ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

عبدالستار ایدھی ایک عہد ساز،درد دل رکھنے والے ایک پرعزم انسان تھے۔جن کی ساری زندگی خدمت سے عبارت ہے۔ایدھی کا بچپن محرومیوں سے پر تھا۔اپنی والدہ کو بچپن سے دکھی دیکھا۔یہ دکھ عمر بھر ان کا ساتھ رہااور آنکھوں سے چھلکتا رہا۔کراچی کی گلیوں میں نالے پراندے اور غبارے بیچ کر ضروریات زندگی پوری کرنے والے اس بچے نے محرومیوں کو جواز نہیں بنایا بلکہ اپنی طاقت بنا لیا۔بہت کم لوگ اس را ز سے واقف ہوتے ہیں کہ میس کو انرجی میں کنورٹ کیا جا سکتا ہے۔عبدالستار ایدھی نے بچپن سے گر سیکھ لیا اور دکھ درد میں ڈوبے رہنے کی بجائے دوسروں کو دکھ سے نکالنے کا بیڑا اٹھایا۔
کراچی کی گلیوں میں غبارے بیچتے اس بچے نے  حالات کی تلخیوں کو بڑے قریب سے دیکھا۔ماں کے آنسووں نے ایدھی کے دل میں اتنی وسعت پیدا کر دی تھی کہ اب ان کو دوسروں کے دکھ بھی اپنے لگتے تھے۔اپنی محرومیوں پہ شکوہ کنا ہونے کی بجائے انھوں نے ایک الگ راستہ چنا۔دکھی سسکتی اور بلکتی انسانیت کے زخموں پہ مرہم رکھنا۔یہ وہ کام ہیں  جو عبدالستار ایدھی نے عبادت سمجھ کر کیا اور تا حیات کیا۔
مریضوں کو ہاتھ سے لے جانے والی گاڑی  سے آغاز کیا۔اللہ نے اس میں اتنی برکت ڈالی کہ دنیا کی سب سے بڑی فری ایمبولینس   کا اعزاز ایدھی صاحب کے حصے میں آیا۔آندھی ہو یا طوفان،سیلاب کی تباہ کاریاں ہو یا زلزلے تلے دبے انسان۔۔۔ایدھی ایمبولینس سب سے پہلے وہا ں پہنچتی اور مریضوں کو ریسکیو کرتیں۔ایمبولینس سے ہیلی کاپٹر تک کا سفر ایدھی کی خلوص نیت اور جدجہد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ایدھی کی وفات ایک پیغام ہے۔موٹیویشن ہے۔کہ دکھی انسانیت سسک رہی ہے آگے بڑھو۔جیتے تو سبھی ہیں مگر دوسروں کے لیئے جینا یہی اصل زندگی ہے۔فطرت کی رعنائیاں چاروں طرف پھیلی یہ پیغام دیتی ہے کہ دوسروں کے کام آؤ،دوسروں کا سہارا بنو۔۔درخت اپنا ھل خود نہیں کھاتے۔۔اپنے سائے کے نیچے خود نہیں بیٹھتے۔۔جانور اپنا گوشت اور دودھ خود استعمال نہیں کرتے۔۔۔جہاز ،سمندر سب انسان کی خدمت پہ مامور ہیں۔تو آخر کیا وجہ ہے کہ انسان اپنے کام سے غافل کیوں؟
ایدھی لا چاروں بیواوں اور بے سہاروں کا سہارا تھا،چھت تھا،شفقت بھری چھاؤں تھا۔ایدھی جیسے لوگ مرتے نہیں امر ہو جاتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ شیخ سعد ی کے انتقال کا وقت قریب آیا تو کہنے لگے میں "میں دنیا کی مسند سے دلوں کی مسند میں منتقل ہو رہا ہوں"جہاں لو گ ہمیشہ زندہ رہتے۔۔ایدھی اور ان کا مشن ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔
تجھے کس پھول کا کفن ہم دیں

کہ تو جدا ایسے موسموں میں ہوا جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں! 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر