نصرانیت/عیسائیت/christanity

وجہ تسمیہ:؎
سامی  مذاہب کی دوسری کڑی" مذہب عیسائیت"ہے۔جسے نصرانیت بھی کہا جاتا ہے۔لغوی مفہوم کے اعتبار سے  نصاریٰ کی وضاحت  فیروز الغات میں اس طرح سے کی گئی ہے۔
نصر ونصرتہ۔۔مدد فتح،نصران و نصرانی (ج) نصاریٰ عیسائی نصیر یعنی مددگار[1]
ااردو دائرہ معارف اسلامی میں  ہے:
نصاریٰ۔۔واحد نصرانی ،حضرت عیسیٰؑ کے بالخصوص مشرقی کلیسا کے پیروکار ،مادہ ،ن ص ر(نصرا:مددکرنا)سے اسم فعل بمعنی "مددگار "وغیرہ۔"نصرانی" کا مونث "نصرانیہ" ہے۔[2]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
"سمیت النصاریٰ،نصاریٰ لان قریتہ عیسیٰ ابن مریم کانت تسمیٰ ناصرتہ وکان اصحابہ یسمون الناصرین " [3]
اور یہی قول قتادہ و ابن جریج تابعین کا ہے۔نیز بعد کے محققین  اور مفسرین کا بھی ہے۔
"و ھو قول ابن عباس و قتادہ و ابن جریج"[4]
"سمو بذیل لقریتہ تسمی ناصرتہ کان نیند لھا عیسیٰ فلما ینسب  اصحابہ  اللہ قیل النصاریٰ "[5]
اور غور طلب نکتہ یہ ہے کہ قرآن یہاں مسیحیوں کا نہیں بلکہ نصاریٰ کا ذکر کر رہا ہے۔اور قرآن کریم کا ہر لفظ حکمت پر مبنی ہے۔ مسیح وہ ہیں جو اناجیل اربعہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ کہ وہ جو انجیل پر ایمان رکھتے تھے جو حضرت عیسیٰ ؑپر نازل ہوئی۔ یہ نجات دہندہ خدا کو نہیں بلکہ مسیح ابن للہ کو مانتے ہیں۔اس کھلے شرک کے پیروکاروں کا ذکر ہر گز یہاں مقصود نہیں ہے۔اس لیئے نام بھی نصرانی لیا گیا ہے۔نصرانی معرب ہے   Nazarene    کا ،حضرت مسیحؑ کے سچے پیروکار نبی کو نبی ماننے والے ،ابتدائی زمانہ  میں  Nazarenes  کہلاتے تھے۔سورتہ المائدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ ٱلنَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ ٱلْيَهُودَ وَٱلَّذِينَ أَشْرَكُواْ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ ٱلَّذِينَ قَالُوۤاْ إِنَّا نَصَارَىٰ[6]
ترجمہ:              آپ لوگوں میں ایمان  والوں کے ساتھ سب سے بڑھ کر دشمن  رکھنے والے یہود اور مشرکین ہی کو پائیں گے۔اور آپ ایمان والوں کے ساتھ دوستی میں سب سے قریب تر انہی کو پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں۔"
"قال قتادہ نزلت فی ناس من اھل الکتاب کانوا علی شریعتہ ما جاء بہ عیسیٰؑ امنوا بالرسول فاثنی اللہ علیھم " [7]
سید مودودیؒ وجہ تسمیہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:            
"لفظ عیسائیت عیسیٰ ؑ کے نام سے ماخوذ  تو ہے مگراس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے اپنے پیروکاروں کا یہ نام نہیں رکھا۔یہودیت اور عیسائیت دونوں بعد کی پیداوار ہیں۔قرآن کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کا لقب مسیح ہے۔قرآن نے عیسائیوں کے لیئے لفظ نصاریٰ استعمال کیا ہے۔جہاں تک نصاریٰ کی بات ہےتو یہ لفظ ہےناصرہ سے ماخوذ ہے  ۔جو مسیحؑ کا وطن تھا۔دراصل اس کا ماخذ "نصرت" ہے۔اور اس کی بناء وہ قول ہے جو مسیحؑ کے سوال من انصاری الی اللہ(خدا کی راہ میں کون لوگ میرے مددگار ہیں)کے جواب میں حواریوں نے کہا تھا کہ نحن انصاراللہ (ہم اللہ کے مددگار ہیں) انسائیکلو پیڈیا آف بریٹینیکا میں بھی  جو عیسائیت کی تعریف کی گئی ہے وہ یہی ہے۔"وہ مذہب جو اپنی اصلیت ناصرہ کے باشندے کی طرف منسوب کرتا ہے۔اور اسے خدا کا منتخب مسیح مانتا ہے"[8]
وھبہ الزحیلی لکھتے ہیں
اتباؑ عیسیٰؑ سمو بالنصاریٰ نسبت الی قریتہ الی قریتہ فی فلسطین یقال لھا ناصرتہ ،وکان عیسیٰؑ بن مریم نیند لھا [9]
یعنی  نصاریٰ تو حضرت عیسیٰؑ کے متبعین کا نام ہے۔ان کا یہ نام اس لیئے  پڑا کہ ان کی نسبت فلسطین کے ایک قصبہ ناصرہ کی طرف ہے۔جہاں عیسیٰؑ پیدا ہوئے۔
سید مودودی ؒ لکھتے ہیں کہ
"عیسائی مصنفین کو بالعموم ظاہری مشابہت دیکھ کریہ غلط فہمی پیدا ہوئی کی مسیحیت کی ابتداء ابتدائی تاریخ میں ناصریہ (NAZARATH)  کے نام سے جو ایک فرقہ پایا جاتا تھا اور جنھیں حقارت کے ساتھ ناصری اور ایبونی کیا جاتا تھا۔انہی کے نام کو قرآن نے تمام عیسائیوں کے لیئے استعمال کیا ہے۔لیکن قرآن یہاں خود کہہ رہا ہےکہ انھوں نے خود کہا تھا کہ ہم انصاری ہیں۔اور یہ ظاہر ہے کہ عیسائیوں نے اپنا نام کبھی ناصری نہیں رکھا۔"[10]
جبکہ کتاب اعمال سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
"اس گروہ کانام مسیحی (Christian) مرتبہ 43ء  یا 44 ء میں انطاکیہ کےمشرک باشندوں نے رکھا تھا،جب کہ سینٹ پال  اور برنباس نے وہاں پہنچ کر اپنے مذہب کی تبلیغ عام شروع کی"[11]
سید مودودیؒ لکھتے ہیں کہ
"اس طرح رفتہ رفتہ یہ لوگ خود بھی اپنے آپ کواسی نام سے موسوم کرنے لگے۔ان کے دشمنوں نے طنزا انھیں موسوم کیا تھا،یہاں تک کہ آخرکار ان کے اندر سے یہ احساس ہی ختم ہو گیا کہ یہ دراصل برا  لقب تھا جو انھیں دیا گیا تھا۔"[12]
مولانا تقی عثمانی لکھتے ہیں
"عیسائی حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ "عیسائی مذہب"کی بنیاد حضرت عیسیٰؑ نے رکھی تھی۔اور انہی  کی تعلیمات پر آج کا عیسائی مذہب قائم ہے۔ لیکن ہماری تحقیق کا نتیجہ اس کے بالکل برخلاف ہے۔حضرت عیسیٰؑ نے جس مذہب کی تعلیم دی تھی۔وہ ان کے کچھ عرصے بعد ختم ہو گیا تھا۔اور اس کی جگہ ایک ایسے مذہب نے لے لی کہ جس کی تعلیمات حضرت عیسیٰؑ کے اقوال اور ارشادات کے بالکل بر خلاف تھیں۔اور یہی نیا مذہب ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا  آج "عیسائیت "کی موجودہ شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ہم پوری دیانتداری اور خلوص  کے ساتھ تحقیق کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں  کہ موجودہ عیسائی مذہب کے اصل بانی حضرت عیسیٰؑ نہیں ہیں۔بلکہ پولوس ہے۔جس کے 14 خطوط بائیبل میں شامل ہیں۔"[13]
عیسائیت کے زمانہء ظہور پہ سید مودودیؒ لکھتے ہیں
" کہ موجودہ عیسائیت تیسری صدی قبل مسیح میں پیدا ہوئی۔"[14]شاہ  قسطنطین کی عیسائیت میں آمد اور نرم گوشے سے بالآخر عیسائیت کو سرکاری سطح پر تقسیم کر لیا گیا۔"325ء شہر ازنیق میں پادریوں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔جس میں 325 پادریوں نے حق میں بیان دیا اور ایک ہزار سات سو تیس نے مخالفت کی۔لیکن شاہ قسطنطین نے 325 پادریوں کی حمایت میں  عیسائیت پر سرکاری مہر ثبت کر دی۔اور رومی سلطنت عیسائی ہوگی۔اور قیصر تھوڈوسس کے زمانے میں یہی مذہب سلطنت کا سرکاری مذہب بن گیا۔اس تاریخ سے اس مذہب کی مخالفت ممنوع قرار پائی،اور سرکاری طور پر چار اناجیل کو متفقہ طور پر تسلیم کر لیا گیا۔متی،مرقس،لوقا اور یوحنا۔367ء میں پوپ ڈیمسس کی زیرصدارت ایک مجلس نے کی۔اور پانچویں صدی کے آخر میں پوپ گلاسیس نے اس مجموعے کو مسلم قراردیالیکن کلیسا کے جو عقائد مسلم قرار دیئے گئے تھے۔ان کے متعلق کوئی عیسائی عالم یہ دعویٰ نہیں کر سکا۔کہ ان میں سے کسی عقیدے کی تعلیم خود حضرت عیسیٰؑ نے دی تھی۔بلکہ معتبر کتابوں کے مجموعہ میں جو انجیلیں شامل ہیں۔خود ان میں بھی حضرت عیسیٰؑ کے اپنے  کسی قول سے ان عقائد کا ثبوت نہیں ملتا۔ "[15]
احمد شلبی لکھتے ہیں کہ
فشاول الذی سمی فیما بعد بولس ھو فی الحقیقتہ موسس المسیحیتہ"
"یعنی شاول جس کا بعد میں نام پولس مشہور ہوا درحقیقت  مسیحیت کا بانی ہے۔"
ڈاکٹر نادر رضا صدیقی لکھتے ہیں۔
"یہ اعتراف مشہور عیسائیوں کی طرف سے ہے جو خود بھی مذہبی ہیں۔لہذا ان حقائق کے پیش نظر یہ کہنا حقیقت کے خلاف نہیں کہ موجودہ عیسائیت پولوس کی قائم کردہ ہے۔جس پر یونانی رنگ  چڑھا ہوا ہے۔"[16]
سید مودودیؒ  نے "عیسائیت"مذہب کے حوالے سے جو تحقیق کی ہے۔اور اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں جہاں کہیں بھی "حضرت عیسیٰؑ"کا ذکر آیا ہے وہاں پہ قرآن اور بائیبل کی روشنی میں عیسائیت مذہب،تعلیمات اور ان کی تاریخ پر تفصیلی بحث کی ہے۔مقالے میں ان مباحث اور ان کی کتاب "نصرانیت قرآن کی روشنی میں"سے اہم مباحث کو مقالہ کی  ضرورت کے مطابق موضوع گفتگو بنایا جائے گا۔انشاءاللہ
ولادت عیسیٰؑ:
حضرت عیسیٰؑ کی بشارت:
حضرت عیسیٰؑ ابن مریم ؑ  سلسلہ انبیائے اکرام  کے آخری نبی اور حضرت مریمؑ کے بیٹے ہیں۔ان کا نسب نامہ ابن کثیر کے مطابق یوں ہے۔
"          عیسی ٰؑ بنت عمران  بن ہاشم بن امون  بن میشنا بن حزابا ان احریق  بن موثم بن عزاز یا بن امصیاس یاوش  بن  احریھوبن یارم بن  یھذا شاط بن س یشا بن ایان بن رھبعام بن  سلیمان بن داود۔[17]
المسیح:لفظ معرب عن العبرانی واصلہ مشیحا "[18]
  اردو دائرہ معارف اسلامی کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کا تعارف کچھ یوں کرواتے ہیں۔
"عیسیٰؑ  بن مریمؑ سلسلہء انبیائے بنی اسرائیل کے آخری نبی اور حضرت مریمؑ کے بیٹے۔۔۔قرآن مجید میں حضرت عیسیٰؑ ان کی والدہ ماجدہ مریمؑ ،ان کے نانا حضرت عمران ؑ اور ان کی نانی ( حنہ بنت فاقوذ) جسے امراتہ عمران کہا گیا ہےبلکہ ان کے پورے خاندان کو ان لوگوں میں شمارکیا گیاہے جن کے زریعے اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر خیروبرکت پھیلائی۔"[19]
قرآن نے حضرت مریمؑ کو دنیا کی تمام عورتوں پہ فضیلت بخشی اور ایک انوکھے کام کے لیئے  چنا،جو دنیا میں پہلی مرتبہ رونما ہونے جا رہا تھا،۔احمد بن ابی الیعقوب کہتے ہیں۔
"حضرت مریمؑ کو جب زکریاؑ کی کفالت میں سترہ سال ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے مریمؑ کی طرف فرشتے کو بھیجا کہ اس پاکیزہ لڑکے کی بشارت دے۔یہاں تک کہ حمل کے ایام پورے ہوگئے۔حضرت عیسیٰؑ پیدا ہوئے۔اور انھوں نے گہوارے میں کلام کیا ۔آپ کی جائے ولادت فلسطین میں بیت الحم میں ہوئی۔"[20]
قرآن کریم  میں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کا تذکرہ اس طرح بیان ہوا ہے۔
إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ۔وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ۔قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ ۖقَالَكَذَٰلِكِاللَّهُيَخْلُقُمَايَشَاءُۚإِذَاقَضَىٰأَمْرًافَإِنَّمَايَقُولُلَهُكُنْفَيَكُونُ۔[21]
ترجمہ:جب فرشتوں نے کہا کہ اللہ تجھے ایک فرمان کی خوش خبری دیتا ہے۔اس کا نام مسیح ابن مریمؑ ہوگا۔دنیا اور آخرت میں معزز ہوگا۔اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا۔لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمر میں بھی،وہ ایک مرد صالح ہوگا،یہ سن کر مریمؑ بولی۔"پروردگار!میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا۔مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔"جواب ملا"ایسا ہی ہوگا۔اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے"
ان آیات کی تفسیر میں سید مودودیؒ لکھتے ہیں:
"یعنی باوجود اس کے کہ کسی مرد نے تجھے ہاتھ نہیں لگایا،تیرے ہاں بچہ پیدا ہوگا۔یہی لفظ کذلک (ایسا ہی ہوگا)حضرت زکریاؑ کے جواب میں بھی کہا گیا تھا۔اس کا جو مفہوم وہاں ہے یہاں بھی ہونا چاہیئے۔نیز بعد کا فقرہ بلکہ پچھلا اور اگلا سارا بیان  اسی معنی کی تائید کرتا ہے۔کہ حضرت مریمؑ کو صنفی مواصلت کے بغیربچہ پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔ورنہ اگر بات یہی تھی۔کہ حضرت مریمؑ کے ہاں اسی معروف طریقے سے بچہ پیدا ہونے والا تھا۔جس طرح عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے۔اور اگر حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش فی الواقع اسی طرح ہوئی ہوتی تو یہ سارا بیان قطعی مہمل ٹھہرتا ہے۔جو چوتھے رکوع سے چھٹے رکوع تک چلا جا رہا ہے۔اور وہ تمام بیانات بھی قطعی مہمل ٹھہرتے ہیں۔جو ولادت مسیح ؑکے باب میں قرآن کے دوسرے باب میں قرآن کے دوسرے مقامات پر ہمیں ملتے ہیں۔عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کو ابن اللہ اور الہٰ اسی لیئے سمجھا تھاکہ ان کی پیدائش غیرفطری طور پر ہوئی تھی۔اور یہودیوں نے حضرت مریمؑ پر الزام بھی اسی لیئے لگایا تھا  کہ سب کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک لڑکی غیر شادی  شدہ لڑکی کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی۔اگر سرے سے یہ واقعہ ہی نہ تھا تو ان دونوں گروہوں سے صرف اتنا کہہ دیا جاتا کہ تم دونوں غلط ہو۔وہ لڑکی شادی شدہ تھی فلاں بندہ اس کا شوہر تھا۔اور اسی کے نطفے سے حضرت عیسیٰؑ پیدا ہوئے۔یہ مختصر سی دو ٹوک بات کہنے کی بجائے آخر اتنی لمبی تمہیدیں اٹھانےاور پیچ در پیچ باتیں کرنے اور صاف صاف مسیح بن فلاں کہنے  کی بجائے مسیح ابن مریمؑ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟جس سے بات سلجھنے کی بجائے اور الجھ جائے۔جو لوگ قرآن مجید کو کلام اللہ مانتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی یقین رکھتے کہ مسیحؑ کی پیدائش ماں اور باپ کے اتصال سے ہوئی ہے وہ معاذاللہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ اللہ تعالیٰ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی اتنی سی قوت بھی نہیں رکھتے جتنی یہ حضرات رکھتے ہیں۔"[22]
حضرت مریمؑ کی گواہی خود قرآن نے دی ہے۔
و امہ صدیقہ[23]
ترجمہ:اور اس کی ماں سچی تھی۔"
امام رازی  لکھتے ہیں کہ
"المراد یکونھا صدیقہ غایتہ بعد ھا عن المعاصی "
"یعنی صدیقہ سے مراد وہ گناہ سے حد درجہ دور رہنے والی ہیں"
حدیث میں بھی حضرت مریمؑ کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
حسبک من نساء العلمین باربع مریم بنت عمران وآسیہامراتہفرعون وخدیجہبنتخویلدوفاطمتہبنتمحمد[24]
"یعنی تجھے تمام جہاں  والوں میں سے چار عورتیں ہی فضیلت کے لیئے کافی ہیں۔حضرت مریم بنت عمران،آسیہ زوجہ فرعون،خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمدﷺ۔"
قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے ماقبل تک کے واقعات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔جیسے حضرت مریم کی والدہ نذر ماننا ،حضرت مریمؑ کی پیدائش،حضرت  مریمؑ کی والدہ کا دعا مانگنا اور اللہ کا قبول فرمانا،حضرت مریمؑ کا حضرت زکریاؑ کی کفالت میں آنا،حضرت مریم کے پاس ملائکہ کی آمد،اور حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کی بشارت دینا،حضرت مریم کا استعجاب اور پھر پیدائش کی غرض سے مشرقی جانب گوشہ نشین ہونا اور حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش اور لوگوں کا رد عمل۔چپ کا روزہ رکھنا،گہوارے میں حضرت عیسیٰؑ کا کلام کرنا۔۔وغیرہ
رسالت :
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَرَسُولاً إِلَىٰ بَنِىۤ إِسْرَائِيلَ أَنِّى قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ[25]
"اورآیا تمہارے پاس  بنی اسرائیل کی طرف رسول تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر"
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
مَّا ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ[26]
"نہیں ہیں مسیح ابن مریمؑ مگر رسول،جیسا کہ ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔"
اس بات کی صراحت کہ حضرت مسیحؑ  بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور انہی میں پیدا ہونے والی برائیوں کی اصلاح کی غرض سے تشریف لائے تھے۔بالکل ایسے کہ جیسے دیگر انبیاء تشریف لاے تھے۔خو د ان کی تحریف شدہ بائیبل تک میں یہ اشارات موجود ہیں۔یہ تو پولوس تھا جس نے  حضرت عیسیٰ ؑ کے تحریف شدہ پیغام کو بنی اسرائیل سے باہر پھیلایا۔اور آج تک مسیحیت اس غلطی کو دہرا کر مسیحیت کی اقوام عالم میں تبلیغ کر رہی ہے۔علامہ ابن حزم  ؑنے اس پر بحث کی ہے۔
"ان المسیح قال التلامیذہ :لا تحسبو ا انی قد آتیت لنقض التورات  و کتب الانبیاء  انما  اتیت لاتمامھا۔"[27]
"یعنی  مسیح علیہ السلام  نے اپنے شاگردوں  سے کہا تھا کہ یہ نہ سمجھنا کہ میں توراتہ  کو اور انبیاء کی دیگر کتب کو ختم کرنے آیا ہوں،بلکہ میں تو ان کو پورا کرنے آیا ہوں۔"
حضرت عیسیٰؑ کی  تعلیمات:
حضرت عیسیٰؑ بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے جو قوم یہود کی طرف مبعوث کیئے گئے۔۔۔عیسائیت کوئی نیا دین نہیں تھا بلکہ یہودیت کی نئی شکل تھی۔جو بگڑی ہوئی قوم کی مردہ روح کو بیدار کرنے کے لیئے آیا۔اس وقت غلامی کا دور دورہ تھا۔حالات اس قدر بگڑ چکے تھے۔کہ ان کےسدھرنے کی کوئی توقع نہ تھی۔انسانوں کے ایک محدود طبقے نے طاقت وقوت کے تمام سر چشموں پرقبضہ کر کے خدا کی مخلوق کو مفلوج اور اپاہج بنا دیا تھا۔انسانیت ظلم واستبداد کی چکی میں پس کر رہ گئی تھی۔اور انھیں ان مصائب سے نجات دلانے والا کوئی نہ تھا۔
 جہاں تک حضرت عیسیٰؑ کی مستند تعلیمات کی بات ہے تو وہ صرف قرآن مجید میں ملتی ہیں۔ موجودہ اناجیل  میں اتنی وضاحت نہیں ملتی تاہم منتشر طور پر اشارات کی شکل میں وہ تینوں بنیادی نکات ہمیں ان کے اندر ملتے ہیں جو سورہ  آل عمران میں بیان کیئے گئے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ۔إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ[28]
ترجمہ:"اور جب عیسیٰؑ صریح نشانیاں لیئے ہوئے آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ "میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور اس لیئے  آیا ہوں کہ تم پر بعض ان باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو۔لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،یہی سیدھا راستہ ہے۔"
یعنی عیسیٰؑ نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو،بلکہ ان کی دعوت وہی تھی جو تمام دوسرے انبیاءؑ کی  دعوت تھی۔
وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ[29]
ترجمہ:"(اور عیسیٰؑ نے کبھی یہ نہیں کہا تھا) اللہ میرا رب بھی ہے،پس تم اسی کی بندگی کرو،یہی سیدھی روہ ہے۔"
متی  کی انجیل میں ہے۔
"تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر"[30]
سید مودودیؒ اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اور صرف یہی نہیں کہ وہ اس کے قائل تھے بلکہ ان کی ساری کوششوں کا مقصود یہ تھا۔کہ زمین پر خدا کے امرشرعی کی اسی طرح اطاعت ہو جس طرح آسمان پر اس کے امر تکوینی کی اطاعت ہو رہی ہے۔
"تیری بادشاہی آئے۔تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔"
پھر یہ بات کہ مسیحؑ اپنے آپ کو نبی اور آسمانی بادشاہت کے نمائندے کی حثیت سے پیش کرتے تھے۔اور اسی حثیت سےلوگوں کو اپنی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے،ان کے متعدد اقوال سے معلوم ہوتی ہے۔انھوں نے جب اپنے وطن ناصرہ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ان کے اپنے ہی بھائی بند اور اہل شہر ان کی مخالفت کے لیئےٹھ کھڑے ہوگئے۔اس پر متی،مرقس اور لوقا تینوں کی متفقہ روایت ہے۔کہ انھوں نے فرمایا۔"نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا"اور جب یروشلم میں ان کے قتل کی سازشیں ہونے لگیں اور لوگوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کہیں اور چلے جائیں تو انھوں نے جواب دیا۔"ممکن نہیں کہ نبی یروشلم سے باہر ہلاک ہو۔"[31]آخری مرتبہ جب وہ یروشلم میں داخل ہو رہے تھے تو ان کے شاگردوں نے بلند آواز  سے کہنا شروع کیا۔"مبارک ہے وہ بادشاہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے۔"اس پر یہودی علماء ناراض ہوئےاور انھوں نے حضرت مسیحؑ سے کہا کہ آپ اپنے شاگردوں کو چپ کریں اس پر آپ نے فرمایا"اگر یہ چپ رہیں گے تو پتھر پکار اٹھیں گے۔"[32]
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ ۖ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنْكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ۔[33]      
ترجمہ:"پھر تصور کرو اس موقع کا جب اللہ فرمائے گا کہ "اے مریم کے بیٹے عیسیٰؑ ،یا د کر میری اس نعمت کو جومیں نے تجھے اور تیری ماں کو عطا کی تھی،میں نے روح پاک سے تیری مدد کی ،تو گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرتا تھا۔اور بڑی عمر کو  پہنچ کر بھی ،میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی،تو میرے حکم سے مٹی کا پتلا پرندے کی شکل کا بناتا اور اس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا،تو مادرذاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے مٹی کا پتلا بنا ،پرندے کی شکل کا بناتا اور اس میں پھونکتا تھا۔اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا،تو مادر ذا اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، تو مردوں کو میرے حکم سے نکالتا تھا،پھر جب تو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا  اور جو لوگ  منکر حق تھے۔انھوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادوگری کے سوا اور کچھ نہیں ہیں۔تو میں نے ہی تجھے ان سے بچایا۔"
ایک اور موقع پر آپ نے اٹھایا
"اے محنت اٹھانے والو!اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو!سب میرے پاس آؤ،میں تم کو آرام دوں گا،میرا جوا اپنے اوپر اٹھا لو۔۔۔میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا ہے۔"[34]
پھر یہ بات کہ مسیحؑ انسانی ساخت کے قوانین کے بجائے خدائی قانون کی اطاعت کرانا چاہتے تھے،متی مرقس کی اس روایت سے خاص طور پر مترشح ہوتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودی علماء نے اعتراض کیا کہ آپ کے شاگرد بزرگوں کی روایات کے خلاف ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کیوں کھا لیتے ہیں۔اس پر حضرت مسیحؑ نے فرمایا تم ریاکاروں کی حالت وہی ہے جس پر یسعیاہ نبی کی زبان سے یہ طعنہ دیا گیا ہے۔کہ یہ امت زبان سے تو میری تعظیم کرتی ہے مگر  ان کے دل مجھ سے دور ہیں،کیونکہ یہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔
"تم لوگ خدا  کے حکم کو تو باطل کرتے ہو اور اپنے گھڑے ہوئے قوانین کو برقرار رکھتے ہو۔خدا نے تورات میں حکم دیا تھا  کہ ماں یا باپ کی عزت کرو اور جو کوئی ماں باپ کو بر کہے وہ جان  سے مارا جائے۔مگر تم کہتے ہو کہ جو شخص اپنی ماں یا باپ سے یہ دے کہ میری جو خدمات تمہارے کام آ سکتی تھیں انھیں میں خدا کی نظر کر چکا ہوں،اس کے لیئے بالکل جائز ہے کہ پھر ماں یا باپ کی کوئی خدمت نہ کرے۔"[35]
دین موسوی کی تجدید:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ ۔[36]
ترجمہ:"اور میں اس تعلیم وہدایت کی تصدیق کرنے والا بن کے آیا ہوں۔جو تورات میں سے اس وقت میرے زمانے میں موجود ہے۔"
سید مودودیؒ تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں:
"یعنی یہ میرے فرستادہ ء خدا ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔اگر میں اس کی طرف سے بھیجا ہوا نہ  ہوتا بلکہ جھوٹا مدعی ہوتا تو خود ایک مستقل مذہب کی بنا ڈالتا اور اپنے ان کمالات کےزور پر تمھیں سابق دین سے ہٹا کر اپنے ایجاد کردہ دین کی طرف لانے کی کوشش کرتا لیکن میں تو اسی اصل دین کو مانتا ہوں اور اسی تعلیم کو صحیح قرار دے رہا ہوں جو خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر مجھ سے پہلے لائے تھے۔جو موسیٰؑ اور دوسرے انبیاء ؑ نے پیش کیا تھا،رائج الوقت اناجیل میں بھی واضح طور پر ہمیں ملتی ہے۔مثلا متی کی روایت کے مطابق پہاڑی کے واعظ میں مسیحؑ صاف فرماتے ہیں۔
"یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔"
ایک یہودی عالم نے حضرت مسیحؑ سے پوچھا کہ اصل دین میں اولین حکم کونسا ہے۔جواب  میں آپ نے فرمایا:خداوند اپنے دل سے سارے دل اور اپنی ساری جان سےاور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔اور دوسرا اس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے۔"[37]
پھر حضرت مسیحؑ اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں۔
"فقیہ اور فریسی موسیٰؑ کی گدی پر بیٹھے ہیں جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔"[38]
سید مودودیؒ"تفہیم القرآن"میں تین نکات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کہ "تمام انبیاء کی طرح حضرت عیسیٰؑ کی دعوت کے بنیادی نکات بھی تین تھے۔
ایک یہ کہ اقتداراعلیٰ جس کے مقابلہ میں بندگی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور جس کی اطاعت پر اخلاق و تمدن کا پورا نظام قائم ہوتا ہے۔صرف اللہ کے لیئے مختص تسلیم کیا جائے۔
دوسےے یہ کہ اس مقتدراعلیٰ کے نمائندے کی حثیت سے نبی کے حکم کی اطاعت کی جائے۔
تیسرے یہ کہ انسانی زندگی کو حلت حرمت اور جوازوعدم جواز کی پابندیوں سے جکڑنے والا قانون و ضابطہ صرف اللہ کا ہو۔دوسروں کے عائد کردہ قوانین منسوخ کر دیئے جائیں۔
پس درحقیقت حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیٰؑ اور حضرت محمد ﷺ اور دوسرے انبیاء کے مشن میں یک سر موفرق نہیں ہے۔"[39]
مولانا محمد ادریس کاندھلوی اسلام اور شریعت موسویہ اور عیسویہ کا تقابل اس طرح کرتے ہیں۔
"شریعت  محمدیہ کا ہر حکم معتدل اور متوسط ہے۔افراط اور تفریط کے درمیان میں ہے۔توسط اور اعتدال اس کا طرہ ء امتیاز ہے۔نہ تو شریعت موسویہ کی طرح اس میں شدت اور سختی ہے اور نہ شریعت عیسویہ کی طرح اس میں انتہائی تخفیف اور تسہیل ہے۔شریعت محمدیہ تشدید کا بین بین ہے۔"[40]
اخلاقی و معاشرتی تعلیم:
حضرت عیسیٰؑ چونکہ ایک بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کے لیئے بھیجے گئے تھے۔اس لیئے بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی بھی تلقین کی۔جو اس   بے جان معاشرے  کی روح کوپھرسے بیدار کر دے۔.چاروں اناجیل میں جو مشترک تعلیمات دی گئی ہیں ان کو سید مودودیؒ نے اس طرح سے بیان کیا ہے۔
حضرت عیسیٰؑ نے محبت الہٰی پر بہت زور دیا۔اور خدا کو مجازا  بنی  آدم کا باپ کہا۔
"ایک یہودی عالم نے حضرت مسیحؑ سے پوچھا کہ اصل دین میں اولین حکم کون سا ہے جواب میں آپ نے فرمایا:"خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔بڑا اور پہلا حکم یہی ہے اور دوسرا اس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے۔"[41]یہودویوں کو برابر محبت کی تلقین کرتے رہے  تاکہ ان کے اندر عفودرگزر کا جذبہ پیدا ہو۔"[42]
سید مودودیؒ صبر کی تلقین کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"عام غلط فہمی ہے کہ سیدنا مسیحؑ نے رہبانیت اور ترک و تجرید کی تعلیم دی  ہے۔حالانکہ اس انقلابی تحریک کے آغاز میں لوگوں کو صبر ،تحمل شدائد اور توکل الی اللہ کی تعلیم و تربیت دیئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔جہاں ایک نظام تمدن و سیاست پوری طاقت کے ساتھ زمین پر چھایا ہوا ہو،اور تمام وسائل و زرائع زندگی اس کے قبضہء اختیار میں ہوں،ایسی جگہ کوئی جماعت انقلاب کے لیئے اٹھ نہیں سکتی جب تک کہ وہ جان و مال کی محبت دل سے نہ نکال دے،سختیاں اٹھانے کو تیار نہ ہو جائے۔حاضرالوقت نظام سے لڑنے کے لیئے مصائب و شدائد کو اپنے اوپر دعوت دینا ہوتا ہے۔اس کام کے لیئے ایک تھپڑ کھا کر دوسرے تھپڑ کے لیئے تیار  رہنا پڑتا ہے۔"[43]
رہبانیت کی اختراع:
رہبانیت  مسیحیت کی ایجاد ہے۔حضرت عیسیٰؑ نے کبھی رہبانیت کی تلقین نہیں کی۔حالانکہ یہ انبیاء کی تعلیم کے خلاف تھا۔
رہبانیت کے حوالے سے احمد دیدات لکھتے ہیں:
"غلو پسند طبائع نے حضرت عیسیٰؑ کی سادہ زندگی سے مراد رہبانیت مرادلے لی ہے۔جو غیر فطری عمل تھا۔حالانکہ انبیاءؑ کی تعلیم غیر فطری نہیں ہو سکتی۔"[44]
دین موسوی کا تکملہ:
سید مودودیؒ لکھتے ہیں کہ
"الغرض حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات  توحید ،رسالت،اور درست عقائد نیز اعمال صالح پر مبنی تھیں انھوں نے کوئی نیا دین یا نئی شریعت پیش نہیں کی۔ان کی دعوت موسیٰؑ کے دین کا تکملہ اور تتمہ تھا۔جیسا کہ آپ کا قول ہے "میں احکامات موسوی کی تکمیل کرنے آیا ہوں  نہ کہ ان کی منسوخی کے لیئے"[45]قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسیحؑ نے ایسے ہی غیر مستقل مذہب بنایا تھا؟اور کیا مسیحؑ اس حقیقت سے نا واقف تھے کہ ایسا مذہب تمام بنی نوع بشری بلکہ کسی ایک قوم کے بھی ہر حالت میں،ہر زمانہ میں ناقابل عمل نہیں ہو سکتا؟مسیحیت کے متبعین اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں مگر جب مسیحیت کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان حالات پر نظر ڈالتے ہیں جن میں وہ پیدا ہوئی تھی اور ان اغراض کی تحقیق کرتے ہیں جن کے لیئے وہ وجود میں آئی تھی۔تو ہمیں اس کا جواب کچھ اور ملتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ مسیحی مذہب خود کوئی مستقل مذہب نہ تھا ،مگر موسوی شریعت کی تکمیل اور بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیئے پیدا ہوا تھا۔موسوی شریعت جس زمانے میں بھیجی گئی تھی وہ بنی اسرائیل کی ذہنی طفولیت کا زمانہ تھا۔ان میں کسی گہری اخلاقی تعلیم کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ تھی۔
مسیح ؑ کی ان تعلیمات  کا تجزیہ کیا جائے دو بڑی اقسام دکھائی دیتی ہیں۔
ایک قسم وہ ہے جس میں مسیحؑ نے شریعت موسویہ کی تکمیل کی ہے اور اس میں ضروری اضافے کیئے ہیں موسوی شریعت میں رافت ورحمت اور شفقت و لینت کی کمی تھی۔مسیحؑ نے اس کا اضافہ کیا۔اس کے قوانین میں لچک بالکل نہ تھی۔اور اس کی تعلیمات میں انسانی برادری کا وسیع تخیل بہت دھندلا تھا۔مسیحؑ نے اس کمی کو پورا کیا۔ اور بنی اسرائیل کو تمام بنی نوع انسان کے ساتھ یکساں محبت کرنے کی تلقین کی۔اس میں انسان کے محض فرائض پر زور دیا گیا تھا۔اور احسان یا  فضیلت اخلاق کے حصہ کو اچھوتا چھوڑ دیا گیا تھا۔مسیحؑ نے سب سے زیادہ اسی پہلو پر زور دیا اور خیرات ،فیاضی ،ہمدردی،ایثار اور لطف و کرم وغیرہ فضائل کی خصوصیت کے ساتھ تلقین کی۔مسیحؑ کی تعلیم کا یہ حصہ خود کوئی مستقل قانون نہ تھا بلکہ موسوی شریعت کا تتمہ اور ایک ضروری ضمیمہ تھا۔
دوسری قسم وہ ہے جس میں مسیحؑ نے اپنے زمانہ کے بنی اسرائیل کی مخصوص اخلاقی ،اجتماعی اور سیاسی  حالت کو پیش نظر رکھ کر اصلاح کی کوشش کی تھی۔مثلا یہودیوں میں مال و دولت کی حرص اور دنیا کی محبت  بڑھی ہوئی تھی۔مسیحؑ نے اس کے مقابلہ میں قناعت و توکل اور متاع دنیا کی تحقیر پر زور دیا۔یہودیوں میں  بے رحمی،سنگدلی اور شقاوت کی زیادتی تھی۔مسیحؑ نے اس کی اصلاح کے لیئے سخاوت و فراخ حوصلگی کا درس دیا۔یہودی امراء فقہاء خودپسند،نفس پرست،متکبر اور مغرور تھے۔مسیحؑ نے ان کو اعتدال پر لانے کے لیئے فروتنی ،انکسار ،زہدوتقویٰ اور خدا پرستی پر زور دیا۔یہودی قوم رومی حکومت میں غلام،۔بے بس اور کمزور تھی۔
مسیحؑ نے ان کی سلامتی اور نجات کے لیئے انھیں ایک طرف حکومت کے مقابلہ سے روکا،ظلم وتعدی کو برداشت کرنے کی تلقین کی،حقوق کی حفاظت میں قوت استعمال کرنے سے منع کیا اور دوسری طرف ان میں جنگ کی معنوی پیدا کرنے کے لیئے صبر واستقامت ،بے خوفی اور پختگی ء عزم و ارادہ کی قوت پیدا کرنے کی کوشش کی۔مسیحؑ کی تعلیم کا دوسرا حصہ بنی اسرائیل کی خاص اسی حالت کے لیئے مخصوص تھا جس میں بعثت مسیحؑ کے وقت  وہ مبتلا تھے۔اس کی کوئی دائمی اور عالمگیر قانون  بنانا ہرگز مقصود نہ تھا۔خصوصیت کے ساتھ تذلل و انفعال کی یہ تعلیم کہ شریر کا مقابلہ نہ کر،جو کوئی تیرے ایک گال پر طمانچہ مارے اس کے آگے دوسرا گال بھی پیش کر دے،جو کوئی تیرا کرتہ چھینے،اسے چوغہ بھی اتار دے،یہ دراصل غلامی  و بے بسی  کی ایک مخصوص حالت کے لیئے تھی۔اس کو کسی آزاد قوم کی سیاسی پالیسی بنانا نہ تو مطلوب تھا اور نہ یہ کسی طرح درست اور معقول ہو سکتا تھا۔"[46]
صحف اناجیل کی تاریخی حثیت:
انجیل یونانی لفظ ہے جس کے معنی "بشارت "کے ہیں۔اصطلاح میں اس کا اطلاق عیسیٰؑ  پر نازل کردہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ہوتا ہے[47]۔
اردو دائرہ معارف اسلامی میں ہے۔
"انجیل نصاریٰ کی مقدس کتاب کا نام جس کا ذکر قرآن مجید میں متعدد بار آیا ہے۔انجیل اصلا عربی زبان میں ۔مگر مرور ایام سے جس طرح عبرانی متن ناپید ہو گیا ہے۔اسی طرح یہ بھی پتہ نہیں چلتا ہے کہ عبرانی میں اس کا نام کیا تھا۔انجیل کو عہد نامہ جدید کا نام (New Testament)کانام عیسائیوں نے دوسری صدی میں دیا۔"[48]
اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا ہے۔
وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ.وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ ۚ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ. [49]
"ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم  کو اپنے سے پہلے موجود تورات  کی تصدیق کرنے والا  بنا کر بھیجا۔اور اسے انجیل عطا کی۔جس میں نوروہدایت ہے۔اور وہ بھی اپنے سے پہلی تورات کی تصدیق کرنے والی ہے۔اور متقین کے لیئے ہدایت اور نصیحت ہے۔"[50]
موجودہ عیسائی پادری کہتے ہیں کہ مسیح تو خدا کی صفت کلام ہے جو کہ مجسم ہو کر یسوع مسیح کی صورت میں دنیا میں آیا۔لہذا اس پر کسی کلام کے نزول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مگر مروجہ انجیل بھی قرآن مجید کی تصدیق کرتی ہیں۔کہ واقعی ہی مسیح پر کلام الہی نازل ہوا ہے۔جس کو انجیل کہتے ہیں۔
انجیل یوحنا میں ہے۔
"کیونکہ جو کلام تو نے مجھے پہچایا وہ میں نے ان کو پہنچا دیا اور دنیا نے ان سے عدوات رکھی۔اس لیئے کہ جس طرح  میں دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں۔"[51]
"لیکن اب تم مجھ جیسے شخص کے قتل کی کوشش میں ہو،جس نے تم کو وہی حق بات بتائی۔جو خدا سے سنی۔"[52]
انہی چار انجیلوں کی طرف   شیخ ابو زہرہ لکھتے ہیں کہ
"وھذہ لااناجیل الاربعتہ لم یملھا المسیح،ولم ینزل علیہ  ھو اوحی  ولکنہا کتبت من بعدہ کما رایت و تثتمل علی اخبار  بیحیٰ والمسیح ،و ما احاط  بو لادتہ من عجائب  و غرائب،وما کان یحدث منہ من امور خارقہ العادتہ وما کان  یجری بینہ و بین الیہود۔"[53]
"یعنی یہ چار انجیلیں ان کی حضرت مسیح ؑ نے نہ تو املا کروائی تھی۔اور نہ ہی ایسا ہے کہ ان پر وحی کی گئی تھیں۔جیسا کہ تو بھی دیکھتا ہے کہ ا ن میں حضرت یحییٰؑ اور حضرت مسیحؑ کی خبریں ہیں اور حضرت مسیح ؑ کی ولادت کے وقت رونما ہونے والے عجب واقعات ہیں۔اور حضرت  مسیح ؑ  کے خوارق کا تذکرہ بھی ہے۔اور ان حالات اور امور کا بھی تذکرہ ہے۔جو حضرت مسیحؑ اور یہود کے درمیان جاری ہوئے۔
رحمت اللہ کیرانوی لکھتے ہیں کہ
"مسیحی علماء کہتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ کے پاس  جو انجیل تھی وہ ایک زبانی شکل میں تھی۔جسے آپ کے شاگردوں نے آپ سے سنا اور ہر کسی نے اپنے اپنے نوٹ تیار کر لیئے۔یہ نوٹ انھوں نے اپنے اپنے الفاظ میں لیئے۔حضرت مسیح ؑ کے الفاظ کی کسی نے پابندی نہیں کی۔مولفین اناجیل نے آپ کے شاگردوں سے مسیحؑ کے جو واقعات سنے،انہوں نے اپنی یادداشتوں اور پرانی تحریروں کی مدد سے  اپنے الفاظ میں مرتب کیا۔اور اس طرح ان انجیلوں کی تالیف ہوئی۔ظاہر ہے اس شکل میں نہ انھیں انجیل مسیح کہا جا سکتا ہے اور نہ کتاب خداوندی کہلا سکتی ہے۔جو حضرت عیسیٰؑ کو دی گئی تھی۔"[54]
ابن حزم اور رحمت اللہ کیرانوی  لکھتے ہیں کہ
"نصاریٰ نے ہمیں اس مشقت سے بے نیاز کر دیا ہے کیونکہ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ یہ اناجیل  اللہ کی طرف سے مسیحؑ پر نازل کی گئی ہے۔اور نہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان اناجیل کو مسیح ؑ ان کے پاس لائے ہیں۔بلکہ شروع سے آخر تک یہ سب لوگ اویوسی و یعقوبی و مارونی و بولقانی سب کے سب اس امر میں اختلاف نہیں کرتے کہ یہ چار کتب تواریخ میں جن چار شخصوں نے تالیف کیں وہ مختلف ناموں سے مشہور ہیں۔انجیل متی،مرقس،لوقا،یوحنا۔"[55]انسائیکلو پیڈیا آف بریٹینیکا میں اناجیل کی تدین پر یہ الفاظ غور طلب ہیں۔
It s exact date and exact place of origin are uncertain, but it appears to date from the later years of the 1st century.”[56]
مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور محمد مالک کاندھلوی نے اناجیل کی وضاحت اس طرح کی ہے۔
      "عہد جدید سے مراد انجیل متی ہےجو 128 ابواب پر مشتمل ہے۔دوسری انجیل مرقس ہے جس کے 116 ابواب ہیں اور تیسری انجیل لوقا ہے جو 124 ابواب پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ تاریخ پولس کے خطوط،یعقوب کا خط وغیرہ وغیرہ ہیں۔انااجیل اربعہ میں حضرت موسیٰؑ کے مصلوب کیئے جانے تک کہ حالات موجود ہیں اناجیل والوں میں سے  متی اور یوحنا تو حواری ہیں جب کہ لوقا و مرقس حواریوں کے تابعی ہیں مرقس پطرس سے روایت  کرتا ہے اور لوقا پولوس سے،اور جو کچھ احوال ان دونوں نے لکھے ہیں وہ سب سنے ہوئے ہیں دیکھے ہوئے نہیں ہیں اور مسیحی علماء کو اس سے انکار نہیں ہے"[57]
جہاں تک انجیل کی صداقت کی بات ہے کہ یہ وہی اناجیل ہیں جو حضرت عیسیٰؑ پر اتریں تو اس حوالے سےسید مودودیؒ لکھتے ہیں کہ
"دراصل انجیل وہ نہیں ہیں بلکہ انجیل حضرت مسیحؑ کے وہ ارشادات ہیں جو ان کے اندر درج ہیں ۔یہ ہمارے پاس ان کو پہنچاننے اور مصنفین سیرت کے اپنے کلام سے ان کو ممیز کرنے کا  اس کے سوا کوئی زریعہ نہیں کہ جہاں سیرت کا مصنف کہتا ہے کہ مسیح نے یہ فرمایا یا لوگوں کو تعلیم یہ دی ،صرف وہی مقامات اصل انجیل کے اجزاء ہیں۔قرآن انہی اجزاء کو انجیل کہتا ہے اور انہی کی وہ تصدیق کرتا ہے۔آج کوئی شخص ان بکھرے ہوئے اجزاء کو مرتب کر کے قرآن سے ان کا مقابلہ کر کے دیکھے تو وہ دونوں میں بہت ہی کم  فرق پائے گا۔قرآن انہی کو نور اورہدایت کہتا ہے بعد میں ان کےاندر آمیزش،تبدیلیاں اور تحریف ہوئی اور ان کی اصلیت بگڑتی چلی گئیں جس کی تصدیق قرآن بھی کرتا ہے "یحرفون الکلم عن مواضعہ"اور یکتبون الکتب بایدیھم ۔۔۔ ۔"[58]
انجیل کے غیر مستند ہونے  کی چھ وجوہات ہیں جو سید مودودیؒ نے سیرت سرور دوعالمﷺ اور نصرانیت قرآن کی روشنی میں بیان کی ہیں۔
اولا چاروں انجیلوں کے بیانات میں اختلاف ہے۔حتیٰ کہ پہاڑی کے وعظ کو بھی جو مسیحی تعلیم کا اصل الاصول ہے۔متی ،مرقس اور لوقا تینوں نے  مختلف اور متضاد طریقوں سے بیان کیا ہے۔
ثانیا چاروں انجیلوں میں ان کے مصنفین کے خیالات و تاثرات صاف طور پر نمایاں ہیں۔متی کے مخاطب یہودی معلوم ہوتے ہیں اور وہ ان پر اتمام حجت کرتا نظر آتا ہے۔مرقس کے مخاطب رومی ہیں اور وہ ان کو اسرائیلیات سے روشناس کرانا چاہتا ہے۔لوقا سینٹ پال کا وکیل ہے اور دوسرے حواریوں کے خلاف اس کے دعاوی کی تائید کرنا چاہتا ہے۔یوحنا ان فلسفیانہ اور صوفیانہ خیالات سے متاثر نظر آتا ہے۔جو پہلی صدی عیسوی کے اواخر میں مسیحیوں کے درمیان پھیل گئے تھے۔اس طرح ان چاروں انجیلوں کے درمیان معنوی اختلاف،لفظی اختلاف سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔
ثالثا ان  اناجیل سب کی یونانی زبان میں لکھی گئی ہیں،حالانکہ حضرت عیسیٰؑ اور ان کے تمام  حواریوں کی زبان سریانی تھی۔زبان کے اختلاف سے خیالات کی تعبیر میں اختلاف ہو جانا قدرتی بات ہے۔
رابعا،اناجیل کو ضبط تحریر میں لانے کی کوشش دوسری صدی عیسوی سے پہلے نہیں کی گئی۔150 ء تک عام خیال یہ تھا کہ زبانی روایت تحریر سے زیادہ مفید ہے۔دوسری صدی کے آخر میں لکھنے کا خیال پیدا ہوا لیکن اس زمانہ کی تحریروں کو مستند نہیں سمجھا جاتا۔"عہدنام جدید کا پہلا مستند متن قرطاجنہ کی کونسل میں منظور کیا گیا جو 397ء میں منعقد ہوئی تھی۔
خامسا ،اناجیل کا قدیم ترین نسخہ جو اس وقت دنیا میں موجود ہے چوتھی صدی عیسوی کے وسط کا ہے۔دوسرا نسخہ پانچویں صدی کا اور تیسرا ناقص نسخہ بھی جو پاپائے روم کے کتب خانہ میں ہے چوتھی صدی سے زیادہ قدیم نہیں ہے۔پس یہ کہنا مشکل ہے کہ پہلی تین صدیوں میں جو انجلیں رائج تھیں ،ان سے موجود ہ اناجیل کس حد تک مطابقت رکھتی ہیں۔
سادسا ،اناجیل کو قرآن کی طرح حفظ کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ان کی اشاعت کا انحصار ابتدا روایت بالمعنی پر رہا جس میں حافظ کے اختلال اور راویاں کے ذاتی خیالات کا اثر آنا قدرتی امر ہے۔بعد میں جب کتابت کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ نقل نویسوں  کے رحم پر تھیں۔نقل کرتے قت ہر شخص کے لیئے آسان تھا کہ جس چیز کو اپنے عقائد کے خلاف دیکھئے۔حذف کر دے اور جس کی کمی پائے بڑھا دے۔[59]
اناجیل اربعہ کی صداقت صحت کے حوالے خود عیسائی دنیا اعتراف کرتی دکھائی دیتی ہے۔"عیسائیت کے تعاقب میں"کا مصنف  نے چند عبارات نقل کی ہیں اپنی کتاب  میں۔وہ لکھتے ہیں:
"آخرکار سب سے پہلے سترھویں صدی کے عین وسط میں ایک فرنچ پروٹسٹنٹ پادری نے جرائت کر کے یہ دعویٰ کیا  کہ یہ تصانیف تمام تر جعلی اور موضوع ہیں۔چنانچہ مدت دراز کی ردو قدح کے بعد جا کر دنیائے مسیحیت کو یقین آیا "
مفسر ہورسلے کے مطابق :"یہ بات کہ مقدس متن میں تحریف ہو چکی یقینی اور شبہ سے پاک ہے"[60]
الغرض انجیل کی صداقت کی بات اگر ہو تو یہی کہا جا سکتا کہ اس کی صحت ہر لحاظ سے مشکوک ہے۔زبان،زمانہ نزول،شہر جہاں نازل ہوئی سب من گھڑت قصے  کہانیاں ہیں۔اور اگر موجودہ اناجیل کی عبارتوں کو دیکھا جائے تو شدید اختلاف،تکرار،انبیاء جیسی معصوم ہستیوں پہ الزامات اور کردار کشی،اعداد کا اختلاف،زبانی تک بندیاں۔۔سب پکار پکار کر کہتیں کہ یہ انسان کا کلام ہو سکتا ہے کہ اللہ رب العزت کا نہیں۔
یعنی اس امر میں کوئی شک نہیں کہ خود مسیحی فاضلین کو بھی  اس بات کا اعتراف ہے کہ اناجیل کی دستاویزی حثیت معتبر نہیں ہے۔جب سے اہل مغرب ریسرچ کی طرف آئے تب سے تو یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ سید مودودیؒ نے "نصرانیت قرآن کی روشنی میں"میں بار بار اس حقیقت کو دہرایا ہے کہ  اناجیل مروجہ وہ نہیں ہیں جو حضرت عیسیٰؑ پر نازل ہوئیں۔
ان حوالہ جات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ پر بھی دیگر انبیاء کی طرح کلام نازل ہوا تھا۔جس کو قرآن مجید نے انجیل کے نام سے موسوم کیا ہے۔یہی وہ کتاب ہے جس پر اہل اسلام کا ایمان لانا ضروری ہے۔مگر حیرت اس بات پر ہے کہ خود نصاریٰ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں مسیحؑ یہ کوئی خاص کتاب نازل نہیں ہوئی۔

سینٹ پال ۔۔تعارف و نظریات:
ازالتہ الاوہام میں ہے کہ
"مسیحی حضرات پولوس کو حواریوں کے درجہ میں شمار کرتے ہیں۔اور یہ پولوس یہودی فرقہ بنیامین اور قومی اعتبار سے فریسیوں سے تعلق رکھتا تھا۔"[61]
سینٹ پال کا اصل عبرانی نام ساؤل یا شاؤل تھا،جس کے لفظی معنی"خدا سے مانگا ہوا"ہیں۔[62]پولس اس کا رومی نام تھا اس کا مطلب "کوتاہ قد(small of stature)ہے۔[63]وہ یہودالنسل ہونے کے لحاظ سے رومیوں کی غلام قوم سے تعلق رکھتا تھا۔مگر اسے سلطنت رومہ کے مکمل شہری حقوق حاصل تھے،جن سے اس نے اپنی تبلیغ کے دوران خوب فائدہ اٹھایا۔اور اس دوران اس نے اپنے رومی نام ہی کو استعمال کیا۔پولس کے ابتدائی حالات تقریبا  تاریکی میں ڈوب چکے تھے۔البتہ کتاب اعمال سے اور اس کے خطوط سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ قبیلہ بنیامین کا ایک کٹر فریسی یہودی تھا۔وہ خود لکھتا ہے۔
"آٹھویں دن میرا ختنہ ہوا،اسرائیل کی قوم اور بنیامین کے قبیلے کا ہوں،عبرانیوں کا عبرانی ،شریعت کے اعتبار سے فریسی ہوں۔"[64]
    ساجد میر نے اپنی کتاب  مذاہب عالم کے مورخیں کا قول نقل کیا ہے جو سینٹ پال کے بارے میں لکھتے ہیں:
Of all the people associated with the beginnings of Christianity, Paul was the most responsible for the turn its belief took. He added a new note that determined its future course.
ان سب لوگوں سے جن سے عیسائیت کی ابتداء وابستہ ہے۔پولس اس تبدیلی کے لیئے سب سے زیادہ ذمہ دار تھا۔جو اس کے عقائد میں آئی۔اس نے (ان عقائدمیں)ایک نئی طرح ڈالی جس نے اس کے (عیسائیت) مستقل راہیں متعین کیں۔"
پولس کے اپنے الٖفاظ ہیں۔
"اے بھائیو!میں تمہیں جتائے دیتا ہوں کہ جو خوش خبری میں نے سنائی وہ انسان کی سی نہیں۔کیونکہ وہ انسان کی طرف سے نہیں پہنچی اور نہ مجھے سکھائی گئی۔بلکہ یسوع مسیح کیطرف سے مجھے اس کا مکاشفہ ہوا۔"[65]
یہ شخص مسیح اور مسیحیت کا سخت دشمن تھا۔پھر اس نے ایک کشف بہانہ بنا کراپنے آپ کو مسیح کا مرید ظاہر کیا۔مگر ابتداء میں حواریوں نے اس پر زرہ اعتماد نہ کیا۔لیکن آہستہ آہستہ یہ ان میں گھس گیا اور اپنا اعتماد پیدا کر لیا۔پھر آہستہ آہستہ انجیل تعلیمات کو اپنی تحریبانہ سازش کے تحت ڈھال کر نیا ایڈیشن پیش کیا ۔رفتہ رفتہ مسیحی قیادت سے حواری غائب اور یہ نمایاں ہوتا گیا۔اور آج تمام مسیحیت مسیح یا ان کے حواریوں کی نہیں بلکہ ان کی ایجادکردہ ہے۔"[66]
پولوس نے عیسائیت کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کے لیئے دمشق کا سفر کیا۔لیکن راستے میں حضرت عیسیٰؑ نے اس پر ظہور فرمایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیوں کا یہ قاتل ان کا معتقد بن گیا۔رسولوں کے اعمال میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے۔
"جب وہ سفر کرتے کرتے دمشق کے نزدیک پہنچا تو ایسا ہوا کہ یکایک آسمان ایک توارس کے گرد آچمکا اور وہ زمین پر گر پڑا اور یہ آواز سنی"اے شاول!تو مجھے کیوں ستاتا ہے؟اس نے  پوچھا"اے خداوند تو کون ہے؟اس نے کہا میں یسوع ہوں جسے تو ستاتا ہے۔مگر اٹھ شہر میں جا اور جو تجھے کرنا چاہیئے وہ تجھ سے کہا جائے گا۔"شاؤل زمین پر سے اٹھا لیکن جب آنکھیں کھولیں تو اس کو کچھ نہ دکھائی دیا اور لوگ اس ہاتھ پکڑ کر دمشق میں لے گئے۔وہ تین دن تک نہ دیکھ سکا۔نہ کھایا اور نہ پیا۔"[67]
نئے دین سے سینٹ پال کا مقصد:
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سینٹ پال کا مقصد دین بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"اس نئے دین کی تشکیل میں اس کے پیش نظر بس یہ مقصد تھا کہ دین ایسا ہو جسے عام غیر یہودی دنیا قبول کر لے۔اس نے اعلان کر دیا کہ ایک عیسائی ،شریعت یہود کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔اس نے کھانے پینے میں حرام وحلال کی ساری قیود ختم کر دیں۔اس نے ختنہ کا حکم کو بھی منسوخ کر دیا۔جو غیر یہودی دنیا کو خاص طور پر ناگوار تھا۔حتیٰ کہ اس نے الوہیت اور ان کے ابن خدا ہونے اور صلیب پر جان دے کر اولاد آدم کے پیدائشی گناہ کا کفارہ بن جانے کا عقیدہ بھی تصنیف کر ڈالا کیونکہ عام مشرکین کے مزاج سے یہ بہت مناسبت رکھتا تھا۔مسیحؑ کے ابتدائی پیرؤوں نے ان بدعات کی مزاحمت کی،مگر سینٹ پال نے جو دروازہ کھولا تھا اس سے غیر یہودی عیسائیوں کا ایک زبردست سیلاب اس مذہب میں داخل ہوگیا۔جس کے مقابلے میں یہ مٹھی بھر لوگ کسی طور نہ ٹھہر سکے۔"[68]
تعلیمات عیسیٰؑ  کو بالکل ملیا میٹ کر دیا گیا:
سید مودودیؒ مزید لکھتے ہیں کہ
"اس سلسہ میں پولوس نے دین کے اصول میں جو تحریفات کیں ان میں سب سے پہلی تحریف یہ تھی کہ مسیحؑ کی تعلیم کو تمام عالم انسانی کے لیئے ایک عام پیغام قرار دیا،حالانکہ دراصل وہ محض بنی اسرائیل کے لیئے تھی ۔مسیحؑ نے اپنی زندگی میں جب حواریوں کو تبلیغ و دعوت کے لیئے بھیجا تھا تو صاف طور پر حکم  دیا تھا کہ "غیر  قوموں کی طرف نہ جانا سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا،بلکہ اسرائیل کی بھٹکی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔"[69]
عقیدہ تثلیث /تین اقانیم
عقید ہ تثلیث سے مراد "تین خداؤں"کا عقیدہ  باپ،بیٹا اور روح القدس ۔۔یہ تینوں مل کر ایک خدا ٹھہرے۔اس عقیدہ کی  وضاحت  کرتے ہوئے علامہ شہرستانی لکھتے ہیں کہ
"نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کے لیئے تین اقانیم  کا  اثبات کیا۔انھوں نے کہا "باری تعالیٰ جو واحد ہے۔اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کے ساتھ قائم ہے۔اس میں تمیز اور حجم نہیں ہے۔سو وہ جوہریت کے ساتھ ایک ہے۔اقنومیت کے ساتھ تین ہے۔اقانیم(اقنوم کی جمع)سے وجود ،حیات اور علم کی صفات مراد ہیں۔نصاریٰ ان کو باپ،بیٹا اور روح القدس کا نام دیتے ہیں۔تمام اقانیم کے برخلاف (اقنوم)علم نے جسمانی لے کر اختیار کیا۔"[70]
اس عقیدے  کا بانی پولس تھا۔اناجیل کی رو سے حضرت عیسیٰؑ انسان تھے۔متی،مرقس اور لوقا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے گمان کیا جا سکے کہ مسیح کے ماننے والے یسوع کو انسان کے سوا کچھ اور مانتے تھے۔
سید مودودیؒ عقیدہ تثلیث کی و ضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"عقیدہ تثلیث کا فکری سانچہ یونانی ہے اور یہودی تعلیمات  اس میں ڈھالی گئی ہیں۔اس لحاظ سے یہ ہمارے لیئے ایک عجیب قسم کا مرکب ہے،مذہبی خیالات بائیبل کے اور ڈھلے ہو ئے ایک اجنبی فلسفے کی صورتوں میں۔باپ،بیٹا اور روح القدس کی اصطلاحیں یہودی ذرائع کی بہم پہنچائی ہوئی ہیں۔آخری اصطلاح  اگرچہ خود یسوع نے شاذ و نادر ہی کبھی استعمال کی تھی۔اور پال نے بھی جو اس کو استعمال کیا اس کا مفہوم بالکل غیر واضح تھا،تاہم یہودی لٹریچر میں یہ لفظ شخصیت اختیار کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔پس اس عقیدہ کا مواد یہودی ہے۔اور مسئلہ خالص یونانی۔اصل سوال جس پر یہ وہ  عقیدہ بنا۔ وہ نہ کوئی اخلاقی سوال تھا نہ مذہبی۔بلکہ وہ سراسر ایک فلسفیانہ سوال تھا یعنی یہ کہ ان تینوں اقانیم (باپ،روح اور بیٹے)کے درمیان تعلق کی حقیقت کیا ہے؟کلیسا نے اس کا جواب دیا وہ اس عقیدے میں درج ہے۔جو نیقا کی کونسل میں مقرر کیا گیا تھا۔اور اسے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام خصوصیات میں بالکل یونانی فکر کا نمونہ ہے۔جہاں تک اس عقید کو رائج کرنے کی بات ہے تو 325ء میں نیقیا کی کونسل نے الوہیت مسیح کو با ضابط سرکاری طور پر اصل مسیحی عقیدہ قرار دیا۔ "[71] معبودوں کی تعداد کے حوالے سے احمد شلبی لکھتے ہیں کہ
"أما موضوع تعدد الآلھتہ فمو ضوع یکاد یکون عاما فی جمیع الثقافات القدیمتہ،قال بہ المصریون القدماء،و قال بہ الأشوریون والبابلیون وا لفرس والھنود والصینیون والیونان علی اختلاف فی عدد الآلھہ و مکانتھم واختلاف فی تصور صلتہ الآلھتہ بعضھم ببعض،أو صلتھم بالبشر۔"[72]
عقیدہ الوہیت کا ابطال
قرآن مجید نے عقیدہ الوہیت کو باطل ،غلط اور خود ساختہ قرار دیا۔اور متعدد آیات میں اس کی تردید کی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَإِذْ قَالَ ٱللَّهُ يٰعِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ ٱتَّخِذُونِى وَأُمِّىَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ ٱللَّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِيۤ أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِى بِحَقٍّ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِى وَلاَ أَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلاَّمُ ٱلْغُيُوبِ۔[73]
ترجمہ:
"اور جب اللہ تعالٰی فرمائے گا :"اے عیسیٰ ابن مریم کیا تونے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے علاوہ معبود بنا لو"وہ عرض کریں گے:"تو پاک ہے میری کیا مجال کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے حق نہیں۔اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو تحقیق مجھے علم ہوتا۔جو میرے دل میں ہے تواسے جانتا ہے۔لیکن جو تیرے دل میں ہے میں اس سے واقف نہیں ہوں۔بے شک تو غیبوں کا جاننے والا ہے۔"
عقیدہ تثلیث کا رد ان آیات میں کیا گیا ہے۔
يٰأَهْلَ ٱلْكِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِى دِينِكُمْ وَلاَ تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ إِلاَّ ٱلْحَقَّ إِنَّمَا ٱلْمَسِيحُ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ ٱللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ فَآمِنُواْ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلاَ تَقُولُواْ ثَلاَثَةٌ ٱنتَهُواْ خَيْراً لَّكُمْ إِنَّمَا ٱللَّهُ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَّهُ مَا فِى ٱلسَّمَاوَاتِ وَمَا فِى ٱلأَرْضِ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلاً.لَّن يَسْتَنكِفَ ٱلْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْداً لِلَّهِ وَلاَ ٱلْمَلاۤئِكَةُ ٱلْمُقَرَّبُونَ وَمَن يَسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيهِ جَمِيعاً.[74]
ترجمہ:
"اے اہل کتاب دین میں غلو نہ کرو اور اللہ پر سوائے حق بات کے کچھ نہ کہو۔بے شک مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کے رسول تھے۔اور اس کا کلمہ تھے جو اس نے مریم کی طرف  القاء فرمایا اور اس کی طرف سے روح تھے۔پس اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ تین خدا ہیں اس قول سے باز ا جاؤ!یہ تمہارے لیئے بہتر ہے۔بے شک اللہ تو ایک ہی معبود ہے۔وہ بیٹے سے پاک ہے۔آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔اور اللہ کافی ہے کارساز۔بے شک  مسیح اس بات میں بے عزتی نہیں سمجھتے کہ وہ اللہ کے بندے ہوں اور نہ ہی مقرب فرشتے۔اور جو اس کی عبادت سے بے عزتی محسوس کرتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں تو پس ان سب کو اسی کی اکٹھا کیا جائے گا۔"
اسی طرح سورہ مریم میں بھی ابنیت کے عقیدے کا رد کیا گیا ہے۔
قَالَ إِنِّى عَبْدُ ٱللَّهِ آتَانِىَ ٱلْكِتَابَ وَجَعَلَنِى نَبِيّاً[75]
ترجمہ:
"کہا(عیسیٰ ؑ نے)بے شک میں تو اللہ کا بندہ ہوں،اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا۔"
اسی سورت میں آگے جا کے فرمایا
ذٰلِكَ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ ٱلْحَقِّ ٱلَّذِى فِيهِ يَمْتَرُونَ[76]
ترجمہ:
"یہ عیسیٰ ابن مریم ہیں ان کے بارے میں یہ سچی بات ہے۔جس میں وہ(عیسائی)شک و شبہہ کر رہے ہیں۔"
جس پر عیسائیوں کی نجات کا دارومدار ہے ابطال تثلیث پر مولانا رحمت اللہ کیرانوی لکھتے ہیں کہ
"اللہ تعالیٰ نے  حضرت آدم ؑ کے زمانے سے لے کرجناب مسیحؑ کے زمانہ نبوت سے لے کر  جو چار ہزار چونتیس سال پر مشتمل ہے۔کسی نبی کی معرفت  اس عقیدہ تثلیث کا اعتقاد ضروری قرار نہیں دیا۔میں کہتا ہوں کہ اگر تثلیث فی التوحید اور توحید فی التثلیث کے عقیدہ پر نجات کا انحصار اور دارومدار ہے۔تو ظاہر ہے کہ ذات صفات باری تعالیٰ تمام زمانوں میں یکساں طور پر ہیں۔اور اللہ تعالٰی کی ذات جملہ صفات پر ایمان لانا تمام انسانوں پر واجب ہے۔پس یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسا عظیم الشان اہم ترین عقیدہ جو تمام عقائد کا اصل اور سرچشمہ ہے اللہ تعالیٰ اسے نظر انداز کر دیں۔"[77]
رفع سماوی
انبیاء میں حضرت عیسیٰؑ کو یہ امتیازی مقام حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ آسمان کی طرف اٹھا لیا۔اور دوبارہ قیامت قائم ہونے سے پہلے دنیا میں تشریف لائیں گے۔
کتاب الملل والنحل میں ہے۔
"صعود (حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے)کے متعلق نصاریٰ کا عقیدہ ہے۔کہ انھیں قتل کر دیا گیا اور سولی دے دی گئی۔انھیں یہود نے حسد ،سرکشی اور ان کے نبوت و مقام کے انکار کی وجہ سے مار ڈالا۔لیکن یہ قتل ان کے جزء لاہوتی پر نہ ہوا۔بلکہ ان کے جزء ناسوتی پر واقع ہوا۔ان لوگوں نے کہا کہ :شخص انسانی کا کمال تین اشیاء نبوت امامت اور ملکہ میں ہے۔حضرت عیسیٰؑ کے سوا دوسرے تمام انبیاء ان تینوں یا ان میں سے بعض صفات کے ساتھ موصوف تھے۔مگر مسیحؑ کا مقام اس سے بلند ہے۔کیونکہ وہ اللہ کے اکلوتے بیٹے ہیں۔اور کوئی ان کا نظیر نہیں ہے۔نزول حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں بھی نصاریٰ  میں اختلاف ہے۔ان میں سے ایک گروہ یہ کہتا ہے۔کہ وہ قیامت سے پہلے زمین پر اتریں گےجیسا کہ اہل اسلام کا ایک گروہ بھی اس کا قائل ہے۔ان میں سے ایک فرقہ یہ کہتا ہے۔کہ وہ یوم الحساب زمین پر اتریں گے۔مقتول اور مصلوب ہونے کے بعد وہ زمین پر اترے انھیں "سمعون الصفا"نے دیکھا ان سے بات کی اور انھوں نے اسے وصیت کی۔بعد ازاں انھوں نے  دنیا چھوڑ دی اور آسمان پر چلے گئے۔اس لیئے شمعون الصفا ان کا وصی ہے۔مگر پولوس نے اس امر کو گنجلک کر دیا اپنے کو اس کا شریک قرار دیا۔اور اس کے کلام کے اوضاع و طرق کو بدل دیا اور اسے فلسفیوں اور اپنی طبیعت کے وسوسوں کے ساتھ خلط ملط کر دیا۔"[78]
یہ موضوع قرآن کریم اور حدیث متواترہ سے ثابت ہے۔اور اس پر امت کا اجماع بھی ہے۔اس کے باوجود فرقہ المسلمین اور قادیونیوں نے اس پر شک کیا۔ابن حزم لکھتے ہیں کہ
"و کل من کفر  بما بلغہ و صح عندہ عن النبیﷺ او جمع علیہ المومنون مما  جاء بہ النبی  فھو کافر"[79]
"یعنی ہر وہ شخص جو اس چیز کا نکار کرے جو اس کے پاس پہنچے حضورﷺ سے صحیح صحیح  یا اس چیز کا نکار کرے جس پر مومنین  کا اجماع ہے تو وہ کافر ہے۔"
لہذا  نزول مسیح کے انکار کی وجہ بھی دوہری ہے۔ایک متواتر حدیث کا انکار دورسرا اجماع کا نکار۔بہر کیف یہ بات طے ہے کہ جمہور مسلمانوں  کے عقیدہ کے مواقف  حضرت مسیحؑ مصلوب نہیں ہوئے،بلکہ معاملہ  مشتبہ ہو گیا جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے۔
قرآن کی رو سے حضرت عیسیٰؑ سولی نہیں چڑھے بلکہ اللہ نے ایک معینہ مدت کے لیئے  اوپر اٹھا لیا جہاں سے وہ وہ واپس دنیا میں تشریف لائے گئے اور پھر جب تک اللہ کا حکم ہوگا زندہ رہیں گے پھر ان کی موت واقع ہو گی۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا ٱلْمَسِيحَ عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ ٱللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِى شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ ٱتِّبَاعَ ٱلظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ. يَقِيناًبَل رَّفَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزاً حَكِيماً[80].
ترجمہ:
"اور ان کاقول کہ ہم نے مسیح ابن مریمؑ کو قتل کر دیا ہے۔انہوں نے اس کو نہ قتل کیا اور نہ صلیب دی بلکہ ان کو شبہ میں ڈال دیا  گیا ہے اور بے  شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا یقنا وہ اس کے بارے میں شک میں ہیں۔ان کو حقیقت کا کوئی علم نہیں مگر وہ تو فقط گمان کی پیروی کرتے ہیں۔اور انہوں نے عیسیٰؑ کو یقینا قتل نہیں کیا۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰؑ کو اپنی طرف اٹھا لیا  اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔"
لہذا  ثابت ہوا کہ رفع عیسیٰؑ کا معاملہ مشتبہ نہیں ہے بلکہ جن کے دلو ںمیں ٹیڑھ ہے ان کو لگتا ہے۔



فصل سوئم

ہندومت
     


[1]فیروزالغات عربی اردو،ص:741،فیروزسنز لمیٹیڈ لاہور,س۔ن
[2]مختصر اردو دائرہ معارف اسلامی،ص:856،دانش گاہ پنجاب,1999ء
[3]طبری،محمد بن جرید،جامع البیان  عن تاویل القرآن 1/367،داراحیاء التراث العربی،بیروت،لبنان،س۔ن
[4] رازی،فخرالدین،تفسیر کبیر 1/23،دارلفکر للطباعتہ والنشر والتوزیع،بیروت،لبنان،س۔ن
[5] قرطبی،محمد بن احمد،الجامع الاحکام القرآن 1/294،دارالکتب العربی،بیروت،لبنان،س۔ن
[6]المائدہ 5: 82
[7]ابوحیان،محمد  بن یوسف لاندلسی،البحرالمحیط فی التفسیر 4/342,دارالفکر للطباعتہ والنشر والتوزیع،بیروت ،1416ء
The new encyclopedia of britanica,vol,5p:293,[8]
[9] وھبہ زحیلی،التفسیرالمنیر 1/177،دارالفکر بیروت،لبنان 1991ء
[10]نصرانیت قرآن کی روشنی میں،ص:67،مودودی ،ابوالاعلیٰ،سیرت سرور دوعالمﷺ 1/644
[11]اعمال11: 26
[12]مودودی،ابوالاعلیٰ،نصرانیت قرآن کی روشنی میں،ص:68-69،سیرت سروردوعالمﷺ 1/644
[13][13] تقی عثمانی،مولانا،عیسائیت کیا ہے؟ص:84دعوتہ اکیڈمی،اسلام آباد 1990ء
[14]ساجد میر،عیسائیت تجزیہ و مطالعہ،ص:101،مودودی،ابوالاعلیٰ،نصرانیت قرآن کی روشنی میں،ص:68
[15]شیبہ،عبدالقادر،اقوام عالم کے ادیان و مذاہب(مترجم:ابو محمد ادریس اثری)ص:52،نصرانیت قرآن کی روشنی میں،ص:70
[16]صدیقی،محمد نادر رضا،پاکستان میں مسیحیت،ص:77،مسلم اکیڈمی لاہور،1979ء
[17]ابن کثیر،البدایتہ والنہایتہ 1/511،دارالفکر للطباعتہ والنشر والتوزیع،بیروت،1411ء
[18]المراغی،احمد مصطفےٰ،تفسیر المراغی 3/153،دار احیاء التراث العربی،بیروت،س۔ن
 آل عمران : 3/33تا 37[19]،اردودائرہ معارف اسلامی،ص:576
[20]تایخ الیعقوبی،1/68
 آل عمران 3/   45-47[21]
[22]مودوی،ابوالاعلیٰ،تفہیم القرآن: 1/251-252
[23] المائدہ 5: 75
[24]ترمذی، ابوعیسیٰ،جامع الترمذی،کتاب المناقب،باب فضل خدیجہ رقم:3878،دارالسلام ،ریاض1421ھ
[25] اٰل عمران 3: 49
[26]المائدہ 5: 75
[27]ابن حزم ،الاندلسی،علی بن احمد،الفصل فی الملل والھواء والنحل 1/270،دارالکتب العلمیہ ،بیروت،1420ھ
[28]الذخرف،63:43،64
[29] مریم،19 :36
[30]متی4: 10،کلام مقدس(عہد عتیق و جدید)پاکستان کاتھولک بشپ  کانفرنس،24 اگست 1958ء
[31]لوقا 13: 63
[32]لوقا 19: 38-40
[33] الماءدہ 5 :110
[34]متی 11: 28-30
[35]متی: 15: 3-9،مرقس 7: 5-12
[36] آل عمران 3 :50
[37]متی22:34-40
[38]متی 23: 2-3
[39]مودوی،ابوالاعلیٰ،نصرانیت قرآن کی روشنی میں،ص:33،تفہیم القرآن: 1/254
[40]اسلام اور نصرانیت،ص:46
[41]متی22: 34-40
[42]مودودی،ابوالاعلیٰ،تفہیم القرآن: 1/255
[43]مودودی،ابوالاعلیٰ،نصرانیت قرآن کی روشنی میں،ص:39
[44]احمد دیدت۔یہودیت،عیسائیت اور اسلام،ص:165
[45]  احمد دیدات ،یہودیت،عیسائیت اور اسلام، (مترجم)مصباح اکرم ،ص:167،عبداللہ اکیڈمی لاہور
[46]مودودی،ابوالاعلیٰ،سید،نصرانیت قرآن کی روشنی میں،ص:63،64
[47]ا  عبدالقادر شیبہ ا،قوام عالم کے ادیان و مذاہب،(مترجم )ابوعبداللہ محمد شعیب ،ص:61،مسلم پبلی کیشنز سوہدرہ گوجرانوالہ،مئی 2007ء
[48]مختصر اردو دائرہ معارف اسلامی،ص:140
[49]المائدہ 5: 46-47
[50]المائدہ 5:48
[51]یوحنا،باب 8-آیات 17،آیت 14
[52]یوحنا،باب 8۔آیت 40
[53]ابو زہرہ،شیخ،محاضرات فی نصرانیہ،ص48،مطبعتہ المدنی مصری،1385ھ
[54] کیرانوی،رحمت اللہ،اعجاز عیسوی،ص:74-75،ادارہ اسلامیات لاہور،س۔ن
[55]الملل و نحل یعنی قوموں کا عروج و زوال،مترجم عبداللہ عمادی صاحب،ص:416،کیرانوی،رحمت اللہ ،مترجم تقی عثمانی: بائیبل سے قرآن تک،ص:14
[56] Encyclopedia of britanoica 3:p:513
[57]رحمت اللہ کیرانوی،ازالتہ الاوہام(مترجم) محمد اسماعیل عارفی، 1/111،مکتبہ ء دارالعلوم کراچی،س۔ن ،کاندھلوی،محمد مالک،پیغام حضرت مسیحؑ،ص:7374، ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد،س۔ن
[58]مودودی،ابوالاعلیٰ،نصرانیت قرآن کی روشنی میں،ص:89،عیسائیت تجزئی و مطالعہ،ص:291،سیرت سرور دوعالمﷺ،ص:655
[59]مودودی،ابولاعلیٰ،سیرت سرور دو عالمﷺ 1/655،نصرانیت قرآن کی روشنی میں،ص:92-93
[60] محمد متین خالد،عیسائیت کے تعاقب میں،ص:414، علم وعرفان پبلیشرز،2003ء
کیرانوی،رحمت اللہ،مترجم،ڈاکٹر اسماعیل عارفی،[61]ازالتہ الاوہام 1/116
[62]encyclopedia of Britannica(1970)،17:469،قاموس الکتاب،ص:200
[63]Hastings: Dictionary Of The Bible(1903)P,687
[64] فلپیوں 3: 5،تقی عثمانی،مولانا،عیسائیت کیا ہے؟،ص:84
[65]انجیل،گلیتوں کے نام پولس کا خط،1: 11-12
[66]عبدالطیف مسعود،تحریف بائیبل بزبان بائیبل:55،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان،2015ء
[67]رسولوں کے اعمال 9: 3-9
[68]مودودی،ابوالاعلیٰ،سید،نصرانیت قرآن کی روشنی میں،ص:71
[69]متی،10: 5-6
[70]کتاب الملل والنحل،ص:224
[71]مودودی،ابوالاعلیٰ،سید،نصرانیت قرآن کی روشنی میں،ص:84
[72]احمد شلبی،مقارنتہ الادیان،ص:137
[73]المائدہ 5: 116
[74]النساء 4 :171-172
مریم 19: 30[75]
مریم 19: 34[76]
[77]کیرانوی ،رحمت اللہ ،ازالتہ الاوہام(ترجمہ)ڈاکٹر محمد اسماعیل عارفی، 1/460 ،مکتبہ دارالعلوم کراچی،س۔ن
[78]کتاب الملل والنحل،ص:268
[79] ابن حزم،علی بن احمر الاندلسی،المحلی 1/12،مطبعتہ النہضتہ،مصر 1347ء
[80]االنساء 4: 157-158

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر