خاندانی منصوبہ بندی۔۔۔۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
لغوی اور اصطلاحی مفہوم:
خاندان کے لغوی معنی ہیں،گھرانہ،قبیلہ،کنبہ۰(1)
خاندان کے معنی ہیں۔خاندان سے متعلق جو چیز
بزرگوں سے چلی آرہی ہو(2)
خاندان سے مراد افراد کا ایسا منظم گروہ ہے،جسکا
آغاز تعلق ازواج میں منسلک دو افراد (یعنی میاں بیوی)سے ہوتا ہے۔اور پھر ان کی نسل
بڑھنے سے انسانی رشتوں اور تعلقات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔اور یوں خاندانی کی
حدود میں وسعت آجاتی ہے۔دنیا میں پہلے خاندان کا آغازابوالبشر حضرت آدم علیہ
السلام اور ان کے جوڑے حضرت حوا سے ہوا۔جو
اصل میں انسانی معاشرے کا سنگ بنیاد ہے۔منصوبہ بندی کے معنی ہیں تجویز کرنا،تدبیر
کرنا،خاکہ یا نقشہ بنانا(3)
اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ تحدید خاندان(4)
اصطلاحی مفہوم:
اصطلاح میں خاندانی منصوبہ بندی سے مراد
کنبہ کی پرورش کا وہ طریقہ جس میں بچوں کی تعداد
پر نظر رکھی جائے تاکہ ملکی آبادی بے تکان نہ بڑھے،خاندانی منصوبہ بندی ضبط ولادت
کا دوسرا نام نہیں بلکہ اسمیں ہر وہ عمل اور کوششں شامل ہے جو زوجین کو خاندان کی
حدود میں سکون اور تشفیات کا سامان کرے۔(5)
ماں کی صحت اور خاندان میں توازن برقرار رکھنے کے
لیے بچوں کی پیدائش میں وقفہ کا انتظام(6)
مانع حمل تدابیر کے زریعے بچوں کی پیدائش کو
روکنا(7)
ادویات اور میکانکی طریقے سے رضاکارانہ طور پر
افزائش نسل روکنا(8)
انگریزی انسائیکلوپیڈیا میں تعریف اس طرح کی گی ہے
Birth control, the voluntary limiting of human reproduction using such
means as contraception, sexual abstinence, surgical sterilization and induced
abortion. (9)
خاندانی منصوبہ بندی کے لئے انگریزی زبان میں
مندرجہ ذیل الفاظ استعمال ہوتے ہیں
Birth Control
Contraception
Family Planning
Planted
Parent Hood
جبکہ اردو میں اس کے مندرجہ ذیل الفاظ استعمال
ہوتے ہیں
تحدید نسل
اختیار نسل
ضبط ولادت
انضباط ولادت
اگر خاندانی تحریک کا بغور مطالعہ کیا جائے تو
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کی دو قسمیں ہیں۔
۱)ناگزیر ضرورت (۲)
تلذذ
ناگزیر ضرورت:
اس سے مراد یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کسی خاص
ضرورت کے تحت ہو۔
مفتی محمد شفیع اس قسم پر بحث کرتے ہوئے لکھتے
ہیں
"مانع حمل کی صورتین خواہ وہ عزل وغیرہ کی
صورت میں ہوں یا کسی دوا اور انجکشن یا خارجی تدابیر کے زریعے شخصی حالات کو دیکھ
خا ص خاص ضرورتوں کےتحت وقتی طور بقدر ضرورت انکا استعمال کر لینے کی گنجائش ہے
اور وہ بھی اسوقت جبکہ اس عمل کا مقصد کوئی ناجائز نہ ہو"(10)
۲)تلذذ:
یعنی خاندان کی منصوبہ بندی کسی ضرورت یا مجبوری
کے تحت نہ کرنا بلکہ صرف لطف اندوز ہونے کے لیے منع حمل کے زرائع کو بروے کار لانا
یا یہ کہہ لیں کہ کسی اقتصادی کمزوری ،کثرت آبادی کے خوف سے لوگوں میں اس کی تشہیر
کرنا بھی دوسری قسم میں داخل ہے۔
"اسکو قومی اور اجتماعی شکل دینا شریعت و
سنت کا مقابلہ ہے۔اسکو قوم و ملت کے لیے نہ صرف جائز بلکہ ذریعہ فلاح و ترقی
قراردینا جس کو اللہ تعالی اور اسکے رسولﷺ نے ملک و قوم کےلیے مضر یا کم ازکم ناپسندیدہ بتلایا ہو
ہرگز جائز نہیں خصوصا جبکہ اسکی بنیاد فقروافلاس کے خوف یا اقتصادی بدحالی کے خطرہ
پر رکھی گی ہو"(11)
خاندانی منصوبہ بندی کا پس منظر
خاندانی منصوبہ بندی کا اصل مقصد نسل کی افزائش کو روکنا ہے۔قدیم زمانے میں
بھی اس کا وجود تھا۔لیکن اس زمانے میں یہ تحریک زیادہ منظم نہ تھی۔قدیم دور میں
افزائش نسل کو روکنے کے لیے عزل،اسقاط حمل ،قتل اولاد اور ضبط نفس کے طریقے اختیار
کیے جاتے تھے۔اس دور میں مقاربت تو کی جاتی ہے لیکن دواوں یا آلات کے زریعے سے،اسقاط
حمل کا طریقہ بھی کثرت سے یورپ اور امریکہ میں رائج ہے،لیکن برتھ کنٹرول کی تحریک صرف
مانع حمل تدابیر پر زور دیتی ہے۔
تحریک کی ابتداء:
یورپ میں اس تحریک کی ابتداء اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخرمیں ہوئی،اسکا پہلا
محرک غالبا انگلستان کا مشہور ماہر معاشیات Malthus تھا۔اس کے عہد میں انگریزی قوم کی روزافزوں خوشحالی
کے سبب سے انگلستان کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھنی شروع ہوئی اس نے حساب لگایا کہ
اگر نسل اپنی فطری رفتار کے ساتھ بڑھتی رہے تو زمین اس کے لیے تنگ ہوجاے گی،وسائل معاش کفایت نہ کرسکیں گے،لہذا نسل انسانی کی
خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی افزائش اس سے آگے نہ بڑھنے پائے،اس غرض کےلیے اس
نے برہم چرچ کے قدیم طریقے رائج کرنے کا
مشورہ دیا،یعنی بڑی عمر میں شادی کی جاے اور ازدواجی زندگی میں ضبط سے کام لیا
جاے۔یہ خیالات اس نے پہلی مرتبہ اپنے ایک رسالہ "آبادی اور معاشرے کی آیندہ
ترقی پر اس کے اثرات"میں پیش کیے تھے۔
اس کے بعد فرانس پلاس Frances place نے
اخلاقی زرائع چھوڑ کر دواوں اور آلات کے زریعے سے منع حمل کی تجویز پیش کی۔اس رائے
کی تائید میں ۱۸۳۳ میں ایک مشہور ڈاکٹر چارلس نولٹن نے آواز بلند کی،اس کی کتاب
ثمرات فلسفہ غالبا پہلی کتاب ہے جس میں منع حمل کے طبی طریقوں کی تشریع کی گی تھی۔اور
انکے فوائد پر زور دیا گیاتھا۔(12)
ابتدائی تحریک کی ناکامی اور اس کے اسباب
ابتداء میں اہل مغرب نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی،اس امید پر کہ یہ نظریہ اصلا
غلط تھا،مالتھوس یہ تو دیکھ سکتا تھا کہ آبادی کس رفتار سے بڑھ رہی ہے مگر اس کے
پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی زریعہ نہ تھا کہ وسائل معاش کس رفتار سے بڑھتے ہیں اور
زمیں میں قدرت کے کتنے خزانے پوشیدہ ہیں۔جو علم کی ترقی عقل کی کارفرمائی اور عمل
کی قوت سے نکلتے چلے آتے ہیں۔۱۷۷۹ میں اس ملک کی آبادی ۱۲ ملین تھی اور ۱۸۹۰ میں
۳۸ ملین تک پہنچ گئی۔نسل کی زبردست افزائش کے باوجود ان کو کبھی یہ محسوس نہ ہوا
کہ زمین ان کی بڑھتی ہوئی نسلوں کے لیے تنگ ہو گی ہےیا قدرت کے خزانے ان کی افزائش
نسل کا ساتھ دینے سے انکار کر رہے ہیں۔(13)
جدید تحریک:
انیسویں صدی کے ربع آخر میں ایک نئی تحریک اٹھی جو نو مالتھی تحریک کہلاتی ہے۔۱۸۷۷ء
میں ڈاکٹر ڈریسڈل کی زیر صدارت ایک انجمن قائم ہوئی۔جس نے ضبط ولادت کی تائید میں
نشرواشاعت شروع کی۔اس کے دو سال بعد مسز سینٹ کی کتاب "قانون آبادی"
شائع ہوئی،۱۸۸۱ء میں یہ تحریک یالینڈ ،بیلجیم،فرانس اور جرمنی میں پہنچی اور اسکے
بعد رفتہ رفتہ یورپ اور امریکہ میں پھیل گی۔باقاعدہ انجمنیں قائم ہوئیں۔جنھوں نے
تحریروتقریر کے زریعے لوگوں کو ضبط ولادت کے فوائد اور عملی طریقوں سے آگاہ
کیا،اسکو اخلاقی نقطہ نظرجائز اور معاشی نقطہ نظر سے مفید بتایا گیا۔اس کے لیے
دوائیاں ایجاد کی گئیں۔اور آلات بنائے گئے۔جگہ جگہ ضبط ولادت کے مطب قائم کیئے
گئے۔اس نئی تحریک نے بہت جلد فروغ پا لیا اور اب یہ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔(14)
برصغیر پاک وہند میں خاندانی منصوبہ بندی کا آغاز
برعظیم ھندو پاکستان میں گزشتہ ربع صدی سے ضبط ولادت تحریک زور پکڑ رہی ہے۔اس
کی تائید میں نشرواشاعت کرنے اور لوگوں کو اس کی طرف رغبت دلانے اور اس کے عملی
طریقوں کے بارے میں معلومات پہنچانے کے لیے انجمنیں قائم ہو چکی ہیں۔اور رسالے
شائع کیے جا رہے ہیں۔۱۹۳۱ ء کے مردم شماری کے کمشنر ڈاکٹر ہٹن نے اپنی رپورٹ میں
ہندوستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو خطرناک ظاہر کرنے کے لیے ضبط ولادت کی ترویج پر
زور دیا۔اس کے بعد ہنوستان اور پاکستان دو آزاد ملک بن گئے۔اور کچھ زیادہ مدت نہ
گزی تھی کہ دونوں ملکوں نے اپنی اپنی حدود میں اس تحریک کو ایک قومی پالیسی کی
حثیت سے اختیار کر لیا۔(15)
پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کا آغاز
چونکہ برصغیر پاک و ہند میں خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک چل پڑی تھی۔لہذا
پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد یہ تحریک پاکستان میں بھی پہنچ گئی۔جو پہلے غیر
سرکاری طور پر تھی۔پھر اس کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔
"پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام اگرچہ غیر سرکاری سطح پر
۱۹۵۳ ء سے اور سرکاری سطح پر ۱۹۶۵ ء سے جاری ہوا۔لیکن اس عرصہ میں کی گئی کاوشوں
کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے،جنکی توقع تھی یا ہونی چاہیے(16)
خاندانی منصوبہ بندی کے مقاصد
اولاد انسان کا ایک فطری جذبہ ہے۔یہ ہر انسان کی دلی تمنا ہوتی ہے۔کہ کسی نہ
کسی طرح دنیا میں اس کا نام باقی رہے،چنانچہ تاریخ انسانی مین کچھ لوگ اپنا نام
کارہائے نمایاں کی شکل میں چھوڑ جاتے ہیں۔مگر عموما نوع انسانی اپنے نام کی بقا
اپنی اولاد کی صورت ہی میں باقی چھوڑ کر جاتے ہیں۔مگر اکثر والدین کثیرالاعیال
ہونے کی بناء پر ان کی پرورش ,تعلیم و تربیت
جیسے فرئض سرانجام دینے سے غفلت برتتے ہیں،اس سلسلے میں ضبط تولید کا فضل نمایاں
کردار ادا کرتا ہے۔
ضبط تولید کا اہم مقصد یہ ہے کہ خاندان میں بچوں کی تعداد اس حد تک محدود ہو
کہ وہ خاندان اپنے وسائل کے مطابق نہایت خوش اسلوبی سے ان کی پرورش اور تربیت کر
سکے۔ان کی ذمہ داریوں کو کماحقہ نبھا سکیں۔اور انھیں ملک و ملت کا ایک قابل فخر
سپوت بنا سکے(17)
در حقیقت قوم کی اخلاقی ،جمالیاتی ،صحتی اور معاشرتی حالت بلند کرنا اس کے اہم
مقاصد میں شامل ہے"(18)
اگر وسائل کی بہتات ہو تو کثرت اولاد کے سلسلے میں کوئی پابندی نہیں ،لیکن
قلیل وسائل رکھنے والے افراد کو تھوڑی اولاد پر قناعت کرنی چاہیے،مختصر الفاظ میں
ضبط تولید کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خاندان کی وسعت اس کے وسائل تک محدود رکھی جائے۔(19)
"خاندانی منصوبہ بندی کوئی دائمی پا ابدی پا ابدی طور پر اختیار کرنے کی
چیز نہیں،اسکا شمار ان اقدار میں ہوتا ہے۔جو وقتی تقاضوں کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔جو
چیز آج مفید ہو وہ اختیار کر لی جائے۔اور جب مضر ہو جائے تو ترک کر دیا جائے۔غرض
خاندانی منصوبہ بندی کا شمار مستقل اقدار مین نہیں۔اسکی ضرورت صرف اس دو میں ہے،جس
میں معاشی وسائل کی کمی ہو اور آبادی زیادہ ہو اور جب یہ ضرورت ختم ہو جائے یعنی
وسائل معاش وافر ہوں اور آبادی اس کے مطابق ہوتو خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہیں
کیا جائے گا،بلکہ یہ بھی ہو گا کہ اگر زرائع معیشت زیادہ بڑھ جائیں تو پیدائش
اولاد میں مختلف طریقوں سے اضافے کی کو شش کی جائے گی۔(20)
اس کا سادہ مقصد یہ ہے کہ باوجود سخت محنت کے ہماری جو پیداوار ہو آبادی کا
اضافہ بھی اس کے مطابق ہو،اور دوسرے یہ کہ قومی صحت کے معیار کو بلند کرنے کے لیے
بچوں کی پیدائش کے دوران مناسب وقفہ ہونا چاہیے۔(21)
پروفیسر رفیع اللہ شہاب نے خاندانی منصوبہ بندی کا مقصد یہ بیان کیا ہے
کہ"اسکا مۡۡۡۡقصد تو صرف یہ ہے کہ خاندان میں بچوں کی تعداد اس حد تک محدود
ہو کہ وہ خا ندان اپنے وسائل کے مطابق نہایت خوش اسلوبی سے انکی صحیح پرورش اور
تربیت کر سکے ان کی زمہ داریوں کو کماحقہ نبھا سکے اور انھیں اچھے انسان اور اچھے
شہری بنا سکے۔(22)
مختلف مذاہب مین خاندانی منصوبہ بندی کا تصور
اگرچہ خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق دنیا کے تمام مذاہب میں صریح احکام و
نواہی موجود نہیں ہیں،لیکن پھر بھی ہرایک مذہب میں کثیرالعیل ہونے کی ترغیب و
تحریص موجود ہے۔
اسلام عالمگیر مذہب ہے ،مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن مجید میں ایک سے زیادہ
مقام پر یہ موجود ہے
لا تقتلوا اولادک خشیتہ املاق (23)
"اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو"
اس طرح نکاح کے لیے زیادہ اولاد والے خاندان کو ترجیح دینا احادیث سے ثابت
ہوتا ہے۔
ضبط تولید کے بارے میں اگرچہ مختلف مزاہب میں اپنے اپنے نظریات پائے جاتے ہیں۔
عیسایئت اور خاندانی منصوبہ بندی
اگر دنیا میں سب سے پہلا خاندانی منصوبہ بندی کے مخالف مذہب ہے تو وہ عیسایئت
ہےاس نے سب سے پہلے ضبط تولید کی مخالفت کی کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا
"تم کسی کو جان سے نہیں مار سکو گے"ان کے اس ارشاد کی تعبیروتشریح پر
کی گئی کہ کسی جان کو پیدا ہونے سے قبل روکنا بھی قتل ہے۔
لارڈ پادری میک نیل نے ایسے اجماع کو گناہ قرار دیا ،جس کی غرض حصول اولاد ہی
نہ ہو اور ایسے مشیران طبی کو جو ضبط تولید کے حامی ہیں،ان کے بارے میں نسل انسانی
کے قاتل ہونے کا فتوی دیا۔عصر حاضر میں پادری خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں ان
خیالات کے حامی ہیں۔
عورت کو طبی وجوہ کی بناء پر حمل سے باز رکھنا اس کی زندگی کے لیے لازمی ہے،انھوں
نے غیر منشا حمل کے استقرار کو روکنے کے لیے مندرجہ ذیل تدابیر کا جائز قرار دیا۔
فعل جماع یا انزال کو روکنا
مجامعت کے بعد فی الفور بیٹھ جانا
زور سے کھانسنا
پیشاب کے بعد جلدی جلدی چہل قدمی کرنا۔
مردو عورت ایسے دنوں میں مباشرت کریں ،جب عورت کے حاملہ ہونے کی امید بہت کم
ہوتی ہے۔مثال کے طور پر "طہر"کے بعد ہفتہ عشرہ یا دوار حیض سے ہفتہ عشرہ
قبل۔
مندرجہ بالا تدابیر کو عیسائی علماء نے جائز قرار دیا اور ان کے علاوہ باقی
تمام تدابیر کو ناجائز قرار دیا۔
خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں مفکرین کی آراء
۱)ڈاکٹر علامہ محمد اقبال:
شریعت اسلامی نے اجتماعی مسائل میں مصالح امت کو نظر انداز نہیں کیا اور اس کے
تصیفے کو اہل علم پر چھوڑ دیا ہے۔کہ وہ حالات و مقتضائے وقت کے مطابق ان کا فیصلہ
کریں۔اس لیے اگر حفظ نفس مقصود نہ ہو۔حقیقی ضرورت موجود ہو اور فریقین رضامند ہوں
تو جہاں تک میرا مسلم رہنمائی کرتا ہے۔شرعا ضبط تولید قابل اعتراض نہیں ہے۔اصول
شرعی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خاوند اپنی بیوی کو اگر وہ اولاد پیدا کرنے کی
خواہش مند نہ ہو تو اس اولاد پیدا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔لیکن دنیا میں اس
وقت جو کچھ ہو رہا ہے.،اس
کا بیشتر حصہ ضبط نفس پر مبنی ہے۔اور محض ضبط نفس کے لیے ایسا کرنا میرے نزدیک
حرمت کے درجے تک پہنچتا ہے۔
شرعی پہلو سے جو میں نے رائے دی ہے۔وہ مہر شریعت کی حثیت سے نہیں بلکہ محض
اپنے علم اور مطالعہ کی بناء پر دی ہے۔(24)
۲)سید ابو الاعلی مودودیؒ :
عزل کی اجازت کے متعلق جو روایات ہیں ان کی حقیقت بس یہ ہے کہ کسی اللہ کے
بندے نے محض اپنی مجبوری اور حالات بیان کیے اور آ ئحضرت ﷺ انھیں اپنے
سامنے رکھ کر کوئی مناسب جواب دے دیا ،انکا تعلق صرف انفرادی ضروریات اور استثنائی
حالات سے تھا۔ضبط تولید کی عام دعوت و تحریک ہرگز پیش نظر نہ تھی،نہ ایسی تحریک کا
مخصوص فلسفہ تھا،جو عوام میں پھیلایا جا
رہا ہو۔
عزل سے متعلق جو بات آئحضرت ﷺ سے منقول ہیں ان سے اگر عزل کا جواز بھی ملتا تھا تو ہرگز ضبط ولادت کی اس
عام تحریک کے حق میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ،جس کی پشت پر ایک باقاعدہ ،خالص
مادہ پرستانہ فلسفہ کارفرما ہے۔ایسی کوئی تحریک اگر آئحضرت ﷺ کے سامنے اٹھتی تو مجھے یقین ہے کہ
آپﷺ اس پر لعنت بھیجتے اور اسکے خلاف ویسا ہی جہاد کرتے جیسا آپ نے شرک اور بت
پرستی کے خلاف کیا(25)
۳)مولانا مفتی محمد شفیع:
ولا تقتلوا اولادکم خشیتہ املاق (26)
اس آیت کریمہ سے اس معاملے پر بھی روشنی
پڑتی ہے،جس میں آج کی دنیا گرفتار ہے۔وہ کثرت آبادی کے خوف سے ضبط تولید اور
منصوبہ بندی کو رواج دے رہی ہے،اس کی بنیاد بھی اس جاہلانہ فلسفہ پر ہے کہ رزق کا
ذمہ دار اپنے کو سمجھ لیا گیا ہے،یہ معاملہ قتل اولاد کے برابر نُہ سہی مگر اس کے
مذموم ھو نے میں کوئی شبہہ نہیں ہے۔(27)
۴)مولانا ابوالکلام آزاد:
بظاہر کوئی وجہ نظرنہیں آتی کہ برتھ کنٹرول کے معاملہ میں شرع مداخلت کرے،یہ
ایک خالص طبی اور اجتماعی مسئلہ ہے۔اگر اصحاب علم محسوس کریں کہ سوسائٹی کے مصالح
کے لیے اس کی ضرورت ہے۔تو ضرور اس کے حق میں رائے دے سکتے ہیں۔اس طرح کی تمام
باتوں کو مصالح مرسلہ میں سمجھنا چاہیے
اور انکا دروازہ پوری طرح باز ہے۔(28)
۵)لارڈ لیورڈن:
غیر متوازن آبادی اور عورتوں اور بچوں کی گرتی ہوئی صحت کے مسائل کا اگر عملا
مناسب اور موثر حل ہو سکتا ہے تو وہ برتھ کنٹرول ہے۔(29)
۶)پروفیسر کار پینٹر:
کسی قوم کی ترقی و فروغ افزائش نسل کے ساتھ بڑھتی ہے۔قوم میں جب تک اپنے افراد
کے تندرست و توانا رکھنے اور مکمل پرورش کا سامان نہ ہو ایسی قوم کی طاقت جلد زائل
ہ جائے گی۔(30)
۷)سر رائیڈ رھیگرڈ:
ضبط تولید ہماری تھوڑی سی نسل کو مکمل و منضبط بنانے میں بہترین معاون ثابت ہو
سکتی ہے۔(31)
۸)مارگریٹ سنگر:
یہ دنیا کی عورتوں کو مخاطب کر کے کہتی ہے۔
"اے دنیا کی عورتو!
اٹھو ہمیں اپنے جسم کے دروازوں کو بیمار اور اپاہج بچوں کے لیے بند کر دینا
چاہیے ۔اور صرف مضبوط اور صحت مند بچے ہیدا کرنے چاہیے،جسکی ترکیب ہمیں جاننا ضروری
ہے۔اور یہ صرف ضبط تولید سے ہی ممکن ہے۔(32)
اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی
خاندانی منصوبہ بندی کے اثرات:
خاندانی منصوبہ بندی کے اثرار دو طرح سے مرتب
ہوئے ہیں۔
۱)مثبت اثرات ۲)منفی اثرات
مثبت اثرات:
اگر کسی جگہ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیا
جائے تو اس کے ماہرین کے نزدیک درج ذیل اثرات مرتب ہوں گے۔
خوراک کی قلت کا خاتمہ
امراض اور وباوں میں کمی
مہنگائی میں کی
معاشی وسائل پر کم دباو
منفی اثرات:
جہاں تک خاندانی منصوبہ بندی کے منفی اثرات کی
بات ہے،تو وہ ان فوائد سے کہیں زیادہ ہیں،جن فوائد کا ماہرین ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔
طبی اثرات:
طبی حثیت سے خاندانی منصوبہ جہاں مثبت اثرات
ڈالتی ہے وہاں بہت سے مضر اثرات بھی ڈالتی ہے،عورتوں کے اندر بہت سے متعدی اور غیر
متعدی امراض(ذیابطس،دیونگی،فرج کے بو،آتشک،پیدائشی اندھاپن،مرگی،امراض
گردہ،جزام،سل دق،شدید امراض قلب،عصبی یعنی دماغی امراض وغیرہ)اگر ان میں سے ایک
بھی بیماری پائی جائے تو عورت کا حاملہ ہونا اس کی موت کے مترادف ہے،ان حالات مین
عورت کی صحت باقی رکھنے کے لیے ضبط تولید کی تدابیر پر عمل کرا نہایت ضروری ہے،امریکہ
کے ڈاکٹر جے وائٹ رچ ولیم کی تحریرات کے مطابق درج بالا بیماریوں میں منصوبہ بندی
پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی سے جو امراض پیدا ہوتے ہیں
وہ درج ذیل ہیں
رحم مادر کی جھلیوں کا ورم اور کینسر
یہ ادویات جگر کے بعض ٹیومرز کے پھٹنے کا بھی
باعث بنتے ہیں۔
ایام مین باقاعدگی
پیٹ میں درد،الٹیان اور معدہ کا السر
خون کی کمی اور سر درد اور پرمثردگی
عصبی ناہمواری،بے خوابی،پریشاان خیال اور
چڑچڑاپن
دل و دماغ کی کمزوری
پاوں کا سن ہونا
فالج
کنڈومز کا زیادہ اتعمال مردانہ کمزوری پیدا کرتا
ہے۔
سب سے بری اور محفوظ بیماری بدکاری ہے۔(33)
معاشرتی اثرات:
عائلی زندگی میں خاندانی منصوبہ بندی کے کافی
مضر اثرات مرتب ہوئے ہیں،شوہر اور بیوی کے تعلقات پر پہلا منفی اثر یہ ہوتا ہے۔کہ
جب ان کے داعیات فطرت کی تکمیل نہیں ہوتی تو ایک غیر محسوس طریقے پر دونوں میں ایک
طرح کی اجنبیت پیدا ہونے لگتی ہے۔جو بعد میں مودت و رحمت کی کمی ،سرد مہری اور آخرکار
نفرت و بیزاری تک پہنچ جاتی ہے،وہ خانگی زنگی کی ساری مسرتوں کو کارت کر دیتی
ہے۔جس کی وجہ سے شرح طلاق میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے،بلکہ شرح پیدائش میں بھی کمی
واقع ہوئی ہے۔(34)
لیکن اس کے علاوہ ایک بڑا نقصان بھی ہے،جو مادی
اسباب سے بھی زیادہ روحانی اسباب کی بدولت رونما ہوتا ہے۔جسمانی حثیت سے تو عورت
اور مرد کا تعلق ایک بہیمی تعلق ہے،جیسے جانوروں میں ہوتا ہے،مگر جو چیز اس تعلق
کو اعلی درجے کی چیز بناتی ہے۔اور اس کو مودت و رحمت کے ایک گہرے رابطے میں تبدیل
کرتی ہے۔وہ اولاد کی تربیت میں دونوں کی شرکت اور معاونت ہے۔ضابط ولادت اس روحانی
رابط کو وجود میں آنے سے روکتی ہے۔اس کا لازمی تعلق اور نتیجہ یہ ہے کہ عورت اور
مرد کے درمیان کوئی گہرا اور مستحکم تعلق پیدا نہیں ہوتا،اس بہیمت کا خلاصہ یہ ہے
کہ کچھ مدت تک ایک دوسرے سے لطف اندوز ہونے کے بعد ،دل ایک دوسرے سے بھر جاتا ہے۔
اس کے علاوہ خاندانی منصوبہ بندی سے معاشرہ بے
حیائی کی طرف مائل ہوتا ہے۔زنا کاری کو فروغ ملتا ہے اور منصوبہ بندی ان کے اس
گناہ کی خاموش پردہ داری کرتی ہے،یہی وجہ ہے کی منصوبہ سے فوائد اٹھانے والے غیر
شادی شدہ جوڑے زیادہ ہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی کے جواز کی صورتیں
خاندانی منصوبہ بندی کا جواز چند ضرورتوں کی
بناء پر ہے،جن کا ذکر یوں ہے کہ
کہ ماں کی زندگی یا صحت کو مرض زچگی کی وجہ سے
خطرہ لاحق ہو،یہ بات تجربہ سے معلوم ہو جائے یا قابل اعتماد ڈاکٹر بتلادے،(35)
دوسری ضرورت یہ ہے کہ دنیاوی حرج میں مبتلا ہونے
کا اندیشہ ہو،جس کے نتیجے میں دینی حرج پیدا ہو جائے۔اور آدمی اولاد کی خاطر حرام
چیز کو قبول کرنے اور ناجائز باتوں کا ارتکاب کرنے لگ جائے۔(37)
تیسری ضرورت اولاد کی صحت کے خراب ہو جانے یا ان
کی صحیح تربیت نہ ہونے کا احتمال ہے۔(38)
مندرجہ بالا صورتوں کی بناء پر منصوبہ بندی کی
جا سکتی ہے۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس میں نس بندی کا جواز نہیں ہے کیونکہ یہ فعل
اللہ کے حکم کے خلاف ہے۔یعنی خلق اللہ میں تبدیلی ہو جائے گی۔
غلام رسول سعیدی جواز کی صورتوں کو اس طرح بیان
کرتے ہین۔
"دوسری وجہ ہے عورت کی بیماری،کیونکہ بعض
صورتوں کو ایام حمل میں اس قدر تکیف ہوتی ہے کہ وہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتی
ہیں،تیسری وجہ بچے کا پیٹ میں آڑا ہونا یا ہڈی کا تنگ ہونا،جس کی وجہ سے آپریشن کے
ذریعے بچہ پیدا ہوتا ہے۔اور دو یا تین بار کے بعد مزید آپریشن کی گنجائش نہیں
رہتی،اس کے بعد عورت کے بیضہ والی نس کو کاٹ کر باندھ دیا جاتا ہے۔اور یہ بھی ضبط
تولید کا ایک طریقہ ہے۔اور چوتھی وجہ ہے دودھ پینے والے بچے کی تربیت اور نگہداشت
میں خلل کیونکہ اگر گھر میں صرف ایک عورت ہے جو بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔اور نو دس
ماہ کے بعد ایک اور بچہ پیدا ہو جائے تو وہ دونوں بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش
صحیح نہیں کر سکتی اس لیے ان کے درمیان وقفہ ہونا چاہیے۔یہ چاروں وجہیں جائز ہیں۔اور ان صورتوں میں عزل کیا جا
سکتا ہے۔(39)
۔
خاندانی منصوبہ بندی اور علماء کے فتاویٰ
امام ابن حزم الاندلسی:
امام ابن حزم الاندلسی نے ضبط ولادت کی مخالفت
کی تھی لیکن ان کی دیانت داری ملاحظ ہو کہ انہوں نے عزل کے شرعی جواز کو نقل کرنے
میں۔کوئی گڑ بڑ نہیں کی،اندلس کے حالات کی روشنی میں دیکھیں تو ان کا ضبط ولادت کا
فتویٰ درست تھا۔کیونکہ وہاں مسلمانوں کی تعداد کم تھی۔اور وہاں ان کا ضبط ولادت پر
عمل کرنا خودکشی کے مترادف تھا۔لیکن جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں،وہاں انھیں اپنے
معیار کو بلند کرنا چاہیے تاکہ غیر مسلم اقوام کا مقابلہ کیا جا سکے۔(40)
علامہ ابن القیم:
علامہ ابن قیم نے اس مسئلے پر تفصیل سے بحث کی
کی ہے۔اور آخر میں فتویٰ دیا ہے۔
"یہ احادیث عزل کی اجازت کے بارے میں واضح
ہے اور یہ رخصت دس صحابہ سے منقول ہے"(41)
عمرو بن العاص ؓ:
آپ نے فرمایا
"اے لوگو چار خصلتوں سے بچو،کیونکہ یہ
خصلتیں آرام کے بعد تکیف میں ڈالنے والی ہیں۔،فراغت کے بعد تنگی میں اور عزت کے
بعد ذلت میں مبتلا کر دیتی ہیں،تم بچو:
کثرت اولاد سے
بہت گھٹیا معیار زندگی سے
مال ضائع کرنے سے
لا یعنی گفتگو کرنے سے(42)
شاہ عبدالعزیز دہلوی:
"عزل کی اسلام میں اجازت ہے کیونکہ اس کی
تصدیق آئحضرت ﷺ کی مشہور احادیث سے ہوتی ہے"(43)
علامہ ابن ہمام:
اسقاط حمل کے بارے میں فرماتے ہیں۔
"کیا حمل ٹھہر جانے کے بعد اس کو گرانا جائز ہے۔ہان جب تک اس کے کوئی
اعضاء وغیرہ نہ بنے ہوں،دوسری جگہ فرمایا کہ یہ اعضاء ایک سو بیس دن کے بعد ہی
بننا شروع ہوتے ہیں"(44)
فتاویٰ عالمگیریہ:
فتاوی عالمگیریہ میں تحریر ہے کہ
"اسلام میں بیوی کی اجازت سے عزل پر کوئی پابندی نہیں،حمل کے نتیجے میں
ماں کے رحم میں جب تک عورت کے لیے اسقاط حمل جائز ہے"(45)
سودی علماء:
اس بات کو ملحوظ اور پیش نظر رکھتے ہوئے کہ شریعت اسلامیہ نسل کو پھیلانے کی
ترغیب دیتی ہے۔اور اس کا تقاضا ہے کہ مسلمان زیادہ ہوں۔ اس سلسلے میں نسل کو نعمت
گیری تصور کیا جاتا ہے۔یہ اللہ تعالی کی عطاکردہ وہ عظیم نعمت ہے،جس کے ساتھ اللہ
نے اپنے بندوں پر احسان فرمایا تھا،چنانچہ مخصوص شریعت قرآن مجید اور حب رسولﷺ میں بکثرت موجود
ہیں۔جنہیں علمی بحثوں کے عالمی ادارے نے وارد کیا ہے"(46)
مصری علماء:
ضبط تولید کے بارے میں دارالافتاء المصریہ نے پانچ نکات واضح کیے ہیں،
۱)ضبط تولید کی شرعی بنیاد عزل ہے۔مصری علماء کہتے ہیں کہ منع حمل یا نسل کم
کرنے کے بارے میں قرآن میں کوئی تصریح موجود نہیں ہے۔البتہ احادیث سے بظاہر اس کی
ممانعت معلوم ہوتی ہے۔
۲)مانع حمل کے لیے جدید آلات اور دواوں کا استعمال جائز ہے۔قدیم فقہاء نے صرف
عزل کا ذکر کیا ہے۔کیونکہ ان کے زمانے میں یہی طریقہ تھا۔اب چونکہ آسان اور نسبتا
زیادہ محفوظ وسیلے ایجاد ہو چکے ہیں۔اس لیے ان کے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں
ہے۔بشرطیکہ مرد یا عورت میںسے کوئی بانجھ نہ ہوجاے،اس لیے عورت کے رحم میں کوئی
ایسا حائل رکھنا جائز ہے،مثلا جس سے مرد کا پانی عورت کے رحم میں داخل نہ ہو
سکے،خواہ اس کو مرد رکھے یا عورت،اسی طرح مانع حمل دوائیں استعمال کرنا بھی جائز
ہے۔
۳)ضبط تولید کو ازروئے قانون جبرا لاگو کرنا جائز نہیں ہے،فقہاء نے عزل کو
فریقین کی رظامندی کے ساتھ جائز قرار دیا ہے۔ان میں سے صرف ایک فریق عزل کرنے میں
خود مختار نہیں ہے۔اور جو کسی کے ارادہ پر موقوف ہو سرکاری قانون بننے کی اہلیت
نہیں رکھتی۔
۴)ضبط تولید کی دعوت اللہ پر توکل کے منافی نہیں ہے۔عزل یا دیگر جدید آلات کی
وجہ سے حمل کو روکنا اسباب کے ساتھ توکل کرنا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اونٹنی کو باندھ کر توکل کرو،اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ نے اسباب کے حصول
کے بعد توکل فرمایا ہے۔
۵)ضبط تولید کے لیے عورت یا مرد کو بانجھ کرنا جائز نہیں ہے،عورت یا مرد کو
کسی دوائی یا آپریشن کے ذریعے بانجھ کر دینا جائز نہیں ہے"(47)
رزق کا ذمہ دار ۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ
اسلام ایک عالمگیر ار آسان دین ہے،جو کسی کو
معصیت میں نہیں ڈالنا چاہتا،اللہ تعالی نے انسان کو زمیں پر امتحان کے لیے بھیجا
ہے،تاکہ پتہ چل سکے کہ بندہ کس حد تک کامیاب ہوا ہے۔روحانی غذا کی طرح اللہ تعالیٰ
نے جسمانی غذا کا ذمہ بھی خود لیا ہے،قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
و ما من دابتہ فی الارض الاعلی اللہ رزقھا و
یعلم مسقر و مستودعھا کل فی کتٰب مبیبن (48)
"اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار نہیں
ہے،جسکی روزی کا ذمہ دار اللہ نہ ہواور وہی جا نتا ہے کہ اسکا ٹھکانہ کہاں ہے اور
وہ جگہ کہاں ہے جہاں بالآخر اسکا وجود سونپا جائیگا،یہ سب کچھ علم الہی کی کتاب
میں درج ہے۔"
اللہ تعالی پنے ڈرنے والے بندوں پر خاص رحمت
فرماتا ہے
ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یر زقہ من حیث لا
یحتسب (49)
"اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اسے
کشاکش دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں
ہوےا"
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے
لا تقتلوا اولادکم خشیتہ املاق نحن نرزقکم و
ایاکم (50)
"اپنی اولاد کو تنگ دستی کے خوف سے قتل نہ
کرو ہم انھیں اور تمھیں رزق دیتے ہیں"
اللہ تعالی ایک ایسی ہستی ہے جو ماں کے پیٹ میں
بچے کو رزق دیتا ہے،تو جب وہ بچہ دنیا میں آئے گا تو وہ اسے رزق کیوں نہ دے گا،جو
اللہ پتھر میں٘ کیڑے کو رزق دیتا ہے اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ
انسان کو رزق دے۔
رزق کی تنگی سے خاندانی منصوبہ بندی
خاندانی منصوبہ بندی اگر رزق کی تنگی کی وجہ سے
کی جائے تو یہ ناجائز ہے۔
موجودہ دور مین ضبط تولید کے جتنے بھی طریقے ہیں
ان میں سے کوئی بھی طریقہ قتل والا نہیں کہلا سکتا کیونکہ اتقرار نطفہ سے قبل قتل
کیسا؟لیکن اللہ تعالی نے اوپر آیت میں قتل اولاد کہہ کر دراصل اسکی علت یعنی رزق
کی تنگی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس بناء پر یہ فعل کتنا بڑا جرم ہے۔
"اس میں کوئی شبہہ نہیں کی خاندانی منصوبہ
بندی والے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کم کرنے کے لیے تنگی رزق سے ڈرا کر ضبط
تولید کی طرف راغب کرتے ہیں،اور ان کے تمام تر اشتہارات اور ترغیبات کا حاصل یہی
ہوتا ہے،یہ فکر قرآن کریم کے بیان کردہ حکم کے یکسر خلاف ہے"(51)
حاصل کلام:
خاندانی منصوبہ بندی اور اسلام کے مطالعہ سے
معلوم ہوا کہ خاندانی منصوبہ بندی کوئی مزموم چیز نہیں بلکہ اگر شریعت کی روشنی
میں دیکھا جائے تو یہ ایک رحمت ہے ان ماوں کےلیے جو کسی نہ کسی وجہ سے صحت کے
مسائل سے دوچار ہیں،چونکہ اسلام دین فطرت ہے لہزا اس نے اس چیز کو ہیش نظر رکھا ہے
کہ اگر عورت کی صحت اجازت نہیں دیتی کہ وہ بچہ پیدا کرے یا زیادہ بچے پیدا کر سکے
تو پھر اسے رخصت دی جاے،اگر ایسا نہ کیا جا تا تو یہ ظلم ہوتا عورت کے ساتھ،
جہاں تک خاندانی منصوبہ بندی کے ان پہلووں کی
بات ہے جن کی اسلام مذمت کرتا ہے،تو ان میں سر دست وہ عوامل ہیں جو معاشرے کے لیے
قبیح اور مذموم ہیں،جن سے معاشرے کی سامتی اور بقا کو خطرہ لاحق ہے،جیسا کی غیر
شادی شدہ جوڑوں کا اپنے گناہون پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے احتیار کرنا وغیرہ
دوسرا اہم اور احساس پہلو یہ کہ خاندانی منصوبہ
بندی کو اس لیے اختیار کرنا کہ "کم بچے خوش حال گھرانہ"تو یہ چیز اللہ
کی ذات پہ توکل کے خلاف ہے ۔
رازق اللہ کی ذات ہے،ہر آنے والا بچہ اپنے مقدر
کا رزق لے کر آتا ہے،یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے،لہذا کم بچے خوشحال گھرانے کا
منصوبہ ہمارے ایمان پہ زد ہے۔اللہ رب العزت جب کسی روح کو دنیا میں بیجھتے ہیں تو
اگر اسے کھانے ک لیے ایک پیٹ دیتے ہیں تو کمانے کےلیے دو ہاتھ بھی ساتھ دیتے ہیں۔
تیسرا اہم پہلو سرکاری سطح پر اسے رائج کرنا
یعنی زبردستی معاشرے پر لاگو کرنا یہ صرف مغرب کی دیکھا دیکھی اور امت مسلمہ کی
بڑھتی ہو ئی تعداد سے خائف ہو کر اس کی نسل کشی کی جا رہی ہے،جو کی سراسر ناجائز
اور ظلم ہے۔
سفارشات اور اہم نکات:۔
جو سادہ لوح مسلمان
بہبود آبادی کے پروپیگنڈہ کا شکار ہورہے ہیں‘ انہیں غور کرنا چاہئے کہ اس پروگرام
کے محرکین کون سے ممالک ہیں‘ کیا وہاں بھی اس پروگرام کو اسی شد ومد سے قومی ‘ملی
اوردینی ضرورت کے طور پر پیش کیا جاتااوراس پر عمل درآمد کے لئے اسی قدر اصرار
ہوتا ہے؟ یا یہ ضرورت صرف پسماندہ مسلمان ممالک کے لئے ہے؟
جو مغربی ممالک اس
پروگرام کے معاون اور محرک ہیں‘ کیا ان کے لئے یہ اہم نہیں کہ غریب ممالک میں جائز
طریقوں سے نسل انسانی کی افزائش کو روکنے اور کم کرنے کے بجائے اپنے ہاں کم از کم
ناجائز طریقوں سے جنم لینے والوں کا راستہ روکیں اور ان کی افزائش کو کم کریں۔
کیا فیملی پلاننگ کا
مسئلہ صرف پسماندہ علاقوں اور غریب خاندانوں کا ہے یا ملکی اشرافیہ بھی اس کا
احساس رکھتی ‘ اور خود اس پر عمل کرتی ہے؟ اگر وہ خود اس پر عمل نہیں کرتی تو صرف
عوام کو اس کار خیرمیں شریک ہونے کے لئے اصرار کیوں؟
جن طبقوں کی طرف سے
یہ کتابچے اور شرعی دلائل سے مزین پمفلٹ چھاپے اور تقسیم کئے جاتے ہیں (جن میں صرف
یہ کہ مروجہ خاندانی منصوبہ بندی کا جواز ‘ بلکہ دینی ضرورت اور شرعی حکم کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے)۔
کیا یہ طبقے واقعةً
دین اور اہل دین کے خیر خواہ ہیں؟ کیا خاندانی منصوبہ بندی کو پیش کرنے کا مقصد دین
کا حکم عام کرنا اور لوگوں سے دین پر عمل کرانا مقصود ہے؟ یا دین کے نام پر ان
حوالوں کو اپنے غیر شرعی مقاصد کے لئے استعمال کرنا اور عوام کو دھوکہ دینا ہے؟
اگر ان لوگوں کے پیش نظر واقعةً دینی احکام کی ترویج ہو اور یہ لوگ خود بھی دیندار
ہوں‘ اور ان کا ہدف دین واہل دین کی خیر خواہی ہو‘ تو پھر یہ دیکھنا ہے کہ خاندانی
منصوبہ بندی کی حمایت وتائید میں پیش کردہ حوالہ جات (صحیح وعدم صحیح سے قطع نظر) کے علاوہ بقیہ دینی احکام پر ان کا کتنا
عمل ہے‘ کیونکہ شریعت کے اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے احکام واعمال ہیں‘ جن کے بارے
میں کسی ادنیٰ مسلمان کے بھی کسی قسم کے تحفظات نہیں ہیں‘ کیا ان احکام واعمال کی
خدمت کا جذبہ بھی یہ لوگ اس قدر رکھتے ہیں یا نہیں؟ مثلاً ارکان خمسہ :ایمان‘
نماز‘ زکوٰة‘روزہ‘ اور حج وغیرہ کو رائج کرنے اور منکرات جیسے چوری‘ ڈاکہ ‘
بدکاری‘ بے حیائی‘ بے پردگی اورشراب نوشی وغیرہ کے ازالہ اور انسداد کے لئے بھی یہ
طبقہ اتنا ہی مخلص ہے‘ جتنا خاندانی منصوبہ بندی کے لئے ہے‘ اگر ایسا نہیں اور
یقینا ایسانہیں تو پھر ہر مسلمان بآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی
والوں نے دینی حوالوں پر مشتمل جو کتابچے اور پمفلٹ تقسیم کئے ہیں‘ ان کا مقصد‘
دین کو اپنے مذموم عزائم کے لئے ڈھال اور سادہ لوح مسلمان کو ان حوالوں کے ذریعہ
دھوکہ دینا ہے۔ ان کے خفیہ مذموم عزائم کیا ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سرفہرست
مسلمانوں کی افرادی قوت کا راستہ روکنا ہے‘ اس لئے کہ مغربی دنیا جس طرح مسلمانوں
کو سیاسی‘ اقتصادی اور معاشی طور پر کمزور کرکے ان کی سیاست‘ اقتصاد اور معیشت
ومعاشرت پر حاوی ہوچکی ہے‘ اسی طرح مسلمانوں کی افرادی قوت کو محدود تر کرنے کے
لئے وہ کوشاں ہے۔ بھلا یہ کونسی عقل کی بات ہے کہ غربت وافلاس کو مٹانے اور روزگار
کے وسائل واسباب مہیا کرنے کی بجائے غربت وافلاس زدہ طبقوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹایا
جائے‘ بلکہ ان کے لئے دنیا میں آنے کے راستے ہی مسدود کر دیئے جائیں۔ یہ کون سا
انصاف ہے کہ خود اپنے ممالک کی آبادی کے لئے غیر ممالک کے لوگوں کو نیشنلٹی دی
جائے‘ بلکہ بغیر باپ کے اولاد پیداکرنے کو بھی عارنہ سمجھا جائے اور مسلمانوں کے
ہاں جائز اولاد کی پیدائش کو دینی مزاج کی خلاف ورزی قرار دیا جائے‘ جب کہ حضور ا
نے زیادہ اولاد پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے اور اسے اپنی امت پر فخر کا ذریعہ بتایا
ہے۔ باقی آبادی کے پھیلاؤ اور معیشت کے قلت وسائل کے جن خدشات اور مفروضوں کو
بنیاد بناکر دھوکہ دیا جاتاہے ان کو سچ اور حقیقت باور کرانا انتہائی مشکل ہے‘ ذرا
غور فرمایئے! کہ ایک انسان سے آج کروڑوں‘ اربوں‘ کھربوں انسان دنیا میں کیسے آباد
ہوئے‘ کیا حضرت آدم علیہ السلام اپنی اس پوری اولاد کے لئے وسائل معیشت اور بہبود
آبادی کا کوئی پیشگی پلان اور منصوبہ تیار فرماکر دنیا سے گئے تھے؟ دور جانے کی
بجائے ہرانسان اپنے رہن سہن اور معاش اور ذرائع معاش کا تقابل اپنے آبا واجداد کے
رہن سہن اورذرائع معاش سے کرے‘ کیا آپ کے پاس موجود جملہ اثاثہ جات اور روزگار کے
ذرائع آپ کے آباء و اجداد کی پیشگی پلاننگ کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں یا یہ مواقع آپ
کے اپنے تلاش کردہ ہیں اور آپ کی تگ ودو بھی اس میں شامل ہے۔ یقینا ایسے لوگ بہت
ہی کم ہوں گے جن کی آبادی ومعیشت کا انحصار صرف اور صرف ان کے آبا ء واجداد کی
پلاننگ پر ہو ‘ بلکہ اگر ایک عام انسان کی سطح پر آکر سوچاجائے تو یہ بات بآسانی
سمجھ آسکتی ہے کہ الحمد للہ! جوں جوں آبادی اور افراد بڑھ رہے ہیں‘ خدا کی زمین
اور خدا کے خزانے خدا کی مخلوق پر تنگ ہونے کی بجائے وسیع ہوتے جارہے ہیں۔ ہم میں
سے کس کا مشاہدہ نہیں کہ چند گز زمین کے ٹکڑے پر کئی منزلہ عمارت کیسے تعمیر ہوتی
ہے‘ اور اس میں کتنے لوگوں کی آبادی سما جاتی ہے‘ کیا یہ خدائی عطاء اور الٰہی
انتظام کا حصہ نہیں ہے۔ اسی طرح روز مرہ زمین اپنے خزانے اگل رہی ہے‘ ایک ایک
خزانہ کتنے لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بن رہا ہے‘ کیا آپ نے غور فرمایا کہ کچھ عرصہ
پہلے دنیا تیل اور گیس سے نا آشنا تھی‘ اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین نے یہ خزانے
اگلے‘ اور اس
وقت لاکھوں کروڑوں انسانوں کے روزگار کا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح جدید ایجادات کی ایک
چھوٹی سی مثال موبائل فون کو لیجئے! چند برس قبل موبائل فون کا وجود نہیں تھا‘ اس
کی ایجاد اوراس کے عام ہونے کے بعد کتنے انسانوں کے لئے روزگار کے مواقع اور ذرائع
فراہم ہوئے‘ موبائل ایجاد کرنے والی مختلف کمپنیوں سے وابستہ افراد ‘ موبائل فون
کے پرزہ جات میں استعمال ہونے والی دھاتوں کے فراہم کنندگان سے لے کر موبائل کی
دوکانیں‘ ہر دکان پر کام کرنے والے مختلف لوگ‘ موبائل کے خریدار پھر موبائل کارڈکی
خریدو فروخت میں مصروف کار لوگ‘ پھر موبائل ٹھیک کرنے والوں تک کے اعداد وشمار کون
بتا سکتا ہے؟ بتایئے! چند برس قبل جب موبائل فون جیسے وسائل معیشت کا کسی کو
اندازہ نہیں تھا‘ کیا اس وقت وسائل معاش کی عدم فروانی کا بہانہ بناکر موبائل فون
سے وابستہ کروڑوں انسانوں کی دنیا میں آمد کو بقیہ انسانوں کے لئے بوجھ قرار دیتے
ہوئے نسل کشی کی نذر کردینا جائز ہوسکتا تھا؟ اگر ایسا نہیں تو پھر سچ یہ ہے کہ
خدا کی زمین پر خدا کی مخلوق ‘ بلکہ اشرف المخلوقات کے بڑھنے سے خدا کی زمین اور
اس کے خزانے کم نہیں ہوتے‘ بلکہ حق تعالیٰ شانہ نے انسانیت کی پیدائش سے قبل اس کے
رہن سہن اور خورد ونوش کے اسباب ووسائل کو پیدا فرمادیا ہے۔ اب یہ حکومتوں کی ذمہ
داری ہے کہ ان اسباب اور معاش کے وسائل تک پہنچنے اور ان سے مستفید ہونے کے لئے
تمام رعایا کو عدل وانصاف اور انسانی ہمدردی کے ساتھ مساوی مواقع فراہم کریں‘
انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اگر تمام انسانوں کو اسباب معاش تک رسائی کے مساویانہ
مواقع فراہم کئے جائیں تو ہر انسان اپنی استطاعت کے مطابق ان مواقع سے اپنی
ضروریات کا انتظام کر سکے گا اور وہ معاشرہ پر کسی قسم کا بوجھ نہیں بنے گا۔ طرفہ
تماشا یہ ہے کہ پوری دنیا کے اسبابِ معاش پر تو دنیا کا سرمایہ دار وجاگیردار طبقہ
قابض ہے‘ سرمایہ کی گردش ان کے ہاتھوں سے باہر آتی نہیں‘ جس کے نتیجہ میں سرمایہ
دار مزید سرمایہ دار اور غریب ونادار مزیدغریب ہوتا چلاجارہا ہے‘ بلکہ یوں کہنا
قطعاً غلط نہیں کہ اگر دنیا کے سرمایہ داروں کے زیر کفالت پلنے والے صرف پالتو
جانوروں پر خرچ ہونے والا بجٹ اکٹھا کرکے کسی غریب ملک میں مساویانہ تقسیم کیا
جائے تو بلا مبالغہ اس ملک کی معیشت معمول پر آسکتی ہے۔ اسی طرح سندھ میں پلنے
والے گھوڑوں اور اسلام آباد میں پرورش پانے والے کتوں پر خرچ ہونے والی رقم اگر
اکٹھی کرلی جائے تو ملک کے کسی پسماندہ علاقہ کے لئے یقینا بہترین معاشی پلان تیار
ہوسکتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی معاملہ کے اصل عوامل اور محرکات پر غور
کرنے کی بجائے اس کے ظاہری اثرات کے درپے ہوجاتے ہیں‘ بلکہ محض انسانیت کے حوالے
سے بھی دیکھا جائے تو ہمارے لئے انتہائی شرم وعار کی بات ہے کہ ہم غربت وافلاس
اورمعاشی تنگی سے بچنے کے لئے دوسرے انسانوں کی دنیا میں آمد کے راستے مسدود کرنے
کی پلاننگ شروع کردیں ‘ بلکہ انسانیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم غریب ‘مفلس اور تنگدست
کی غربت اور افلاس کے اسباب پر غور کریں اور ان کے ازالہ کے لئے پلاننگ کریں‘
لوگوں کو روزگار کے مواقع مہیا کرنے اورانہیں ان مواقع تک پہنچنے کی آسان تدبیریں
سوچیں اور وسائل معاش تک پہنچنے کے لئے تمام انسانوں کو یکساں طور پر انصاف کے
ساتھ مواقع فراہم کریں۔ مزید یہ کہ نسل انسانی کو محدود کرنے اور غریب ومفلس کے
لئے صفحہٴ ہستی کو تنگ کرنے کے لئے جتنے وسائل خرچ کئے جارہے ہیں‘ اگر یہی اخراجات
غریبوں میں خوراک وپوشاک کے طور پر تقسیم ہوجائیں تو اس سے بھی غربت وافلاس کی شرح
میں کافی کمی آسکتی ہے۔ اگر غربت وافلاس کے اسباب پر سوچے بغیر غریب ومفلس کو
ناپید کرنے کی پلاننگ ہوتی رہی تو آپ کی ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ جائے گی اور
غریب ومفلس کا اضافہ سرمایہ دار معاشرہ پر بوجھ بنتا چلا جائے گا‘ پھر پورے معاشرے
سے غربت وافلاس اور تنگی کے بد نما داغ کو دھونے کے لئے صرف ہائیڈروجن بم نہیں‘
بلکہ ایٹم بم بھی استعمال کرنے پڑیں گے۔ خدا بزرگ وبرتر انسانوں کو فہم عطا کرے‘
ان کی معاش کو بہتر بنائے۔ کفر وناسمجھی کے اندھیروں سے نکال کر ایمان وسمجھ کی
روشنیاں نصیب فرماے۔۔امین
مصادرومراجع:
1)اردو لغت(تاریخی اصول پر)جلد ۸،ص ۴۱۴،دمبر۱۹۸۷،اردو امت بورڈ کراچی
2)ایضا ص ۴۱۴
3)اردوجامع فیروز الغات،الحاج فیروزالدین،فیروزسنزلاہور،۱۹۶۴،ص ۱۱۶۱
4)اردو لغت(تاریخی اصول پر)جلد ۸،ص ۴۱۵ ،۱۹۸۷،اردو امت بورڈ کراچی
5)ایضا ص ۴۱۵
6)اردو انسایکلوپیڈیا،جلد ۱،ص ۵۶۷،شیخ نیاز احمد لاہور ۱۹۸۷ء
7)طبی لغت،مرتبہ حکیم محمد شریف ص ۹۸۸،مرکزی اردو بورڈ لاہور ۱۹۷۵ء
8)اردوانسایئکلوپیڈیا،جلد ۱،ص ۵۶۷،شیخ نیاز احمد لاہور ۱۹۸۷ ء
9)انسایئکلوپیڈیا اف اسلام بریٹینیکا،والیم ۲،ص ۲۳۶،یونیورسٹی اف
شکاگو ۱۹۸۵
10)ضبط ولادت کی عقلی و شرعی حثیت ،مفتی محمد شفیع،تقی عثمانی
ص۲۰،دارالاشاعت کراچی
11)ایضا ص ۲۰
12)اسلام اور ضبط ولادت،مولانا مودودی ،ص ۱۴
13)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ص ۱۴
14)۔۔۔۔۔۔۔۔ص ۱۵
15)۔۔۔۔۔۔۔۔ص ۱۹
16)اندیشہ اور حقائق،ص ۱(فیملی پلاننگ سیسوسی
ایشن لاہور)
17)شریعت اسلامی اور خاندانی منصوبہ بندی،رفیع اللہ شہاب،ص ۱۱،ادارہ
تحقیق اسلامی راولپنڈی ۱۹۶۷
18)ضبط تولید،محمد علی دھلوی حکیم،ص ۸،دفتر جنسی زندگی نئی دھلی ۱۹۳۱ء
19)اردوانسائکلوپیڈیا آف اسلام،س ۴۴۷
20)اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی،شیخ جعفر پھلواری،ص ۱۳،فیملی پلاننگ
ایسوسی ایشن لاہور
21)اجتہادی اختلافات،رفیع اللہ شہاب،ص ۱۰۸،مقبول اکیڈمی شاہراہ
قائداعظم لاہور
22)بہبودآبادی کا اسلامی تصور،شہاب،ص ۹،دوست ایسوسی ایٹس لاہور ۱۹۹۲
23)القرآن،الاسراء:۳۱
24)اسلام میراث میں خاندانی منصوبہ بندی،مترجم ڈاکٹر رشید
احمدجالندھری،ص ۳،۱۹۹۴
25)ضبط ولادت،ابوالاعلیٰ مودودی،ص ۴۲،ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور
۱۹۶۰ء
26)القرآن،بنی اسرائیل:۳۱
27)معارف القرآن،مفتی محمد شفیع،جلد ۵،ص ۴۶۲،ادارہ معارف کراچی ۱۹۸۱ء
28)ماھنامہ الحکیم لاہور،ص ۱۲۹،نومبر
29)ضبط تولید و اصلاح نسل اور مشاہیر عالم ،ص ۱۸۸،ماہنامہ ہمدرد صحت
دہلی،جولائی ۱۹۳۹ء
30)ایضا ص ۱۸۶
31)ایضا،ص ۱۸۴
32)ضبط تولید،محمد علی دھلوی حکیم،ص ۱۸
33)ضبط ولادت کی عقلی اور شرعی حثیت ،ص:،۱۳مفتی محمد شفیع،تقی عثمانی،
34)عالم اسلام کے خلاف سب سے بڑی جنگ۔۔۔منصوبہ بندی،ص ۶۰
35)اسلام اور ضبط ولادت،مودودی،ص۷۲
36)ضبط ولادت کی عقلی اور شرعی حثیت ،ص ۳۶
37)شرح صحیح مسلم،غلام رسول سعیدی،جلد ۳،ص ۸۸۹
38)بہبودآبادی کا اسلامی تصور،رفیع اللہ شہاب ،ص
۱۳۷
39)ایضا
40)خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق دین کے افکار
اور فتاویٰ،ص ۱
41)ایضا
ص ۹
42)بہبود آبادی کا اسلامی تصور،ص ۱۲۸
43)خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق علماء دین کے افکار اور
فتاوٰی ص ۸
44)اسلام کا معاشرتی نظام،محمد بن علوی(مترجم)ص ۳۰۷
45)شرح صحیح مسلم،غلام رسول سعیدی،جلد ۳،ص ۸۸۴
46)ایضا
ص ۸۸۵
47)اسلام میں حلال وحرام،یوسف القرضاوی،ص ۲۶۴
48)القرآن،ھود:۶
49)القرآن،الطلاق۔۲
50)القرآن،الاسراء:۳۱
51)شرح صحیح مسلم،غلام رسول سعیدی،جلد ۳،ص۸۷۹
۔
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ
جواب دیںحذف کریںالبقره 2 : 233
’’ اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں‘‘
اسلام کہتا ہے کہ جب تک اک بچہ ماں کا دودھ پی رہا ہے دوسرا کا سوچنا نہیں
مطلب دو سال تک اور بچہ نہیں ہو
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو بچوں کا درمیانی فاصلہ تین سال ہو گیا۔۔۔۔
یہی منصوبہ بندی کہلاتی ہے جس کا گورنمنٹ آج سے نہیں کافی عرصہ سے کہ رہی ہے
جب تک ماں بچے کو دودھ پلا رہی ہو تب تلک دوسرا نہیں سوچنا چائیے
یہ اسلام بھی کہتا ہے
اسی کو منصوبہ بندی کہلاتی ہے۔۔۔۔۔
بات کو سمجھو