نبی کریم ﷺ کی تعظیم کرنے والامبارک درخت
نبی آخرالزماں
وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنے فکروعمل سے
ایسا انمٹ انقلاب برپا کیا کہ رہتی دنیاتک
اس کی نظیر نہیں ملتی،آپ ﷺ کی ذات وہ ہستی جس
کا اعتراف غیر مسلموں نے بھی کیا،اس سے بھی آگے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ
عقل دنگ رہ جاتی ہے جانوروں اور درختوں تک
نے مقام نبوت کو پہچانا ،ایک ایسا ہی درخت اردن کی سرزمین پر موجود ہے۔جس کےسائے
میں نبیء رحمت ﷺ نے چند گھڑی آرام کیا اور
اس کے بخت جاگ اٹھے،چودہ سا سال کی مدت گزرنے کے بعد بھی وہ واحد درخت ہے جو
سرسبزوشاداب ہے۔انٹرنیٹ پر اس صحابی درخت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ موجودہ جگرافیائی
حدود کے مطابق یہ درخت مشرقی اردن میں،صفوی کے مقام پر وادی سر ہان کے قریب واقع
ہے۔ کتب سیرت اور کتب احادیث میں بھی اس
مبارک درخت کا تذکرہ موجود ہے۔جامع ترمذی
کے باب "کتاب المناقب"میں اس کی درج ذیل تفصیل بیان کی گی ہے۔
حضرت ابوموسی اشعریؓ
سے روایت ہے
کہ حضوراکرمﷺ
کی عمر مبارک بارہ برس تھی جب جناب ابوطالب نے روسائے قریش کے ہمراہ تجارت کی غرض
سے سفر شام کا عزم کیا۔حضورﷺ نے ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا۔چنانچہ آپ ﷺ بھی
ساتھ روانہ ہو گئے۔مورخین کے نزدیک یہ سفر ۵۸۶ ء میں وقوع پذیر ہوا۔سجب یہ قافلہ
بیت المقدس کے شمال میں نزد دمشق میں واقع مقام بصری پہنچا۔تو ایک گھنے درخت کے
قریب جناب ابو طالب سواری سے نیچے اترے۔باقی اہل قافلہ نے بھی آرام کی غرض سے سواریوں
کو کھلا چھوڑ دیا۔اس زمانے میں یہ علاقہ رومی سلطنت کے زیر انتظام تھا۔وہاں ایک
گرجا گھر کے قریب ایک راہب رہتا تھا۔
راہب کا لقب
بحیرا تھا۔اناجیل اربعہ کا بہت بڑا عالم تھا۔اس کے پاس تحصیل علم کے لیے لوگ
آتے،کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان فارسی نے بھی انہی سے علم حاصل کیا تھا۔مدارج
النبوتہ جلد دائم میں صاحب مصنف نے لکھا ہے کہ بحیر ا راہب کا اس گرجا میں مقیم
ہونے کی وجہ بھی یہی تھی کہ نبی آخرالزماں ﷺ کا گزر اس علاقے سے ہوگا۔چنانچہ وہ
حجاز سے آنے والے ہر قافلے کو بغور دیکھتا رہتا مگر اسے وہ ہستی نظر نہ آتی جس کے
لیے وہ دیدہ دل فرش راہ کیے ہوئے تھا۔جب اہل قافلہ نے پڑاو ڈالا تو وہ اہل مکہ کے
قریب پہنچا اور حضور ﷺ کا ہاتھ تھام کر بولا"یہ سرکار دوعالم ﷺ ہیں اللہ
انھیں رب العالمین بنا کر مبعوث فرمائے گا(ترمذی)
جب بحیراراہب
سے پوچھا گیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا تو وہ بولا کہ جب سب لوگ گھاٹی سے اتر رہے
تھے تو میں نے دیکھا تمام پتھر اور درخت آپ ﷺ کو سجدہ کر رہے ہیں۔یہ خصوصیت صرف
انبیائے اکرام کو حاصل ہوتی ہے۔بحیراء پھر گرجے میں چلا گیا تاکہ کھانے وغیرہ کا
انتظام کرسکے۔جب وہ کھانا لے کر پہنچا تو آپ ﷺ بکریاں چرانے تشریف لے جا چکے تھے۔اس نے آپ کے بارے میں پوچھا
چنانچہ آپ کو بلوایا گیا۔آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو ایک بدلی آپ کے سر مبارک پر سایہ
کیے ہوئے تھی۔جب گرجا کے قریب پہنچے تو تمام لوگ ایک درخت کے سائے میں بیٹھے تھے۔آپ
ﷺ نے ازراہ ادب پیچھے بیٹھنا گوارا کیا۔جہاں دھوپ تھی۔فورا درخت نھ جھک کر آپ ﷺ پر
سایہ کردیا۔البدایہ والنہایہ اور سیرت ابن ہشام کے مطابق درخت کی شاخیں بت تابانہ
آپ ﷺ کے سر اقدس پر جھک گئیں۔یہ دیکھ کر راہب بے ساختہ پکار اٹھا "دیکھو درخت کا سایہ ان کی طرف بڑھ رہا ہے"۔امام
بیقی نے اس کو قدرے اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔
پھر بحیرا راہب
نے آپ ﷺ سے کچھ سولات پوچھے ۔
کیا آپ ﷺ کی
نیند پوری ہوتی ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا
میری آنکھیں سوتی مگر دل جاگتا ہے۔پھر آپ کے احول اور دیگر امور کے بارے میں
پوچھا۔حضورﷺ نے اسے آگاہ فرمایا۔تمام جوابات بحیراء کی معلومات کے مطابق تھے۔پھر
اس نے آپ ﷺ کی پشت مبارک کی طرف دیکھا تو شانوں کے درمیان سیب سے مشابہ مہر نبوت
تھی۔تمام معلومات کی تصدیق کرنے کے بعد بحیراء نے ابوطالب کے پاس آکر پوچھا ،آپ کا
اس بچے سے کیا رشتہ ہے؟نھوں نے جواب دیا میرا بیٹا ہے۔
بحیراء نے کہا
"یہ آپ کا بیٹا نہیں ہو سکتا۔میرے علم کے مطابق بچے کے والد کو زندہ نہیں
ہونا چاہیے۔ابوطالب نے کہا آپ کی بات بالکل درست ہے۔یہ میرا بھتیجا ہے۔اب بحیراء
نے فرط جزبات سے مغلوب ہو کر کہا آپ ﷺ اس بچے کو روم لے کر مت جاو،رومی جب علامات
دیکھیں تو آپ کی جان کے در پے ہو جائیں
گے۔ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ دور سے ایک غبار اڑتا ہوا دکھائی دیا۔غور سے دیکھا
تو روم کی جانب سے سات آدمی آتے ہوئے دکھائی دیے۔بحیرا نے ان کا استقبال کیا اور
آنے کا سبب پوچھا۔انھوں نے جواب دیا "ہم اس
لیے آئے کہ اس مہینے میں نبی آخرالزماں اس مہینے سفر پر نکلنے والے ہیں۔ہمارے
آدمی ہر راستے پر پھیل گئے ہیں۔ہمیں خبر ملی کہ وہ اس راستے سے آرہے ہیں جبھی ہم
ادھر آئے۔"
بحیرا نے ان سے
کہا :"بتاو کہ اللہ تعالیٰ جس معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہو کیا
تم اسے روک سکتے ہو؟انھوں نے انکار کیا تو اس نے انھیں سمجھایا۔کہ تمھیں چاہیے کہ
نبی کے ہاتھ پر بیعت کر لو،اس پر وہ واپس چلے گئےجناب ابوطالب آپ ﷺ کو لے کر واپس
آگے یا بھجوادیا۔ قافلہ آگے روانہ ہوگیا مگر یہ مبارک
درخت آج بھی اس جگہ موجود ہے۔حکومت اردن نے حجاز سے شام جانے والی اس شاہراہ کو
بھی تلاش کرلیا ہے۔ا کی اہم نشانی یہ کہ اس جگی اگا ہوا یہ واحد درخت ہے۔
سب سے اہم نکتہ
یہ نبی کریم ﷺ کی محبت وہ جذبہ ہے درخت کو
بھی زندو جاوید رکھ سکتا
ہے تو وہ دل جو حب رسول ﷺ سے سرشار ہوں وہ کیسے محروم ہو
سکتے ہیں؟
(ماخوذ :اردو ڈائجسٹ میں مذکور مضمون
نبی کریم کی تعظیم سء سرشار درخت)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں