قرآن مجید میں پرندوں کی متعلق خوبصورت تحریر .

قرآن مجید میں پرندوں کی متعلق خوبصورت تحریر .
.
اللہ تعالیٰ پرندوں کی پرواز کے متعلق درج ذیل آیت کریمہ میں ارشاد فرماتاہے:.

(اَلَمْ یَرَوْااِلیَ الطَّیْرِ مُسَخَّرٰ تٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِ ط مَا یُمْسِکُ ہُنَّ اِلَّا اللّٰہُ طاِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاَ یٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ)
.
” کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمانی فضامیں کیسے مسخر ہیں ،انہیں اللہ ہی تھامے ہوئے ہے، جولوگ ایمان لاتے ہیں انکے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ”
.
(1)
کوئی چیز فضا میں ٹھہر نہیں سکتی، وہ ہوا کی لطافت اورزمین کی کشش ثقل کی وجہ سے زمین پر آگرتی ہے۔مگر اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے پروں اور ان کی دم کی ساخت میں کچھ ایسا توازن قائم کیاہے کہ نہ زمین کی کشش ثقل انہیں اپنی طرف کھینچتی ہے اور نہ ہوا کی لطافت انہیں نیچے گراتی ہے اور فضا میں بے تکلف تیرتے پھرتے ہیں۔
پھر یہ فن انہیں سیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ سب باتیں ان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہیں۔

.
پرندے جب اڑنے لگتے ہیں تو اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے اور پھیلاتے ہیں۔ پھر جب فضا میں پہنچ جاتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ ہر وقت پروں کو پھیلائے رکھیں۔ وہ انہیں بند بھی کر لیتے ہیں لیکن پھر بھی گرتے نہیں۔ انسان نے پرندوں کی اڑان اور ان کی ساخت میں غوروفکر کرکے ہوائی جہازتو ایجاد کر لیا۔ مگر جس ہستی نے ایسے طبعی قوانین بنادیے ہیں جن کی بنا پر پرندے یا ہوائی جہاز فضا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ اس ہستی کی معرفت حاصل کرنے کے لیے انسان نے کوئی کوشش نہ کی۔
.
(2)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

(اَوَلَمْ یَرَوْااِلیَ الطَّیْرفَوْقَہُمْ صٰفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ ط مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ ط اِنَّہُ بِکُلِّ شَیْئٍ م بَصِیْر)
.
” کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھا کہ وہ کیسے اپنے پر کھولتے اور بند کر لیتے ہیں۔ رحمن کے سوا کوئی نہیں ہے جو انہیں تھامے رکھے،وہ یقینا ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
.
(3)
صٰفٰت، صفّ یعنی صف بنانا ،سیدھی قطار بنانا اور صف بمعنی ہر شے کی سیدھی قطاراور صف الطیر بمعنی پرندوں نے اپنی اڑان میں اپنے پروں کو قطارکی طرح سید ھا کر دیا۔
نیز اس کا معنی پرندوں کا اپنے پروں کو ہوا میں پھیلادینا اور بالکل بے حرکت بنادینا بھی ہے جبکہ سب ایک ہی حالت میں ہوں۔مطلب یہ ہے کہ پرندے ہوا میں اڑتے ہوئے کبھی اپنے پر پھیلا بھی دیتے ہیں اور کبھی سکیڑ بھی لیتے ہیں

(4)
جدید سائنسی اعدادوشمار بتاتےہیںکہ کچھ خاص قسم کے پرندوں کی اڑان ان کے اندر موجود کسی نظام کے تحت ہوتی ہے اور اسی فطری نظام کے تحت پرندے انتہائی لمبے سفر انتہائی کامیابی سے طے کرتے ہیں اور پھرواپس اپنی روانگی کی جگہ پرکامیابی سے پہنچ بھی جاتے ہیں

پروفیسر ہمبرگر نے اپنی کتاب ‘پاور ایند فریگیلٹی ”میں گوشت والے پرندوں کی مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ پرندے بحرالکاہل کے پاس رہتے ہیں اور 24000کلومیٹر سے زیادہ کا سفر اختیار کرتے ہیں اور اڑتے ہوئے یہ 8 کے ہندسے کی شکل میں اجتماعی سفر کرتے ہیں

اور یہ سفر چھ ماہ سے زاید عرصے میں طے کرتے ہیں اور پھر زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ کی تاخیر سے یہ واپس اپنی روانگی کی جگہ پر بھی پہنچ جاتے ہیں
اس لمبے سفر کے لیے انتہائی پیچیدہ ہدایات یقینا پرندے کے اعصابی خلیوں میں موجو د ہوتی ہیں
تو سوال پیدا ہوتا ہےکہ پرندے کے اندر یہ حساس نظام پیداکرنے والا کون ہے؟
قرآن فرماتاہے کہ وہ رب العالمین ہے

(5)
وسطی ایشیا کے ممالک سائبیریا اور روس سے بھی نایاب آبی پرندے ہر سال موسم سرما میں پاکستان کی پسماندہ ترین تحصیل نورپور تھل کی یونین کونسل رنگپور کا رخ کرتے ہیں اور یہاں چشمہ جہلم لنک کینال سے رسنے والے پانی سے بننے والے جوہڑوں میں ڈیرے جما لیتے ہیں۔
ان نایاب پرندوں میں مرغابیاں ، گڈول،میلڈ ،سرخاب، کوک ، بٹیر ، تلور، باز ،باری، چرخ ، چکی ،نیل ، سر، بھٹڑ اور دوسرے ان گنت نایاب پرندے شامل ہیں۔یہ نایاب پرندے موسم گرما کے شروع ہوتے ہی ماہ اپریل میں واپسی کا سفرشروع کر دیتے ہیں

(6)
پرندے ترکِ وطن کے لیے وقت کا انتخاب
کس طرح کرتے ہیں
یہ موضوع ایک عرصےسے غوروفکر کرنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے کہ پرندوں نے ترک وطن کا آغاز کیسے کیا تھا۔ اور یہ فیصلہ انہوں نے کیوں کر کیا ہو گا۔کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایسا موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوا۔
.
جبکہ دوسروں کے خیال میں یہ تلاش خوراک کی وجہ سے ہوا۔
مگر سب سے زیادہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پرندے جن کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ ان کے جسموں میں کوئی ٹیکنیکل مشینری فٹ نہیں ہوتی ،وہ خطرات کی زد میں رہتے ہیں مگر صرف جسموں کو لے کر اتنے طویل سفر طے کر لیتے ہیں۔
ترک وطن کے لیے کچھ مہارت اور تجربےکی ضرورت ہوتی ہےمثلاً سمت کا تعین کر لیا جائے ،خوراک کا ذخیرہ کرلیا جائے اور طویل مدت کے لیے اڑ کر جانے کی صلاحیت ہو
جس جانور میں یہ صفات نہ ہوں وہ نقل مکانی نہیں کرے گا

اس مسٔلہ پر توجہ دینے کے لیے ایک تجربہ کیا گیا جو یہ تھا :
سبزہ زاروں میں رہنے والی بلبلوں کو تجربے کے لیے ایک ایسی لیبارٹری میں لایا گیا تھاجہاں کا درجہ حرارت اور روشنی مختلف تھی۔ اندر کی فضا کو باہر کی فضا سے مختلف رکھا گیا تھا۔مثال کے طور پر اگر تجربہ گا ہ سےباہر موسم سرما تھا تو اندر بہار کی آب وہوا پید اکر لی گئی تھی۔ اور پرندوں نے بھی اپنے جسموںکو اندر کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا تھا۔ پرندوں نے چربی کو ذخیرہ کر لیا تھا تاکہ بعدمیںخوراک کے طو ر پر استعمال کی جاسکےجیساکہ وہ اس وقت کرتے ہیں جب ترک ِوطن کا زمانہ آتا ہے۔ بے شک پرندوں نے مصنوعی آب وہوا کے مطابق خود کو ڈھال لیا تھا اور تیا ر تھے کہ جیسے ترکِ وطن کرنے والے ہوں مگر نقل مکانی کا وقت آنے سے پہلے وہ سفر پر روانہ نہ ہوئے تھے۔ انہوں نے باہر کے موسم کا جائزہ لے لیا تھا اور قبل ازوقت نقل مکانی نہیں کی تھی۔اس سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ پرندے ترکِ وطن کے لیے موسمی حالات پر انحصا ر نہیں کرتے۔
تو پھرپرندے ترکِ وطن کے لیے وقت کا تعین کیسے کرتے ہیں؟
Top of Form

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر