ہمیں مسجد کے مینار کا کرنا کیا ہے!!!!

رات کے پچھلے پہر میری آنکھ ہمیشہ ی طرح مسجد سے بلند ہوتی ہوئی  اسی آواز سے کھلی تھی۔
جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب  فجر کی آذان سے کچھ پہلے وہ ہمیشہ کی طرح لاوڈ اسپیکر پر نعت پڑھ رہا تھا۔
میں لج پالاں دے لڑ لگیاں     میرے توں غم پرے رہندے؎
میری آساں امیداں دے    سدا بوٹے ہرے رہیندے
میں اپنے بستر پہ لیٹی ہمیشہ کی طرح  وہ آواز سنتی رہی۔جو رات کے سناٹے اور میرے کمرے کی تاریکی کے ساتھ ساتھ میری نیند کو بھی توڑ رہی تھی۔آواز بھاری خوبصورت اور نعت کی ادائیگی ہمیشہ کی طرح  پر سوز اور پر اثر تھی۔اس بار وہ کئی ہفتوں بعد وہ نعت پڑھ رہا تھا۔اس کے باوجود میری آنکھ جیسے میکانکی انداز  میں،اس آواز کو سنتے ہی کھل گئی تھی۔اور ہمیشہ ہی کھل جاتی تھی۔پھر میں بہت دیر تک بستر پہ لیٹی  بقیہ حمد یا نعت سنتی رہی۔اور یہ کام میں نو عمری سے کر رہی تھی۔اس علاقے میں مختلف فرقوں کی دو تین مساجد ہیں۔پتہ نہیں وہ کس فرقے کی مسجد سے بولتا تھا۔لیکن میں پھر بھی  دن یا رات کے کسی حصے  میں لاوڈ اسپکر پر اس کی گونجنے والی آواز شناخت کر سکتی ہوں۔وہ آدمی یقینا عمر کے آخری حصے میں ہوگا۔کیونکہ اب اس کی آواز بہت زیادہ کانپتی ہے۔اور سانس بار بار ٹوٹتا ہے۔یہاں تک کہ وہ نعت بھی مختصر پڑھتا ہے۔شاید زیادہ دیر تک کھڑے رہنا یا بیٹھے رہنا مشکل ہے۔اتنے سالوں میں اس کی آواز  میں کمزوری  اور کپکپاہٹ آگئی ہے۔اگر کچھ کم نہیں ہوا تو تاثیر ہے۔اور سوز ہے۔اور اس کی نیت کا اخلاص  کہ جس کے ساتھ وہ رات کے پچھلے پہر مسجد تک آتا ہے۔میں نہیں جانتی کہ وہ کوئی مولوی ہے یا عام دیندار؟ جو مسجد کو اس پہر آباد رکھنے کی کوشش کررہاہے۔جس طرح اس نے اپنے باپ دادا کو آباد رکھتے دیکھا ہوگا۔میں لاوڈ اسپیکر کے بے جا استعمال کو ناپسند کرنے کے باوجود رات کے اس پہرگونجنے والی آواز کو ناپسند نہیں کر سکی۔وہ شائد پاکستان کی اس آخری نسل کا نمائندہ ہے۔جو رات کے پچھلے پہر بھی مسجد میں جاتے ہیں۔
میں نے اپنےبچپن  سے اس علاقے کی مساجد میں تہجد اور فجر کی اذان کے درمیانی وقت لوگوں اور بچوں کو نعتیں پڑھتا سنا ہے۔یہ ایک معمول تھا کوئی اس پر غور نہیں کرتا تھا۔بیس سال میں بہت کچھ بدل گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تہجد اور فجر کا درمیانی وقت بھی "خاموش"ہوتا گیا۔مسجد میں نعت  پڑھنے کے لیئے جانے والے آہستہ آہستہ اس دنیا سے جانے لگے یا پھر ان کی ترجیحات بدل گئیں۔
            اس آدمی کی آواز شاید وہ آخری آواز ہے جو میری اور میری نسل  کے لوگ کسی مسجد میں اس وقت  سن رہے ہوں گے۔اور اس آخری نسل نے میں سے ہوں،جنہوں نے مسجدوں کو راتوں کو بھی آباد "سنا"ہے۔جب یہ آواز بھی خاموش ہو جائے گی۔تو اس کے بعد اس کی جگہ لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔کیونکہ ہم وہ نسل ہیں۔جسے نیند بہت عزیز ہے۔جنہیں اپنے شوہروں ،بیٹوں  اور بھائیوں کا آرام مسجد میں نمازیوں کی منتظر جماعت سے زیادہ پیارا ہے۔۔اور ہم انھیں بے آرام کر کے مسجد نہیں بھیج سکتے۔
میں فجر کی نماز پرھتے ہوئے ہر روز اپنی مسجد سے جماعت کے لیئے نمازیوں کو بلانے کے اعلان سنتی ہوں۔بہت آہستہ آہستہ ہماری مسجدیں ویران ہو رہی ہیں۔ہمارے پاس مسجدوں  کو دینے کے لیئے  نمازی تک نہیں رہے۔کیونکہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ہم ساری رات انٹرنیٹ پر سوشل ویب ساءٹس پر گزار سکتے ہیں۔ہم مساجد کی اہمیت اور صحیح  استعمال پر آرٹیکل لکھ سکتے ہیں۔مولویوں اور مساجد پر تنقیدی مقالے بھی لکھ سکتے ہیں لیکن ہم ان مساجد کو اپنی زندگی اس طرح حصہ بنانے پر تیار نہیں۔جس طرح فیس بک ،یوٹیوب،ٹی وی،موبائل اور انٹرنیٹ ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔
اور اس کے بعد ہم مسجد اور مولوی پر تنقید بھی کرتے ہیں۔مولوی کی کم علمی اور کم فہمی کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔اس کی تنگ نظری اور جہالت بھی ہمیں ناگوار گزرتی ہے۔لیکن سچ اور حقیقت  یہ ہے۔کہ یہ جو مسجد کا دروازہ پانچ بار وقت  پر کھل جاتا ہے۔یہ مولوی اس اس کی اولاد کی وجہ سے ہے۔اور وہ وہاں نہ رہ رہے ہوتے تو ہم پڑھے لکھے ،ذہن،ناقابل لوگ مسجدوں پر تالے ڈال دیتے۔ہماری زندگیاں  distinctions ،سکالر شپس،پروفیشنل ایکسیلینس اورachievements کے ستونوں پر کھڑی ہیں۔مسجدوں کے میناروں کا  ہم نے کیا کرنا ہے؟
(تحریر:عمیرا احمد)



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر