اشاعتیں

مئی, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سیکولر ازم علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ

سید مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ عالم اسلام کے دو درخشندہ ستارے ہیں۔جنہوں نے   جہاد بالقلم کا فریضہء بڑی خوبصورتی سے ادا کیا۔ان دو عظیم شخصیتوں نے جس وقت آنکھ کھولی   دنیا ایک نئی تہذیب سے آشنا   ہو رہی تھی۔وہ   تھی تہذیب مغرب۔۔ علامہ اقبال اور سید مودودیؒ   کا خاصا تھا کہ   دونوں اسلام اور تہذیب مغرب   پر مکمل عبور رکھتے تھے۔بقول قائد اعظم علامہ اقبالؒ   سے زیادہ   اسلام کو کسی اور نے نہیں سمجھا۔رہی بات مغرب کی تو انہی کے بہترین اداروں اور استادوں سے پڑھ کر آئے تھے۔ان سے زیادہ ان سے کون واقف ہو سکتا ہے۔ جبکہ سید مودودیؒ اپنے وقت کے تمام جدید علوم پر دسترس رکھتے تھے۔ بیسویں صدی کے  عظیم مبلغ  اور داعی تھے۔علامہ اقبالؒ  ان کی تحریر اور خیالات سے ازحد متاثر تھے۔ان کی معرکتہ آلاراء تصنیف الجہاد فی الاسلام پر  علامہ اقبال ؒ نے دیبا چہ بھی لکھا۔ا بقول سید سلیمان ندوی             "یورپ سے الحاد  و دہریت کا جو سیلاب ہندستان آیا  تھا قدرت نے اس کے آگے بند باندھنے  کا نتظام بھی ایسے مقدس اور پاک طینیت ہاتھ سے کرایا جو کہ خود یورپ کے تمام جدید  و قدیم خیلات   سے نہایت   ہی اعلیٰ طور پر

عشق کا علاج امام ابن القیم کے افکار کی روشنی میں

’’ اپنی نگاہ کو پست رکھو، نگاہ کی حفاظت کرو۔ اس کو نہ دیکھو جس کی وجہ سے دل کھویا ہے۔‘‘  ’’نگاہ پست کرنے سے کیا ہو گا؟‘‘ ’’دس فائدے ہیں۔ سنو گی؟‘‘ ’’پہلا۔ یہ الله کا حکم ہے ‘ اور جو بھی انسان فلاح پاتا ہے ‘ وہ حکمِ الہٰی مان کر ہی فلاح پاتا ہے‘ اور جو ناکام ہوتا ہے ‘ وہ حکم نہ ماننے کی وجہ سے ناکام ہو تا ہے۔‘‘ ’’دوسرا فائدہ۔اس کی نظر جو زہر آلود تیر تمہارے دل تک پہنچا کر تمہارا دل ہلاک کرتی ہے ‘ آنکھ کی حفاظت سے وہ تیر تمہارے دل تک نہیں پہنچے گا۔‘‘ ’’سوئم،نظر کی حفاظت سے دل میں پوری توجہ سے الله کے لئے محبت پیدا ہوتی ہے ‘ ورنہ جن لوگوں کی نگاہ آزاد اور آوارہ رہتی ہے ‘ ان کا دل منتشر رہتا ہے۔ آزاد نگاہی بندے اور الله کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔‘‘ ’’چہارم ۔ آنکھ کی حفاظت سے دل مضبوط اور پر سکون رہتا ہے اور آزاد نگاہی یعنی ہر غلط چیز یا شخص کو دیکھ لینے سے دل مغموم رہتا ہے۔‘‘ ’’پنجم۔ نگاہ پست رکھنے سے دل میں’’نور‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ کیا تم نے غور نہیں کیا کہ سورۃنور میں الله نے غضِ بصر کی آیت کے بعد ہی آیتِ نور پیش کی ؟ کیونکہ دل میں نور نظروں کی حفاظت سے داخل ہوتا ہے ‘ اور جب دل نورانی ہو جا

رمضان المبارک اور نفس امارہ

تصویر
رمضان المبارک روح کی مسرت۔۔نفس کی مشقت  کا مہینہ نفس قیام لیل سے تھکے گا اسے اور تھکائیں یہ بھوک پیاس سے تنگ ہو گا اسے تنگ ہونے دیں یہ سمجھائے گا بھئی ارام بھی ضروری ہے اس کی ایک نہ سنیں  یہ کہے گا ٹی وی پر کیسا خوبصورت پروگرام آ رہا ہے بھلا کیا ہو گا ذرا دیر کچن سے ہی ایک نظر ڈال لو اسے جھڑک دیں  یہ کہے گا آج یہ چٹخارہ کل وہ بنائیں گے اسے کہیں ہر گز نہیں تیری ذرا دیر کی لذت کے لئے فضول خرچی کروں ؟ کمانے والوں کو مشقت میں ڈالوں؟  یہ کہے گا بس آج ایک دن مطالعہ نہ کیا تو کیا قیامت آ جائے گی؟ کل زیادہ پڑھ لوں گا اسے کہیں یہی تو تیری چال ہے اور غیر مستقل مزاجی تیرا ہتھیار ،میں تو آج ہی کرو ں گا یہ باتیں بنائے گا اسے سختی سے حکم دیں DO ONLY AS DIRECTED اسے صاف  کہہ دین میرے حضرت عمر رض تو یہ تک کہہ گئے ہیں جس چیز کا دل چاہے وہی خواہش نفس ہے اور ہان یہ  چال باز نفس نیت پر حملہ آور ہو کا "عبادت "کو بس "عادت" بنا دے گا، روزہ کو وزن گھٹانے کا ذریعہ بنا دے گا ، آپ کو نیکو کار بنا کر پیش کرے گاخبر دار ہوشیار فورا اعوذ باللہ پڑھیں اسے ملامت کریں ،ڈانٹ دیں ، اور رکین نہ

ہم اور ہماری پیاس

ﺁﺝ ﺻﺒﺢ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﺎ میسیج ﺁﯾﺎ .... ﺩﮨﯽ ﮐﮭﺎﺅ ﺳﺤﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺎ ﮐﮧ ﭘﯿﺎﺱ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻻﺋﭽﯽ ﮐﺎ ﻗﮩﻮﮦ ﭘﯿﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺭﻭﺯﮦ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﮔﯽ .... ، ﺑﮩﺖ ﮨﻨﺴﯽ ﺁﺋﯽ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺳﻮﭼﺎ ﺟﺐ ﺑﺎﻭﺍ ﺟﯽ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺴﮯ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺳﻮ ﺑﺎﻭﺍ ﺟﯽ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﮭﮍﺍ . ﮨﻮﺍ ... ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺭﮦ ﮔﺮﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺎﻻﺧﺮ ﺑﺎﻭﺍ ﺟﯽ ﻣﻞ ﮨﯽ ﮔﮱ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻭﺍ ﺟﯽ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭ ﺑﯿﭩﮭﺎ .. ، ﺑﺎﻭﺍ ﺟﯽ ﺍﯾﮏ ﭨﻮﭨﮑﺎ ﭘﺘﺎ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ ﺳﺤﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﮨﯽ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﭼﻮﭨﯽ ﺍﻻﺋﭽﯽ ﮐﺎ ﻗﮩﻮﮦ ﭘﯿﻮ ﺗﻮ ﭘﯿﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﯽ ... ﺑﺎﻭﺍ ﺟﯽ ﻧﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻋﺠﯿﺐ ﺑﺎﺕ ﮐﮧ ﺩﯼ ... ﭼﻨﺪ ﺳﺎﻋﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺎﻭﺍ ﺟﯽ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ : ، " ﭘﺘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﻮﭨﯽ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﮐﮧ ﺟﺴﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﺩﻭ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﮰ ﺗﻮ ﺗﺠﮭﮯ ﻓﺮﻕ ﻧﮧ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﭘﺮ ﭘﺘﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺗﻮ ﻣﻄﻤﯿﻦ ﮨﻮﮔﺎ ؟؟ ، ، ﭘﺘﺮ ﺟﺐ ﭘﯿﺎﺱ ﮨﯽ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﯿﺴﺎ ؟؟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭘﯿﺎﺱ ﮨﯽ