحِ قرآن اور اس کتابِ عظیم
کا حقیقی مدعا پہنچ سکے۔اس کے لیے انہوں نے لفظی ترجمہ کے بجائے آزاد ترجمانی کا
طریقہ اختیار کیا تاکہ ادب کی تند وتیز اسپرٹ جو قرآن کی اصل عربی عبارت میں بھری
ہوئی ہے وہ متاثر نہ ہو کیونکہ یہی تو وہ چیز ہے جوسنگ دل سے سنگ دل آدمی کا دل
بھی پگھلا دیتی ہے ۔ جس کی قوت ِتاثیر کا لوہا اس کے شدید ترین مخالفین تک مانتے
تھے اور ڈرتے تھے کہ یہ جادو اثر کلام جو سنے گا وہ بالآخر نقدِ دل ہار بیٹھے گا۔
اور یہ سارے فو ائد لفظی ترجمہ کے ذریعہ حاصل کرنا مشکل ہے۔ چنانچہ مولانا نے
تفہیم القرآن میں جس انداز کو اپنایا اس نے لاکھوں دلوں کو متاثر کیا خصوصاً
نوجوان طبقے میں قرآن فہمی اور اس پر عمل کرنےکا احساس تیزی سے ابھرا۔ تفہیم
القرآن چھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ (محرم ١۳٦١ھ )
فروری 1942 ء میں تفہیم القرآن لکھنے کے کام کا آغاز ہوا ۔ پانچ سال سے زیادہ مدت
تک اس کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ سورة یوسف کے آخر تک ترجمانی اور تفہیم تیار
ہو گئی۔ اس کے بعد حالات کی بناء پر مولانا کو کچھ لکھنے کا موقع نہ مل سکا ۔ بعد
ازاں ١۹۴۸ء میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے
داخل ِ زنداں کردیا گیا ۔ جہاں انہیں تفہیم القرآن کے مواد پر کام کرنے کا خاصہ
موقعہ ملا۔ ۲۴ ربیع الثانی ١۳۹۲ھ
بمطابق 7 جون1972ء کو تفہیم القرآن تیس سال چار مہینے کے عرصے میں پایہٴ تکمیل کو
پہنچی ۔اس کے متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔"[13]
سید ابوالاعلٰی مودودیپیدائش:1903ء، انتقال:1979ء)
مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔
بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی
تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا اور بیسیویں
صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
سید ابوالاعلٰی موددی پیدائش:1903ء، انتقال:1979ء)
مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔
بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی
تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا اور بیسیویں
صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔[14]
بِسْمِ اللَّـهِ
الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي
الْعُقَدِ ﴿٤﴾ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥﴾
ترجمہ:"کہو میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے ربّ کی،ہر اس چیز
کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔اور رات کی تاریکی کے شر سے جب وہ چھا جائے۔اور گرہوں
میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے،اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے"
صحیح بخاری میں نبی کریم ﷺپر جادو کا
واقعہ کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے۔
"صلح حدیبیہ کے بعد جب نبی کریم ﷺ واپس مدینہ منورہ
تشریف لا۴ے تو ۷ ہجری میں خیبر سے یہودیوں
کا ایک وفد مدینہ آیا اور مشہور جادوگر لبید بن اعصم یہودی سے ملا جو انصار کے
قبیلے بنو زریق سے تعلق رکھتا تھا۔یہودیوں
نے اس سے کہا:محمد ﷺ نے جو کچھ ہمارے ساتھ کیا ہے وہ تمھیں معلوم ہے؟ہم نے اس پر
جادو کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔لیکن کامیملی۔تم یہ تین اشرفیاں قبول کر لو اور محمد
(ﷺ) پر ایک زوردار جادو کر دو۔اس زمانے
میں ایک یہوسی لڑکا نبی کریم و کی خدمت کرتا تھا۔لبید نے اس سے ساز باز کر کے نبی
کریم ﷺ کی کنگھی کا ایک ٹکڑا حاسل کر لیا جس میں آپ کے بال مبارک تھے۔انہی بالوں
اور کنگھی کے دندانون پر جادو کر کے ان کو
نرکھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر لبید جادوگرنے زروان نامی کنویں کی تہ میں ایک پتھر کے نیچے رکھ دیا۔
اس جادو کا نبی کریم ﷺ پر اثر ہوا ،چنانچہ
آپ کسی کام کے متعلق خیال فرماتے کہ وہ کر لیا ہے،حالانکہ وہ کیا نہیں ہوتا تھا۔غرض
یہ تمام اثرات آپ کی ذات ہی تک محدود رہے حتیٰ کہ دوسرے لوگوں کو یہ تک معلوم نہ
ہو سکا کہ آپ پر کیا گزررہی ہے۔آپ کی نبوی حثیت اور آپ کے فرائض کے اندر اس جادو
سے کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے اس جادو کے علاج کے طور
پر جبریلؑ کو سورہ فلق اور سورہ الناس دے کر بھیجا،چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر
ہوئے اور بتایا کہ ایک یہودی نے آپ ﷺ پر جادو کیا ہے۔اور یہ جادو فلان کنویں میں
ہے۔نبی ﷺ نے حضرت علی اور کچھ صحابہؓ کو وہاں بھیجا ۔بعد میں آپ خود بھی وہاں
تشریف لے گے ۔کنویں میں پتھر کے نیچے وہ غلاف برآمد کر لیا گیا ۔اس میں کنگھی اور
بالوں کے اندر ھیارہ گرہیں لگائی ہوتھیں اور موم کا ایک پتلا تھا س۔جس میں سوئیاں
چھبوئی ہوئی تھیں۔نبیﷺ جبریل ؑ کے حکم کے مطابق ان دونوں سورتوں میں سے ایک ایک
آیت پڑھتے جاتے اور گرہ ھلتی جاتی اور سوئی نکلتی جاتی ۔خاتمے تک پہنچتے پہنچتے
ساری گرہیں بھی کھل گئیں اور سوئیاں بھی نکل گئیں اور آپ اس طرح صحیح و سالم ہو
گئے جیسے کوئی شخص جکڑبندی سے آزاد ہو جائے۔"[15]
کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد آپ نے لبید سے
بازپرس کی ۔اس نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا۔اور آپ نے اس کو چھوڑ دیا،کیونکہ آپ
ﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔بلکہ اس معاملے کا چرچا کرنے سے بھی
روکا کہ مجھے اللہ نے شفا دے دی ہے اب میں نہیں چاہتا کہ کسی کے خلاف لوگوں کو
بھڑکاؤں۔
یہ ہے سارا قصہ اس جادو کا ۔اس میں کوئی
چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کے منصب نبوت میں
قادح ہو۔ذاتی حثیت سے جب آپ کو زخمی کیا جاسکتا تھا جیساکہ جنگ احد میں ہوا،اگر آپ
گھوڑے سے گر کر چوٹ کھا سکتے تھے،جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے اگر آپ ﷺ کو بچھو کاٹ
سکتا تھا جیسا کہ کچھ اور احادیث میں وارد ہوا ہے۔اور ان میں سے کوئی چیز بھی اس
تحفظ کے منافی نہیں ہے جس کا نبی ہونے کی حثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا
تھا۔توآپ اپنی زاتی حثیت سے بیمار بھی ہو سکتے تھے نبی پ جادو کا اثر ہو سکتا ہے
یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے۔سورہ اعراف میں فرعون کے جادوگروں کے متعلق بیان ہوا
ہے کہ ضرت موسیٰؑ کے مقابلے میں جب وہ آئے تو انھوں نے ہزارہا آدمیون جو کہ اس مجمع میں شامل تھے پر جادو
کردیا۔"سحروا اعین الناس"
اوع سورہ طہ میں ہے کہ جو لاٹھیاں اور رسیاں انھوں نےپھینکی تھیں۔
ان کے متعلق عام لوگوں نے ہی نہیں بلکہ حضرت موسیٰؑ نے بھی یہی سمجھا کہ وہ ان کی
طرف سانپوں کی طرح دوڑی چلی آرہی ہیں۔اور اس سے ھضرت موسیٰؑ بھی خوف زدی ہوگئے۔یہان
تک کہ اللہ نے وحی نازل فرمائی
"قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ فَإِذَا
حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ﴿٦٦﴾ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَىٰ ﴿٦٧﴾ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَىٰ﴿ طہ:٦٨﴾
تیسرا مسئلہ اِن سورتوں کے معاملہ میں یہ
پیدا ہوتا ہے کہ آیا جھاڑ پھونک کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟ اور یہ کہ جھاڑ
پھونک بجائے خود مؤثر بھی ہے یا نہیں؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ بکثرت صحیح
احادیث میں یہ ذکر آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات کو سوتے وقت،
اور خاص طور پر بیماری کی حالت میں معوّذتین، یا بعض روایات کے مطابق مُعوّذات
(یعنی قل ہو اللہ اور معوِّذتین) تین مرتبہ پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونکتے
اور سر سے لے کر پاؤں تک پورے جسم پر، جہاں جہاں تک بھی آپ کے ہاتھ پہنچ سکتے،
انہیں پھیرتے تھے۔آخر بیماری میں جب آپ کے لیے خود ایسا کرنا ممکن نہ رہا تو حضرت
عائشہ نے یہ سورتیں (بطور خود یا حضورؐ کے حکم سے) پڑھیں اور آپ کے دست مبارک کی
برکت کے خیال سے آپ ہی کے ہاتھ لے کر آپ کے جسم پر پھیرے ۔ اس مضمون کی روایات صحیح
سندوں کے ساتھ بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابو داؤد اور مؤطا امام مالک
میں خود حضرت عائشہ سے مروی ہیں جن سے بڑھ کر کوئی بھی حضورؐ کی خانگی زندگی
سے واقف نہ ہو سکتا تھا۔
اِس معاملہ میں پہلے مسئلہ شرعی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ احادیث میں حضرت عبد
اللہ بن عباسؓ کی طویل روایت آئی ہے جس کے آخر میں حضورؐ فرماتے ہیں کہ میری امت
کے و ہ لوگ بلا احساب جنت میں داخل ہوں گے جو نہ داغنے کا علاج کراتے ہیں، نہ جھاڑ
پھونک کراتے ہیں، نہ فال لیتے ہیں ، بلکہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (مسلم)۔ حضرت
مُغِرہؓ بن شُعبہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جس نے داغنے سے علاج کرایا اور
جھاڑ پھونک کرائی وہ اللہ پر توکل سے بے تعلق ہو گیا (ترمذی)۔ حضڑت عبد اللہ بن
مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس چیزوں کو نا پسند فرماتے
تھے جن میں سے ایک جھاڑ پھونک بھی ہے سوائے معوّذتین یا معوّذات کے (ابو داؤد،
احمد، نسائی، ابن حبان، حاکم)۔ بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں
حضورؐ نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرما دیا تھا، لیکن بعد میں اِس شرط کے ساتھ اس
کی اجازت دے دی کہ اس میں شرک نہ ہو، اللہ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا
جائے،کلام ایسا ہو جو سجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس میں کوئی گناہ کی
چیز نہیں ہے، اور بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ بجائے خود شفا دینے والی
ہے، بلکہ اللہ پر اعتماد کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا۔ یہ مسئلہ
شرعی واضح ہوجانے کے بعد اب دیکھیے کہ احادیث اِس بارے میں کیا کہتی ہیں:
طبرانی نے صغیر میں حضرت علیؓ کی روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ کو ایک دفعہ نماز
کی حالت میں بچھو نے کاٹ لیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا بچھو پر
خدا کی لعنت، یہ نہ کسی نمازی کو چھوڑتا ہے نہ کسی اور کو۔ پھر پانی اور نمک
منگوایا اور جہاں بچھو نے کاٹا تھا وہاں آپ نمکین پانی ملتے جاتے اور قل یا ایہا
الکافرون، قل ھو اللہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھتے
جاتے تھے۔
ان عباس کی یہ روایت بھی احادیث میں آئی ہے
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ پر یہ دعا پڑھتے تھے اُعِیْذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ
کُلِّ شَیْطَانٍ وَّھَا مَّۃٍ وَّمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَّا مَّۃٍ۔ ”میں تم کو اللہ
کے بے عیب کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان اور موذی سے اور ہر نظر بد
سے“(بخاری، مسند احمد،ترمذی اور ابن ماجہ)۔
عثمان بن ابی العاص الثَقَفی کے متعلق مسلم، مُوَطَّا، طبرانی اور حاکم میں تھوڑے
لفظی اختلاف کے ساتھ یہ روایت آءی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
شکایت کی کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھے ایک درد محسوس ہوتا ہے جو مجھ کو مارے
ڈالتا ہے۔ آپ نے فرمایا اپنا سیدھا ہاتھ اُس جگہ پر رکھو جہاں درد ہوتا ہے ، پھر
تین مرتبہ بسم اللہ کہو اور سات مرتبہ یہ کہتے ہوئے ہاتھ پھیرو کہ اَعُوْذُ
بِاللہِ وَ قُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَآ اَجِدُ وَ اُحَاذِرُ،”میں اللہ اور اس
کی قدرت کی پناہ مانگتا ہوں اُس چیز کے شر سے جس کو میں محسوس کرتا ہوں اور جس کے
لاحق ہونے کا مجھے خوف ہے“۔ موطاء میں اس پر یہ اضافہ ہے کہ عثمانؓ بن ابی العاص
نے کہا کہ اس کے بعد میرا وہ درد جاتا رہا ، اور اِسی چیز کی تعلیم میں اپنے گھر
والوں کو دیتا ہوں۔
مُسند احمد اور طحاوی میں طَلقْ بن علیؓ کی
روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بچھو نے کاٹ
لیا۔حضورؐ نے مجھ پر پڑھ کر پھونکا اور اس جگہ پر ہاتھ پھیرا۔
مسلم میں ابو سعیدؓ خُدری کی روایت ہے کہ
ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو جبریل نے آکر پوچھا ”اے محمدؐ،
کیا آپ بیمار ہوگئے“؟آپ نے فرمایا ہاں۔ انہوں نے کہا بِاسْمِ اللہِ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ
شَیٍْ یُّؤْذِیْکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْعِیْنٍ حَا سِدٍ، اَللہُ
یَشْفِیْکَ بِاسْمِ اللہِ اَرْقِیْکَ،”میں اللہ کے نام
پر آپ کو جھاڑتا ہوں ہر اُس چیز سے جو آپ کو اذیت دے اور ہر نفس اور حاسد کی نظر
کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے ، میں اُس کےنام پر آپ کو جھاڑتا ہوں۔“اسی سے ملتی
جلتی روایت مُسند احمد میں حضرت عُبادہ بن صامت سے منقول ہے کہ حضورؐ بیمار
تھے۔ میں عیادت کے لیے گیا تو آپ کو سخت تکلیف میں پایا۔ شام کو گیا تو آپ بالک
تندرست تھے۔ میں نے اس قدر جلدی تندرست ہوجانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جبریلؑ
آئے تھے اور انہوں نے مجھے چند کلمات سے جھاڑا۔ پھر آپ نے قریب قریب اُسی طرح کے
الفاظ اُن کو سُنائے جو اوپر والی حدیث میں نقل کیے گئے ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے بھی
مسلم اور مسند احمد میں ایسی ہی روایت نقل کی گئی ہے۔
امام احمد نے اپنی مُسند میں حضرت حفصہؓ ام
المومنین کی روایت نقل کی ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں آئے اور
میرے پاس ایک خاتون شفا ۳؎نامی
بیٹھی تھیں جو نَمِلہ (ذُباب) کو جھاڑا کرتی تھیں۔ حضورؐ نے فرمایا حفصہؓ کو بھی
وہ عمل سکھا دو۔ خود شفاؓ بنت عبداللہ کی یہ روایت امام احمد، ابو داؤد اور نسائی
نے نقل کی ہے کہ حضورؐ نے مجھ سے فرمایا کہ تم نے حفصہ کو جس طرح لکھنا پڑھنا
سکھایا ہے نَمِلہ کا جھاڑنا بھی سکھا دو۔
مسلم میں عوف بنؓ مالک اشجعی کی روایت ہے
کہ جاہلیت کے زمانے میں ہم لوگ جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم سے پوچھا کہ اس معاملہ میں حضورؐ کی رائے کیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا جن
چیزوں سے تم جھاڑتے تھے وہ میرے سامنے پیش کرو، جھاڑنے میں مضائقہ نہیں ہے جب تک
اُس میں شرک نہ ہو۔
مسلم، مسند احمد، اور ابن ماجہ میں حضرت
جابر بن عبد اللہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولم نے جھاڑ
پھونک سے روک دیا تھا۔ پھر حضرت عمر و بن حزم کے خاندان کے لوگ آئے اور کہا کہ
ہمارے پاس ایک عمل تھا جس سے ہم بچھو (یا سانپ) کاٹے کو جھاڑتے تھے۔ مگر آپ نے اِس
کام سے منع فرما دیا ہے۔ پھر انہوں نے وہ چیز آپ کو سنائی جو وہ پڑھتے تھے۔ آپ نے
فرمایا”اس میں تو کوئی مضائقہ نہیں پاتا، تم میں سے جو شخص اپنے کسی بھائی کو
فائدہ پہنچا سکتا ہے وہ ضرور پہنچائے“۔ جابر بن ؓعبداللہ کی دوسری حدیث مسلم
میں یہ ہے کہ آلِ حَزْم کے پاس سانپ کاٹے کا عمل تھا اور حضورؐ نے ان کو اس کی
اجازت دیدی۔ اس کی تائید مسلم، مسند احمد، ار ابن ماجہ میں حضرت عائشہؓ کی یہ
روایت بھی کرتی ہے کہ حضورؐ نے انصار کے ایک خاندان کو ہر زہریلے جانور کے
کاٹے کو جھاڑنے کی اجازی مرحمت فرمائی۔ مُسند احمد اور ترمذی اور مسلم اور ابن
ماجہ میں حضرت انس سے بھی اس سے ملتی جلتی روایات نقل کی گئی ہیں جن میں حضورؐ نے
زہریلے جانوروں کے کاٹے،اور ذُباب کے مرض اور نظرِ بد کے جھاڑنے کی اجازت دی۔
مُسند احمد ، ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے
حضرت عُمیرؓ مولیٰ اٰبِی اللَّحم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں
میرے پاس ایک عمل تھا جس سے میں جھاڑا کرتا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے سامنے اسے پیش کیا۔ آپ نے فرمایا فلاں فلاں چیزیں اس میں سے نکال دو، باقی
سے تم جھاڑ سکتے ہو۔
مُوطاء میں ہے کہ حضرت ابو بکر اپنی
صاحبزادی حضرت عائشہ کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ بیمار ہیں اور ایک یہودیہ
اُن کو جھاڑ رہی ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ کتاب اللہ پڑھ کر جھاڑ۔ اس سے معلوم
ہوا کہ اہلِ کتاب اگر توراۃ یا انجیل کی آیات پڑھ کر جھاڑیں تب بھی یہ جائز ہے۔
رہا یہ سوال کہ آیا جھاڑ پھونک مفید بھی ہے
یا نہیں ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوا ور علاج سے
نہ صرف یہ کہ کبھِ منع نہیں فرمایا، بلکہ خود فرمایا کہ ہر مرض کی دوا اللہ نے
پیدا کی ہے اور تم لوگ دوا کیا کرو۔ حضورؐ نے خود لوگوں کو بعض امراض کے علاج
بتائے ہیں، جیسا کہ احادیث میں کتاب الطب کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے ۔ لیکن
دوا بھی اللہ ہی کے حکم اور اذن سے نافع ہوتی ہے ، ورنہ اگر دوا اور طبی معالجہ
ہرحال میں نافع ہوتا تو ہسپتالوں میں کوئی نہ مرتا۔ اب اگر دوا اور علاج کرنے کے
ساتھ اللہ کے کلام اور اس کے اسمائے حسنٰی سے بھی استفادہ کیا جائے، یا ایسی جگہ
جہاں کوئی طبی امداد میسر نہ ہو اللہ ہی کی طرف رجوع کر کے اس کے کلام اور اسماء و
صفات سے استعانت کی جائے تو یہ مادّہ پرستوں کے سوا کسی کی عقل کے بھی خلاف نہیں
ہے۔
۴؎ البتہ
یہ صحیح نہیں ہے کہ دوا اور علاج کو، جہاں وہ میسر ہو، جان بوجھ کر چھوڑ دیا جائے،
اور صرف جھاڑ پھونک سے کام لینے ہی پر اکتفا کیا جائے، اور کچھ لوگ علیات اور
تعویذوں کے مَطب کھول کر بیٹھ جائیں اور اسی کو کمائی کا ذریعہ بنا لیں۔
اس معاملہ میں بہت
سے لوگ حضرت ابو سعیدؓ خدری کی اُس روایت سے استدلال کرتے ہیں جو بخاری، مسلم ،
ترمذی، مسند احمد، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں منقول ہوئی ہے اور اس کی تائید
بخاری میں ابن عباسؓ کی بھی ایک روایت کرتی ہے۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ حضورؐ نے
ایک مہم پر اپنے چند اصحاب کو بھیجا جن میں حضرت ابو سعیدؓ خُدری بھی تھے ۔ یہ
حضرات راستہ میں عرب کے ایک قبیلے کی بستی پر جا کر ٹھیرے اور انہوں نے قبیلے
والوں سے کہا کہ ہماری میز بانی کرو۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ اتنے میں قبیلے کے
سردار کو بچھو نے کاٹ لیا، اور وہ لوگ اِن مسافروں کے پاس آئے اور کہا کہ
تمہارے پاس کوئی دوا یا عمل ہے جس سے تم ہمارے سردار کا علاج کر دو؟ حضرت ابو سعید
نے کہا ہے تو سہی مگر چونکہ تم نے ہماری میزبانی سے انکار کیا ہے اس لیے جب تک تم
کچھ دینا نہ کرو، ہم اس کا علاج نہیں کریں گے۔ انہوں نے بکریوں کا ایک ریور(بعض
روایات میں ہے ۳۰ بکریاں) دینے کا وعدہ کیا اور ابو سعیدؓ
نے جا کر اس پر سورۃ الفاتحہ پڑھنی شروع کی اور لعاب دھن اس پر ملتے گئے۔ ۵؎ آخر
کار بچھو کا اثر زائل ہو گیا اور قبیلے والوں نے جتنی بکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا
وہ لا کر دے دیں۔ مگر ان حضرات نے آپس میں کہا ان بکریوں سے کوئی فائدہ نہ اٹھاؤ
جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لیا جائے۔ نہ معلوم اس کام
پر اجر لینا جائز ہے یا نہیں۔ چنانچہ یہ لوگ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور
ماجرا عرض کیا۔ حضورؐ نے مسکرا کر فرمایا”تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ سورہ جھاڑنے
کے کام بھی آسکتی ہے؟ بکریاں لے لو اور ان میں میرا حصہ بھی لگاؤ“۔
لیکن اِس حدیث سے
تعویذ، گنڈے اور جھاڑ پھونک کے مطلب چلانے کا جواز نکالنے سے پہلے عرب کے اُن
حالات کا نگاہ میں رکھنا چاہیے جن میں حضرت ابو سعید خُدری نے یہ کام کیا تھا اور
حضورؐ نے اسے نہ صرف جائز رکھا تھا، بلکہ یہ بھی فرمایا تھا کہ میرا حصہ بھی
لگاؤ، تا کہ اس کے جواز و عدم ِ جواز کے معاملہ میں اِن اصحاب کے دلوں میں کوئی
شبہ باقی نہ رہے ۔ عرب کے حالات اُس زمانے میں بھی یہ تھے اور آج تک یہ ہیں
کہ پچاس پچاس ، سوسو، ڈیڑھ ڈیڑھ سو میل تک آدمی کو ایک بستی سے چل کر دوسری بستی
نہیں ملتی ۔ بستیاں بھی اُس وقت ایسی نہ تھیں جن میں ہوٹل، سرائے یا کھانے کی
دوکانیں موجود ہوں اور مسافر کئی کئی روز کی مسافت طے کر کے جب وہاں پہنچے تو
سامانِ خوردنوش خرید سکے۔ ان حالات میں یہ بات عرب کے معروف اصولِ اخلاق میں شامل
تھی کہ مسافر جب کسی بستی پر پہنچیں تو بستی کے لوگ ان کی میزبانی کریں۔ اس سے
انکار کے معنی بسا اوقات مسافروں کے لیے مَوت کے ہوتے تھے، اور عرب میں اِس طرز
عمل کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ
کے اس فعل کو جائز رکھا کہ جب قبیلے والوں نے میز بانی سے انکار کر دیا تھا
تو ان کے سردار کا علاج کرنے سے
انہوں نے بھی انکار کر دیا، اور اس شرط پر اس کا علاج کرنے پر راضی ہوئے کہ وہ ان
کو کچھ دینا کریں۔ پھر جب ان میں سے ایک صاحب نے اللہ کے بھروسے پر سورہ فاتحہ اُس
سردار پر پڑھی اور وہ اس سے اچھا ہوگیا تو طے شدہ اجرت قبیلے والوں نے لا کر دے دی
اور حضورؐ نے اس اجرت کے لینے کو حلال و طیب قرار دیا۔ بخار ی میں اس واقعہ کے
متعلق حضرت عبداللہ بن عباس کی جو روایت ہے اس میں حضورؐ کے الفاظ یہ ہیں کہ اِنَّ
احقَّ ما اخذ تم علیہ اجراً کتاب اللہِ، یعنی بجائے اس کے کہ تم کوئی اور عمل
کرتے، تمہارے لیے یہ زیادہ برحق بات تھی کہ تم نے اللہ کی کتاب پڑھ کر اس پر اجرت
لی۔ یہ آپ نے اس لیے فرمایا کہ دوسرے تمام عملیات سے اللہ کا کلام بڑھ کر ہے، علا
وہ بریں اس طرح عرب کے اُس قبیلے پر حق تبلیغ بھی ادا ہو گیا کہ انہیں اس کلام کی
برکت معلوم ہو گئی جو اللہ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں۔ اِس واقعہ
کو اُن لوگوں کے لیے نظیر قرار نہیں دیا جا سکتا جو شہروں اور قصبوں میں بیٹھ کر
جھاڑ پھونک کے مطب چلاتے ہیں اور اسی کو انہوں نے وسیلہ معاش بنا رکھا ہے۔ اس کی
کوئی نظیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ و تابعین اور ائمہ سلف کے
ہاں نہیں ملتی۔
آخری چیز جو
معوّذتین کے بارے میں قابل توجہ ہے وہ قرآن کے آغاز اور اختتام کی
مناسبت ہے۔اگر چہ قرآن مجید ترتیب نزول پر مرتب نہیں کیا گیا ہے، مگر ۲۳ سال کے دوران میں
مختلف حالات اور مواقع اور ضروریات کے لحاظ سے نازل ہونے والی آیات
اور سورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خود نہیں بلکہ ان کے
نازل کرنے والے خدا کے حکم سے اس شکل میں مرتب فرمایا جس میں ہم
اب اس کو پاتے ہیں۔ اس ترتیب کے لحاظ سے قرآن کا آغاز سورہ فاتحہ سے ہوتا ہے اور
اختتام معوّذتین پر ۔اب ذرا دونوں پر ایک نگاہ ڈالیے ۔ آغاز میں اللہ رب العالمین،
رحمٰن الرحیم ، اور مالک یوم الدین کی حمد و ثناہ کر کے بندہ عرض کرتا ہے کہ آپ ہی
کی میں بندگی کرتا ہوں اور آپ ہی سے مدد چاہتا ہوں، اور سب سے بڑی مدد جو
مجھے درکار ہے وہ یہ ہے کہ مجھے سیدھا راستہ بتائیے۔ جو اب میں اللہ تعالیٰ کی طرف
سے سیدھا راستہ دکھانے کے لیے اسے پورا قرآن دیا جاتا ہے، اور اس کو ختم اس بات پر
کیا جاتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے جو رب الفلق ، رب الناس ، مالک الناس اور الہ
الناس ہے ، عرض کرتا ہے کہ میں ہر مخلوق کے ہر فتنے اور شر سے محفوظ رہنے کے لیے
آپ ہی کی پناہ لیتا ہوں، ااور خصوصیت کے ساتھ شیاطین جن و انس کے وسوسوں سے
آپ کی پناہ مانگتا ہوں، کیونکہ رائے راست کی پیروری میں وہی سب سے زیادہ مانع ہوتے
ہیں۔ اس آغاز کے ساتھ یہ اختتام جو مناسبت رکھتا ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ
نہیں رہ سکتی۔"[16]
بِسْمِ
اللَّـهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ
النَّاسِ ﴿١﴾ مَلِكِالنَّاسِ ﴿٢﴾ إِلَٰهِالنَّاسِ ﴿٣﴾ مِنْشَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴿٤﴾ الَّذِييُوَسْوِسُفِيصُدُورِالنَّاسِ ﴿٥﴾ مِنَالْجِنَّةِوَالنَّاسِ ﴿٦﴾
ترجمہ:"کہو،میں
پناہ مانگتا ہوں،انسانوں کے رب،انسانوں کے بادشاہ،انسانوں کے حقیقی معبود کی اس
وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے۔سجو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ
ڈالتا ہے خواہ وہ جنون میں سے ہو یا انسانوں میں سے"
اس لفظ کا مادہ عوذ ہے جس کا مفہوم لغت میں یہ ہے کہ کوئی چیز
جس کو تم پسند نہیں کرتے ہو اس سے بھاگ کر کوئی ایسی پناہ ڈھونڈو جو اس کے شرسے تم
کو بچائے۔"[17]
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ آپ کہہ دیں کہ میں لوگوں کے رب ،لوگوں کے بادشاہ اور لوگوں
کے معبود کی پناہ میں آتا ہوں۔تفسیر معانی القرآن میں ہے
"رب کا مطلب ہے جو ابتداء ہی سے جب کہ انسان ابھی ماں
کے پیٹ میں ہوتا ہے اس کی اصلاح و تدبیر کرتا ہے۔یہاں تک کہ وہ عاقل و بالغ ہو
جاتا ہے۔یہ اصلاح و تدبیر کرنا چند مخصوص
افراد کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔اور تمام انسانوں ہی کےلیے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات کے لیے ہے۔چونکہ انسان کو دیگر
مخلوقات پر شرف و فضل حاصل ہے۔اس لیے بطور خاس انسانوں کا زکر کیا ہے۔جو ذات اس
قدر عظیم قدرت رکھتی ہے۔کہ تمام انسانوں کی پرورش اور نگہداشت کرتی ہےوہی اس لائق
ہے۔کہ کائنات کی حکمرانی اور بادشاہی بھی اسی کے پاس پو۔اور جو تمام کائنات کا پروردگار ہو،پوری کائنات پر اسی کی
بادشاہی ہو،وہی زات اس بات کی مستحق ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور وہی تمام
کی معبود ہو۔"[18]
تفسیر ضیاءالقرآن میں ہے۔
"عام آدمی کی نگاہ فقط ان نعمتوں تک محدود رہتی ہے جو اس کی ظاہری نشونما
میں ممدو معاون چابت ہوں اگر اسے کھانا اچھا مل جائے ،رہنے کے لیے آرام دہ مکان
میسر آ بھی جائے ،اس کی روزمرہ کی ضروریات آسانی،بلکہ فروانی سے پوری ہوتی رہیں تو وہ مطمن و مسرور ہو جاتا ہے۔معاشی حوائج سے
آگے جھانکنے کی نہ اسے ضرورت ہوتی نہ اس میں صلاحیت،ایسے لوگون کے لیے "رب
الناس"لوگوں کا پروردگار کے کلمات سے اللہ تعالیٰ کا تعارف کروایا جا رہا
ہے۔کہ تمھیں ایسی ذات سے پناہ مانگنے کا حکم دیا جارہا ہے۔جو تمہاری جملہ ضروریات
کا کفیل ہے۔جس کی مہربانی سے تمہاری زندگی محرومیوں اور مایوسیوں سے پاک ہو جائے گی۔تو وہ مطمئن ہو جاتے
ہیں۔"[19]
تفسیر ابن کثیر میں
ہے
"ربوبیت ،ملوکیت اور الوہیت یہ اللہ تعالیٰ کی تین صفتیں ہیں۔وہ ہر چیز
کا رب ،بادشاہ اور معبود ہے۔تمام اشیاء اس کی مخلوق،مملوک اور غلام ہیں۔پناہ
مانگنے واے کو حکمدیا گیا ہے۔کہ وہ اس ذات گرامی کے اتھ جو ان اوصاف حمیدہ کے ساتھ
اتصاف پزیر ہو،وسوسہ اندازی کر کے پیچھے ہٹ جانے والے سے پناہ مانگے۔"[20]
اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام صفات ،یعنی لوگوں کا رب،فرمانروا،اور معبود ہونے سے بنی نوع انسان کو آگاہ فرمایا اس کا مقصد یہ ہے
کہ انسان اللہ کی قادرمطلق ذات ہی کی طعرف رجوع کرے،چونکہ وہی رب،وہی بادشاہ اور
معبود ہے اس لیے کہ اس کے سوا کوئی اور ہے ہی نہیں جس سے پناہ مانگوں اور جو حقیقت
میں پناہ دے بھی سکتا ہو۔
سید ابوالاعلیٰ
مودودیؒ لکھتے ہیں
"پناہ مانگنے کے فعل میں لازما تین اجزاء آتے ہیں ایک بجائے خود پناہ
مانگنا،دوسرے پناہ مانگنے والا،تیسرا وہ جس سے پناہ مانگی جائے۔پناہ مانگنے سے
مراد کسی چیز کا خوف محسوس کرکے اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے کسی دوسرے کی حفاظت
میں جانا۔یا اس کی آڑ لینایا اس سے لپٹ جانا یا اس کے سایہ میں چلا جانا۔پناہ
مانگنے والا بہر ھال وہ شخص ہوتا ہے جو یہ محسوس کرتا ہے کہ جس چیز سے وہ ڈر رہا
ہے اس کا مقابلہ وہ خود نہیں کر سکے گا۔بلکہ وہ اس کا حاجت مند ہے۔"[21]
شیطان نہایت غیر محسوس طریقے سے انسان کے دل میں بری باتیں دال دیتا ہے۔جس کو
شیطانی وسوسہ کہا جاتا ہے۔تفسیر معانی القرآن میں ہے
"کہ خناس کے معنی پیچھے لوٹنے کے ہیں۔شیطان کو خناس اس لیے کہا جاتا ہے۔کہ
اس کی عادت یہ ہے کہ انسان جب اللہ کا نام لیتا ہے تو یہ پیچھے بھاگ جاتا ہے۔پھر
جب زرا غفلت ہوئی تو واپس آجاتا ہے انسان پھر اللہ کا نام لیتا ہے تو شیطان پھر
پیچھے لوٹ جاتا ہے۔یہی عمل مسلسل جاری رہتا ہے شیاطین اور جنوں کو اللہ
تعالیٰ نے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قدرت
دی ہے۔اس کے علاوہ ہر انسان کے ساتھ سایک شیطان اس کا ساتھی ہوتا ہے۔جو اس کو
گمراہ کرتا رہتا ہے۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
ما منکم
من احد الا و قد وکل بہ قرینہ من الجن
"تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کا ساتھی جنوں میں سے مقرر
کر دیا ہے۔"
صحابہ اکرام نے عرض
کی :اے اللہ کے رسول کیا آپ ﷺ کے ساتھ بھی ہے؟آپ نے فرمایا:
و ایای
۔الا ان اللہ اعاننی علیہ فاسلم،فلا یامرنی الا بخیر
"ہاں میرے ساتھ بھی ہے،لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے۔اور
وہ فرمانبردار ہو گیا ہے۔سچنانچہ وہ مجھے خیر کے علاوہ کسی بات کا حکم نہیں
دیتا۔"[22]
نبی ﷺ اعتکاف فرما رہے تھے کہ آپ و کی
بیوی صفیہ ؓ آ پ سے ملنے کے لیے آئیں۔رات کا وقت تھا آپ انھیں چھوڑنے کے لیے ان کے
ساتھ مسجد کے دروازے تک آئے س۔اتنے میں دو انصاری صحابی وہاں سے گزرے ،جب انھوں نے
آپ کو دیکھا تو تیز چلنے لگے،آپ نے ان سے فرمایا:
علیٰ
رسلکما انما ھی صفیتہ بنت حیییّ
"زرا ٹھہر جاؤ ،یہ (میری بیوی)صفیہ بنت حییی ہیں"
انھوں نے عرج کی سبحان اللہ اے اللہ کے رسول!(آپ کے بارے ہمیں کیا بدگمانی ہو
سکتی ہے)آپ نے فرمایا:
ان
الشیطان یبلغ من ابن آدم مبلگ الدم،و انی خشیت ان یقذف فی قلوبکما شیا
"یہ (تو ٹھیک ہے لیکن)شیطان انسان کی رگون میں خون کی طرح
دوڑتا ہے،مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں وہ
تمہارے دلون میں کچھ شبہ نہ ڈال دے۔"[23]
تفسیر ضیاء القرآن
میں ہے
" بعض علماء فرماتے ہیں کہ جب شیطان ،انسان کو ذکر الہی سے غافل
پاتا ہے تو اس کےحملے شروع ہو جاتے ہیں
اور جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے لگتا ہے۔تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور کسی کونے میں چھپ جاتا ہے۔بعینہ اس طرح
جیسے کوئی چورنقب لگا رہا ہو۔اور کہں سے روشنی نمودار ہوجائے تو وہ نقب لگانا بند کر دیتا ہے۔اور ایک بے جان
پتھر کا روپ دھار لیتا ہے۔اور جب روشنی بجھ جاتی ہے۔تو پھر اپنا شغل شروع کر دیتا
ہے۔"[24]
معوذتین کی فضلیت اور اہمیت کے پیش نطر یہ دونوں سورتوں اپنے مضامین کے اعتبار
سے نہایت اہم ہیں۔اللہ تعالی نے اس میں دو چیزیں جو انسان کو گمراہ کرتی ہیں
۔بتایا ہے وہ انسان اور شیطان ہیں۔قرآن مجید نے دونوں سے دفاع کا طریقہ اور علاج
بھی بتایا ہے۔انسانی دشمنی کا علا ج عفو درگزر،حسن سلوک اور صبر جمیل بتایا ہے۔اور
جو انسان حد سے بڑھے ہوں اور سیدھے ہاتھوں
سے ماننے والے نہ ہوں تو ان کا علاج جہادوقتال بتایا گیا ہے۔دوسرا دشمن شیطان ہے۔جو
اپنی فطرت میں شریر ہے۔احسان،عفو درگزر اور بر جمیل اس پر اچھا اثر نہیں ڈالتے جس
وہ اپنی شرارت سے باز آجائے اور نہ ہی جہادوقتال۔اس لیے شیطان کا علاج صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا ہے۔اور اس کے
زکر میں مشغول ہو جانا ہے۔جس کی قرآن مجید میں جابجا تلقین کی گئی ہے۔اللہ کی پناہ
کے سامنے شیطان کی ہر تدبیر کمزور،ضعیف اور بے اثر ہے۔معوذتین وہ ہتھیار ہیں جو
ہمیں انسانی اور شیطان جنوں سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
·
السیوطی،جلا ل الدین ،الاتقان فی علوم القرآن،دارالاشاعت اردو بازار کراچی
·
اصلاحی ،امین احسن
،تدبرقرآن،فاران فاونڈیشن لاہور،۲۰۰۲ء
·
السیوطی،جلال
الدین،الاتقان فی علوم القرآن،دارالاشاعت کراچی،۲۰۰۹
·
حقانی،ابو محمدعبدالحق،دہلوی،تفسیر فتح المنان المشہور بہ تفسیر حقانی،الفیصل
ناشران و تاجران کتب،لاہور،س۔ن
·
الجوزی،ابن قیم،حافظ،تفسیر معوذتین (مترجم)مولانا عبدالرحیم پشاوری،جمعیت
شعبان اہل حدیث ،فیصل آباد،س۔ن
·
مودودی،ابوالاعلیٰ،تفہیم
القرآن،ترجمان القرآن،لاہور،۱۹۹۹
·
ابو مرجان
مدنی،تفسیر معانی القرآن،پارہ :۳۰،دارالسلام پبلیشرز
·
آلوسی،ابی فضل شہاب الدین السید محمودالبغدادی،تفسیروح المعانی،مکتبہ امدادیہ
ملتان،س۔ن
·
ابن کثیر،عماالدین،ابوالفداء اسماعیل الدمشقی،تفسیر القرآن
العظیم المعروف بہ تفسیر ابن کثیر،دارالقرآن الکریم،بیروت،۱۳۹۳ھ(مترجم)محمد جونا
گڑھی،مکتبہ قدوسیہ،۱۹۹۹ء
·
سعیدی،غلام رسول،التبیان القرآن،فرید بک سٹال لاہور،۲۰۰۷ء
·
بغوی،حسین بن مسعود،معالم التنزیل،ناشر دار احیاء التراث العربی،بیروت،س۔ن
·
سعدی،عبدالرحمٰن بن الناصر،تفسیر سعدی،دارالسلام پبلیشرز،س۔ن
·
الرازی،فخرالدین محمد بن الحسین بن الحسن ابن علی التمیمی البکری
الشافعی،التفسیرا لکبیراو مفاتح الغیب،دارالعلمیہ،بیروت،۱۴۱۱ھ
پانی پتی،ثناء اللہ،قاضی،تفسیر مظہری (مترجم)عبدالدائم جلالی،دارالاشاعت
،کراچی
[1]
تفسیر معانی القرآن،۳۰ پارپ،ص:۴۱
[3]تفہیم القرآن ۶/۵۴۶
[4]تدبر قرآن ۸/ ۶۷۳
[5]تفہیم القرآن ۶/ 562
[6]الاتقان فی علوم القرآن ۱/ ۵۱
[7]تفسیر معانی القرآن،پارہ ۳۰،ص:۳۲۵
[8]صحیح مسلم،صلاتہ المسافرین،باب فضل قراءتہ المعوذتین،حدیچ
نمبر:۸۱۴
[9]صحیح البخاری،فضائل القرآن،باب فضل المعوزات،حدیث
نمبر:۵۰۱۶،و صحیح مسلم،السلام،باب رقیہ المریض بالموذات والنفث،حدیث نمبر:۲۱۹۲
[10]ابن قیم
جوزیہ،تفسیر معوذتین،ص:۱۰
[11]التبیان القرآن
۱۸ ۱۰۴۴
[12]تفہیم القرآن ۶ /
۵۵۲أ۵۵۳
[13]-وکیپیڈیا آزاد دائرہ معارف اسلامی
[14]http://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%A8%D9%88_%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B9%D9%84%DB%8C_%D9%85%D9%88%D8%AF%D9%88%D8%AF%DB%8C
[15]صحیح
البخاری،الطب،باب السھر،حدیث نمبر:۵۷۶۳،و صحیح مسلم،السلام،باب السحر،حدیث
نمبر:۲۱۸۹،و مسند احمد:۴/۳۶۷،وفتح الباری:۱۰/۲۲۵أ۲۳۲،تفہیم القرآن:۶ / ۵۵۴
[16]تفہیم القرآن ۶/
۵۵۷،۵۶۲
[18]ابو مرجان
مدنی،تفسیر معانی القرآن، ۳۰ /۳۳۴
[19]ضیاءالقرآن ۵ /۷۳۳
[20]تیسیرالقرآن العظیم ۴ / ۵۴۴
[21]تفہیم القرآن ۶/ ۵۶۳
[22]صحیح مسلم،صفات
لمنافقین،باب تحریشطان و بعثہ سرایاہ۔۔۔،حدیث نمبر:۲۸۱۴
[23]تفسیر معانی القرآن،ص:۳۳۵
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں