فقہ اسلامی اور دنیا کے دیگر قوانین


فقہ اسلامی اور دنیا کے دیگر قوانین

                                                          اسلامی فقہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین قوانین میں سے ہوتا ہےفقہ اسلامی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے ضروری ہے۔ کہ دنیا کے دیگر معروف قوانین کا جائزہ لیا جائے کہ ان کے اصول ومبادی کیا تھے؟کیونکہ اسلامی کے متعلق یہ پروپیگینڈا کیا جاتا ہے کہ یہ  رومن لاء کا مآ خذ ہے ۔یہ بیسویں صدی کے مستشرقین کی کارستانی ہے،لہذا یہ ضروری ہے  کہ ان قوانین کا  تقابل اسلامی فقہ سے کیا جائے۔
اسلام سے پہلے چار قوانین موجود تھے،جو دینا میں رائج رہے
ان میں سے قانون حموربی اور قانون روم  کا مختصر جائزہ لیا جائے گا،
۱)قانون حموربی  
۲)قانون یہودی
۳)قانون منوشاستر
۴)قانون  روم
۱)قانون حموربی
اسے دنیا کا قدیم ترین قانون کہا جاتا ہے،اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ آج بھی تاریخ علم قانون میں قانون حموربی کا مطالعہ بڑی دلچسپی سے کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر محمود احمد غاذی قانون حموربی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں
"قدیم ترین قانون جو آج ہمارے سامنے موجود ہے،وہ قانون حموربی ہے۔اور جس کا متن دنیا کی ہر بڑی زبان میں مطبوعہ موجود ہے،حموربی حضرت عیسیً سے تقریبا پونے دو ہزار سال پہلے گزرا ہے،اس کی وفات کا اندازہ ۱۷۵۰ قبل مسیح کیا جاتا ہے،بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ وہی
شخص ہے،جس کو دنیائے اسلام نمرود کے نام سے جانتی ہے،یہ حضرت ابراہیمً کا معاصر تھا،اس نے قوانین کا مجموعہ تیار کروایا تھا جو کئی سو دفعا ت پر مشتمل ہے۔یہ فرمانروا کم و بیش پینتالیس سال حکمران رہا۔اس نے دنیا کا قدیم ترین مجموعہ جو کل دو سو بیاسی دفعات پر مشتمل ہے ،ایک بڑی سنگ لوح پرکنندہ کروایا تھا۔آٹھ فٹ بلند یہ لوح جو اس کے زمانے میں لکھی گئی تھی،۱۹۰۱ میں دستیاب ہوئی۔،اگر اس قانون کا سرسری جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر انسان کو اللہ تعالی کی اور اس کے بیجھے ہوئے انبیا ء کی رہنمائی میسر نہ ہو تو وہ کس انداز کا قانون مرتب کرتا ہے،
قانون حموربی اور اس کے مندرجات                 
قانون حموربی انسانوں کا بنایا ہوا قانون ہے،اور وہ انسان بھی مشرک،لہزا اس قانون کی مندرجات کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے
ڈاکڑ محمود احمد غازی اس قانون پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
"قانون حموربی کا آغاز بھی دیوتاوٗں سے ہوتا ہے اور انتہا بھی بتوں اور دیوتاوں کے حضور دعائیہ مضامین کے الفاظ پر ہوتی ہے۔جگہ جگہ اس قانون میں قانون  کے مخالفین پر لعنت کی گئی ہےجو ا حکام دیئے گئے ہیں ان کے مبنی برعدل وانصاف اور مبنی بر معقولیت ہونے کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ اس  قانون کی رو سے جھوٹے گواہ کی سزا موت ہے،غلط فیصلہ کرنے والے جج کو جرمانہ بھی کیا جائے اور بر طرف بھی کیا جائے،ایک زیادہ دلچسپ مثال یہ ہے کہ اگرکسی شخص  کے کسی مکان ،دکان یا کسی بھی عمارت کی دیوار گر جائے اور اس کے نتیجے میں کوئی شخص مر جائے، تو بنانے والے مستری یا معمار کے بچے کو مجرم قرار دیتے ہوئے  اس کو سزائے موت دی جائے،یہ دنیا کے قدیم ترین قانون کی ایک دفعہ ہے،اس قانون کے تحت  انسانی آبادی ایک طرح کے انسانوں پر مشتمل نہیں تھی،بلکہ اس نے آبادی کو تین طبقات مین تقسیم کیا ہوا تھا،ایک طبقہ حکام یا اشرافیہ کا طبقہ،ایک عامتہ الناس اور ایک غلاموں کا طبقہ،لیکن ان احکام کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس قانون میں بعض ایسی مثالیں موجود ہیں ،جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب یہ قانون مرتب کیا جا رہا تھا تو وہاں بعض  آسمانی شریعتوں کے بقایا جات بھی موجود تھے۔ان آسمانی شریعتوں کے  بقایا جات بظاہر حضرت  نوحً،حضرت ادریس ً یا کسی اور قدیم تر پیغمبر کی شریعت کے تھے،جن کو ہم نہیں جانتے،لیکن  بعض ایسی مثالیں موجود  ہیں،جن سے پتہ چلتا ہے کہ بعض آسمانی کتابیں یا کم از کم ان کی ماندہ  تعلیمات وہاں موجود  تھیں۔جن کے اثرات اس قانون میں پائے جاتے ہیں
                                                                                                                        (محاضرات فقہ،ص:۱۳،۱۴،)
قانون روما
ڈاکٹر  محمود احمد غازی مزید لکھتے ہیں          
"حموربی  قانون کے علاوہ دنیا کا دوسرا قدیم قانون یہودی کا قانون ہے،بھر شاید ہندووں کا منوشاستر ہے،پھر دنیائے مغرب کا وہ قانون جس پر اہل مغرب کو آج بھی  ناز ہے ،وہ رومن لاء ہے۔یہ وہ قانون ہے جس کا آغاز  بھی قبل مسیح چوتھی یا پانچویں صدی سے ہوتا ہےیہ قانون پہلی بار ۴۵۰ قبل مسیح میں بارہ تختیوں پر لکھا گیا،قانون کا بیشتر حصہ سابق سے  رائج الوقت  رسوم و روجات کی تدوین  سے ہی عبارت تھا۔کچھ  احکام دوسری  مثلا یونانیوں سے ماخوذ  بتائے جاتے ہیں،ان دوازدہ الواح کے مندرجات میں بعض قانونی ضوابط کے علاوہ مذہبی مراسم اور جنازہ اوع میت کے احکام  بھی شامل تھے۔اسلوب  میں قانونی تقاضوں  اور دو ٹوک انداز کی بجائے شاعرانہ اور مبالغہ آمیز اسلوب اپنایا گیا ہے،قانونی احکام بہت سخت اور بعض جگہ نا قابل عمل انداز کے تھے۔ یہ قانون مسلسل ترقی کرتا رہا اور کئی بار لکھا گیا،اس قانون کی ایک اہم تدوین کی مثال وہ قانون ہے جو رسول اللہﷺ کے بہت بچپن کے زمانے میں مرتب کیا گیا۔غالبا جب رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کو چند  سال ہوئے ہوں گے۔اس وقت ایک رومی  فرمانروا جسٹینین نے یہ احکام از سر نو مرتب کرائے تھے۔ان سب قوانین  کے مجموعے  کو رومن لاء کہا جاتا ہے۔رومن لاء نہ صرف پوری سلطنت روما میں رائج رہا،بلکہ ان علاقوں میں بھی رائج رہا ،جہاں رومی حکومت  کے باج گزار فرمانروا حکمران  تھے اور جہاں رومی سلطنت  کے اثرات تھے۔
رومن لاء کے بنیادی مضامین تین تھے
۱)اشخاص کا قانون
۲)اشیاء کا قانون
۳)اعمال کا قانون
گویا افراد،اشیاء اور اعمال ان تین شعبوں میں انھوں نے رومن لاء کو تقسیم کیا"
                                                                                    (محاضرات فقہ،ص:۱۶،۱۷)
تاریخ کے دو  مشہور قوانین کے  جائزہ سے یہ معلوم ہوا کہ کہ اسلامی فقہ اور  رومن لاء اپنی اصل کے اعتبار سے  الٹ ہیں اسلامی فقہ کی اساس وحی الہی ہے جبکہ رومن لاء انسانوں کا بنایا ہوا قانون ہے،جو انسانوں کو نسل پرستی جیسی عصبیتوں میں جکڑ تا ہے۔لہذا یہ رومن لاء کا مآخذ لیسے ہو سکتا  ہے،



































































































































































































































































































































































































































































تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر