اشاعتیں

2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
تصویر
کچھ تصویریں اپنے اندر اک جهاں سمیٹے هوۓ ہوتیں هیں درد بھری ..جاندار اور متحرک۔۔۔بولتی ہوئ کچھ کہتی ہوئیں ،آج ایسی هی تصویر  په نظر پڑیں'تو بے ساخته آنکھیں پتھرا اٹھیں،ماں کی ممتا کی ان کهی داستاں .انڈونیشیا میں ڈوبے جهاز سے تین دن بعد جیکٹ سے بچه زنده سلامت نکال لیا گیا،سوچ کا سفر شروع هوا،کئ سوال دماغ میں هلچل مچانے لگے،دل کی اپنی توجیحات تھیں اور دماغ کی اپنی،آخر ایسا کیا هوا هوگا?دل نے ایک ہارٹ بیٹ مس کی۔۔۔ماں کی ممتا نے اپنے لخت جگر په خود کو قربان کر لیا هوگا،کیا عالم هو گا جب لمحه به لمحه مو ت کی طرف گامزن ماں ے اپنے بچے کو آخری بار جی بھر کر دیکھا هو گا،ان نظروں میں کتنی تڑپ هوگی،،،،اور جب بے رحم لهروں کے حوالے کیا هو گا تو آسمان والے سے کتنی التجائیں کیں هوں گیں،اور ستر ماوں سے زیاده شفیق هستی نے فورا سے کن کهھ دیا هوگا،،،آخر ایسے تو نهیں اپنی محبت کی مثال دینے کے لئے ماں کی ممتا کو پیمانه بنایا٠٠٠٠٠واه مولا تو نے خوب لاج رکھی اس ممتا کی٠٠٠٠دریا کی بے رحم موجوں نے تین دن اس نرم و نازک وجود کو بحفاظت انسانی هاتھوں تک پهنچا دیا٠٠٠٠یهاں تک که هر آنکھ اشک بار هوگی ْخدا کی قد

پھر ایک کارواں لٹا۔۔۔

تصویر
کالم نگار:روبینہ شاہین مصر کی تاریخ اپنے اندرجہاں   فرعونوں    کا غرور اور طنطنہ رکھتی ہے تو وہی موسیٰ ؑ بھی عصا لیے   امن و آتشی کا پیامبر بنے   حق پرستوں کے لئے داعی   امن بنے   باطل قوتوں کو للکارتے نظر آتے ہیں۔اللہ نے ہر دور میں فرعون کے لیے ایک موسیٰ ضرور بھیجا ہے۔زمانے کے ناخدا ہمیشہ سے   حق کا راستہ روکنے کے لئے بڑے بے چین و بے قرار رہے ہیں۔یہی وجہ ہے اسی مصر کے ایوانوں میں جب ڈاکٹر محمد مرسی پہلے صدر منتخب ہوئے تو   یہ بات    حق مخالف قوتوں کو بڑی ناگوار گزری۔۔۔۔دینی جماعت اخوان المسلمین کا رکن صدر منتخب ہو گیا؟؟؟۔وہ اخوان المسلمین جس نے مصری راہنماؤں کو ناکوں چنے چبوائے۔۔جس کے کارکنوں کو ہر دور میں پابند سلاسل کیا گیا۔۔۔مگر ان کی جرات اور ہمت کے آگے کوئی بند نا باندھ سکا۔۔۔اسی اخوان المسلمین کے رکن تھے ڈاکٹر محمد مرسی جن کو سلو پوائزن دے کر مرنے پہ مجبور کر دیا گیا۔۔ ڈاکٹر محمد مرسی کا جرم کیا تھا؟کیا وہ   ڈکٹیٹراوردہشت گرد تھے؟نہیں   بلکہ وہ عوام کے پہلے منتخب صدر تھے۔۔کیا وہ جاہل مولوی تھے ؟نہیں وہ حافظ قرآن اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے۔پھر آخر کوئی تو جرم ہوگا جس کی پاد

چائے کا کپ۔

تصویر
سو لفظوں کی کہانی۔۔۔ چائے کا کپ۔۔۔۔تحریر :روبینہ شاہین میں اور امی بازار گئیں۔۔۔واپس لوٹیں تو نانی اماں چائے پی رہیں تھیں۔۔۔ہمیں دیکھا تو کپ امی کو تھما دیا کہ پی لو امی نے کپ اٹھایا اور بے ساختہ مجھے دیکھا تو کپ میری طرف بڑھا دیا۔۔۔عجیب صورت حال تھی۔۔۔چائے کا کپ ایک اور مائیں دو۔۔۔۔امی مجھے دیتیں اور نانی اماں کا اصرار تھا کہ چائے امی پئیں۔۔۔دو مائیں اپنی اپنی مامتا نچھاور کرنے کو تلیں بیٹھیں تھیں۔۔۔۔میں پریشان کم اور حیران زیادہ تھیں۔۔۔۔بالآخر میری امی جیت گئیں اور چائے میرا مقدر بنیں میرے ہونٹوں سے قطرہ قطرہ رس کر رگوں میں   رس گھولنے لگیں۔۔۔ میری ڈائری سے انتخاب

دونان

تصویر
دونان تحریر:روبینہ شاہین سردیوں کے دن تھے۔۔۔۔میں نماز کے لیے اٹھی تو اماں پہلے سے اٹھ چکیں تھیں۔مجھے نماز سے فارغ ہوتے دیکھا تو پوچھا کہ ناشتہ کروں گی ؟میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ کچن میں چل دیں۔۔۔۔جہاں گیس ندارد دیکھ کر وہ بازار سے ناشتہ لینے چلیں گئیں۔۔واپسی پہ دونان اور چنوں کا شاپر انکے ہاتھ میں تھا۔۔ایک نان انھوں نے مجھے دیا ۔۔۔اور دوسرا اپنے لئے ۔۔ابھی کھانے ہی لگیں تھی کہ بھائی بھی اٹھ بیٹھا۔۔۔اماں نے اپنا نان بھائی کو دے دیا۔۔۔میں ناشتے میں مگن تھی اچانک مجھے خیال آیا کہ نان تو دو ہی تھے پھر اماں کیا کھا رہیں ہیں ۔۔۔دیکھا تو رات کی روٹی انکی پلیٹ میں موجود انکے ماں ہونے کی گواہی دے رہی تھی۔۔۔میری آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہنے لگے۔۔۔۔۔

بلیک ہول کی دریافت۔۔خالق کائنات کی قدرت مظہر

تصویر
تحریر :روبینہ شاہین بلیک ہول ( black hole )کیا ہے؟ بلیک ہول وہ دیو ہیکل  سیارہ ہے۔جو ملکی وے کہکشاں کے درمیان میں واقع ہے۔(جہاں تک ملکی وے کہکشاں کی بات ہے تو یہ وہ  کہکشاں ہے۔جس میں تین سو ارب سورج ہیں،اور ہمارا سورج ان میں سے ایک ہے۔جو سب سے چھوٹا ہے۔اور ایک سورج کے اندر اتنی روشنی ہے کہ  پچاس کروڑ ایٹم بم کی انرجی فی سیکنڈ کے حساب سے ان کے اندر سے خارج ہو رہی ہے۔اور اس طرح کی ڈھائی سو ارب کہکشائیں اس کائنات میں موجود ہیں۔اللہ اکبر) جو زمین کے مجموعی حجم سے  تیس لاکھ گنا بڑا ہے۔یہ سیارہ زمین سے پچاس کروڑ کھرب دوری پر واقع ہے۔سائنس دانوں کے مطابق یہ پورے نظام شمسی سے بڑا ہے۔یہ سورج سے حجم کے لحاظ سے چھ اشاریہ پانچ گنا  ارب زیادہ بڑا ہے۔بلیک ہول اس قدر طاقتور ہے کہ اس سے کوئی چیز نہیں گزر سکتی،اس کے دائرے سے نکلنے کے لیے روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ رفتار درکار ہونی چاہیئے،چونکہ روشنی سے زیادہ تیز رفتار کوئی چیز نہیں لہذا جو چیز بھی اس کے اندر چلی جائے اس کا نکلنا ناممکن ہے۔الغرض بلیک ہول ایک یاسی جگہ ہے جہاں ستارے ٹوٹتے اور کہکشائیں غرق ہو جاتیں ہیں۔ بلیک ہول کی تاریخ:

زینیا( خلا میں اگنے والا پہلا پھول)

تصویر
تحریر :روبینہ شاہین زندگی آہستہ آہستہ جنم لے رہی تھی،شوخ نارنجی کونپل نے جونہی انگڑائی لی زمین کا سینہ چاک ہوا۔۔۔۔وہ ایک نئی دنیا میں داخل ہو چکی تھی۔۔جہاں   چاروں طرف   خاموشی     اورسفید ی   کا راج تھا،زینیا بہت حیران ہوئی   اسے اپنے اردگرد کوئی بھی اپنے جیسا ہم نوا دکھائی نا دیا۔چاروں طرف بادلو ں کا جم غفیر تھا۔ابھی اسکی آنکھیں بھی پوری طرح سے نا کھل پائیں تھیں کہ دور سے ایک   لمبا تڑنگا شخص کمیر ہ لیے آیا اور تصویر بنائی،زینیا کی آنکھیں چندھیا گئیں،وہ کہاں عادی تھی ایسی روشنیوں کی،پھر اس نے سنا   وہ زیرلب بڑبڑا رہا تھا"خلا میں اگنے والا پہلا پھول"جسے زینیا کا نام دیا گیا۔ زمین ابھی تک سکتے میں تھی۔وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر روز آسمان کو تکتی ۔۔۔جتنا تکتی   اتنا ہی حیراں ہوتی،نا جانے یہ کیسی مخلوق اس کے سینے پہ آن بسی تھی جو زمین کے پھول اجاڑ کر اسے بنجر بنا دینے پر بضد تھا اور دوسری طرف خلا میں شجرکاری۔۔۔اے انسان تجھے   صیا د کہوں یا زخم آشنا،محرم کہوں یا مجرم تو ہی بتا۔۔۔۔زمین کے آنسوانسان کی منافقانہ   روش پر نوحہ کناں تھے۔جو اس کےپھول اجاڑ کر خلا کے ماتھے پر سجانے

کتاب کا مطالعہ کیسے کریں؟

تصویر
سیکھنے کا عمل صرف کلاس میں نہیں ہوتا  بلکہ آپ کو ساتھ ساتھ کچھ اسلامی کتابیں بھی پڑھنی چاہیے۔ reading  کے موضوع پر آج آپ سے بات کروں گی،آپ یہ بتائیں کہ معلومات حاصل کرنے کے کون کون سے زرائع ہیں؟سیکھنے کا عمل کس کس چیز سے متعلق ہے۔یا کیا کیا چیزیں اس میں مددگار ثابت ہو سکتیں ہیں۔آپ کن کن چیزوں سے سیکھتے ہیں؟استاد،ماحول،دوست احباب ،معاشرہ ،میڈیا اور سوشل میڈیا  اور قدرت یعنی نیچر اور غوروفکریہ سب وہ زرائع ہیں جن سے ہمیں معلومات حاصل ہوتیں ہیں۔اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نشانیاں جو تفریح کائنات کی شکل میں  آپ کے اردگرد پھیلی ہوئیں ہیں۔ ان سب چیزوں سے انسان سیکھتا ہے۔جب انسان قرآن پڑھتا ہے تو ان سب باقی چیزوں سے اس کا تعلق رہنا بہت ضروری ہے۔کیونکہ قرآن ان تمام چیزوں کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔پھر آپ کی دیگر معلومات  اور وحی الہی کا جو پتہ چل رہا ہے اس میں  آپ  comparison  کو کرنا ہے۔اچھے اور غلط کی پہچان کرنی ہے۔ایک طرف آپ کے دیگر زرائع ہیں اور دوسری طرف قرآن ہے۔لہذا ہم اپنے اس پروگرام میں کچھ تو  ویڈیوز دکھائی جائیں گی،کچھ آپ سبق اپنا یاد کر کے آئیں،سنائیں گے پھر تشریح ہو گی۔استاد اور طالب

سورہ والضحیٰ۔۔۔۔۔مایوسی کے اندھیروں سے نکال باہر کرنے والی سورت

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین ڈپریشن دنیا کی دوسری بڑی بیماری بننے جا رہی ہے۔ہر بندہ کسی نا کسی الجھن اور پریشانی میں جکڑا دکھائی دیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈپریشن کو باقاعدہ ایک بیماری کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے،1994 ء میں   یہ دنیا کی چوتھی بڑی بیماری تھی اور 1920 ء میں اس کا نمبر دوسرا ہوگا۔جبکہ پاکستان میں یہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔شہروں   میں 39 فیصد اور دیہاتوں میں اسکا تناسب ۔۔۔مجموعی آبادی کا 34فیصد اس کا شکار ہے۔اور ان میں زیادہ تر خواتین ہیں۔ مایوسی اور نا امیدی کینسر سے بھی زیادہ مہلک ہے۔یہ انسانی احساسات کو متاثر کرتی ہے۔انسان کو اپنی دنیا اجڑی اجڑی دکھائی دیتی ہے،زندگی سے خوشی ختم ہ کر رہ جاتی ہے۔ایسے میں کچھ لمحات کے لئے قرآن مجید کھولیے ،سوچیئے مالک کائنات آپ سے مخاطب ہے۔جو آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ آپ کے نزدیک ہے اسے محسوس کیجئے،سور ہ والضحیٰ کا سمجھ کر مطالعہ کیجئے۔۔۔ "نہ تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہ ہی مایوس ہوا"اس آیت کو محسوس کیجئے۔۔۔۔آپ کا رب آپ سے مخاطب ہے۔جوں جوں پڑھتے جائیں گے،مایوسی کے بادل چھٹتے جائیں گے،مایوسیوں میں گھرا دل توانائی پاکر جھومنے لگ

انٹرویو "روبینہ شاہین"کالم نگار ،ریسرچر اور افسانہ نگار

تصویر
سوال نمبر 1تعارف تعلیم کامیابیاں اور شوق وغیرہ روبینہ شاہین نام ہے میرا،زندہ دلان لاہور سے تعلق ہے ،اسلامک اسٹیڈیز میں ایم فل کیا،قرآن مجید ترجمہ تفسیر کورس کیا۔گراف ڈیزائنر بھی ہوں،سیکھنے سکھانے کا سلسلہ جاری ہے۔انشاء اللہ کتابوں کی بچپن سے رسیا تھی،گھر میں پنجابی ادب وافر مقدار میں موجود تھا سو سب سے پہلے انہی کا مطالعہ کیا۔ہیر وارث شاہ،یوسف زلیخا میں نے اوائل عمری میں ہی پڑھ ڈالیں تھیں۔انٹر کے بعد دینی تعلیم کا آ غاز ہوا،وہاں پہ موجود رائٹنگ سیل سے میری لکھنے کے جراثیم دریافت ہوئے۔تب اخبارات میں لکھنا شروع کیا۔جنگ،نوائے وقت کے اسلامی ایڈیشن میں میرے آرٹیکل چپھتے رہے،اس کے ساتھ ساتھ خواتین میگزین جو کہ لاہور منصورہ سے نکلتا ہے اور عدالت میگزین جو کہ گوجرانوالہ سے شائع ہوتا ہے۔ان دونوں میں کئی سال تواتر سے لکھا۔عدالت میگزین سے بیسٹ رائٹر ایوارڈ بھی ملا۔اسی رائٹنگ سیل کی بطور ادارت فرائض سرانجام دیتے ہوئے ایک مجلہ بھی شائع ہوا،بعد ازاں اس کی چیف ہیڈ کے فرائض سرانجام دیئے۔پنجاب یونیورسٹی سے جب ایم اے کیا تو مقابلہ مضمون نویسی میں میری سیکنڈ پوزیشن تھی۔لکھنے لکھانے کا شوق ت

دعا اللہ سے محبت اور قرب کا زریعہ

تصویر

روشنی کے لیے اندھیروں سے جنگ

تصویر

آئیے کالم نگار بنیں

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین قلم   صرف قلم نہیں ہے یہ علم و آگہی کا وسیلہ ہے۔قلم کی اہمیت ہرزمانے میں    قائم ودائم رہی ہے۔قلم نے بڑے بڑے برج الٹ دیئے،اور تار تار سسکتی انسانیت   کو زمانے کے سامنے ایسے آشکار کیا کہ خود قلم بھی   رو پڑا،کبھی تدبر وتفکر کے بند دریچوں کو وا کرتا ہے   اور دماغ و دل کو معطر کر جاتا ہے۔قلم کی شہادت خود قلم بنانے والے نے دے دی اس سے بڑی عظمت کیا ہوگی۔ (والقلم وما یسطرون) "قسم ہے قلم کی جس سے وہ لکھتے   ہیں۔" اسی قلم نے بہت سے قلم کار پیدا کیئے ،جنہیں میں سے ایک کالم نگار بھی ہیں۔کالم نگاری اور قلم کا اٹوٹ انگ کا رشتہ ہے۔کالم نویسی کی تاریخ بہت پرانی ہے،یہ ادب کا حصہ ہے۔صحافت کے بتیس   شبعے ہیں جن میں سے ایک کالم نگاری   ہے   ۔مضمون نویسی اور آرٹیکل    اسی کے ہم نام ہیں ۔ ہماردو دائرہ معارف اسلامی کے مطابق کالم نگاری کی تعریف یہ ہے۔ " کالم نگاری یا   مقالہ نگاری   صحافت   سے جُڑا ایک   پیشہ   ہے، کالم نگار کا کام   اخبارات   و   جرائد   میں مضامین لکھنا ہوتا ہے، ان مضامین میں مضمون نویس اپنے مشاہدات و نظریات کی روشنی میں مختلف موضوعات

رشتہ کیسے تلاش کریں؟

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین اللہ کے بنائے ہوئے رشتوں میں سب سے خوبصورت تعلق اور بندھن اگر ہے تو میاں بیوی کا تعلق ہے۔حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے ساتھ ہی ان کی بیگم حضرت حوا کی تخیلق یہ بتاتی ہے کہ میاں بیوی کا بندھن کتنا ضروری اور اہم تھا۔ہر نسل ہر دور اور ہر مذہب اور معاشرے نے اس کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا ہے۔بیسویں صدی جہاں بہت آسانیاں لے کر آئی ہے وہاں کچھ ایسی ناگزیر ضرورتوں میں رکاوٹ بھی بنی ہے جن پر بنی نوع انسان کی بقا کا دارومدار ہے۔ان ضرورتوں میں سے ایک ضرورت نکاح ہے۔جس پہ نسل انسانی کی بقا کا دارومدار ہے۔جبکہ موجودہ دور کا المیہ ہے۔نکاح مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور برائی کی طرف جانے والے راستے اتنے ہی آسان۔  یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کڑور سے زائد لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں ( 20سے 35 سال کی لڑکیاں )۔   جبکہ ان میں سے دس لاکھ سے زائد لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے (30سے35سال) ۔ ان 10لاکھ لڑکیوں میں 78فیصد تعلیم یافتہ ہیں ۔اس وقت ہر گھر میں اوسطاً دو یا دو سے زائد لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں۔یونیسیف نے