سرمایہ کا مقام اور فکر مودودی﷫

 سرمایہ کا مقام اور فکر مودودی
مفہوم :
سرمایہ (Capital)اصل پیدائش دولت کا تیسرا اہم عامل (Factor) ہے۔ سرمایہ کیا ہے ؟ معاشیات کی شدبد نہ رکھنے والا دماغ سرمایہ کا نام سنتے ہی بینک یا گھر میں جمع شدہ رقم یادولت کی دیگر صورتوں کی طرف منتقل ہونے لگ جاتا ہے اور جب کہا جائے فلاں سرمایہ دار ہے تو یہ دماغ اس کی ہمہ قسم کی جائیداد اور جمع  شدہ پونجی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے گھر یا بینک میں بیکار پڑی دولت روپیہ وغیرہ جس قدر بھی زیادہ ہواسے ارتکاز شدہ دولت (Concentrated Wealth) توکہہ سکتے ہیں کیونکہ یہاں تو اس امیر شخص نے اپنی حرص و خواہش کوپورا کرنے کے لیے دولت جوملک وملت کےجسم کا معاشی خون ہے اسے نچوڑ کر یا کھینچ کر اپنی تجوری یابینک میں اپنے کھاتے میں جمع کر رکھا ہے یا زیر زمین دفن کر رکھا ہے یا اپنے مکان کے کسی کونےمیں چھپا رکھا ہے اسلامی معاشیات میں یہ نہایت مکروہ اور نقصان دہ عمل ہے جس پر دنیا وآخرت میں سخت سزا کی وعید  ہے۔
در اصل  معاشیات کی اصطلاح میں سرمایہ جمع شدہ دولت یا ذرائع دولت کو کہتے ہیں جو مزید دولت پیدا کرنے کا وسیلہ بنیں۔مثلاً کارخانہ ،کرایہ پر دینے کے لیے مکان ، مشین ، ٹریکٹر وغیرہ ۔معیشت دانوں نے سرمایہ کالفظ ایسے تمام آلات و اوزار کے لیے بھی استعمال کیا ہے جو انسان خود بنائے یاخرید کر لائے اور ان کی مدد سے پیدائش دولت کاعمل جار ی رکھے ۔
سرمایہ اصل کی نوعیت ایک آسان طریقہ اور عام فہم انداز میں یوں سمجھ لیجئے کہ انسان اللہ کریم کے دیئےہوئے قدرتی عطیات مثلاً زمین وغیرہ سےاپنی جسمانی محنت یا داماغی محنت سے کچھ کماتا ہے اپنی اس طرح کمائی ہوئی دولت کے بارے میں وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ ساری خرچ نہ کر دے بلکہ کچھ بچا بھی لے ۔ اس بچائی دولت یاآمدنی کواگر وہ مزید آمدنی یا دولت پیدا کرنے کے لیے خرچ کرے تویہ بچائی ہوئی دولت یاآمدنی اس کے لیے سرمایہ بن جائے گی۔ اب اس رقم سےوہ جوآلات یا اوزار مزید پیداوار کے لیے خریدے یا بنائے گا وہ بھی سرمایہ بنتے چلے جائیں گے سرمایہ کےاس عمل کو سرمایہ کاری (Investment) کہتے ہیں ۔
سرمایہ کاری :
سرمایہ کاری کی جدید ماہرین معاشیات نے تعریف یوں کی ہے :
سرمایہ کاری سے مراد مالک کے حقیقی سرمایہ(Real Investment) یا اشیا سرمایہ (Capital)کے موجودہ ذخیرہ  (Good Stock) میں اضافہ کرنا ہے مثلاً نئی فیکٹریاں لگانا نئی سڑکیں بنانا ، نئے کاروباری ادارے کھولنا وغیرہ
سرمایہ کاری کی اس تعریف میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پہلے سے تیار شدہ اشیاء سرمایہ کی خریدو فروخت سے جو سرمایہ کاری وقوع پذیرہوتی ہے وہ حقیقی سرمایہ کاری نہیں کیونکہ ملکی اور قومی نقطہ نظر سےاس سرمایہ کاری سےمکمل اثاثوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ صرف اشیاء سرمایہ کا تبادلہ ہوا ہے ۔ مثلاً ایک شخص اپنا کارخانہ دوسرے شخص کو فروخت کردیتا تو اگرچہ سرمایہ دار نے خریداری کی مگر ملکی سطح پر یہ صرف کارخانہ کاتبادلہ ہے اضافہ نہیں ہے ۔جب کہ سرمایہ کاری موجودہ کارخانوں میں اضافہ کا نام ہے ۔ کارخانہ خرید کرنے والے نے اگر سرمایہ کاری کی ہے تو دوسرے نےعدم سرمایہ کاری (Disinverstment) کی تو ایک شخص کی سرمایہ کاری دوسرے کی عدم سرمایہ کاری کے برابر ہو گی ۔
مادی اورمعاشی دنیا میں زر کو قاضی الحاجات تو شروع ہی سے تسلیم کر لیاگیا تھا مگر جب یہ زر سرمایہ کی شکل اختیار کر لیتا تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں انسان کو اس کی ضروریات اور روزانہ نئی بڑھتی اوربنتی ہوئی ضروریات کے احساس اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی سرمایہ کاری کی مختلف اور متنوع صورتوں نے اس کی اہمیت کا احساس اور زیادہ بڑھا دیا ہے اور انسان کے حرص اور هل من مزید کی طلب ،ترقی کے شوق اور معاشی استحکام نے سرمایہ کی اہمیت کو چار چاند لگا دیئے ہیں ۔
کہا جا رہا ہے کہ آج کی معاشی ترقی اور اس کے ذرائع سرمایہ ہی کے مرہون منت ہیں یہ دفاتر کی فلک بوس عمارتیں ،یہ بل کھاتی اور شیشہ کی طرح چمکتی ہوئی سڑکیں یہ نقل و حمل کےتیز ترین ذرائع یہ روزمرہ زندگی کی اشیاء کی نفیس اور ستھری شکلیں، یہ زندگی کے تعیشات تیار کرنےوالے آلات ، یہ دیوہیکل مشینیں،یہ پانی کے سینہ پر تیرتے بحری جہاز جولاکھوں ٹن سامان اٹھائے پھرتے ہیں یہ معاشی اور سائنسی ترقیات کی تمام صورتیں سرمایہ ہی کی بدولت ہیں ۔ سرمایہ زراعتی ،صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں یوں گردش کر رہا ہے جیسے انسانی بدن میں خون گردش کرتا ہے ۔
جس فرد کے پاس سرمایہ ہے وہ معاشی طور پر خوش حال ہے معاشی طور پر باعزت ہےاور سیاسی طور پر طاقتور ہے ۔ اس طرح دنیا میں امریکہ ،برطانیہ، مغربی جرمنی ، جاپان ،اٹلی اور فرانس آج اس لیے ترقی یافتہ ہیں کہ انہوں نے سرمایہ کی مقدار بڑھانے اور سرمایہ کاری کی طرف توجہ دی ہے دنیا کےپسماندہ اور نیم ترقی یافتہ ممالک ترقی کی دوڑ میں اس لیے پیچھے رہ گئے ہیں کہ انہوں نے سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ نہیں بچایا لہٰذا وہ آج غریب ہیں اورسرمایہ نہ ہونےکی وجہ سے اپنے قدرتی ذرائع اور معاشی وسائل سےاستفادہ بھی نہیں کر سکتے بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کےمقروض ہیں اور ذہنی طور پر ان کےماتحت ہیں ۔
سرمایہ دارانہ نظام معیشت (Capitalism) میں تو سرمایہ ہی سب کچھ ہوتاہے کیونکہ اس نظام میں راج ہی سرمایہ دار کا اس کے سرمایہ کے ذریعہ ہوتا ہے بلکہ یہاں سرمایہ کی حکمرانی (Sovereignty) ہوتی ہے سرمایہ دار اگر اپنا سرمایہ نکال لے تو کارخانہ بند ، مزدور بےروزگار ،ہنرمند اور باصلاحیت انجینئر بےبس اور قوم کو مصنوعی قلت کی سزا بھگتنا پڑتی ہے ۔ آج کل چونکہ دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک سرمایہ دارانہ نظام اقتصاد کی گرفت میں ہیں لہٰذا وہ ممالک جن میں سرمایہ کی حکمرانی تسلیم کیےبغیر اور اس کی اہمیت مانے بغیر بنتی ہی نہیں ایسے حالات میں سرمایہ کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے اگرچہ مانے بغیر چارہ نہیں ، اسلامی معیشت نے سرمایہ کے وجود او راہمیت کو تسلیم کیا ہے اصل دار کےسرمایہ (اصل) کوپورا پورا قانونی تحفظ دیا ہے اور کاروباری دنیا میں اصل دار کی اہمیت کو مانا ہے کتب فقہ میں اصل اوراصل دار کی سرگرمیوں کے متعلق بقاعدہ فقہی احکامات موجود ہیں البتہ یہاں سرمایہ دارانہ نظام کے سرمایہ دار کا استحصالی کردار ادا کرنے کی اجازت مسلم اصل دار کونہیں دی گئی یہاں اصل دار اپنے سرمایہ سے ملک و دولت کی فلاح و بہبود کے لیے سرمایہ کاری کرتا ہے ۔ دیگر عاملین پیدائش (زمین اورمحنت) کو وہ اپنا معاون تصور کر کے ان کے حقوق کا خیال کرتا ہے ان کا آقا بن کر ان کا استحصال نہیں کرتا ۔ اس کے سرمایہ کی چوری کرنے والا مجرم ہے جس کا سزا میں ہاتھ تک کاٹا جا سکتا ہے وہ اپنے سرمایہ کو نفع اور معاشی سرگرمیوں میں لگاکر نفع کما سکتا ہے وہ اپنے سرمایہ کو ایک جگہ سےدوسری جگہ لے جانا چاہے گا تو اسلامی ریاست اسے تمام قسم کی سہولتیں مہیا کرے گی اور اس کے سرمایہ کی حفاظت کرے گی ۔
سرمایہ مجتمع کرنا :
سرمایہ مجتمع کرنا(Capital Accumulation) یا افزائش سرمایہ (Capital Growth)یا تشکیل سرمایہ (Capital Formation) ایک ہی مقصد اور موضوع کےمختلف نام ہیں ان سب کا مقصد سرمایہ کی فراہمی ممکن بنانے کے لیےسرمایہ کو اکٹھا کرنا ہے سرمایہ کا مجتمع کرنا معاشیات میں کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ سرمایہ دارانہ جدید کلی معاشیات (Modern Macro Econimics) کےبانی جان مینارڈکینز(John Maynords Keyns)نےاسے موسیٰ کے نعوذ باللہ برابر کا درجہ دیا ہے وہ کہا کرتا تھا۔
)This is Moses and Prophets Accumulate Accumulate(
سرمایہ اندوزی کرو سرمایہ اندوزی کرو ،یہی حضرت موسیٰ ہےاور یہی سارے پیغمبر ()ہیں ۔
اسلام کے اقتصادی نظام نے اگرچہ سرمایہ اور سرمایہ اندوزی کو اس قدر کافرانہ غلو کے درجہ  کے ساتھ قبول تونہیں کیا مگر وہ اس کی ضرورت وافادیت سے انکار نہیں کرتا جس شخص کے پاس سرمایہ کی کثرت ہو گی اس کی آمدنی زیادہ ہوگی ، وہ زیادہ مؤثر طریقہ سےپیدائش دولت کےعمل کو جاری رکھے گا وہ زیادہ ترقی کرے گا ۔ اس کے ذرائع معاش بڑھیں گے اور اپنے غیر استعمال شدہ ذرائع وسائل کو بھی استعمال میں لا کر ان سے استفادہ کر سکے گا جس کے پاس سرمایہ جتنا کم ہو وہ اتنا معاشی ترقی میں پیچھے رہ جائے گا یہی صورت حال ملکوں اور قوموں کی ہے جہاں افزائشِ سرمایہ یا سرمایہ اندوزی زیادہ ہے وہ آج ترقی یافتہ ہیں ۔ تمام دنیا (بالخصوص غریب ملکوں) پر ان کا رعب اور دبدبہ ہے اور جو ممالک سرمایہ اندوزی کی دوڑ میں پیچھے ہیں وہ غریب اور محتاج ہیں  ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سرمایہ کیونکر اندوز کیا جائے یا تشکیل دیاجائے ؟ اس سوال کا جواب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ سرمایہ بچت وجود میں لاتا ہے بچت کا مدار دو باتوں پر ہے ۔
1۔            بچانے کا ارادہ (Intention to save)
2۔ بچانے کی قوت (Power to Save)
ان دونوں کے بیک وقت موجود ہوئےبغیر بچت کرنا غیر ممکن ہے مثلاً ایک شخص کو جب تک بچت کی اہمیت کا احساس ہی نہ ہو اور وہ بچت کا ارادہ ہی نہ کرے تو بچت کیوں کر ہو ؟ اور اگر بچت کاارادہ تو کرے  مگر بچت کی قوت نہ ہو یعنی  آمدن صرف اس قدر ہو کہ اخراج ہی پورا کرنا مشکل ہو توبچت کاتصور ہی نہیں کیا جاسکتا آئیے ان دونوں پر اسلامی معاشیات کی رو سے روشنی ڈالتے ہیں ۔
بچت کرنے کا ارادہ :
بچت کرنے کا ارادہ ہونا بچت کی طرف پہلا قدم ہےاگر ایک انسان یاقوم ارادہ کر لے کہ اس نے بچت کر کے افزائش سرمایہ کرنی ہے اوراسے سرمایہ کاری میں لگا کر اپنی معاشی خوش حالی اور ترقی میں اضافہ کرنا ہے تو اللہ کریم اس قوم یا فرد کے لیے صورتیں مقدر فرما دیتے ہیں بچت کاارادہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان کو بچت کرنے کی اہمیت کا احساس ہو ۔ اسلامی معاشیات میں بچت کرنے کے لیے وافر تعلیمات موجود ہیں۔ اسلام دانائی حکمت کا مذہب ہے اور مستقبل کےکارخیر اور نفع کےمنصوبوں کے لیے بچانا بھی دانائی او رحکمت کی بات ۔لہٰذا اسلام کا معاشی نظام ایسی بچت کی قدر کرتا ہے ۔ البتہ اسلام کےمعاشی نظام میں ایسی بچت پسندیدہ نہیں جو ان حالات میں بھی کوئی ایسا شخص  جس کی بنیادی ضروریات زندگی بھی پوری نہ ہو رہی ہوں موجود ہو پہلے اس کی مدد کی جائے کچھ بچایا جائے تو مستحسن ہو گا ۔
اسلام کے معاشی نظام نے فرداور قوم کواپنی آمدن اور اخراجات میں اعتدال کی تعلیم دے کر در اصل بچت ہی کی تلقین کی ہے ۔ جو شخص اپنے خرچ میں اسراف و تبذیرسےاجتناب کرےگا وہ ضرور پس اندوزی کے قابل ہو جائے گا ۔
ناگہانی حالات انسان پر کسی وقت بھی ٹوٹ پڑتے ہیں موت کا وقت مقرر نہیں نہ ہی یہ کسی فرد کی خوش حالی ،قرضہ کی ادائیگی یا اولاد کےنوجوان ہونے تک کا انتظار کرتی ہے لہٰذا دانا شخص کو چاہیے کہ ناتواں بچوں کی پرورش کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور بچائے کہ نہ جانے اس کی موت کے بعد ان کی بیوہ پردہ دار ماں او ربچوں پر کیسے دن آئیں۔
نبی کریم نے ایسے حالات کےلیےبچت کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے فرد کو تلقین کے انداز میں فرمایا:
«انك ان تذر ورثتك اغنياء خير من ان تذرهم عالة يتكففون الناس»([1])
’’تمہارا اپنےوارثوں کومالدار چھوڑ کر مرنا اس سے بہتر ہے کہ انہیں نادار چھوڑ کر مرو کہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے پھریں ۔‘‘
ایک بار آپ نےاپنے ایک صحابی حضرت کعب کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
«امسك عليك بعض مالك فهو خير لك »([2])
’’اگر تم اپنےمال کا کچھ حصہ اپنے لیے روکے رکھو(یعنی بچا کر رکھو) تو تمہارے لیے بہتر ہو گا۔‘‘
نبی کریم خود اپنے اہل خانہ () کے لیے اپنی خیر کی آمدنی میں سے ایک سال کا خرچ رکھ لیتے تھے اور باقی اللہ کریم کی راہ میں رفاہ عام کے لیے خرچ فرما دیا کرتے تھے ۔ ([3])
ان حوالہ جات سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ پس اندوزی اور نیک مقاصد کے لیے سرمایہ اندوزی درست ہے بلکہ بعض حالات میں ضروری ہے اس ضمن میں اسلام کے ایک مایہ ناز فقیہ حضرت سفیان ثوری  کایہ بصیرت افروز قول قابل ذکر ہے ۔
"وعن سفيان الثوري قال كان المال فيما مضى يكره فأما اليوم فهو ترس المؤمن وقال لولا هذه الدنانير لتمندل بنا هؤلاء الملوك وقال من كان في يده من هذه شيء فليصلحه فإنه زمان إن احتاج كان أول من يبذل دينه وقال الحلال لايحتمل السرف"([4])
’’حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اگلے زمانہ میں مال کو برا سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں میں زہد وقناعت بہت زیادہ تھی، علاوہ ازیں اس وقت کے بادشاہوں اور حاکموں کی طرف سے اپنی رعایا کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کا خاص انتظام ہوتا تھا اور لوگ بلا کسی سعی وکوشش کے اور بغیر کسی الجھن وپریشانی کے گھر بیٹھے قوت لایموت حاصل کر لیتے تھے، نیز اس سلسلے میں ان بادشاہوں اور حاکموں کے کسی تعامل و رویہ سے اپنے تئیں کوئی ذلت وخواری بھی محسوس نہیں کرتے تھے اس لئے روپیہ پیسہ کمانے اور مال و دولت حاصل کرنے کو برا سمجھا جاتا تھا، لیکن جہاں تک اس زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال ودولت مسلمانوں کی ڈھال ہے (کیونکہ آج کل کے لوگوں میں زہد وقناعت کے جذبات مضمحل ہو گئے ہیں اور ضروریات زندگی کی احتیاج کا بہت زیادہ غلبہ ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں اب سلاطین وامراء اور حکومتوں کی طرف سے لوگوں کی کفالت کا کوئی نظم بھی باقی نہیں رہا ہے نتیجہ کے طور پر اگر کوئی شخص کسب ومحنت کر کے مال حاصل نہ کرے تو اس کو اپنی ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے ان لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے جو مالی واخلاقی مدد اعانت سے زیادہ ذلیل وخوار کرتے ہیں پس اس صورت میں حلال مال مومن کے لئے بہت بڑی ڈھال ہے جس کے ذریعہ وہ نہ صرف حرام و مشتبہ معاملات میں پڑنے سے بچتا ہے بلکہ دنیا دار امراء اور ظالموں کی مصاحبت وحاشیہ نشینی کی ذلت وخواری سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔ حضرت سفیان نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ہم لوگوں کے پاس یہ درہم ودینار اور روپیہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ آج کل کے سلاطین وامراء ہمیں ذلیل و پامال کر ڈالتے، نیز انہوں نے فرمایا ۔ کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کی اصلاح کرے یعنی اس تھوڑے سے مال کو یوں ہی ضائع نہ ہونے دے بلکہ تدبیر و ہنرمندی کے ساتھ اس کو کسی تجارت وغیرہ میں لگا کر بڑھانے کی سعی کرے یا یہ کہ اس کو بہت کفایت وقناعت کے ساتھ خرچ کرے تاکہ جلدی ختم نہ ہو جائے کیونکہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی محتاج ومفلس ہوتا تو دنیا حاصل کرنے کی خاطر اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے گنوانے والا سب سے پہلے شخص وہی ہوگا۔ حضرت سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ حلال مال، اسراف کا روادار نہیں ہوتا۔ ‘‘
کیا حضرت سفیان ثوری کا یہ معاشی بصیرت سےلبریز قول بچت اور سرمایہ کاری کی واضح تلقین نہیں کرتاہے ۔
بچت کرنے کی قوت :
بچت کی قوت بظاہر اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کسی فرد کی آمدنی اور ذرائع اس قدر ہوں کہ وہ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کےبعد کچھ بچانے کے قابل ہو لیکن بعض لوگ پھر بھی نہیں بچاتے حالانکہ معاشیات کی یہ بنیادی تعلیم ہے کہ انسان کی آمدن اس کے خرچہ سےزیادہ ہو یا اس کا خرچہ آمدن سے کم ہو ۔
اسلامی معاشیات نےحلال و طیب ہونےآمدن کمانے اور بڑھانے کے لیے اقدامات تجویز کئے ہیں مثلاً انسان تعلیم حاصل کرے ، ہنر سیکھے ، اپنی استعداد کار بڑھائے ،زیادہ محنت کرے وغیرہ ،خرچہ کم کرنے کے لیے اسلام کی تعلیمات نمایاں ہیں ۔
1۔            اسراف و تبذیر دونوں سے کسی طرح کام نہ لیا جائے ۔
2۔ سادگی اور کفایت شعاری سے کام لیا جائے ۔
3۔ روپیہ صرف ضرورت کے وقت خرچ کرے بغیر ضرورت اور بلاضرورت نہ خرچ کرے ۔
4۔             صرف  نمود ونمائش اور جھوٹی عزت اور شہرت کی خاطر اپنا روپیہ خرچ نہ کرے ۔
5۔ جب بھی خرچ کرنےلگے اپنے آپ سےدوسوال کریں ۔
     1۔        کیا یہ خرچ اللہ کریم کی خوشنودی کا ذریعہ بنےگا؟
     2۔        کیا یہ خرچ ناگزیر ہے ؟
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہےکہ حضرت عمرکا وہ مکالمہ بھی درج کر دیا جائے جو انہوں نے حضرت خالدبن عرفہ العذری کےساتھ کیا ۔ یہ مکالمہ حضرت عمرکی طرف سے سرمایہ اندوزی کرنے اور اس سےسرمایہ کاری کرنے کی واضح تلقین ہے ۔
حضرت خالد بن عرفہ العذری حضرت عمرکی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضرت عمرنے دریافت فرمایا جنہیں تم چھو ڑ آئے ہوان کا کیا حال ہے ؟ حضرت عرفہ نےجواب دیا : انہیں میں اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ اللہ کریم سے دعا کرتے ہیں کہ ان کی عمر میں آپ کی عمر میں چھوڑ دے جنگ قادسیہ کےشرکاء میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے 2000 (دوہزار ) یا 1500(ڈیڑھ ہزار) عطا نہ ملتی ہو ۔بچوں میں سے کوئی بچہ ۔ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی ایسا نہیں جو 100(سو)درہم اور دو جریپ ماہانہ نہ پاتا ہو حضرت عمرنے فرمایا: یہ ان کاحق ہے جسے میں ان تک پہنچا کر سعادت مند بنتا ہوں اگر یہ مال (میرے باپ)خطاب کاہوتا تو میں ہرگز نہ دیتا میں جانتا ہوں کہ عطا(Grant) ان کی ضرورتوں سےزیادہ ہے ۔ اگر ان میں سے ہر شخص یہ کرے کہ جب اس کو وظیفہ یا عطا ملے تو اس میں سے ایک بکری خرید لیا کرے او رجب دوسری عطا ملے تو ایک بکری یا دو بکریاں (مزید) خرید لیا کرے تو اس سے اس کے سرمایہ (سودا) میں اضافہ ہو گا او راس کے (مرنے کے )بعد اس کی اولاد خالی ہاتھ نہ ہوگی اس مال میں سے کچھ نہ کچھ اس کے پاس باقی ہوگا میں نہیں جانتا میرے بعد کیا ہوگا ۔ ([5])
شغل اصل یا سرمایہ کاری :
بچتوں سے وجود میں آنےوالےسرمایہ یا اصل کا مقصد سرمایہ کاری کرنا اور انفرادی او رقومی دولت اور معاشی فلاح میں اضافہ کرناہے ۔ اگر سرمایہ سے یہ مقصد حاصل نہیں کیا جارہا تو اسے سرمایہ اندوزی کی بجائے اکتناز دولت کہا گیا ہے جو اسلام کے معاشی نظام میں بالکل جائز نہیں اور اس پرسخت وعید قرآن مجیداور حدیث رسولمیں آئی ہے البتہ بامقصد بچت اور اس کو امت مسلمہ کے فلاحی کاموں میں لگا کر مزید دولت پیدا کرنا اور اسے پھر اللہ کریم کی راہ میں اسلام کی سربلندی اور امت کی فلاح کے لیے خرچ کرتے رہنا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے ۔
فقہاء اسلام نے لکھا کہ اسلامی فریضہ زکوٰۃ کا ایک معاشی پہلو یہ بھی ہے  کہ وہ جمع شدہ دولت کو مزید سرمایہ کاری میں لگانے کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے کیونکہ پڑی پڑی دولت کو زکوۃ آہستہ آہستہ ختم کر دے سرمایہ کاری سےدولت میں خاطر خوہ اضافہ ہو گا کاروبار کےمواقع بڑھیں گے روزگار کی صورتیں پیدا ہوں گی اورمعیار زندگی بلند ہو گا نبی کریمﷺنےاندوختہ کو سرمایہ کاری میں لگانے میں ترغیب یتامیٰ کےامولا کو سامنے رکھ کر فرمائی ۔
 ارشاد فرمایا:
«الا من ولى يتيما له مال فليتجر فيه ولا يتركه حتى تاكله الصدقة»([6])
’’سنو ! جو کوئی ایسے یتیم کا نگران بنے جس کے پاس مال ہو تووہ اس کے مال کو تجارت میں لگادے (یعنی اس سے سرمایہ کاری  کرے ) اور یونہی بیکار نہ پڑا رہنے دے کہ زکوٰۃ ختم ہی  کر ڈالے ۔ ‘‘
زكوٰۃ کا معنی ہی بڑھنے برکت اورنمو کےہیں زکوٰۃ کے ذریعے مال میں بڑھو تری اور نمو لانے کی ظاہری وجہ زکوٰۃ والے اموال کوسرمایہ کاری میں لگا کر اس سے نفع کمانے اور اس طرح ان اموال کے بڑھانے سےہے گویا زکوٰۃ سرمایہ کاری کے لیے محرک کا کام کرتی ہے ۔ ([7])
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ یتامیٰ کےوہ اموال جو ان کے پاس رکھے جاتے تھے وہ انہیں تجارت میں لگا دیا کرتی تھیں ۔ ([8])
حضرت عمر ،حضرت عثماناور حضرت علیاپنے عہد خلافت میں یتامیٰ کےاموال میں اضافہ کرنے کی نیت سےتجارت میں لگا دیا کرتے تھے ۔
نبی کریم نےایک طویل حدیث مبارکہ بیان کی جس میں  فرمایا :
«خَرَجَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ فَأَصَابَهُمْ الْمَطَرُ فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي جَبَلٍ فَانْحَطَّتْ عَلَيْهِمْ صَخْرَةٌ قَالَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ادْعُوا اللَّهَ بِأَفْضَلِ عَمَلٍ عَمِلْتُمُوهُ فَقَالَ أَحَدُهُمْ اللَّهُمَّ إِنِّي کَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ کَبِيرَانِ فَکُنْتُ أَخْرُجُ فَأَرْعَی ثُمَّ أَجِيئُ فَأَحْلُبُ فَأَجِيئُ بِالْحِلَابِ فَآتِي بِهِ أَبَوَيَّ فَيَشْرَبَانِ ثُمَّ أَسْقِي الصِّبْيَةَ وَأَهْلِي وَامْرَأَتِي فَاحْتَبَسْتُ لَيْلَةً فَجِئْتُ فَإِذَا هُمَا نَائِمَانِ قَالَ فَکَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ رِجْلَيَّ فَلَمْ يَزَلْ ذَلِکَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمَا حَتَّی طَلَعَ الْفَجْرُ اللَّهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً نَرَی مِنْهَا السَّمَائَ قَالَ فَفُرِجَ عَنْهُمْ وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي کُنْتُ أُحِبُّ امْرَأَةً مِنْ بَنَاتِ عَمِّي کَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرَّجُلُ النِّسَائَ فَقَالَتْ لَا تَنَالُ ذَلِکَ مِنْهَا حَتَّی تُعْطِيَهَا مِائَةَ دِينَارٍ فَسَعَيْتُ فِيهَا حَتَّی جَمَعْتُهَا فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ فَقُمْتُ وَتَرَکْتُهَا فَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً قَالَ فَفَرَجَ عَنْهُمْ الثُّلُثَيْنِ وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقٍ مِنْ ذُرَةٍ فَأَعْطَيْتُهُ وَأَبَی ذَاکَ أَنْ يَأْخُذَ فَعَمَدْتُ إِلَی ذَلِکَ الْفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ حَتَّی اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيهَا ثُمَّ جَائَ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَعْطِنِي حَقِّي فَقُلْتُ انْطَلِقْ إِلَی تِلْکَ الْبَقَرِ وَرَاعِيهَا فَإِنَّهَا لَکَ فَقَالَ أَتَسْتَهْزِئُ بِي قَالَ فَقُلْتُ مَا أَسْتَهْزِئُ بِکَ وَلَکِنَّهَا لَکَ اللَّهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ فَافْرُجْ عَنَّا فَکُشِفَ عَنْهُمْ»([9])
’’ تین آدمی جا رہے تھے تو بارش ہونے لگی وہ تینوں پہاڑ کی ایک غار میں داخل ہو گئے ایک چٹان اوپر سے گری اور غار کا منہ بند ہو گیا ایک نے دوسرے سے کہا کہ اللہ سے کسی ایسے عمل کا واسطہ دے کر دعا کرو جو تم نے کیا ہو ان میں سے ایک نے کہا :اے میرے اللہ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے۔ چنانچہ میں باہر جاتا اور جانور چراتا تھا پھر واپس آکر دودھ دوھو کر اپنے ماں باپ کے پاس لاتا جب وہ پی لیتے تو میں بیوی بچوں اور گھر والوں کو پلاتا ایک رات مجھے دیر ہوگئی میں آیا تو دونوں سو گئے تھے مجھے نا گوار ہوا کہ میں انہیں جگاؤں اور بچے میرے پاؤں کے پاس بھوک کے مارے رو رہے تھے طلوع فجر تک میری حالت یہی رہی اے اللہ! اگر تو یہ جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری رضا مندی کے لئے کیا ہے تو پتھر مجھ سے کچھ ہٹا دے تاکہ ہم آسمان تو دیکھ سکیں پتھر کچھ ہٹ گیا پھر دوسرے آدمی نے کہا اے اللہ میں اپنی ایک چچا زاد بہن سے بے انتہا محبت کرتا تھا جس قدر ایک مرد عورتوں سے محبت کرتا ہے لیکن اس نے کہا تم اپنا مقصد مجھ سے حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تم سو دینار نہ دے دو۔ چنانچہ میں نے محنت کر کے سو دینار جمع کئے جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر مہر ناجائز طور پر نہ توڑ میں کھڑا ہو گیا اور اسے چھوڑ دیا اے اللہ !اگر تو جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری رضا کے لئے ایسا کیا تو اس پتھر کو کچھ ہٹا دے وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا پھر تیسرے آدمی نے کہا یا اللہ! میں نے ایک مزدور ایک فرق جوار کے عوض کام پر لگایا جب میں اسے دینے لگا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا میں نے اس جوار کو کھیت میں بودیا یہاں تک کہ میں نے اس سے گائے بیل اور چرواہا خریدا پھر وہ شخص آیا اور کہا :اے اللہ کے بندے !تو مجھے میرا حق دیدے میں نے کہا ان گایوں بیلوں اور چرواہے کے پاس جا اور انہیں لے لے یہ تیرے ہیں اس نے کہا کیا تم مذاق کرتے ہو میں نے اس سے کہا میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا وہ تیرے ہی ہیں اے میرے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری خوشنودی کے لئے ایسا کیا تو یہ پتھر ہم سے ہٹا دے چنانچہ وہ پتھر ان سے ہٹ گیا۔ ‘‘
در اصل یہاں اس نیک آدمی نے یہ نیکی کی تھی کہ اس مزدور کی مزدوری کی رقم کو یونہی بےکار رکھنے کی بجائے سود مند کاروبار میں لگایا۔ (یعنی اس سے سرمایہ کاری کی ) اور جب وہ مزدور ملامع نفع اسے ادا کر دی ۔ اس مختصر بحث سےیہ ثابت کرنا تھا کہ آمدنی ساری خرچ کر ڈالنے کی بجائے اس میں سے بچا کر رکھنے اور اس بچت سےوجود میں آنےوالے سرمایہ کوسرمایہ کاری میں لگا کر مزید دولت کمانا اور یوں امت کی فلاح پر خرچ کرنا اسلامی معاشیات میں کار خیر کا درجہ رکھتا ہے ۔
سرمایہ کاری کی شکلیں :
بچتوں کےبعدجو سرمایہ وجود میں آتا ہے اسے کاروبار یا سرمایہ کاری میں لگانے کی بنیادی طور پر دو ہی صورتیں ہیں یا توفرد اپنےجمع شدہ سرمایہ کےساتھ خود کاروبار کرے اسےہم انفرادی سرمایہ کاری کہہ سکتےہیں اوردوسرے کسی کو شریک سرمایہ کاری کرےاسے ہم اجتماعی سرمایہ کاری کہہ سکتے ہیں گویا سرمایہ کاری کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہو سکتی ہیں ۔
1۔            انفرادی سرمایہ کاری
2۔ اجتماعی یا اشتراکی سرمایہ کاری
  œ    انفرادی یاذاتی کاروباریا سرمایہ کاری :
سرمایہ کاری کاایک پہلا قدیم ترین اورفطری طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے سرمایہ سےخود سرمایہ کاری کرےیہ سرمایہ کاری چھابڑی سے لے کر ایک بہت بڑے کارخانہ بلکہ متعدد کارخانوں کی صورت میں ہو سکتی ہے مگر یہ انداز فکر درست ہے کہ اس شکل کی سرمایہ کاری میں کاروبار پیمانہ صغیر (Small Scale)پر ہوتا ہے کیونکہ ایک شخص (استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر) خواہ کتنا ہی امیر ہو وہ اس قدر سرمایہ نہیں فراہم کر سکتا کہ ا س سے بڑے بڑے پیداواری کارخانے لگائے جا سکیں ۔
سرمایہ کاری کے آغاز کےزمانہ سے انفرادی سرمایہ کاری کا رجحان زیادہ تھا پھر آہستہ آہستہ دوسری شکلیں رواج پذیر ہوتی گئیں آج تک زرعی معاشیات (Agraian Economy) میں زیادہ تر سرمایہ کار ی انفرادی نوعیت کی ہوتی ہے ۔
انفرادی کاروبار کےبہت سے فوائد گنوائے جاسکتے ہیں مثلاً کاروبار کی آزادی،نفع ونقصان کی ذمہ داری ایک ہی فرد پر ، نفع ونقصان کی تقسیم اور برداشت میں جھگڑوں سے بچاؤ بددیانتی کےخطرات سے تحفظ کاروبار کی پسندیدگی کاروبار جاری رکھنے یا بند کرنے یابدلنےکی آزادی ،سرمایہ کی نقل پذیری، حلال و حرام کی زیادہ پابندی وغیرہ مگر اس قسم کی سرمایہ کاری کے کئی نقائص بھی ہیں جن میں سب سے بڑا نقص کاروبار کا وسیع بنیادوں پر نہ ہونا سرمایہ کی کمی اور فراہمی کی دشواریاں مشاورت کےفوائد کاعدم حصول دوسرے کےتجربات سے فائدہ نہ اٹھا سکنا ۔نیز ان سب کے باوجود انفرادی سرمایہ کاری کی شکلیں آج تک موجود ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں زیادہ ہیں ۔
اجتماعی سرمایہ کاری :
اسلامی معاشیات میں اجتماعی سرمایہ کاری کی دوصورتیں زیادہ اہم ہیں ۔
1۔                        شرکت
2۔             مضاربت
  œ    شرکت :
اجتماعی سرمایہ کاری کا قدیم طریقہ شرکت ہے شراکتی سرمایہ کاری میں دو یا دو سے زیادہ افراد مل کر سرمایہ فراہم کرتے ہیں ،مل جل کر کاروبار چلاتےہیں اور ممکنہ نفع و نقصان میں اپنے لگائے گئے سرمایہ کی نسبت سےشریک ہوتے ہیں یہ طریقہ سرمایہ کاری قبل از اسلام بھی متمدن عربوں میں رواج پذیر تھا۔ اسلام نے اس کےفوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پسندیدہ طریقہ سرمایہ کاری کو برقرار رکھا ۔
شیخ برہان الدین علی بن ابی بکر مرغینانی  تحریر فرماتے ہیں :
"الشركة جائزة لانه بعث والناس كانوا يتعاملون بها فقررهم عليها "([10])
’’شراکتی سرمایہ کاری جائز ہے کیونکہ نبی کریم مبعوث ہوئے تولوگ اس طریقہ سے کاروبار کرتےتھے ۔ آپ نے لوگوں کو اس پر برقرار رکھا ۔‘‘
یہ طریقہ کاروبار اپنی برکات کی وجہ سے نبی کریم کےمبارک زمانہ سے لے کر آج تک لوگوں میں مقبول ہے ۔ ([11])
تمام علماء اسلام ایسی شرکت کو جائز قرار دیتے ہیں جس کے شرکاء میں سےہر ایک شریک دوسرے کی طرح اس قسم کا مال یعنی درہم ،دینار ،روپیہ ،ریال یا کوئی بھی کرنسی سےسرمایہ کاری کرتاہے اور انہیں اس طرح خلط ملط کر دیا ہے کہ وہ مل کر ایک ہی مال بن جاتے ہیں حتی کہ ان میں تمیز باقی نہیں رہتی کہ کس کے روپیہ سے سرمایہ کاری کی ۔ نفع و نقصان میں شرکاءاپنےحصہ رسدی کے تناسب سےشریک ہوتے ہیں ۔([12])
بڑی بڑی مشترکہ سرمایہ کمپنیوں اور شراکتوں کوکامیاب بنانےکے لیے سرمایہ کاری کایہ طریقہ نہایت مفید ہے ۔
شرائط شرکت :
فقہاء اسلام نے شرکت کی سرمایہ کاری کےلیے مندرجہ ذیل شرائط کاپورا ہونا لازمی قرار دیاہے ۔
1۔    شرکاء یا شریکین میں ایجاب و قبول ہو کیونکہ شرکت ایک کاروباری معاہدہ ہے او رمعاہدہ بغیر ایجاب وقبول کے درست نہیں ہوتا ۔([13])
2۔  یہ کاروباری معاہدہ رائج الوقت سکوں میں ہو گا حتی کہ اگر مال شرکت اشیاء و اجناس کی شکل میں ہو تو کاروبار کےآغاز سےقبل ان کی قیمت کی تعیین نقد کی صورت میں کر لینا ضروری ہے البتہ اگر شرکاء کسی مخصوص جنس یا شے ہی کو سرمایہ قراردے دیں تو پھر کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا ۔ ([14])
شراکت کی اقسام :
فقہاء اسلام (بالخصوص فقہاء احناف) نے بلحاظ نوعیت اور سرمایہ شرکت کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے  ۔
1۔            شرکت مفاوضہ
2۔ شرکت عنان
3۔ شرکت صنائع
4۔             شرکت وجوہ
  œ        شرکت مفاوضہ :
شرکت مفاوضہ اس قسم کی شرکت کو کہتے ہیں جس میں تمام شرکاء،سرمایہ ،کاروباری ذمہ داریوں ،تصرفا ت اور نفع و نقصان میں برابر ہوتےہیں ۔ در اصل عربی زبان میں مفاوضہ کےمعانی ہی مساوات ،برابری اور باہمی تفویض کےہوتےہیں فقہاء اسلام کی رو سے شرکت مفاوضہ عمل میں لانے کے لیے  لفظ مفاوضہ کہنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ عامۃ الناس اس کی شرائط سےآگاہ نہیں ہوتے ۔ ([15])
  œ      شرکت عنان :
اگر شرکاء کاروبار سرمایہ یا نفع و نقصان کےتناسب یاتصرفات میں برابر نہ ہوں توایسی شرک کو شرکت عنان کہتے ہیں اس شرکت میں ہر شریک دوسرے کا وکیل ہوتا ہے مگر ضامن (کفیل) نہیں ہوتا ۔ ([16])
  œ    شرکت صنائع :
شرکت صنائع اس کاروبارکو کہتےہیں جس میں چند ہم پیشہ لوگ اپنے کاروبار کو شرکت کی بنیادوں پر چلاتے ہیں اور اس کاروبار سے ممکنہ نفع و نقصان میں شریک ہوتے ہیں ۔ ([17])
گویا اس کی شراکتی سرمایہ کاری میں سرمایہ نقد یامال کی بجائے ان کا ہنر ہوتا ہے
شرکت صنائع کو شرکت تقبل بھی کہتے ہیں جس کے معنی کام قبول کرنا مثلا ً دو کاریگروں یادرزیوں یا انجینئروں نے اس شرط پر باہم شرکت کر لی کہ وہ لوگوں کا کام قبول کریں گے اور اس سےجو آمدنی ہوگی وہ ان دونوں میں مشترک ہو گی ۔ ([18])
اس شرکت میں نفع کا برابر ہونا درست تو ہے مگر ضروری نہیں ۔شرکت کی یہ قسم فقہاء احناف کےنزدیک جائز ہے۔ اور امام شافعی اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں اس شرکت کا دوسرا نام شرکۃ الابدان بھی ہے ۔
  œ       شرکت الوجوہ :
شرکت الوجوہ اس سرمایہ کاری صورت کا نام ہے جس میں بغیر سرمایہ کے چند باعتبار افراد صرف اپنی وجاہت (ساکھ) وامانت (کے سرمایہ) سےکاروبار کریں اور نفع و نقصان میں شریک رہیں اس شرکت کا نام شرکت الوجوہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ لوگوں سےادھار مال وہی خرید سکتاہے جسے اللہ کریم نے اعتبار اور ساکھ کےسرمایہ سےنوازرکھا ہے مشہورماہرین جدید معاشیات نےبھی اس حقیقت کا اعتراف کیاہے پروفیسر تاسیک کہتے ہیں :
’’موجودہ زمانہ میں قرضہ اوراعتبار کا انحصار زیادہ تر قرض لینے والے کی شخصیت پر ہوتا ہے ۔‘‘([19])
اس قسم کے کاروبار میں تمام شرکاء کا نفع میں حصہ برابر ہوتا ہے اور اس میں کمی بیشی جائز نہیں۔ کیا اس موقع پریہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ اسلام کاروباری اشتراک کا اس قدر زبردست داعی اور حامی ہے کہ وہ شرکت صنائع اور شرکت وجوہ ایسی شرکات کو جائز قرار دے کر سرمایہ کاری کو پروان چڑھا نا چاہتا ہے ۔والله اعلم

  œ    مضاربت :
سرمایہ کاری کو اقتصادی تعاون بنانے کا بہترین ذریعہ مضاربت ہے ۔ مضاربت ضرب سےمشتق ہے جس کا مطلب ہے کہ زمین  پرپاؤں مارنا چلنا پھرنا وغیرہ چونکہ اس طریقہ کے ذریعے کاروبار کرنےوالا زمین میں چل پھر کر یا سفر کر کے سرمایہ کاری کرتا اور نفع کماتا ہے اس لیے اس طریقہ کو مضاربت کہتے ہیں اور کاروبار کرنےوالےکو مضارب کہتے ہیں سرمایہ فراہم کرنے والے کو رب المال کہتے ہیں ۔
مضاربت کو فقہاء کوفہ ، مضاربت اور فقہاء حجاز قراض کہتے ہیں مفہوم و مراد دونوں کا ایک ہے فنی طور پر مضاربت ایسے کاروبار کو کہتے ہیں جس میں ایک جانب سرمایہ اوردوسری جانب محنت ہوتی ہے او رمنافع ہو تو اس میں سرمایہ دار یا سرمایہ داران اور مضارب کاروبار کرنےوالا متفقہ نسبت سے شریک ہوتے ہیں البتہ نقصان ہو توصرف اصل یاسرمایہ پر آئے گا ۔
فقہاء اسلام نے مضاربت کا جواز قرآن کریم کی آیت کریمہ میں لیا ہے :
 ﴿ وَ اٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ ([20])
’’ کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں۔‘‘
یعنی سرمایہ توسرمایہ والے لگاتے ہیں اور محنت کرنےوالے اس کے ذریعہ ملکوں اور شہروں میں چل پھر کر تجارت کرتے ہیں صاحب ہدایہ مضاربت کے جواز پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
مضاربت لوگوں کی ضروریات کےلیے جائز رکھی گئی ہے کیونکہ بعض لوگ مالدار ہوتے ہیں مگر کاروبار تجارت سے ناواقف ہوت ہیں بعض لوگ سرمایہ کاری کے ماہر مگر مالی طور پر تہی دست ہوتے ہیں ۔ اسلام نے (کاروباری سوجھ بوجھ سےدور) سرمایہ دار اور (کاوربار کے فن کا واقف) غریب دونوں کے مصالح کے پیش نظر اس طریقہ کاروبار کو جائز قرار دیا ہے نیز نبی کریم کی بعثت سےقبل یہ طریقہ کاروبار عربوں میں رواج پذیر تھا ۔ آپ نے اسے بہتر سمجھا اور جاری رکھا۔ اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا ۔ ([21])
نبی کریم نے نبوت سے قبل بصری(شام) کی منڈی میں مضاربت ہی کے طریقہ پر حضرت خدیجہؓ کے مال سےتجارت کی تھی ۔ غیور اوردیانتدار غریب جو تجارتی رموز سے آگاہ ہےاورمالدار جس کا مومنانہ دل غریبوں کی الفت میں دھڑکتا ہے وہ دونوں اس طریقہ سرمایہ کاری کے ذریعے سرمایہ او رمحنت کے تعاون کا اعلیٰ نمونہ پیش کرسکتے ہیں طریقہ مضاربت سےسرمایہ دار کا سرمایہ زحمت کی بجائے رحمت بن جائے گا اور نادار کی محنت اور کاروباری ہوش مندی اور استعداد ضائع نہیں ہو گی۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ نہ سرمایہ ’’کنز‘‘ بن کر احتکاز اور اکثاز کا باعث ہوگا نہ اصحاب ضرورت کےانسداد ضرورت پر قفل پڑ سکے گا اور اجتماعی زندگی نہ فاقہ کش نظر آئیں گے نہ قابل نفرت سرمایہ دار ۔ ([22])
مضاربت کی شرائط :
چند اہم شرائط مندرجہ ذیل ہیں ۔
1۔   اصل دار اپنے سرمایہ کی مالیت مقدار کی صورت میں متعین کرے کیونکہ اس پر تمام فقہاء اسلام کا اتفاق ہے کہ مضاربت کا کاروبار صرف زر نقد ہی کی صورت میں درست ہو سکتا ہے ۔ ([23])
2۔     سامان عروض (Utensils)سےمضاربت کاکاروبار درست نہیں فقہاء اسلام میں سے صرف ابن ابی لیلیٰ سامان کے ساتھ بھی مضاربت کے قائل ہیں جمہور کے نزدیک سامان مضاربت کےعدم جواز کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح دھوکہ بازی کا امکان باقی رہتا ہے اوراصل اورنفع نامعلوم  نہیں رہے گا ۔ ([24])
مضارب کے اختیارات اور ذمہ داریاں :
1۔  مضارب کے پاس سرمایہ امانت کے مماثل ہے لہٰذا  اگر سرمایہ ضائع ہو جائے تواصل دار مضارب سےتاوان کا مطالبہ نہیں کر سکتا ۔ ([25])
2۔   مضارب کی حیثیت وکیل کی ہوتی ہے لہٰذا وہ اپنے تمام تصرفات میں اصل دار کی اجازت اور مشورہ کا محتاج ہوتاہے اصل دار کی اجازت سےاسے خرید و فروخت کرنے، کسی کووکیل بنانے اور سامان کسی کے پاس ودیعت (Deposited) کرنے  کا اختیار ہوتا ہے ۔ ([26])
3۔     اپنے شہر میں کاروبار مضاربت کرنے کی صورت میں مضارب کو صرف نفع ہی میں سے حصہ لینے کا حق ہو گا البتہ اگراسے کہیں باہرسفر کرنا پڑے اور کہیں باہر ہی قیام کرنا پڑے تو اس صورت میں اسے سفر خرچ اور دیگر اخراجات تاجروں کے رواج کے مطابق لینے کا حق ہو گا ۔ امام ابو حنیفہ فرماتےہیں کہ بیماری کی صورت میں وہ علاج کےاخراجات بھی حاصل کر سکے گا کیونکہ صحت کے بغیر کاروبار مضاربت ناممکن ہو گا ۔ ([27])
4۔  مضارب نفع کی صورت میں نفع سےطے شدہ متناسب حصہ پائےگا معاہدہ مضاربت فاسد ہونے کی صورت میں وہ اخراجات پانے کامستحق ہوگا ۔ اور اگر وہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرےگا توغاصب سمجھا جائے گا کیونکہ اس نے دوسرے کےمال پر زیادتی کی ہے ۔ ([28])
5۔     مضارب نفع کی تقسیم بہر صورت اصل دار کی موجودگی میں ہی کرے گا اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے ۔ ([29])
معاہدہ مضاربت توڑنےکی صورتیں :
1۔   امام ابو حنیفہ اور امام شافعی  کہتے ہیں کہ معاہدہ مضاربت کو فریقین معاہدہ (اصل دار اور مضارب ) میں سے جو کوئی جس وقت چاہے فسخ کر سکتا ہے البتہ ا س کی اطلاع فریق ثانی کو ضرور کرے ۔ ([30])
2۔      فریقین میں سے کسی کےفوت ہو جانے کی صورت میں معاہدہ مضاربت فسخ ہوجائےگا البتہ اس کےورثاء چاہیں تو تجدید معاہدہ کر سکتے ہیں ۔ ([31])
برصغیر کے  مشہور عالم دین ، سیاسی قائد اور اسلامی معاشیات کےماہر مولانا محمد حفظ الرحمٰن سیوہاروی  ا ن طرق سرمایہ کاری پربحث کرتےہوئےلکھتے ہیں :
’’اگر آج یہ تمام کاروباری صورتیں اپنی پوری آزادی کےساتھ کسی نظام اقتصادی میں رائج ہو جائیں تو بےکاری اورا س کی وجہ سےپیدا شدہ عام افلاس وبدحالی بڑی حد تک رفع  ہو جائے اور خوش حالی کادور واپس آ جائے۔مگر افسوس کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابی نے ان جائز طریقوں کو تباہ وبرباد کر دیا اور باہمی تعاون و امداد کے ان سادہ اور آسان طریقوں میں بےاعتمادی کا جال بچھا دیا اور اس کی جگہ’’ سودی کاروبار یاتجارت ‘‘ کو فروغ دے کر موجودہ بدحالی پیدا کر دی ۔ ([32])

محنت
مفہوم اور دائرہ کار :
معاشیات میں محنت کی تعریف یوں کی جاتی ہے :
محنت سے مراد انسان کی وہ دماغی یا جسمانی کاوش ہے جس کے معاوضہ میں اسے زر یعنی روپیہ ملتا ہے ۔ کاشت کار،کان کن ،لوہار ، ترکھان ،ڈرائیور ،قلی ،مزدور ،ماہی گیر وغیر ہ جسمانی محنت کرتےہیں ۔ پروفیسر ، اکاؤنٹنٹ ،کلرک وغیرہ ذہنی محنت کرتے ہیں لیکن اگر پروفیسر گھر میں اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے ۔ ڈاکٹر اپنے گھر میں بچوں یا رشتہ داروں کا علاج کرتا ہے یا اکاؤنٹنٹ اپنے گھرکے اخراجات کا حساب کتاب کرتا ہے تو اگرچہ یہ بھی ذہنی کام کرتے ہیں مگر انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا لہٰذا ہماری مذکورہ تعریف کے مطابق یہ محنت نہیں ۔ اسی طرح مزدور اپنے گھر کی دیوار تعمیر کرتا ہے تو اگرچہ وہ سخت جسمانی محنت کرتا ہے مگر معیشت دان اس کو بھی محنت نہیں کہیں گے کیونکہ ان کے نزدیک اس سے مراد :
’’وہ دماغی یا جسمانی جدوجہد ہے جو جزوی یا کلی طور پر کسی ایسے مقصد کے لیے کی جائے جواس لطف سےمختلف ہو۔ اور  اس کا م کو کرنے سے براہ راست حاصل ہوتا ہے ۔ ‘‘
جسمانی محنت (Physical Labour)میں وہ تمام قسم کی کوششیں شامل ہیں جو  حصول زر کے لیے کی جاتی ہیں اور ذہنی محنت میں ایک کلرک کے کام سے لے کر تنظیم او رمنصوبہ بندی (Organization and Planning) تک شامل ہیں ۔ یہ جدید معاشیات کا محنت کے بارے میں تصور ہے جسے اسلامی معاشیات کی جزوی حمایت حاصل ہو سکتی ہے مگر اسلامی معاشیات میں محنت کا مفہوم بڑا جامع ہے او رجدید رواجی معاشیات کی یہ تنگ دامنی ہے کہ وہ اس مفہوم کو پانے سے قاصر ہے ۔
جدید معیشت دانوں کی کوتاہ نظری کی وجہ دراصل ان کا تصور حیات ہے ۔ ان بیچاروں نے زندگی اور اس کے لیے  عمل اور کوشش کوصرف انسان کی اس دنیوی زندگی اور اسے فوائد کے پیمانوں سے ناپا ہے ۔ جس شخص کی نگاہ صرف اس دنیا کی ساٹھ ستر سالہ یا کم و بیش زندگی تک محدود ہو اس نے اس زندگی میں کی جانے والی محنت کو اس سے حاصل ہونےوالے فوائد او رثمرات سےپرکھنا ہے ۔
اسلامی معاشیات نے اس تصور محنت کو نہایت کوتاہ اور قابل اصلاح سمجھا ۔ اسلام کی نگاہ میں دنیوی زندگی محنت کرنے اور اس کے نتیجہ میں  اس دنیا اور آخرت کی زندگی کو بنانے کے لیے ہے۔ لہٰذا انسان جو بھی جسمانی یا ذہنی محنت کرے گا اس کا بدلہ یا تو دنیا میں مادی صورت میں ملے گا یا آخرت میں اللہ کریم کی رضا اور جنت کی صورت میں ملے گا۔ اس لیے اسلام نے محنت کو عبادت سےتعبیر کیا ہے اور محنت کا صلہ دنیا میں روپیہ کی شکل میں اور آخرت میں ثواب اور جنت کی شکل میں ملے گا۔ دونوں نیکی کےکام ہیں ۔ کسی شخص کا ملازمت کر کےروپیہ کمانا او راس سے اولاد ۔والدین کی ضروریات پوری کرنا بھی محنت اور نیکی ہے۔ اور گھر پر رہ کر اپنے بچوں کو پڑھانا اوروالدین کی خدمت کرنا بھی محنت اور نیکی ہے ۔ ایک پروفیسر صاحب کا کالج میں پڑھا کر ہر ماہ کےخاتمہ پر کچھ روپے لانا اپنےوالدین اور بچوں پر خرچ کرنا بھی محنت ہے ۔ کیونکہ ان دونوں محنتوں سے وہ ایک طرف انسانی سرمایہ (Human Capital) اور دوسری طرف وہ نیکی اور ثواب بھی کما رہا ہے جو اللہ کریم کےبندہ کی زندگی او رمحنت کا اصل مقصد ہے ۔ قرآن کریم اس طرف یوں اشارہ کرتا ہے :
 ﴿ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ([33])
’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
اسلامی معاشیات میں محنت کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے :
’’محنت ہر اس ذہنی اور بدنی جدوجہد کا نام ہے جس کے بدلہ میں دنیا  میں مادی معاوضہ ملے ، جس کےذریعے انسان اپنی اور اپنے متعلقین اورمعاشرہ کےمستحق ضرورت مند افراد کی معاشی ضروریات پوری کر سکے معاشی خوش حالی کا ذریعہ بنے یا اس کے بدلے میں ثواب ملے جو دنیا و آخرت دونوں کے لیے ذریعہ کامیابی و خوش حالی ہے ۔ ‘‘
محنت کے ذریعے ثواب دنیوی زندگی کی خوشحالی اورکامیابی کاذریعہ بننا اس طرح ہے کہ ثواب نیکی کے کاموں میں ملتا ہے اور نیکی بذات خود انسان میں نشاط پابندی وقت اور دیانتداری کے جوہر پیدا کرتی ہے جو کسی بھی معاشی سرگرمی کی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ قرآن مجید میں محنت کےاس جامع تصور کی طرف بلیغ اشارہ یوں فرمایا ہے :
 ﴿ وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا١ۚ وَ لِيُوَفِّيَهُمْ اَعْمَالَهُمْ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ([34])
’’دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تاکہ اللہ ان کے کیے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے۔ ان پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا۔‘‘
جدید معیشت دانوں کی وضع کردہ محنت کی تعریف سے گِلا اس سیاست دان کو بھی ہو گا جس نے کئی سال عوام کی خدمت کی پھر انتخاب کےموقع پر دن رات ایک کر کے محنت اور کامیابی حاصل کی اور اقتدار حاصل کر کے ملک وملت کی خدمت کی مگر اس کی محنت کو محنت کہا ہی نہیں جاتا کیونکہ وہ زر تو کما نہیں رہا ۔
اسی طرح ایک سماجی کارکن (Social Worker) جو اپنی کوششوں سے بہت سے لوگوں کو محنت کے قابل بناتا ہے یا ان کی محنت کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے اس کی محنت بھی محنت نہیں ۔ کیونکہ وہ روپیہ نہیں کماتا ۔ اسی طرح بہت سے لوگوں کی محنت محنت نہیں کیونکہ وہ زر نقد مقصد بنا سکے ۔
مگر اسلامی معاشیات کےجامع تصور محنت میں ہر فرد کی جدوجہد محنت ہے جو دنیوی یااخروی فائدہ کا ذریعہ بنے ۔ در اصل محنت ہی وہ کلید ہے جس کے ذریعے انسان ،انسانی سرمایہ اور دیگر وسائل دولت کو استعمال کر کے یا انہیں کار آمد بنا کر معاش پیدا کرتا ہے ، دولت کماتا ہے اور پیدائش دولت کےعمل کوجاری رکھتا ہے ۔
قرآن مجید میں جسمانی اورذہنی محنت کا ذکر :
قرآن مجید میں اللہ کریم محنت کی جسمانی قسم کا بھی ذکر ایک نبیکےمبارک عمل سے کرتے ہیں ۔ اس سے جہاں جسمانی محنت کا ثبوت قرآن سے ملتا ہے وہاں محنت کی عظمت کو بھی چار چاند لگ گئے ہیں کہ اس کا  ذکر ایک نبی کے عمل سے کیا گیا ہے ۔
حضرت موسیٰجب مصر سےہجرت کر کے مدین پہنچے توحضرت شعیبنے ان سے اپنی دختر کا نکاح اس شرط پر کرنے کی آمادگی ظاہر کی کہ وہ آٹھ سال ان کے ہاں رہ کر ان کی بکریاں چرائیں ۔ گویا کہ بیٹی کا حق مہر آٹھ سال کی جسمانی محنت ٹھہرایا۔ جسے موسیٰ نے قبول فرمایا۔ قرآن مجید پڑھیے :
 ﴿قَالَ اِنِّيْۤ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَيَّ هٰتَيْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰنِيَ حِجَجٍ١ۚ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ١ۚ وَ مَاۤ اُرِيْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَيْكَ١ؕ سَتَجِدُنِيْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ([35])
’’اس کے باپ نے (موسی () سے ) کہا ” میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کر دوں بشرطیکہ تم آٹھ سال تک میرے ہاں ملازمت کرو اور اگر دس سال تک پورے کر دو تو یہ تمہاری مرضی ہے۔ میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔ تم انشاء اللہ مجھے نیک آدمی پاؤ گے۔ ‘‘
حضرت موسیٰ نےاس معاہدہ محنت کو قبول کرتے ہوئے فرمایا:
 ﴿ قَالَ ذٰلِكَ بَيْنِيْ وَ بَيْنَكَ١ؕ اَيَّمَا الْاَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ([36])
’’موسی () نے جواب دیا ”یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی۔ ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پوری کر دوں اس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو، اور جو کچھ قول قرار ہم کر رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے۔ ‘‘
اسی طرح ایک اور پیغمبر حضر ت خضر ﷤ کی جسمانی محنت کا تذکرہ قرآن مجید نے فرمایا:
 ﴿فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَيَاۤ اَهْلَ قَرْيَةِ ا۟سْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ يُّضَيِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِيْهَا جِدَارًا يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ١ؕ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ اَجْرًا([37])
’’پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی ۔ اس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کر دیا۔ موسیٰ () نے کہا " اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔‘‘
اب آئیے ذہنی محنت کی مثال قرآن مجید سےتلاش کرتے ہیں :
حضرت یوسفکےامتحان و ابتلاء کا قصہ توآپ نے سنا ہی ہو گا۔ جب انہیں عزیز مصر نے اپنے خواب کی تعبیر کی خوشی میں جیل خانہ سےنکالا اور ان سے گفتگو کی تو ان کی دماغی صلاحیتوں کو بھانپ کر کہنے لگا:
 ﴿ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ ([38])
’’جب یوسف () نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا " اب آپ ہمارے ہاں قدرومنزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔‘‘
گویا کہ ایک اعلیٰ سرکاری تنظیمی عہدہ کی پیشکش ہورہی تھی۔ آپ نے یہ خیال فرمایا کہ اگر سرکاری عہدہ قبول کرنا ہی ہے تو پھر کیوں نہ ایسا عہدہ لیں جس میں بااختیار بن کر اللہ کریم کے بندوں کی خدمت کریں۔ لہٰذا آپ نے وزیر خزانہ و خوراک کامنصب پسند فرمایا :
 ﴿ قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰى خَزَآىِٕنِ الْاَرْضِ١ۚ اِنِّيْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ ([39])
’’یوسف () نے کہا ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘
محنت کی استعداد کار:
محنت بحیثیت عامل پیدائش کے ساری کارکردگی کا دارو مدار محنت کی استعداد کار ہے یعنی محنت کرنے والامزدور یا ناظم جتنا خوش اسلوبی اور تیزی سےکام کرے گا اتنے ہی محنت بحیثیت عامل پیدائش کےنتائج زیادہ خوشگوار سامنے آئیں گے ۔ پیداوارا بڑھے گی ۔ملکی معیشت ترقی کرے گی اور نتیجۃً ساری قوم کےساتھ مزدور بھی خوش حال ہوگا۔ معاشیات جدید کے ماہرین نے آج اس بات پر زور دیا ہے کہ مزدور کی استعداد کار کی بنیاد در اصل دو ہی باتوں پر ہے ۔ محنت کش کوجسمانی طور پر طاقت ور و توانا رہنا چاہیے ۔ اور ذہنی کام کرنے والے کو ذہنی طور پر لائق اور قابل ہونا چاہیے ۔ مگر قرآن مجید کے معجزہ کا کیا حال ہے ۔ اس نے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے ان معاشی رموز کوطشت ازبام کردیا جب مزدور اور ملازم کی انہی دو خصوصیات کو ایک بلیغ انداز میں یوں فرمایا :
 ﴿ قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا يٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ١ٞ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ ([40])
’’ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا ابا جان، اس شخص کو نوکر رکھ لیجیے، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبوط اور امانتدار ہو ۔ ‘‘
بعض مسلم معیشت دانوں کی یہ رائے ہے کہ طاقتور اور امانتدار ہوناتو جسمانی محنت کرنے والے کی خصوصیات ہیں کیونکہ اس آیت میں اشارہ موسیٰکی ملازمت کی طرف کیا گیا ہے جنہیں شعیب نے بطور ملازم رکھنے کے لیے طلب کیا تو ان کی صاحبزادی جس نے موسیٰ کو کنویں سے وہ بڑا ڈول جسے ایک جماعت مل كر كھینچتی تھی اکیلے نکالتے دیکھا تھا۔ اور ان کی امانتدار ی کا یہ عالم دیکھا کہ انہوں نے حضرت شعیبکی صاحبزادیوں کی طرف حیا کے مارے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ موسیٰ کی خوبیوں کی مشاہداتی شہادت دیتے ہوئے اپنے باپ سےعرض کیا کہ انہیں ملازم رکھ لیں یہ طاقت ور بھی ہیں اور امانتدار بھی ہیں ۔
1۔    اب سوال پیدا ہوتا ہےکہ ذہنی محنت کرنے والے کی کیا خصوصیات ہوں تو قرآن مجید نے حضرت یوسف﷤ کی زبانی فرمایا: حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ ۔کہ حفاظت کرنے والا ہو ، علم و تجربہ رکھنےوالا  ہو ۔
مگر یہ حقیقت ہے کہ محنت جسمانی ہو یا ذہنی ۔ امانتداری کےبغیر ان کی استعداد کار نہیں بڑھتی۔ مذکورہ بالا بحث کا خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کی رو سے محنت کی استعداد کار کی بنیاد چار باتیں ہیں :
u                    الْقَوِيُّ :   مزدور یا ملازم جسمانی طور پر صحت مند ہو ۔
v                     الْاَمِيْنُ:  امانتدار ہو ،خیانت نہ کرے ، کام چور نہ ہو ۔
w فَيِظٌ:  مالک ،آجر یا سرکار کےمال اور املاک جو اس  کے سپردکی گئی ہوں ان کی حفاظت کرنے والا جس کا م کا انتظام اسے سونپا گیا ۔ اس کی خوب نگرانی کرنے والا ہو ۔
x عَلِيْمٌ:   صاحب استعداد باصلاحیت،تربیت یافتہ اورتجربہ رکھنےوالا ہو ۔
اب اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ اسلام نے محنت کی استعداد بڑھانےوالے عوامل کیا مقرر کئے ہیں ؟ تو اسلام نے جدید معیشت دانوں کےبیان کردہ عوامل (مزدور کی جسمانی توانائی ، ذہنی قابلیت ،تعلیم وتربیت ، اخلاق و عادات ، کام کے حالات ،آب و ہوا ، ترقی کے مواقع ،مستقل ملازمت وغیرہ) کے لمبے سلسلہ کوچھیڑےبغیر ایک عامل پر زور دیا ہے جو ان تمام کا جامع ان تمام کو بڑھانے والا ان کی اصلاح کرنے والا اور محنت کی استعداد کار بڑھانے والا ہے اور وہ ہے ’’علم ‘‘جو تمام انسانی کمالات اور استعدادوں کی شاہ کلید ہے اس لیے اسلام نے حصول علم پر بہت زور دیا ہے بلکہ قرآن مجید کے نزول کی ترتیب دیکھیں تو غار حرا کے عزلت نشینپرجو پہلی وحی نازل ہوئی وہ علم ہی کی تاکید کے لیے تھی ۔
قرآن مجید میں جہاں اللہ کریم نے اپنی صفت ’’رحمن‘‘بیان کی ہے جہاں اپنے رحمٰن ہونے کا اعلان کیاہے۔ وہاں یہ اعلان بھی فرمایا کہ اس رحمان نے انسان کو پیدا فرمایا اور اسے قرآن مجید سکھایا۔ ’’علم القرآن ‘‘
قرآن مجید میں نبی کریم کی بعثت کا مقصد ہی علم پڑھانا ،تربیت کرنا اور انسان کی اصلاح کرنابتایا ہے اور نبی کریم کو اس مقصد عظیم کے ساتھ مبعوث فرمایا اللہ کریم نے اپنا احسان فرمایا ہے ۔ قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کریں :
 ﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ١ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ([41])
’’درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘
یہاں علم سکھانا ، نفوس کی اصلاح کرنا ، کتاب اور دانائی سکھانا ۔ کیا مسلمان کو اس قابل نہیں بناتا کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو بخوبی پورا کریں ، اس کی استعداد بڑھے اور زیادہ سے زیادہ فلاح و ترقی کا ذریعہ بنے ؟
ایک مقام پر نبی کریم نے اپنی بعثت کا مقصد ’’علم سکھانا ‘‘ بتایا ہے :
«إنما بعثت معلما»([42])
’’یقیناً میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ ‘‘
آپنے مسلمانوں کو حصول علم کی تاکید فرمائی  تاکہ ان کی استعداد کار بڑھ جائے :
«طلب العلم فريضة على كل مسلم و مسلمة »([43])
’’علم طلب کرنا ہر مسلمان مرد او رمسلمان عورت پر فرض ہے ۔ ‘‘
آپکا امت کو چین تک حصول علم کے لیے جانے کی ترغیب فرمانا کیا قرآن و حدیث کے علم کے لیے تھی ؟ نہیں ! بلکہ معاشی حصول یا ترقی یادنیا کے فنون کا علم ہی تھا۔
اللہ کریم نے تو اپنی کتاب میں محنت کشوں کی استعداد کار کا معیار ہی علم ( جاننا او رتجربہ رکھنا) قرار دیا ہے ۔ ارشاد ہے :
 ﴿ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ([44])
’’کیا جاننے والا اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں ۔‘‘
نبی کریم کو افراد امت کی تعلیم وتربیت کا کس قدر احساس تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں کہ  آپ نے بدر کے تعلیم یافتہ قیدیوں سےفدیہ کی نقد رقم یامال وصول کرنے کی بجائے ان سے کہا کہ وہ مدینہ منورہ کےدس دس لڑکوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں ۔ ([45])
’’آپنے اپنےایک صاحب علم صحابی حضرت زید بن ثابت کی استعداد کار بڑھانے کے لیے انہیں حکم دیا کہ وہ یہودیوں  کی زبان پڑھنا اور لکھنا سیکھیں۔ چنانچہ حضرت زید نے چند ایام میں ان کی زبان سیکھ لی اور نبی کریم کے پاس جو خطوط اس زبان میں آتے وہ پڑھ کر سناتے اورجہاں تحریر کرنا ہوتے وہاں تحریر کرتے۔‘‘([46])
اس مختصر بحث اور مذکورہ تمام حوالہ جات کا مقصد یہ بتانا تھا کہ نبی اکرمنے محنت کی استعداد کار کو بڑھانے کے لیےاپنے صحابہ کرامؓ کو لکھنے پڑھنے، مختلف فنون سیکھنے کی تلقین فرمائی کیونکہ آپجانتے تھے کہ محنت کش اور ملازم کی استعداد کامدار علم اور تجربہ کےحصول پر ہے ۔
محنت کی نقل پذیری :
اسلامی معاشیات نے محنت کی نقل پذیری کوبھی اجاگر کیا ہے ۔ محنت کی نقل پذیری کےمقاصد میں کئی باتیں شامل ہیں مثلاً کسی ایک مقام پر معاش کمانے میں کوئی دقت ہےیا پیدائش دولت کی راہ میں کوئی دشواری ہے یا کسی خاص پیشہ،صنعت یا تجارت کےوسائل مہیا نہیں  ہیں تو دوسرے مقام کی طرف چلے جانا پسندیدہ ہے یا ایک مقام پر مزدور کو مزدوروں کی کثرت یا رواج یا سرمایہ دار اور زمیندار کےاستحصالی حربوں کی وجہ سے کم معاوضہ مل رہا ہے۔ تو مزدور یا ملازم کسی دوسرے مقام پر ہجرت کر جائے ۔
اسلامی معاشیات نے محنت کی نقل پذیری کے لیے ہجرت کی اصطلاح استعمال کی ہے جواپنےوسیع تر مفہوم میں نقل پذیروں کے ساتھ ساتھ اور بہت سے معاشی اور دینی پہلوؤں کو شامل ہے جن کا ذکرکرنا ہمارا موضوع نہیں ہے ۔ قرآن نےاپنے معجزانہ انداز میں ہجرت کے مقاصد یوں بیان کئےہیں :
 ﴿ وَ مَنْ يُّهَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَةً([47])
’’اور جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا۔‘‘
یہاں ایک مغالطہ جو سطحی علم اور کوتاہ نظر رکھنے والے لوگوں کو ہو گا کہ اس آیت میں توہجرت سے مراد صرف اللہ کریم کے دین کی تبلیغ کے لیے یا اپنے دین کو بچانے کے لیے نقل مکانی  کا کہاگیا ہے ۔ در اصل بات یہ نہیں ہے حلال وطیب رزق کمانا ، اپنی معاشی حالت کوبہتربنانا اور پھر دل جمعی سے دین حق کی خدمت کرنا ،بعض پیشوں کو اپنا کر امت مسلمہ اور انسانیت کی خدمت کرنا نیکی کی بہترین شکلیں بتایا گیا ہے ۔
نبی کریم کےحکم سے مسلمانوں کی ایک جماعت مکہ مکرمہ کے وڈیروں کے ظلم واستحصال سےتنگ آ کر حبشہ ہجرت کر گئی ۔گویہ پاکیزہ جماعت (اللہ کریم کی ان پر رحمت ہو ) صرف اپنا دین بچانے اور دین پھیلانے کی نیت لے کر گئی مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ حبشہ کا بادشاہ نجاشی بڑا عادل اور رحمدل تھا اس سے پہلے بھی قریش وہاں تجارت کی غرض سےجایا کرتے تھے ۔ وہاں انہیں خوراک کی فراوانی ملتی اور تجارت میں زیادہ نفع ملتا ۔ نبی کریم نے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر مسلمانوں کو حبشہ جانے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ ‘‘([48])
خلفاء راشدین کےزمانہ میں مسلمانوں نے محنت نقل پذیری بہت زیادہ کی ۔ حضرت عمر نے اپنی آبادکاری کی پالیسی جس کےتحت انہوں نے بصرہ ، کوفہ اور قسطاط وغیرہ کے بڑے بڑے شہر آباد کئے ،بھی یہی تھی کہ مسلمان بہتر ذرائع معاش کی تلاش میں جزیرہ عرب کی سنگلاخ اور بےآب و گیاہ زمین کو چھوڑ کر زرخیر علاقوں کی طرف نقل پذیری کریں ۔ دین اسلام کی اشاعت بھی کریں۔ اور بہتر مواقع رزق کواستعمال کر کے معاشی خوشحالی بھی حاصل کریں ۔ جب آپ مسلمانوں کو ایران فتح کرنے بھیج رہے تھے تو اس وقت جو تقریر آپ نے لشکریوں کے سامنے کی اس سےیہی حقیقت عیاں ہوتی ہے ۔ تقریر کے الفاظ پڑھیے :
’’مسلمانو! سن لو ۔ سرزمین حجاز میں تمہارے معاش کی صورت صرف ایک ہی ہو سکتی ہےکہ تم (اپنے ریوڑ اور گلوں کے ) چارے کی تلاش میں ادھر ادھر پھرتے رہو۔ اس کے علاوہ یہاں کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے ۔ ‘‘([49])
ایک جلیل القدر صحابی حضرت جریر بن عبداللہ البجلی جو قبیلہ جمیلہ کے سردار بھی تھے۔ اپنے قبیلہ کو لیکر شام کی طرف سےجانا چاہتے تھے مگر حضرت عمر... جوایک نہایت اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ماہر معاشیات بھی تھے .... نےانہیں نصیحت فرمائی کہ اگر انہیں نقل پذیری کرنا ہی ہے تو پھر عراق جائیں کیونکہ وہاں کی زمین زیادہ ذرخیز ہے آپ نے انہیں مخاطب ہوکر فرمایا:
’’وہاں شام میں تمہاری ضرورت نہیں ،عراق جاؤ ۔ اس ملک کوچھوڑو جس کی شان و شوکت اللہ کریم نے کم کر دی ہے اس قوم کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے بڑھو جس نے معاش کے تمام ذرائع ووسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اللہ کریم  کی ذات سےامید ہے کہ وہ تمہیں بھی اس (معیشت) میں سے حصہ دے گا او رتم بھی دیگر لوگوں کی طرح معاش کے ان وسائل سے فائدہ اٹھاؤ گے ۔ ‘‘([50])
فاتح بلاد عجم حضرت خالد بن ولید جب بلاد عجم کی فتوحات کے لیے لشکرکشی کر رہے تھے تو انہوں نے اسلامی لشکر کےسامنے جو قائدانہ خطاب فرمایا اس کا ایک حصہ خالصتاً معاشی نقطہ نظر رکھتا ہے اور محنت کی نقل پذیری کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے ۔ آپ بھی خطاب کا وہ حصہ پڑھیے اور اس فوجی کمانڈر کی معاشی بصیرت کی داد دیجیے ۔
’’(مسلمانو!) ملک عرب میں (معاش کے لیے ) کیا رکھا ہے ؟ تم دیکھ نہیں رہے یہاں (عراق و عجم) مٹی کے ٹیلوں کی طرح خوراک (اناج) کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اللہ کی قسم!اگر  جہاد کرنا اور دین کی اشاعت کرنا ہم پر فرض نہ بھی ہوتا تب بھی میں تم کو یہی رائے دیتا کہ ان زرخیز زمینوں کے لیے لڑو اور ان کے مالک بن جاؤ اور یوں بھوک اور غذائی قلت کا مسئلہ ان سستی کے ماروں کے لیےچھوڑو جو اس مبارک جدوجہد میں تمہارے ساتھ بننے سے جی چراتے ہیں ۔ ‘‘([51])
ایسی روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے مشہور مسلم معیشت دان پروفیسر یوسف الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں :
’’الغرض قرآنی تعلیم ،اسوہ حسنہ اور صحابہ کرامؓ کی ہدایتوں کا یہ نتیجہ ہواکہ مسلمان پہلی صدی کی ابتداء ہی میں معاش کی طلب اوردین کی تبلیغ کے لیے دور دور  تک نکل گئے ۔ ان کی نوآبادیاں مشرق میں چین ، جاوا ، سماترا،سری لنکا و ہندوستان تک تھیں تو دوسری طرف براعظم افریقہ میں مصر ، طرابلس ،تیونس ،مراکش ،الجزائر اورحبش وغیرہ ہیں نیز بحیرہ روم کےاکثر جزیرے اور خود یورپ میں سپین ،فرانس اور اٹلی وغیرہ کے علاقوں میں مسلمان جابسے تھے۔ تجارت او رملازمت کے ساتھ ساتھ دین کی تبلیغ بھی کرتے تھے۔ خود ہندوستان میں مسلمان فاتحانہ حیثیت میں آنے سے پہلے جنوبی ہند میں تاجرانہ حیثیت سے آ چکے تھے ۔ ‘‘([52])
محنت کی عظمت :
اسلام کے منصفانہ اقتصادی نظام کا ایک نہایت امتیازی نشان یہ ہے کہ اس نے محنت کی عظمت کو اجاگر کیا ہے اور مزدور و محنت کش طبقہ کو پستی کےمقام سےاٹھا کر قابل رشک عظمت کا مقام بخشا ہے ۔اسلام کا معاشی نظام اس حقیقت پر یقین رکھتا ہے کہ پیدائش دولت اور معاشی ترقی کی جو بھی صورت ہو خواہ وہ زراعت و کاشتکاری ہو یا صنعت و حرفت ،سرکاری ملازمت یانجی کاروبار  میں ملازمت ، ہر جگہ دو ہی ہاتھ ہیں جو سرگرم کار نظر آتے ہیں ایک اصل (خواہ زمین ہو یا مشین یا زر نقد یا سرکار کا کوئی پیداواری علم ) دوسرا محنت ۔بالفاظ دیگر ایک طرف اگر مالک زمین یا کارخانہ یا سرمایہ دار خواہ وہ سرکار ہویا کوئی فرد ہے تو دوسری طرف مزدور یا ملازم ہے جوزمین پر محنت کر کے یا کارخانہ میں کام کر کے یا سرمایہ کومضاربت میں لگا کر یا سرکار کے ترقیاتی منصوبوں کو پروان چڑھا کر یا انتظامی شعبہ میں مدد کر کے پیدائش دولت کے عمل کو یقینی بناتا ہے ۔لہٰذا اصل دار (سرمایہ دار ، زمیندار یا سرکار وغیرہ) اور مزدور یا ملازم دونوں برابر ہیں ۔ مزدور یاملازم کسی بھی طرح اصل دار سےکمتر نہیں۔ مگر اسے حالات کی ستم ظریفی کانام دیں یا طاقتور کےراج کے نام دیں کہ وہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون پرعمل پیرا ہو کر محنت کش جماعت کا جس طرح چاہے استحصال کرے ہم دیکھتے ہیں کہ محنت کشوں کے کمزور طبقہ کا ہمیشہ استحصال کیا گیا ان پر ظلم کئے گئے ،ستم توڑے گئے ان کےحق سے کم انہیں دیا گیا اور سارا کچھ سرمایہ دار یا وڈیرہ زمیندار  ہڑپ کر گیا ۔ کیا یہ ستم نہیں کہ جو ہاتھ دولت پیدا کرے وہ دولت سےخالی ہو ۔ وہ مفلس اور محتاج ہو ۔ جو کسان ملک و ملت کے لیےمحنت کر کے گندم کے ڈھیر لگائے خود اس کےگھر میں اناج کی قلت ہو اور وہ دوکاندار یا زمیندار سےخرید کر کھائے ۔ وہ مزدور جو کپڑے کی مل میں ہزاروں میٹرز کپڑا تیار کر ے اس کے بدن پر  پورا لباس نہ ہو ۔ جس مستری اور مزدور کی ساری زندگی امیروں کے پختہ مکانات تعمیر کرتے ہوئے کٹ جائے اس کا ساری عمر بھر ایک پختہ کمرہ تعمیر نہ ہو سکے جو محنت کش انجینئر ساری زندگی کاروں کے کارخانہ میں کام کر کے ہزاروں کاریں تیار کر کے سرمایہ داروں اور وڈیروں کو دے چکا ہو ۔ اس کے بچے کے لیے سکول تک جانے کے لیے کوئی سائیکل بھی نہ ہو جس استاد نے ساری زندگی پڑھانے میں گزاری اس کے پڑھائے ہوئے افراد بڑے بڑے افسران بن کر بڑی بڑی تنحواہیں پائیں اور بعض اوقات اپنے عہدہ و اختیارات سے غلط فائدہ اٹھا کر رشوت کے ذریعے ملک وملت کو لوٹ بھی لیں ان کے شاگرد سیاستدان بن کر ملک و قوم کےمقدر سے کھیلتے رہے مگر یہ بےچارہ ملازمت سے فارغ ہواتو نہ مکان پختہ ،نہ بقیہ حیات مستعار کے ایام گزارنے کے لیے ذریعہ معاش لہٰذا وہ پھر محنت ہی کو ذریعہ معاش بنانے پر  مجبور ہو گئے کیا یہ حقائق نہیں ہیں؟ کیا اللہ کریم کی اس زمین پر کمزور محنت کش طبقہ کے ساتھ یہی سلوک نہیں ہوتا ؟ کیا یہ انصاف ہے کہ دولت کی پیدائش میں کام کرنے والا ایک ہاتھ (سرمایہ دار یازمیندار )  توقابل عزت و احترام ہےاور دوسرا برابر کا ہاتھ (یعنی مزدور ،مزارع یا ملازم) کمتر اور گھٹیا سمجھا جائے ؟ کیا مزدور کےاوقات انہی تلخیوں میں نہیں گزرتے ؟
اسلام! تیرے احسانات کا کیا ٹھکانہ تو نے ان بے نواؤں کو بانوا بنایا ۔ تیرے علیم و حکیم اورغفور و شکور اللہ کریم نے اپنے انبیاء کرام ... جوانسانیت کے گل سرسبد تھے ... سے وہ کام اور پیشے کرائے جنہیں اس دنیا کو وڈیروں نے ذات کی نگاہ سے دیکھا مگر انبیاء کرامنےانہیں اپنا کر دراصل ان پیشوں سے متعلق غریب لوگوں کی عظمت کو بڑھایا ہے آپ بھی میرے ساتھ یہ دو حدیثیں پڑھیں اور مزدور کی عظمت کا اندازہ کرتے جائیں :
«عَنِ المِقْدَامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ، خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ»([53])
’’مقدام رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ اس سے بہتر کھانا کسی نے نہیں کھایا جو اپنے ہاتھوں سے محنت کر کے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کھاتے تھے۔‘‘
حضرت داؤد ’’زرہ‘‘بناتے تھے اور جنگ کے لیے لوہے کی قمیض کی صنعت کا کام کرتے تھے ۔ حدیث میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔([54])
« أُحَدِّثُكَ عَنْ آدَمَ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا حَرَّاثًا، وَأُحَدِّثُكَ عَنْ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا نَجَّارًا، وَأُحَدِّثُكَ عَنْ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا خَيَّاطًا، وَأُحَدِّثُكَ عَنْ دَاوُدَ أَنَّهُ كَانَ عَبْدًا زَرَّادًا، وَأُحَدِّثُكَ عَنْ مُوسَى أَنَّهُ كَانَ عَبْدًا رَاعِيًا»([55])
’’حضرت داؤدزرہ بناتے تھے ۔ حضرت آدم کاشت کاری کرتے تھے۔ حضرت نوح بڑھی کا کام کرتے تھے ۔ حضرت ادریس درزی کاکام کرتے تھے ۔اور حضرت موسیٰ بکریاں چرایا کرتے تھے ۔‘‘
فخر ابنیاء ، فخر انسانیت حضرت محمد ہمارے آقا ومولیٰ قراریط کےعوض مکہ مکرمہ میں نبوت ملنے سے قبل اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے ۔ ‘‘([56])
نبی کریمنے اپنےا س عمل اور بعض دیگر ابنیاء نےاپنے اعمال سے یہ ترغیب دی کہ معاش کمانے کے لیے بظاہر کوئی حقیر پیشہ اختیار کرنا پڑے توہچکچانا نہیں چاہیے ۔ حضرت عائشہ ؓ ایک واقعہ بیان کرتی ہیں:
’’نبی کریم نے کچھ دست کاری کی اور صحابہ کرامکو بھی اختیار دیا لیکن وہ اس سے الگ رہےجب آپ کواطلاع ہوئی توآپ نےخطبہ دیا اللہ کریم کی حمد و ثناء کےبعد فرمایا: لوگوں کا کیا حال ہے کہ ایسےکام سے الگ رہتے ہیں جس کو میں خود کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی قسم ! میں اللہ کریم کی معرفت اور تقویٰ تم سے زیادہ رکھتا ہوں ۔‘‘ ([57])
حضرت سعد مشہور صحابی ہیں۔ مدینہ منورہ میں آہن گری کا کام کیا کرتے تھے ہتھوڑا چلاتے چلاتے ان کےہاتھ سیاہ اورکھردرے ہوگئےتھے ۔ ایک دن نبی کریم نےدوران مصافحہ یا کسی اور طریقہ سےیہ کھردراپن محسوس کیا تووجہ دریافت کی ۔حضرت سعدنے عرض کیا ۔ ہتھوڑا چلاتے چلاتے کیونکہ اس ذریعہ سےاپنےاہل و عیال کے لیے روزی کماتا ہوں ۔ ‘‘
آپ نے ان کےہاتھ چومتے ہوئے فرمایا:
«هذه يد ي حبها الله ورسوله »([58])
’’یعنی یہی وہ ہاتھ ہے جس سے اللہ کریم اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں ۔ ‘‘
حضرت علینے ایک یہودی دشمن کی مزدوری کی اس کے باغ میں مٹی کے ڈھیر پر سترہ ڈول پانی کےبہا کر آپ نےسترہ کھجوریں کمائیں اور لاکر نبی کریم کی خدمت میں پیش کیں ۔آپنےانہیں کھا کر اپنی بھوک کا سامان فرمایا۔([59])
در اصل محنت اور پیشہ انسان کی ذلت و رسوائی کا موجب نہیں بنتے بلکہ یہ انسان (اورمسلمان) کی عظمت ہے کہ وہ حقیر پیشہ اختیار کر کے بھی اس کی عظمت کوچار چاند لگا دیتا ہے ۔ اسلامی اقتصادیات کی پیشوں کی تاریخ کامطالعہ بتاتا ہے کہ اس وقت بھی جب اسلامی تہذیب و تمدن کا سورج نصف النہار پر تھا۔ مسلمانوں نے آدھی سےزیادہ دنیا کو فتح کر لیا تھا ۔ ان کی عظمت کا پھریرا نصف عالم پر لہرا رہا تھا مگر اس امت کے علماء کرام ،فقہاء کرام .... جودراصل کسی بھی قوم ، جماعت یا معاشرہ کا معزز ترین طبقہ ہوتے ہیں.....اپنے پیشوں کےلحاظ سے پہچانے جا رہے تھے اور آج بھی علم دین کی تاریخ میں ان کےمبارک نام ان کے پیشوں سےپہچانے جاتے ہیں۔ مثلاً امام قدوری (ہانڈی بیچنےاور بنانے والے) امام قفال (تالے بنانے اور بیچنے والے ) امام جصاص (پینٹر کاکام کرنےوالے) امام صفار (برتن فروش) امام صیدلانی (عطر فروش ) امام دقاق (آٹا فروش ) اما صابونی صابن بنانے اور بیچنے والے ) امام نعالی (جوتے فروش ) امام بقالی  (سبزی فروش ) وغیرہ ([60])
امام اعظم ابوحنیفہ کپڑےکا کاروبار کرتے تھے ۔ امام احمد بن عمر مہیر موچی تھے ان کے والد محترم امام محمد بن حسن الشیبانی  کےعظیم شاگردوں میں سے ہیں ۔ آپ کویہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ عباسی خلیفہ مہتدی باللہ کے لیے کتاب الخراج لکھ رہے تھے جبکہ اپنی معاش جوتیاں تیار کر کے اور بیچ کر پورا کرتے تھے ۔ ([61])

سرمایہ کا مقام اور مولانا مودودی
معاشی زندگی کے چند بنیادی اصول
1۔    اسلامی معاشرے کی بنیادی قدریں :
 ﴿ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى وَ يَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْيِ١ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ([62])
’’اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو ۔‘‘
اس آیت کے تحت مولانا مودودی لکھتے ہیں :
’’اس مختصر سے فقرے میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جن پر پورے انسانی معاشرے کی درستی کا انحصار ہے۔
پہلی چیز عدل ہے جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے ۔ ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسب قائم ہو ۔ دوسرے یہ کہ اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دیا جائے۔ اردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ ”انصاف“ سے ادا کیا جاتا ہے، مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کر نے والا ہے۔ اس سے خواہ مخواہ یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیاد پر ہو ۔ اور پھر اسی سے عدل کے معنی مساویانہ تقسیم حقوق کے سمجھ لیے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے۔ دراصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے نہ کہ برابری ۔ بعض حیثیتوں سے تو عدل بے شک افرادِ معاشرہ میں مساوات چاہتا ہے ، مثلا حقوق شہریت میں ۔ مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلاف عدل ہے، مثلا والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی و اخلاقی مساوات ، اور اعلی درجے کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمت ادا کرنے والوں کے درمیان معاوضوں کی مساوات۔ پس اللہ تعالی نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حقوق میں مساوات نہیں بلکہ توازن و تناسب ہے، اور اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی ، معاشرتی ، معاشی، قانونی ، اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کیے جائیں ۔
دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد نیک برتاؤ ، فیاضانہ معاملہ ، ہمدردانہ رویہ، رواداری ، خوش خلقی ، درگزر، باہمی مراعات، ایک دوسرے کا پاس و لحاظ ، دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا، اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہوجانا یہ عدل سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور اس کا کمال ہے۔ عدل اگر معاشرے کو نا گواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوش گواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کر کے دیکھتا رہے کہ اس کا کیا حق ہے اور اسے وصول کر کے چھوڑے ، اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور اسے بس اتنا ہی دے دے۔ ایسے ایک ٹھنڈے اور کھرے معاشرے میں کشمکش تو نہ ہوگی مگر محبت اور شکر گزاری اور عالی ظرفی اور ایثار اور اخلاص وخیر خواہی کی قدروں سے وہ محروم رہے گا۔ جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشونما دینے والی قدریں ہیں۔
تیسری چیز جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے ، صلہ رحمی ہے جو رشتہ داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور خوشی و غمی میں ان کا شریک حال ہو اور جائز حدود کے اندر ان کا حامی و مددگار بنے۔ بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے۔ شریعت الہٰی ہر خاندان کے خوشحال افراد کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں ۔ اس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص عیش کر رہا ہو اور اسی کےخاندان میں اس کے اپنے بھائی بہن روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوں ۔ وہ خاندان کو معاشرے کا ایک اہم عنصر ترکیبی قرار دیتی ہے اور یہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہر خاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوشحال افراد پر ہے، پھر دوسروں پر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں ۔ اور ہر خاندان کے خوشحال افراد پر پہلا حق ان کے اپنے غریب رشتہ داروں کا ہے، پھر دوسروں کے حقوق ان پر عائد ہوتے ہیں ۔ یہی بات ہے جس کو نبی نے اپنے مختلف ارشادات میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ متعدد احادیث میں اس کی تصریح ہے کہ آدمی کے اوّلین حقدار اس کے والدین، اس کے بیوی بچے، اور اس کے بھائی بہن ہیں ، پھر وہ جو ان کے بعد قریب تر ہوں، اور پھر وہ جو ان کے بعد قریب تر ہوں ۔ اور یہی اصول ہے جس کی بنا پر حضرت عمر نے ایک یتیم بچے کے چچا زاد بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی پرورش کے ذمہ دار ہوں ۔ اور ایک دوسرے یتیم کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اگر اس کا کوئی بعید ترین رشتہ دار بھی موجود ہو اس پر اس کی پرورش لازم کر دیتا ...... اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس معاشرے کا واحدہ (Unit ) اس طرح اپنے اپنے افراد کو سنبھال لے اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوشحالی ، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہو جائے گی۔
اوپر کی تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالی تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو ، اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں۔
پہلی چیز فَحْشَآء ہے جس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے۔ مثلًا بخل ، زنا، برہنگی و عریانی، عمل قوم لوط، محرمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے، مثلا جھوٹا پروپیگنڈا ، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا، اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمائش کرنا وغیرہ۔دوسری چیز منکر ہے جس سے مراد ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں ، ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں ، اور عام شرائع الہٰیہ نے جس سے منع کیا ہے۔تیسری چیز بغی ہے جس کے معنی ہیں اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا ، خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے۔یہ وہ بنیادی قدریں ہیں جن پر اسلامی معاشرہ قائم ہو تا ہے۔ جن کی حفاظت کےفرد اور حکومت دونوں ذمے دارہیں اور جن کے حصول کے لیے قانون اور اخلاق کی تمام قوتیں استعمال کی جاتی ہیں۔ ‘‘([63])
2۔    اخلاقی اور معاشی ارتقاء کا اسلامی راستہ :
 ﴿ فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيْلِ١ؕ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ١ٞ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ([64])
’’پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اس کا حق) یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں ، اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘
اس آيت میں یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو خیرات دے۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ یہ اس کا حق ہے جو تجھے دینا چاہیے، اور حق ہی سمجھ کر تو اسے دے۔ اس کو دیتے ہوئے یہ خیال تیرے دل میں نہ آنے پائے کہ یہ کوئی احسان ہے جو تو اس پر کر رہا ہے، اور تو کوئی بڑی ہستی ہے دان کرنے والی، اور وہ کوئی حقیر مخلوق ہے تیرا دیا کھانے والی۔ بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرے ذہن نشین رہے کہ مال کے مالک حقیقی نے اگر تجھے زیادہ دیا ہے اور دوسرے بندوں کو کم عطا فرمایا ہے تو یہ زائد مال ان دوسروں کا حق ہے جو تیری آزمائش کے لیے تیرے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے تاکہ تیرا مالک دیکھے کہ تو ان کا حق پہچانتا اور پہنچاتا ہے یا نہیں ۔
مولانا مودودی فرماتے ہیں :
’’اس ارشاد الہٰی اور اس کی اصلی روح پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قرآن مجید انسان کے لیے اخلاقی و روحانی ارتقاء کا جو راستہ تجویز کرتا ہے اس کے لیے ایک آزاد معاشرہ اور آزاد معیشت (Free Economy) کی موجودگی ناگزیر ہے، یہ ارتقاء کسی ایسے اجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کردیے جائیں، ریاست تمام ذرائع کی مالک ہوجائے اور افراد کے درمیان تقسیم رزق کا پورا کاروبار حکومت کی مشینری سنبھال لے، حتی کہ نہ کوئی فرد اپنے اوپر کسی کا کوئی حق پہچان کردے سکے، اور نہ کوئی دوسرا فرد کسی سے کچھ لے کر اس کے لیے اپنے میں کوئی جذبہ خیر سگالی پرورش کرسکے۔ اس طرح کا خالص کمیونسٹ نظام تمدن و معیشت ، جسے آج کل ہمارے ملک میں’’ قرآنی نظام ربوبیت‘‘ کے پر فریب نام سے زبردستی قرآن کے سر منڈھا جارہا ہے، قرآن کی اپنی اسکیم کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کی نشو و نما اور انفرادی سیرتوں کی تشکیل و ترقی کا دروازہ قطعا بند ہوجاتا ہے۔ قرآن کی اسکیم تو اسی جگہ چل سکتی ہے جہاں افراد کچھ وسائل دولت کے مالک ہوں، ان پر آزادانہ تصرف کے اختیارات رکھتے ہوں، اور پھر اپنی رضا و رغبت سے خدا اور اس کے بندوں کے حقوق اخلاص کے ساتھ ادا کریں ۔ اسی قسم کے معاشرے میں یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی، رحم و شفقت، ایثار و قربانی اور حق شناسی و ادائے حقوق کے اعلی اوصاف پیدا ہوں، اور دوسری طرف جن لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے ان کے دلوں میں بھلائی کرنے والوں کے لیے خیر خواہی، احسان مندی، اور جزاء الاحسان کے پاکیزہ جذبات نشو و نما پائیں ، یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیدا ہوجائے جس میں بدی کا رکنا اور نیکی کا فروغ پانا کسی قوت جابرہ کی مداخلت پر موقوف نہ ہو، بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگی نفس اور ان کے اپنے نیک ارادے اس ذمہ داری کو سنبھال لیں ۔‘‘([65])
3۔    تصور رزق اور نظریہ صرف:
 ﴿ وَ لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ۙ۬ لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ١ؕ وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَّ اَبْقٰى ([66])
’’اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔‘‘
مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’رزق کا ترجمہ ہم نے ’’ رزق حلال ‘‘ کیا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی حرام مال کو " رزق رب " سے تعبیر نہیں فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا اور تمہارے ساتھی اہل ایمان کا یہ کام نہیں ہے کہ یہ فسّاق و فجّار ناجائز طریقوں سے دولت سمیٹ سمیٹ کر اپنی زندگی میں جو ظاہر چمک دمک پیدا کر لیتے ہیں ، اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھو ۔ یہ دولت اور یہ شان و شوکت تمہارے لیے ہرگز قابل رشک نہیں ہے۔ جو پاک رزق تم اپنی محنت سے کماتے ہو وہ خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو، راستباز اور ایماندار آدمیوں کے لیے وہی بہتر ہے اور اسی میں وہ بھلائی ہے جو دنیا سے آخرت تک برقرار رہنے والی ہے۔‘‘ ([67])
 ﴿ وَ اللّٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ([68])
’’ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے ۔‘‘
 ﴿ وَيْكَاَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ يَقْدِرُ([69])
’’افسوس، ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔‘‘
اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
’’یعنی اللہ کی طرف سے رزق کی کشادگی و تنگی جو کچھ بھی ہوتی ہے اس کی مشیت کی بنا پر ہوتی ہے اور اس مشیت میں اس کی کچھ دوسری ہی مصلحتیں کارفرما ہوتی ہیں، کسی کو زیادہ رزق دینے کے معنی لازما یہی نہیں ہیں کہ اللہ اس سے بہت خوش ہے اور اسے انعام دے رہا ہے ۔ بسا اوقات ایک شخص اللہ کا نہایت مغضوب ہوتا ہے مگر وہ اسے بڑی دولت عطا کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ آخر کار یہی دولت اس کے اوپر اللہ کا سخت عذاب لے آتی ہے ، اس کے برعکس کسی کا رزق تنگ ہے تو اس کے معنی لازما یہی نہیں ہیں کہ اللہ تعالی اس سے ناراض ہے اور اسے سزا دے رہا ہے۔ اکثر نیک لوگوں پر تنگی اس کے باوجود رہتی ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں، بلکہ بارہا یہی تنگی ان کے لیے خدا کی رحمت ہوتی ہے، اس حقیقت کو نہ سمجھنے ہی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ان لوگوں کی خوشحالی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو دراصل خدا کے غضب کے مستحق ہوتے ہیں ۔‘‘ ([70])
 ﴿الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِيْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ وَ الْمُقِيْمِي الصَّلٰوةِ١ۙ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ([71])
’’عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو، جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ ‘‘
نظریہ صرف کے بارے میں مولانا مودودی فرماتے ہیں:
’’آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخشا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں ۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا، رشتہ داروں اور ہمسایوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا، رفاہ عامہ کے کاموں میں حصہ لینا، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے۔ بے جا خرچ، اور عیش و عشرت کے خرچ اور ریاکارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن ’’ انفاق ‘‘ قرار دیتا ہو ، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے۔اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے، کہ آدمی اپنے اہل و عیاں کو بھی تنگ رکھے ، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چرائے، تو اس صورت میں اگرچہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے، مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام انفاق " نہیں ہے۔ وہ اس کو ’’ بخل ‘‘ اور’’شُحِّ نفس‘‘ کہتا ہے۔‘‘ ([72])
œ     اصول صرف :
 ﴿ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ([73])
’’کھاؤ ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ‘‘
مولانا مودودی  مذکورہ آیت  کی یوں وضاحت کرتے ہیں:
’’یہاں اللہ تعالیٰ تین باتیں ذہن نشین کرانا چاہتا ہے ۔ ایک یہ کہ یہ باغ اور کھیت اور یہ جانور جو تم کو حاصل ہیں ، یہ سب اللہ کے بخشے ہوئے ہیں، کسی دوسرے کا اس بخشش میں کوئی حصہ نہیں ہے، اس لیے بخشش کے شکریہ میں بھی کسی کا کوئی حصہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے یہ کہ جب یہ چیزیں اللہ کی بخشش ہیں تو ان کے استعمال میں اللہ ہی کے قانون کی پیروی ہونی چاہیے۔ کسی دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ ان کے استعمال پر اپنی طرف سے حدود مقرر کر دے۔ اللہ کے سوا کسی اور کی مقرر کردہ رسموں کی پابندی کرنا اور اللہ کے سوا کسی اور کے آگے شکر نعمت کی نذر پیش کرنا ہی حد سے گزرنا ہے اور یہی شیطان کی پیروی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ سب چیزیں اللہ نے انسان کے کھانے پینے اور استعمال کرنے ہی کے لیے پیدا کی ہیں، اس لیے پیدا نہیں کیں کہ انہیں خواہ مخواہ حرام کر لیا جائے۔ اپنے اوہام اور قیاسات کی بنا پر جو پابندیاں لوگوں نے خدا کے رزق اور اس کی بخشی ہوئی چیزوں کے استعمال پر عائد کر لی ہیں وہ سب منشاء الہٰی کے خلاف ہیں۔‘‘ ([74])
 ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ* وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ([75])
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلواور حد سے تجاوز نہ کرو ، اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں ۔ جو کچھ حلال و طیّب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اسے کھاؤ پیو اور اس خدا کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو ۔‘‘
مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں ۔ ایک یہ کہ خود حلال و حرام کے مختار نہ بن جاؤ۔ حلال وہی ہے جو اللہ نے حلال کیا اور حرام وہی ہے جو اللہ نے حرام کیا۔ اپنے اختیار سے کسی حلال کو حرام کرو گے تو قانون الہٰی کے بجائے قانون نفس کے پیرو قرار پاؤ گے۔ دوسری بات یہ کہ عیسائی راہبوں، ہندو جوگیوں، بدھ مذہب کے بھکشووں اور اشراقی متصوفین کی طرح رہبانیت اور قطع لذات کا طریقہ اختیار نہ کرو ۔ مذہبی ذہنیت کے نیک مزاج لوگوں میں ہمیشہ سے یہ میلان پایا جاتا رہا ہے کہ نفس و جسم کے حقوق ادا کرنے کو وہ روحانی ترقی میں مانع سمجھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا، اپنے نفس کو دنیوی لذتوں سے محروم کرنا، اور دنیا کے سامان زیست سے تعلق توڑنا، بجائے خود ایک نیکی ہے اور خدا کا تقرب اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ۔‘‘ ([76])
مزید لکھتے ہیں :
’’صحابہ کرام میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کے اندر یہ ذہنیت پائی جاتی تھی ۔ چنانچہ ایک مرتبہ نبی کو معلوم ہوا کہ بعض صحابیوں نے عہد کیا ہے کہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھیں گے ، راتوں کو بستر پر نہ سوئیں گے بلکہ جاگ جاگ کر عبادت کرتے رہیں گے، گوشت اور چکنائی استعمال نہ کریں گے، عورتوں سے واسطہ نہ رکھیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ” مجھے ایسی باتوں کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ تمہارے نفس کے بھی تم پر حقوق ہیں ۔ روزہ بھی رکھو اور کھاؤ پیو بھی۔ راتوں کو قیام بھی کرو اور سوؤ بھی ۔ مجھے دیکھو، میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں ۔ روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ گوشت بھی کھاتا ہوں اور گھی بھی ۔ پس جو میرے طریقے کو پسند نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں ہے“۔ پھر فرمایا” یہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو اور اچھے کھانے کو اور خوشبو اور نیند اور دنیا کی لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے؟ میں نے تو تمہیں یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ تم راہب اور پادری بن جاؤ۔ میرے دین میں نہ عورتوں اور گوشت سے اجتناب ہے اور نہ گوشہ گیری و عزلت نشینی ہے ۔ ضبط نفس کے لیے میرے ہاں روزہ ہے، رہبانیت کے سارے فائدے یہاں جہاد سے حاصل ہوتے ہیں ۔ اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، حج و عمرہ کرو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو ۔ تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے وہ اس لیے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے اپنے اوپر سختی کی، اور جب انہوں نے خود اپنے اوپر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ یہ انہی کے بقایا ہیں جو تم کو صومعوں اور خانقاہوں میں نظر آتے ہیں“۔ اسی سلسلہ میں بعض روایات سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ ایک صحابی کے متعلق نبی نے سنا کہ وہ ایک مدت سے اپنی بیوی کے پاس نہیں گئے ہیں اور شب و روز عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو آپ نے بلا کر ان کو حکم دیا کہ ابھی اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔ انہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں ۔ آپ نے فرمایا روزہ توڑ دو اور جاؤ۔ حضرت عمر کے زمانہ میں ایک خاتون نے شکایت پیش کی کہ میرے شوہر دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں اور مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ حضرت عمر نے مشہور تابعی بزرگ، کعب بن سَور الاَزْدِی کو ان کے مقدمہ کی سماعت کے لیے مقرر کیا، اور انہوں نے فیصلہ دیا کہ اس خاتون کے شوہر کو تین راتوں کے لیے اختیار ہے کہ جتنی چاہیں عبادت کریں مگر چوتھی رات لازماً ان کی بیوی کا حق ہے۔
اس آيت میں حد سے تجاوز کرناوسیع مفہوم کا حامل ہے۔ حلال کو حرام کرنا اور خدا کی ٹھہرائی ہوئی پاک چیزوں سے اس طرح پرہیز کرنا کہ گویا کہ وہ ناپاک ہیں، یہ بجائے خود ایک زیادتی ہے۔ پھر پاک چیزوں کے استعمال میں اسراف اور افراط بھی زیادتی ہے۔ پھر حلال کی سرحد سے باہر قدم نکال کر حرام کے حدود میں داخل ہونا بھی زیادتی ہے۔ اللہ کو یہ تینوں باتیں ناپسند ہیں۔‘‘ ([77])
5۔    اصول اعتدال :
 ﴿وَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا* وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا يَزْنُوْنَ١ۚ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا([78])
’’ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں.....یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔‘‘
مولانا مودودی فرماتے ہیں :
’’یعنی نہ تو ان کا حال یہ ہے کہ عیاشی، اور قمار بازی ، اور شراب نوشی ، اور یار باشی، اور میلوں ٹھیلوں ، اور شادی بیاہ میں بے دریغ روپیہ خرچ کریں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی شان دکھانے کے لیے غذا مکان، لباس اور تزئین و آرائش پر دولت لٹائیں ۔ اور نہ ان کی کیفیت یہ ہے کہ ایک زر پرست آدمی کی طرح پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھیں ، نہ خود کھائیں ، نہ بال بچوں کی ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پوری کریں ، اور نہ کسی راہ خیر میں خوش دلی کے ساتھ کچھ دیں ۔ عرب میں یہ دونوں قسم کے نمونے کثرت سے پائے جاتے تھے ۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو خوب دل کھول کر خرچ کرتے تھے ، مگر ان کے ہر خرچ کا مقصود یا تو ذاتی عیش و تَنَعُّم تھا، یا برادری میں ناک اونچی رکھنا اور اپنی فیاضی و دولت مندی کے ڈنکے بجوانا ۔ دوسری طرف وہ بخیل تھے جن کی کنجوسی مشہور تھی۔ اعتدال کی روش بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی تھی اور ان کم لوگوں میں اس وقت سب سے زیادہ نمایاں نبی اور آپ کے اصحاب تھے ‘‘([79])
ایک اور جگہ  لکھتے ہیں :
’’اس موقع پر یہ جان لینا چاہیے کہ اسراف کیا چیز ہے اور بخل کیا چیز۔ اسلامی نقطۂ نظر سے اسراف تین چیزوں کا نام ہے ۔
1۔      ایک ناجائز کاموں میں دولت صرف کرنا ، خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو ۔
2۔       دوسرےجائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر جانا، خواہ اس لحاظ سے کہ آدمی اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرے ، یا اس لحاظ سے کہ آدمی کو جو دولت اس کی ضرورت سے بہت زیادہ مل گئی ہو اسے وہ اپنے ہی عیش اور ٹھاٹھ باٹھ میں صرف کرتا چلا جائے ۔
3۔      تیسرے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا، مگر اللہ کے لیے نہیں بلکہ ریا اور نمائش کے لیے۔
 اس کے برعکس بخل کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے ۔ ایک یہ کہ آدمی اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پر اپنی مقدرت اور حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے ۔ دوسرے یہ کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس کے ہاتھ سے پیسہ نہ نکلے ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال کی راہ اسلام کی راہ ہے ([80])جس کے متعلق نبی فرماتے ہیں کہ :
«من فقه الرجل قصده فی معیشته([81])
’’ اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے فقیہ (دانا) ہونے کی علامتوں میں سے ہے ۔‘‘([82])
œ       معاشی دیانت اور انصاف:
 ﴿قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَ الْمِيْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ([83])
’’اس نے کہا  اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آگئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو ، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو ۔‘‘
 ﴿ وَ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَىِٕنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ([84])
’’اس کی قوم کے سرداروں نے ، جو اس کی بات ماننےسے انکار کر چکے تھے، آپس میں کہا " اگر تم نے شعیب کی پیروی قبول کرلی تو برباد ہو جاؤ گے ۔‘‘
مو لانا مودودی فرماتے ہیں:
’’پہلی آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت شعیبؑ کی قوم میں دو بڑی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ ایک شرک ۔دوسرے تجارتی معاملات میں بددیانتی ۔ انہی دونوں چیزوں کی اصلاح کے لیے حضرت شعیبؑ مبعوث ہوئے تھے۔ سرداران قوم شعیبؑ نے اس کی بات کا جوجواب دیا۔اس پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے۔ یہ ٹھہر کر بہت سوچنے کا مقام ہے۔ مَدیَنَ کے سردار اور لیڈر دراصل یہ کہہ رہے تھے اور اسی بات کا اپنی قوم کو بھی یقین دلا رہے تھے کہ شعیب جس ایمان داری اور راست بازی کی دعوت دے رہا ہے اور اخلاق و دیانت کےجن مستقل اصولوں کی پابندی کرانا چاہتا ہے، اگر ان کو مان لیا جائے تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ ہماری تجارت کیسے چل سکتی ہے اگر ہم بالکل ہی سچائی کے پابند ہوجائیں اور کھرے کھرے سودے کرنے لگیں ۔ اور ہم جو دنیا کی دو سب سے بڑی تجارتی شاہ راہوں کے چوراہے پر بستے ہیں، اور مصر اور عراق کی عظیم الشان متمدّن سلطنتوں کی سرحد پر آباد ہیں، اگر ہم قافلوں کو چھیڑنا بند کر دیں اور بے ضرر اور پُر امن لوگ ہی بن کر رہ جائیں تو جو معاشی اور سیاسی فوائد ہمیں اپنی موجودہ جغرافی پوزیشن سے حاصل ہو رہے ہیں وہ سب ختم ہو جائیں گے اور آس پاس کی قوموں پر ہماری جو دھونس قائم ہے وہ باقی نہ رہے گی۔.... یہ بات صرف قوم شعیب کے سرداروں ہی تک محدود نہیں ہے۔ ہر زمانے میں بگڑے ہوئے لوگوں نے حق اور راستی اور دیانت کی روش میں ایسے ہی خطرات محسوس کیے ہیں ۔ ہر دور کے مفسدین کا یہی خیال رہا ہے کہ تجارت اور سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات جُھوٹ اور بے ایمانی اور بد اخلاقی کے بغیر نہیں چل سکتے ۔ ہر جگہ دعوت حق کے مقابلہ میں جو زبردست عذرات پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی رہا ہے کہ اگر دنیا کی چلتی ہوئی راہوں سے ہٹ کر اس دعوت کی پیروی کی جائے گی تو قوم تباہ ہو جائے گی۔‘‘([85])


([1])            صحيح مسلم ، کتاب الفرائض ،باب ذوی الارہام،رقم الحدیث:3321
([2])            صحیح البخاری، کتاب الوصایا ،باب اذا تصدیق او وقف ،رقم الحدیث : 1
([3])            صحیح البخاری ، باب غزوہ خیبر ،رقم الحدیث:4567
([4])            تبریزی،مشکاۃ المصابیح،1؍123
([5])            بلاذری ،ابوالحسن،فتوح البلدان ،مکتبہ العلمیہ ، قاہرہ ، 1932ء، ص: 453
([6])            طبری ، محمد بن  جریر ، جامع البیان عن تاویل آی القرآن ، موسسہ الرسالہ ، بیروت ، س  ن،3؍234
([7])            ابوعبید قاسم بن سلام ، کتاب الامول ،ص: 451،مسئلہ نمبر: 307
([8])            ایضا، مسئلہ : 450۔ 451
([9])            صحیح البخاری ، کتاب البیوع ،باب تجارۃ بالبر ،رقم الحدیث:3456
([10])          مرغینانی ،الہدایہ ،کتاب الشرکۃ، 1؍124
([11])          سرخسی ،محمد بن احمد ، المبسوط ،دار المعرفہ ، بیروت ، 1993، کتاب الشرکۃ8؍111
([12])          ابن رشد ، محمد بن احمد ، بدایۃ المجتہد،دار الحدیث ، القاہرہ ، 1425ھ ، کتاب الشرکۃ8؍2
([13])          المرغینانی ، الہدایۃ ،کتاب الشرکۃ ،1؍321
([14])          ایضاً
([15])          مرغینانی ، الہدایہ ،کتاب الشرکۃ،2؍135
([16])          مرغینانی ، الہدایہ ،کتاب الشرکۃ،2؍135
([17])          سرخسی ،المبسوط،7؍345
([18])          مرغینانی ،الہدایہ ، کتاب الشرکۃ ،2؍154
([19])          تاسیگ ،پروفیسر ، پرنسپلز آف اکنامکس ،ج1،باب 6
([20])          المزمل 73: 20
([21])          مرغینانی ،الہدایہ ،کتاب المضاربتہ،2؍234
([22])          سیوہاروی ، اسلام کا اقتصادی نظام ،ص: 303۔ 304
([23])          ابن رشد، بدایۃ المجتہد ، کتاب القراض ،2؍567
([24])          ایضاً
([25])          المرغینانی ، الہدایہ ، کتاب المضاربۃ ، 2؍321
([26])          ایضاً
([27])          المرغینانی ، الہدایہ ، کتاب المضاربۃ ،2؍126
([28])          ابن  رشد ، بدایۃ المجتہد ،کتاب القراض ،2؍345
([29])          مالک بن انس ، مؤطا امام مالک ،موسسہ الرسالہ ، بیروت ، 2004ھ ،کتاب المضاربۃ،2؍127
([30])          ابن رشد ، بدایۃالمجتہد ،کتاب القراض ،2؍432
([31])          سرخسی ، المبسوط ،کتاب المضاربۃ ،8؍345
([32])          سیوہاروی ، حفظ الرحمان ،اسلام کااقتصادی نظا م ،1959ء، ص: 304
([33])          الذاریات 51: 56
([34])          الاحقاف 46: 19
([35])          القصص 28: 27
([36])          ایضاً : 28
([37])          الکہف 18: 77
([38])          اليوسف 12: 54
([39])          ایضاً : 55
([40])          القصص 28: 26
([41])          آل عمران 3: 164
([42])          تبریزی ، مشکوٰۃ المصابیح ،1؍234
([43])          ابن ماجہ ،محمد بن عبداللہ ، (مترجم : علامہ وحید الزماں ) سنن ابن ماجہ ، اسلامی اکادمی ، لاہور ، 1990، کتاب فضل العلماء، باب فضل العلم و الحث ،رقم الحدیث:4325
([44])          الزمر 39:9
([45])          ابو عبید ،کتاب الاموال ،ص: 116
([46])          صحیح البخاری ، کتاب العلم،باب فضل العلم ،رقم الحدیث:4321
([47])          النساء 4: 100
([48])          طبری ، محمد بن جریر ، تاریخ الرسل والملوک ، دار التر اث، بیروت طبعہ ثانیہ ، 1387 ھ، ص: 1181
([49])          ایضا
([50])          تاریخ طبری ، تاریخ ، جنگ بویب کےواقعات 13ھ، ص: 2188
([51])          تاریخ طبری ، تاریخ ، جنگ بویب کےواقعات 13ھ،ص: 2031
([52])          یوسف الدین، ڈاکٹر ، اسلام کے معاشی نظریئے ، الائیڈ بک کمپنی ،کراچی ، س ن ،1؍ 220۔ 221
([53])          صحیح البخاری ، ابواب البیوع ، باب کسب الرجل و عمل بیدہ ، رقم الحدیث : 2072
([54])          سیوہاروی ،حفظ الرحمٰن ، اسلام کا اقتصادی نظام ، ص: 250
([55])          حاکم ، محمد بن عبداللہ ، مستد رک الحاکم ، المکتبہ العلمیہ ، بیروت ، س ن ،3؍234
([56])          صحیح البخاری ، کتاب الاجارہ ، باب رعی الغنم علی قراریط،رقم الحدیث  :2262
([57])          صحیح  مسلم ،کتاب الفضائل ، باب، توکل علی اللہ تعالی ، رقم الحدیث :4356
([58])          ابن الاثیر ، علی بن ابی الکرم  ، اسد الغابہ، دار الکتب العلمیہ ، بیروت ، طبعہ اول ،1415ھ ،3؍235
([59])          سنن ابن ماجہ ، کتاب  الاجارہ ، باب الرجل یسقی کل ولو بتمر، رقم الحدیث : 3452
([60])          سید قطب ، العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام ،دار الشروق ، بیروت ،1983ء، ص: 404۔ 405
([61])          ایضا،ص: 404
([62])          النحل 16: 90
([63])          مودودی ، معاشیات  اسلام ، ص : 137۔138
([64])          الروم 30: 38
([65])          مودودی ، معاشیات  اسلام ، ص : 139
([66])          طہ 20: 131
([67])          مودودی ،تفہیم القرآن ،3؍ 139
([68])          النور 24: 38
([69])          القصص 28: 82
([70])          مودودی ،تفہیم القرآن ،3؍ 410۔ 664
([71])          الحج 22: 35
([72])          مودودی ،تفہیم القرآن ،3؍ 226
([73])          الانعام 6: 142
([74])          مودودی، معاشیات اسلام ، ص:150
([75])          المائدہ 5: 87۔ 88
([76])          مودودی، معاشیات اسلام، ص:154
([77])          مودودی ،تفہیم القرآن ،1؍ 498۔ 499
([78])          الفرقان 25: 67۔ 68
([79])          مودودی ،معاشیات اسلام ، ص: 160
([80])          مودودی ،تفہیم القرآن ،3؍234
([81])          مسند احمد، 2؍456
([82])          مودودی ،تفہیم القرآن ،3؍ 463۔ 464
([83])          الاعراف 7: 85
([84])          ایضاً : 90
([85])          مودودی ،تفہیم القرآن ،2؍ 55۔ 57

تبصرے


  1. جھنڈے اور پینٹ
    جھنڈے اور پینٹ مختصر مدت کے تسلسل کے نمونے ہیں جو پچھلے اقدام کے دوبارہ شروع ہونے سے پہلے ایک چھوٹی سی استحکام کو نشان زد کرتے ہیں۔ یہ نمونے عام طور پر تیز پیش قدمی یا بھاری حجم کے ساتھ کم ہوجاتے ہیں ، اور اس اقدام کے وسط نقطہ پر نشان لگاتے ہیں۔

    تیز حرکت: تسلسل کے نمونے پر غور کیا جائے تو ، اس سے پہلے کے رجحان کا ثبوت ہونا چاہئے۔ جھنڈوں اور پینٹوں میں تیز پیشرفت یا بھاری مقدار میں کمی کے ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ حرکتیں عام طور پر بھاری مقدار پر ہوتی ہیں اور اس میں خلاء بھی ہوسکتا ہے۔ یہ اقدام عام طور پر کسی اہم پیشرفت یا زوال کے پہلے مرحلے کی نمائندگی کرتا ہے اور پرچم / قلمی صرف ایک وقفے کی حیثیت رکھتا ہے۔

    فلیگ پول free forex signals: فلیگ پول قطعہ اول مزاحمت یا حمایت وقفے سے جھنڈے / قلمی کے اعلی یا نچلے حصے تک کا فاصلہ ہے۔ تیز پیش قدمی (یا گراوٹ) جو فلیگ پول کی تشکیل کرتی ہے ، کسی ٹرینڈ لائن یا مزاحمت / حمایت کی سطح کو توڑ دیتی ہے۔ اس وقفے سے لے کر جھنڈے / قلمی عروج تک بلند ہونے والی ایک لائن فلیگ پول کی تشکیل کرتی ہے۔

    جھنڈا: forex trading signals ایک جھنڈا ایک چھوٹا مستطیل نمونہ ہے جو پچھلے رجحان کے مقابلہ میں ڈھل جاتا ہے۔ اگر پچھلی اقدام اوپر ہوتا تو پرچم نیچے ڈھل جاتا۔ اگر اقدام نیچے ہوتا تو پرچم ڈھل جاتا۔ کیونکہ جھنڈے عام طور پر دورانیے میں بہت کم ہوتے ہیں کیونکہ حقیقت میں رد عمل کی اونچائی ہوتی ہے اور رد عمل کم ہوتا ہے ، لہذا قیمت کی کارروائی کو صرف دو متوازی رجحان لائنوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    عذاب: ایک قلمی ایک چھوٹا سا سڈول مثلث ہے جو وسیع طور پر شروع ہوتا ہے اور جیسے ہی پیٹرن کی پختگی کے ساتھ بدل جاتا ہے (ایک شنک کی طرح)۔ ڈھال عام طور پر غیر جانبدار ہوتی ہے۔ بعض اوقات مخصوص رد عمل کی اونچائی اور کمیاں نہیں ہوں گی جہاں سے ٹرینڈ لائنوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جا. اور قیمتوں کا عمل صرف بدلتے ہوئے ٹرینڈ لائنوں میں ہی ہونا چاہئے۔

    دورانیہ: جھنڈے اور پینٹ مختصر مدت کے نمونے ہیں جو 1 سے 12 ہفتوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔ ٹائم فریم پر کچھ بحث ہوتی ہے اور کچھ 8 ہفتوں کو قابل اعتماد نمونہ کے لئے حدود کو آگے بڑھاتے ہوئے سمجھتے ہیں۔ مثالی طور پر ، یہ نمونہ 1 سے 4 ہفتوں کے درمیان تشکیل پائیں گے۔ ایک بار جب ایک پرچم 12 ہفتوں سے زیادہ پرانا ہوجاتا ہے ، تو اسے مستطیل کے طور پر درجہ بندی کیا جائے گا۔ 12 ہفتوں سے زیادہ عمر کا قلمی سڈول مثلث میں بدل جائے گا۔ 8 اور 12 ہفتوں کے درمیان نمونوں کی وشوسنییتا قابل بحث ہے۔

    بریک: کسی تیزی والے جھنڈے یا عذاب کے ل resistance https://www.freeforex-signals.com/ ، مزاحمت کے اشارے سے اوپر کا وقفہ جو پچھلی پیشگی دوبارہ شروع ہوا ہے۔ مچھلی پرچم یا تعزیرات کیلئے ، حمایت کے اشارے سے نیچے وقفہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پچھلی زوال دوبارہ شروع ہوا ہے۔

    حجم: پیشگی یا گراوٹ کے دوران حجم بھاری ہونا چاہئے جو فلیگ پول کی تشکیل کرتا ہے۔ بھاری حجم اچانک اور تیز اقدام کے لئے جواز فراہم کرتا ہے جو پرچم پوپ تخلیق کرتا ہے۔ مزاحمت (معاونت) کے وقفے پر حجم میں توسیع قیام کی صداقت اور تسلسل کے امکان کو ساکھ دیتی ہے۔

    اہداف: فلیگ پول کی لمبائی پیشگی یا زوال کا تخمینہ لگانے کے لئے جھنڈے / قلمی مزاحمت کے وقفے یا معاون وقفے پر لگائی جاسکتی ہے۔

    اگرچہ جھنڈے اور پینٹ عام شکلیں ہیں ، لیکن شناخت کے رہنما خطوط کو ہلکے سے نہیں لیا جانا چاہئے۔ یہ اہم ہے کہ جھنڈے اور پینٹ تیزی سے آگے بڑھنے یا زوال پذیر ہوتے ہیں۔ تیز قدموں کے بغیر ، تشکیل کی وشوسنییتا قابل اعتراض ہو جاتی ہے اور تجارت میں اضافے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ابتدائی اقدام ، استحکام اور پیٹرن کی شناخت کی مضبوطی کو بڑھانے کے لئے دوبارہ آغاز پر حجم کی تصدیق کے لئے تلاش کریں۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر