ڈپریشن۔۔علاج و تدابیر
ڈپریشن کیا ہے؟
جب موڈ ،خیالات
اور انرجی میں حد سے زیادہ تبدیلی رونما ہوجائے تو اسے ڈپریشن کا نام دیا جاتا
ہے۔اسے باوپولر کا بھی کہتے ہیں ۔سادہ الفاظ میں جب انسان کے اندر امید اور خوشی
کی جگہ مایوسی اور غم لے لے تو ڈپریشن
جنم لیتا ہے۔ڈپریشن کے زیادہ یا کم کی مقدار بھی اس کے مایوسی اور غم کی کیفیات پر
ہے۔جتنی مایوسی کی مقدار ہوگی اور جتنے لمبے عرصے سے ہوگی اتنا ہی مریض ڈپریسڈ
ہوگا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ
ہے۔لا تحزن ۔۔(غم نہ کر)حزن کا مطلب ہے۔رنج و غم کے ہیں۔عام الحزن نبی کریمﷺ کے غم
کے سال کو بولا جاتا ہے۔یعنی وہ سال جب آپ ﷺ کے چچا ابوطالب اور حضرت خدیجہ کا
انتقال ہوا۔یہ وہ سال ہے جب آپ ﷺ سخت صدمے سے دوچار ہوئے۔
ڈپریشن کی حقیقت
ڈپریشن کا تعلق انسان کے اندر سے ہے نا کہ باہر سے۔۔۔جو لوگ
کسی چیز سے اپنی خوشی کو منسوب کرتے ہیں وہ لوگ سخت غلطی پر ہیں۔جو
بندہ اپنے آپ کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتا وہ
کسی کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتا۔اصل میں ان لوگوں کے اندر ایک خلا ہوتا ہے۔کوئی کمی
ہوتی ہے۔جسے وہ پیسوں سے تو کبھی انسانوں سے پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔تو ڈپریشن
ایک اندرونی کیفیت کا نام ہے۔ریسرچ سے
ثابت ہوا ہے کہ وہ لوگ جو بچپن میں غم اور
محرومی کا شکار رہتے ہیں۔وہ بڑے ہو کر بھی ان اثرات سے نہیں نکل پاتے۔بچپن کے غم
اور محرومیاں ساری عمر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔کہا جاتا ہے کہ اگر انسان کی
محرومی ختم ہو جائے مگر احساس محرومی باقی رہے تو وہ مکمل طور پر ڈویلپ نہیں ہوا۔
کیا ڈپریشن قابل علاج بیماری ہے؟
ایک اندازے کے مطابق 2030 میں ڈپریشن سب سے بڑی بیماری
ہوگی۔ ڈپریشن تمام بیماریوں کی جڑ ہے ۔دل ،دماغ اور فالج وغیرہ کے پیچھے اصل میں
پریشان کن خیالات کام کر رہے ہوتے ہیں۔یہ قابل علاج مرض ہے۔ٹھوڑی سی توجہ اور محنت
سے اس پر قابو پایا جا سکتاہے۔
علاج و تدابیر
ڈپریشن سے نکلنا بہت آسان ہوجاتا ہے تب جب مریض خود اس بات
کا ادراک رکھتا ہو کہ مجھے اس بیماری سے نجات حاصل کرنا ہے۔یہ قابل علاج بیماری
ہے۔جدید میڈیکل سائنس میں ایسی ادویات موجود ہیں جو انسان کے اندر سے غم اور
مایوسی کے خیالات کو قابو پانے کی صلاحیت
رکھتی ہیں۔مگر تجربے اور ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ انسان اگر میڈیسن کے بغیر بھی
ڈپریشن پر قابو پا سکتا ہے۔مراقبہ۔ریکی ،یوگا،عبادت یہ سب چیزیں انسان کو بہت جلد مایوسی اور غم سے
نجات دیتی ہیں۔اگر غور کریں تو ڈپریشن کے پیچھے جو سب سے بری وجہ انسان کی
سوچ اور خیالات ہیں اگر وہ اپنی سوچ میں
مثبت تبدیلی لے آئے تو نارمل ہونے کے امکانات نوے فیصد ہیں۔
عبادت و یکسوئی:
اللہ کی ذات پر ایمان اور یقین انسانوں کو بہت سارے
وہموں،وسوسوں سے نجات دیاتا ہے۔
وہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
جب انسان سمجھتا ہے کہ کوئی ایسی ہستی ہے جو اس کو سنتی ہے نہ صرف سنتی ہے
بلکہ اس کے تمام مسائل کو حل کرنے پر بھی قادر ہے۔تو یہ چیز انسان کے اندر امید پیدا کرتی ہے۔جس سے
انسان ریلیکس ہوتا ہے۔عبادت سے انسان کے اندر یکسوئی پیدا ہوتی
ہے۔وہ شیطانی وسوسوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ایسے بہت سارے تجربات کیئے گئے جو
لوگ مذہب سے لگاو رکھتے ہیں وہ کم ڈپریسڈ
ہوتے ہیں۔ نماز،
عبادت اور مراقبے سے دل کو سکون ملتا ہے اور روحانی طور پر انسان مستحکم ہوتا ہے۔
نماز اور مراقبے سے نیند بہتر ہوتی ہے، ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے اور انسان تندرست
رہتا ہے۔
آٹو سجیشن سے علاج:
آٹو سجیشن طریقہ علاج کو
حالیہ وقتوں میں بہت پزیرائی حاصل ہوئی
ہے۔آٹو سجیشن طریقہ میں خود کلامی کے زریعے علاج کیا جاتا ہے۔ کینیڈا کے ماہرین نے خودکلامی کو صحت کے لئے بہتر
قرار دیدیا۔ کینیڈا کے ماہرین کے مطابق لوگوں میں عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ
خودکلامی کرنا پاگل پن کی علامت ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے خودکلامی کرنا صحت
کے معاون ثابت ہوتا ہے یہ ذہنی دباﺅ کی صورتحال پر
قابو پانے کا بہترین ذریعہ ہے۔میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے۔ایک وقت تھا جب میں
شدید جذباتی صدمے سے دو چار تھی۔مجھے ڈاکٹر نے کہا آپ نے خود کوروزانہ بیس بار یہ
کہنا ہے کہ مجھے اپنے اوپر اعتماد ہے اور اللہ میرے ساتھ ہے۔کچھ عرصہ ایسا کرنے سے
میں نے اپنی جذباتی کیفت پر قابو پالیا۔تنہائی کے شدید احساس کے لیئے میں پڑھتی
ہوں "لا تحزن ان اللہ معنا"یہ وہ جملہ ہے جب نبی کریمﷺ نے حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ کی ہمراہی میں غار ثور میں پناہ لی،گھبراہٹ اور پریشانی میں
حضرت ابوبکر نے دیکھا کہ دشمن غار کے داہنے تک پہنچ چکا ہے تو آپ نے نبی کریمﷺ سے
کہا یا رسول اللہﷺ اب کیا ہوگا۔آپﷺ نے فرمایا
"غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"اس کے علاوہ سورہ والضحیٰ کی ایک
ایک آیت کو سمجھ کر پڑھیں اور یہ گمان کریں کہ اللہ ڈائریکٹ مجھ سے مخاطب ہے۔آپ کو
مایوسی کی دھند چھٹتی دکھائی دے گی۔اور ڈپریشن
سے نجات حاصل ہوگی۔
انسان کی خود سے بات چیت جتنی مثبت ہوگی اتنے ہی اس کی زندگی پر
مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔اس تکنیک کے زریعےانسان اپنے اندر پائی جانے والی بشری
کمزوریوں کا علاج بڑی آسانی سے کر سکتا ہے۔فرض کریں آپ کو بات بات پہ غصہ آتا
ہے۔آپ خود کو بار بار یہ پیغام دے کہ میں پرسکون ہوں مجھے غصہ نہیں آتا۔شروع شروع
میں آپ کا اندر اسے قبول نہیں کرے گا،مگر آہستہ آہستہ آپ کی آواز آپ کے لاشعور تک
پہنچ جائے گی اور آپ اسے ماننا شروع کر دیں گے۔اس طریقے سے دراصل ہم اپنے دماغ کی پروگرامنگ کرتے ہیں ۔جس سے
ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلا جا سکتا ہے۔
خوراک و حالات:
3 برس قبل 12 ہزار افراد پر کیے گئے
مطالعے سے یہ بات سامنے آئی جن افراد میں وٹامن ڈی کی کمی ہوگی ان میں ڈپریشن
کا خطرہ اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے
بعد وٹامن ڈی کا ٹیسٹ کرائیں جس سے وٹامن ڈی کی کمی معلوم ہوجائے گی۔ مچھلی ،
مشروم ، دلیے ، ڈیری مصنوعات اور انڈوں میں بھرپور وٹامن ڈی ہوتا ہے اور ضروری ہے
کہ روزانہ 10 سے 20 منٹ دھوپ میں گزاریں کیونکہ سورج کی کرنوں سے جسم کو وٹامن ڈی
تیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔اس کے علاوہ دماغ کو بوسٹ اپ کرنے والی غذائیں استعمال
کریں۔بادام،شہد اور اخروٹ دماغ کے لیئے بہت اچھے ہیں۔سال میں دو تین ماہ تک ان کا
استعمال آپ کو دماغی طور پر صحت مند رکھتا ہے۔
ورزش اور چہل قدمی:
اگر آپ کی عمر 20 سے 40 سال کے
درمیان ہے تو ہفتے میں 3 مرتبہ ورزش کرکے پسینہ بہائیں اور تیز قدموں سے چہل
قدمی کریں ۔ جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایسن ( جاما) کے مطابق ورزش سے
ڈپریشن اور ذہنی تناؤ میں 16 فیصد تک کمی واقع ہوتی ہے۔ ڈاکٹرمینی کے مطابق ورزش نہ صرف آپ کو پرسکون رکھتی ہے بلکہ آپ کے موٹاپے
کو بھی کنٹرول کرتی ہے اور اگر اس کے ساتھ یوگا اور مراقبے کو بھی شامل کر لیا
جائے تو اس کے بہت ہی مثبت اور دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں جب کہ اناج کا استعمال،
چینی اور کاربوہائیڈریٹ سے پرہیز دباؤ کو دور رکھنے میں مدد گار ہوتے ہیں ۔
خو د کو منظم کرنا:
ڈاکٹر صداقت علی کے
بقول اگر کھانا بھی کھائیں تو پلان کریں ۔کھانا کھانے سے دس منٹ پہلے کہیں کہ میں
دس منٹ بعد کھانا کھاوں گا۔فورا کھانا کھانے نا بیٹھ جائے۔یہ حیوانی جبلت ہے۔فرض
کریں کہ آپ نے عہد کیا کہ میں نے آدھا گھنٹہ واک کرنی ہے۔اور آپ نے ایک گھنٹہ واک
کر لی ۔آپ کے خیال میں یہ ٹھیک ہوگا۔مگر
درحقیقت آپ حیوانی جبلت استعمال کر رہے ہیں۔خود کو منظم کریں۔اور شیڈول کا پابند
بنائیں۔
اور دوسری اہم چیز
جسے عام طور پر نظر انداز کردیاجاتا ہے وہ ہے گھر کی ترتیب کیونکہ مصروف ترین
زندگی میں اگر اشیا اپنی جگہ پر نہ ملیں تو یہ بھی ذہنی دباؤ کو بڑھا دیتی ہے۔
مراقبہ اور میڈیٹیشن:
میڈیٹیشن
اور مراقبہ کے زریعے بھی ڈپریشن کو بڑی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔انسان کو جب
سوچنے کی عادت پڑ جائے تو یہ بڑی مشکل سے کنٹرول ہوتی ہے۔دماغ اس بات سے قطع نظر
کہ سوچ مثبت ہے یا منفی ۔۔سوچتا چلا جاتا ہے۔اسکی مثال ایسے ہے جیسے فل سپیڈ میں
گاڑی آرہی ہے۔اب اگر اسے روکیں گے نہیں تو ایکسڈنٹ کا امکان ہے۔سوچیں بھی گاڑی کی طرح ہوتی ہیں جنہیں کنٹرول کرنا
ضروری ہے۔میڈیٹیشن سے سوچ کی رفتار اور بہاو کو کم کیا جا سکتا ہے۔دماغ کے سوچنے
کی رفتار کو ادھر ادھر لگا کر کنٹرول کیا سکتا ہے۔مراقبہ صدیوں سے آزمودہ ہے۔جدید
سائنس بھی اس طریقہ علاج کی معترف ہے۔
ڈاکٹر غزالہ
موسی پاکستان کی مشہور سائیکالوجسٹ ہے۔انہوں نے خانہ کعبہ کے مراقبے کو اکسیر قرار
دیا ہے۔ان کا کہنا ہے میں نے اس تکنیک سے ہزاروں لوگوں کو ڈپریشن سے نجات دلوائی
ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے۔پانچ گہرے سانس لیں۔آنکھیں بند کری اور سوچیں کہ خانہ کعبہ
میرے سامنے ہے۔خانہ کعبہ سے نیلی روشنی
نکل رہی ہے جودماغ سے ہوکر آپ کے دل میں
جا رہی ہے۔دل سے اللہ اللہ کی آوازیں آرہی ہیں اور یہ آوازیں پوری باڈی میں گردش کر رہی ہیں۔آخر میں دس بار
پڑھیں"مجھے اللہ کے نور سے مکمل شفا مل رہی ہے۔"دس منٹ کے مراقبے سے آپ
خود کو پرسکون محسوس کریں گے۔ڈپریشن کے لیئے صبح و شام دس دس منٹ کا مراقبہ کافی
ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں